Monday, 23 October 2023

مفہوم و معنیٰ نبوت و رِسالت دلائل و حقائق کی روشنی میں

مفہوم و معنیٰ نبوت و رِسالت دلائل و حقائق کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : نبوت اور رسالت کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے ہم نبوت و رسالت کے حقیقی مفہوم سے ذہن کو آشنا کر لیں ۔ اصطلاح سے قطع نظر ہر نبی رسول ہے ۔ اصطلاح کی قید اس لیے لگائی کہ اصطلاح میں رسول اس کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ  کی طرف سے نئی شریعت لے کر آئے ، پس اصطلاح سے قطع نظر ہر نبی ، رسول یعنی پیغمبر ہوتا ہے ، کوئی نبی ایسا نہیں جو خدا کا پیغام نہ لائے ، ہر نبی خدا کا پیغام لانے والا اور رسول ہوتا ہے ۔ لیکن ہر رسول کا نبی ہونا ضروری نہیں ، اس لیے کہ نبی انسانوں کےلیے خاص ہے ، نبی انسانوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا اور رسول عام ہے ، جیسا کہ رسول ملائکہ میں بھی ہیں اور جنوں میں بھی ہیں ، جیسے حضرت جبرائیل ، حضرت میکائیکل علیہما السلام رسول تو ہیں لیکن نبی نہیں ، پس جو انسانوں میں سے نہ ہو اور اس کو رسالت دی جائے وہ رسول تو ہے مگر اس کو نبی نہیں کہتے ۔ شاید کوئی سمجھے کہ جس پر اللہ تعالیٰ  کی طرف سے وحی ہو وہ رسول ہوتا ہے اور نبی ہوتا ہے ، تو یہ غلط ہے کیونکہ وحی تو ایک تیز اشارے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ  نے اس قسم کے اشارات انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کی طرف بھی فرمائے اور انسانوں میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دیگر لوگوں کے بارے میں بھی اشارات فرمائے چنانچہ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : اِذْ اَوْحَیْنَـآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَایُوْحٰی ۔ (سورہ طٰہٰ آیت نمبر ۳۸)
ترجمہ : جب ہم نے غیبی اشارہ سے آپ کی والدہ کو وہ بات سمجھائی جس کی وحی آپ کو کی جارہی ہے ۔

اب یہاں دیکھیے قرآن کریم سے ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی ہوئی لیکن عورت نبی نہیں ہو سکتی ۔ نبوت تو صرف مرد انسانوں کےلیے ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ  نے حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں فرمایا : فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ اِنِّیٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَہَبَ لَکِ غُـلَامًا زَکٍیًّا ۔ (سورہ مریم آیت نمبر ۱۷ تا ۱۹)
اب دیکھیے کہ وہ رسول یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک بشر کامل کی شکل میں متشکل ہوئے جب حضرت مریم علیہ السلام نے ان کو شکل بشر میں دیکھا تو سمجھا کہ واقعی یہ کوئی بشر ہے ، وہ مقدسہ بندی تھیں فوراً پناہ مانگی اور کہا اگر تم متقی ہو تو مجھ سے فوراً دور ہو جاٶ اس نے کہا اس کے سوا میں کچھ بھی نہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے قاصد ہوں اور آپ کو رب کی طرف سے ایک پاک بیٹا دینے آیا ہوں ۔

یہاں جبرائیل علیہ السلام نے جب یہ بات فرمائی تو متکلم کے صیغے کے ساتھ بیان کی کہ میں تم کو ایک بیٹا دینے آیا ہوں حالانکہ بیٹا دینا اللہ تعالیٰ  کا کام ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ معطی حقیقی یعنی حقیقت میں عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ  ہے اور جب اللہ تعالیٰ  کا بندہ کسی کو کچھ عطا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ  کے اذن سے دیتا ہے اس لیے جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ  کی طرف سے آپ کو بیٹا دینے آیا ہوں اس کے علاوہ دیگر ملائکہ کو بھی اللہ تعالیٰ  نے اپنے بعض بندوں کی طرف بھیجا اور ان کو شرف مکالمہ سے نوازا اور فرشتوں نے ان کے ساتھ باتیں کیں ۔

شہد کی مکھی کو وحی

اللہ تعالیٰ  نے سورۃ النحل میں فرمایا : وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا ۔ وَّمِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر ۶۸)
ترجمہ : اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دِل میں ڈالا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور اُن چھپروں میں ، جنہیں لوگ اُونچا بناتے ہیں ۔

اب دیکھیے یہاں قرآن کریم بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی لیکن یہاں نبوت کا تصور بھی نہیں ، بہرحال یہ سمجھنا کہ جس کی طرف بھی وحی ہوجائے وہ نبی یا رسول ہے ، غلط ہے ، پس نہ فقط وحی سے اور نہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے سے نبوت ملتی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام تو حضرت مریم علیہ السلام کے پاس آئے ہیں ، نبوت تو ایک اور چیز ہے یہ تو اللہ تعالیٰ  کا انعام ہے جو ان سب چیزوں سے الگ ہے ۔ اب ہم پہلے نبوت اور رسالت کے وہ معنی جو انسانوں کے حق میں ہیں بیان کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ملائکہ کی رسالت سے مقصد نہیں بلکہ انسانوں کی نبوت اور رسالت کا بیان ہے ۔

نبوت کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  اپنے کسی مقدس و مطہر اور پاک بندے پر ایسی وحی نازل فرمائے کہ اس کلام وحی یا خطاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ  کا کوئی حکم اس کے ذمہ عائد ہوجائے یا اس پر کسی چیز کو واجب کردیاجائے اور وہ چیز پہلے اس پر واجب یا ضروری نہ تھی اب واجب اور ضروری ہوگئی پس جس مقدس بندے کو اللہ تعالیٰ فرشتے کے واسطے سے یا واسطے کے بغیر اپنا کوئی ایسا پیغام دے یا کوئی ایسا خطاب کرے یا کوئی ایسی وحی فرمائے کہ جس وحی ، خطاب یا تکلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ  کے اس بندہ پر وہ چیز جو پہلے اس پر واجب نہ تھی اب فرض ، واجب اور لازم ہو گئی ۔ یہ کلام، یہ وحی اور شگ کے اس بندے کا اس لازمی امر کےلیے مامور ہونا نبوت ہے اور یہ بات سوائے نبی کے کسی اور کےلیے ثابت نہیں ہو سکتی ۔

فقط اللہ تعالیٰ کا مخاطب ہونا نبوت نہیں ملائکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تخاطب اپنے بندوں کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ۔ (سورہ یونس آیت نمبر ۶۴)
ترجمہ : ان کےلیے خوشخبری ہے دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔

اس بشارت کی تفسیر حدیث میں یوں کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن اور بالخصوص مومن صالح اور اللہ تعالیٰ  کا مقرب محبوب ، جب اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا ، موت کو پسند نہ کرنا انسان کی جبلت میں ہے ، اسی حدیث قدسی میں جس میں کہا گیا ہے کہ میں اپنے بندے کے کان ہو جاتا ہوں ، آنکھیں ، ہاتھ اور پائوں ہو جاتا ہوں ، یہ طویل حدیث ہے ، اس کے آخر میں ہے ۔ وما ترددت عن شی ء انا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت وانا اکرہ مسائتہ وفی بعض النسخ ولا بدلہ منہ ۔
ترجمہ : اور میں توقف نہیں کرتا کسی شے میں جیسے میں کرنے والا ہوں ، مثل میرے توقف کے مومن کی جان قبض کرنے سے کہ وہ (بحکم طبیعت) موت کو ناخوش رکھتا ہے اور میں اس کے غمگین ہونے کو ناپسند رکھتا ہوں اور بعض نسخوں میں ہے کہ حال یہ ہے کہ بندے کو موت سے چارہ نہیں ، اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ۔ یعنی میں کسی کام میں جو کہ میں کرنا چاہتا ہوں ، دیر نہیں کرتا اور کبھی اتنی تاخیر نہیں فرماتا ، جتنی دیر اس مومن کی موت کو واقع کرنے میں کرتا ہوں اس لئے کہ وہ موت کو پسند نہیں کرتا اور میں اس کے موت کے پسند نہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں اور مجھے اس بندے کی ملاقات بڑی محبوب ہوتی ہے، پھر انجام کیا ہوتا ہے ؟ یہ بات اگر کسی کے ذہن میں آجائے تو میرا مدعا بھی حل ہو جائے ۔

جب اللہ تعالیٰ  کا بندہ موت سے کراہت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ  اس وقت اپنی حکمتِ بالغہ سے کام لیتا ہے اور جانتا ہے کہ میرا بندہ موت کو طبعاً پسند نہیں کرتا تو اس وقت اللہ تعالیٰ  اپنے فرشتے بھیجتا ہے اور وہ فرشتے اللہ تعالیٰ  کے اس بندے کے سامنے اللہ تعالیٰ  کی طرف سے بشارتیں لے کر آتے ہیں پس جو اعزاز و اکرام ، راحتیں اور لذتیں اللہ تعالیٰ  کے یہاں اپنے بندے کے لئے نازل ہوتی ہیں تو ان بشارتوں کو دیکھتے ہی اس بندے کی طبعی کراہت ختم ہوجاتی ہے اور اس میں اشتیاق پیدا ہوجاتا ہے اور مسرور ہوکر مسکراتا ہے : ⬇

نشان مرد مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست

پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ  کے نیک بندوں اور صالحین پر فرشتے بشارتیں لاتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ  فرشتوں کے واسطے سے تخاطب فرماتا ہے مگر اس کے باوجود وہ بندے اللہ تعالیٰ  کے نبی نہیں ہوتے ۔ نبوت کا مقام اس سے بہت بلند ہے اور صرف ایسا تخاطب نبوت نہیں ہوتی ، پس جو اللہ تعالیٰ  کا مامور ہو اور اللہ تعالیٰ  اسے اپنی وحی اور پیغام کے ذریعے بالواسطہ یا بلا واسطہ تخاطب فرمائے اور مامور فرمائے تو وہ نبی ہے ، ورنہ وحی تو شہد کی مکھی کی طرف بھی کی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف بھی کی گئی ۔ اگر یہ بات ذہن نشین کرلی جائے تو بہت سی گمراہیوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور نبوت کا جو معنیٰ اور مفہوم فقیر نے عرض کیا ہے اگر اس کو ذہن نشین رکھا تو اگلی بات اچھی طرح سمجھ سکیں گے ۔

نبی کا لغوی معنی ہے خبر رساں ، خبر پہنچانے والا ، پیغمبر ۔ (فیروز اللغات ن - ب) ۔ اور ایک معنی ہے "غیب کی خبریں بتانے والا" قاض عیاض مالکی علیہ الرحمہ شفا شریف میں اس کے مصدر "نبوۃ" کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے "ھی الاطلاع علی الغیب" اھ ۔ (البشیر الکافل لشرح مأۃ عامل صفحہ 25 دیباچہ تحت قولہ : علی سید الانبیاء ۔ مجلس البرکات،چشتی)

ااصطلاحی معنی : نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کےلیے وحی بھیجی ہو ۔ (فی "شرح المقاصد" المبحث الاول فی تعریف النبی والرسول " النبی انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما أوحی الیہ " اھ جلد 3 صفحہ 268)(و فی "المعتقد المنتقد" الباب الثانی فی النبوات صفحہ 105 )

المشھور أن النبی من أوحی الیہ بشرع " اھ ۔ (بہار شریعت مع حاشیہ جلد 1 صفحہ 28 عقائد متعلقہ نبوت مطبوعہ مجلس المدینۃ العلمیۃ)

معجم التعریفات للجرجانی میں ہے : النبی : من أوحی الیہ بملک أو ألھم فی قلبہ أو نبہ بالرؤیا الصالحۃ  ۔
ترجمہ : نبی وہ جس کی طرف فرشتہ کے ذریعہ وحی کی گئی ہو یا اس کے دل میں الہام کردیا گیا ہو یا اسے اچھے خواب کے ذریعے تنبیہ کردی گئی ہو " اھ ۔ (التعریفات للجرجانی صفحہ 201 النون مع الباء دار الفضیلۃ)(اور ایسا ہی خزائن التعریفات صفحہ 382/ (ن ب) میں ہے)

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو ہدایت اور رہنمائی دینے کےلیے جن برگزیدہ بندوں کے ذریعے اپنا پیغام حق مخلوق تک پہنچایا انہیں نبی اور رسول کہتے ہیں ۔ عام طور پر نبی اور رسول یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں ، البتہ نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کےلیے وحی دے کر بھیجا ہو اور رسول اس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نئی شریعت دے کر مخلوق میں مبعوث کرتا رہا تاکہ وہ لوگوں کو اس کی طرف بلائے ۔ (مواهب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 47،چشتی)(زرقانی شرح مواهب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 286)

رسول و نبی دونوں ہم معنی ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے ، اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں ، راجح تعریف یہ ہے ، جسے محققین نے اختیار کیا کہ : نبی سے مراد وہ ہیں ، جن کی طرف کسی شریعت کی وحی آتی ہو ، انہیں تبلیغ کا حکم ملا ہو یا نہ ملا ہو اور رسول وہ ہیں جنہیں وحی کے ساتھ تبلیغ کا حکم بھی ملا ہو ۔ ہر رسول نبی بھی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ حدیثوں میں نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام کی مختلف تعداد بیان کی گئی ہے ۔ بعض روایات کے مطابق نبیوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار اور بعض کے مطابق دو لاکھ چوبیس ہزار ہے اور بعض میں اس کے علاوہ تعداد بیان کی گئی ہے ۔ اسی طرح  رسولوں کی تعدادکے حوالے سے مختلف روایات ہیں ۔ اس لیے علمائے کِرام فرماتے ہیں کہ عام گفتگو وغیرہ میں بھی نبیوں اور رسولوں کی کوئی تعداد معین کرنا ، جائز نہیں ہے ۔

رسول اور نبی کی تعریف کے متعلق المعتقد المنتقد میں ہے : المشھور ان النبی من اوحی الیہ بشرع ، واِن اُمر بالتبلیغ ایضا فرسول ۔
ترجمہ : مشہور یہ ہے کہ نبی وہ ہے جس کی طرف شریعت کی وحی کی جائے اور اس کے ساتھ تبلیغ کا بھی حکم ہو ، تو وہ رسول ہے ۔ (المعتقد المنتقد الباب الثانی صفحہ 105 مطبوعہ برکاتی پبلیشرز کراچی،چشتی)

نبیوں اور رسولوں کی تعداد کے متعلق  میں  ہے : فيجب الإيمان بالأنبياء والرسل مجملا من غير حصر في عدد ، لئلا يخرج أحد منهم ، ولا يدخل أحد من غيرهم فيهم ۔
ترجمہ : لہٰذا واجب ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں پر کوئی تعداد مقرر کیے بغیر اجمالی ایمان لایا جائے تا کہ ان میں سے کوئی خارج نہ ہو اور ان میں کوئی دوسرا داخل نہ ہو ۔ (مرقاۃ المفاتیح مع مشکاۃ المصابیح کتاب صفۃ القیامۃ الخ باب بدء الخلق الخ جلد 9 صفحہ 3919 دار الفکر ،بیروت)

صدرالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبِیاء علیہم السلام کی کوئی تعدادِ مُعَیَّن کرنا ، جائز نہیں ، کہ خبریں اِس باب میں مختلف ہیں اور تعدادِ مُعَیَّن پر ایمان رکھنے میں نبی کو نُبُوّت سے خارِج ماننے ، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا اِحتِمال (یعنی پہلو) ہے اور یہ دونوں باتیں (یعنی نبی کو نُبُوّت سے خارِج ماننا ، یا غیرِ نبی کو نبی جاننا) کفر ہیں ۔ لہٰذا یہ اعتِقاد چاہیے کہ اللہ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے ۔ (بہارِ شریعت حصہ اول جلد1 صفحہ 52 عقیدہ28 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

نبی اسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کےلیے بھیجا ہو اور ان پر وحی الٰہی آتی ہو اور شریعت سابقہ پر ہی قائم رکھنے کے لئے مبعوث کیا ہو نبی میں کتاب کی قید نہیں اور انبیاء کرام میں سے جو کتاب الٰہی بھی لاۓ اور نئ شریعت اور انہیں کوئی معجزہ بھی عطا ہوا ہو اسے رسول کہتے ہیں لیکن خیال رہے کچھ فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام وغیرہ لغوی معنی کے اعتبار سے بھی رسول ہیں مگر شرعی معنی کے اعتبار سے رسول صرف انسان ہیں یعنی نہ وہ کسی قوم کے لئے مبلغ ہوئے اور ناہی کسی قوم کو ان کی امت بنایا گیا جیسا کہ مخزن الفرائد الشبیری بحل شرح العقائد النسفی میں ہے : والنوع الثانی خبر الرسول المؤید ای الثابت رسالة بالمعجزة والرسول انسان بعثه اللہ تعالی الی الخلق لتبلیغ الاحکام وقد یشترط فيه الکتاب بخلاف النبی فانه اعم والمعجزة امر خارق للعبادة قصدبه اظھار صدق من ادعی انه رسول اللہ تعالی ۔
ترجمہ : اور دوسری قسم اس رسول کی خبر ہے جس کو قوت بخشی گئی ہو یعنی جس کی رسالت ثابت ہو (معجزہ سے) اور رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالی نے مخلوق کی طرف احکامِ شرعیہ پہنچانے کےلیے مبعوث کیا گیا ہو اور رسول میں کبھی کتاب نازل ہونے کی شرط لگائی جاتی ہے برخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے اور معجزہ وہ امر ہے جو عادت الہی کو توڑنے والا ہے جس کے ذریعہ اس شخص کی سچائی کو ظاہر کرنا مقصود ہو جو اپنے رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ (مخزن الفرائد الشبیری بحل شرح العقائد النسفی جلد اول صفحہ ۶۳ مکتبہ الھدی پبلیکیشنز نئ دھلی،چشتی)

بعض نے کہا کہ رسول عام ہے اور نبی خاص کیونکہ رسول انسان بھی ہوتا ہے اور فرشتہ بھی چنانچے ارشاد باری تعالی،انه لقول رسول کریم، میں رسول سے فرشتہ یعنی حضرت جبرائیل مراد ہیں اور نبی صرف انسان ہوتے ہیں بعض نے تساوی کا قول کیا ہے کہ جو معنی نبی کا وہی رکھا ہے وہی معنی نبی کا بھی ہے لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص یہی مختار قاضی بیضاوی کا بھی ہے کیونکہ وہ ارشاد باری تعالی ، وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ، کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ رسول وہ ہے جس کو نئ شریعت کی تبلیغ کےلیے بھیجا گیا ہو اور اس کے ساتھ کتاب ہو اور نبی عام ہیں اس کو نئی شریعت لے کر مبعوث کیا ہو یا شریعت سابقہ کو قائم رکھنے کےلیے بھیجا گیا ہو خواہ اس کے ساتھ کتاب ہو یا نہ ہو، اور تفسیر نعیمی میں ہے، مگر رسول کبھی بمعنی نبی بھی استعمال ہوتا ہے یہاں ایسا ہی ہے رسول لغوی معنی سے فرشتے بھی ہیں رب تعالٰی فرماتا ہے (جاعل الملٰٓئکة رسلا اولی اجنحة) اور فرماتا ہے ، اللہ یصطفی من الملٰٓئکة رسلا ومن الناس ، مگر شرعی معنی سے رسول صرف انسان ہیں یعنی مبعوث من اللہ للتّبلیغ صرف انسان ہی رسول ہوۓ حضرت جبرائیل وغیرہ علیہم السلام نہ کسی قوم کے مبلغ ہوئے نہ کوئی قوم ان کی امت ہوئی قرآن کریم میں جب بھی رسول مطلق ہوتا ہے تو اس سے شرعی رسول یعنی انسان پیغمبر مراد ہوتے ہیں ۔ (مخزن الفرائد الشبیری بحل شرح العقائد النسفی جلد ۳ صفحہ ۴ مکتبہ رضویہ مٹیا محل جامع مسجد دہلی)

مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے : مرسلین سے مراد رسول ہیں نبی رسول اور مرسل میں تین طرح فرق کیا گیا ہے ایک یہ کہ نبی وہ انسان ہیں جن پر وحی الٰہی آئے کتاب یا صحیفہ آئے یا نہ آئے رسول وہ جن پر وحی بھی آۓ اور انہیں کتاب یا صحیفہ بھی ملے مرسل وہ جن کو نئی کتاب نئ شریعت عطا ہو نبی رسول تین سو تیرہ یا چودہ یا پندرہ ہیں بعض نے فرمایا نبی وہ جن پر وحی آۓ رسول وہ جن پر وحی بھی آئے اور انہیں کوئی معجزہ بھی آتا ہوں ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۷ صفحہ نمبر ۴۳۹ مکتبہ ادبی دنیا مٹیامحل جامع مسجد دہلی)

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی وہ عظیم الشان انسان ہیں جن پر وحی الٰہی آتی ہو سابقہ شریعت پر ان کو مبعوث کیا گیا ہو لوگوں کی ہدایت کےلیے اور رسول وہ عظیم البرکت شخصیت ہے جس کو نئ شریعت نئ کتاب لے کر مبعوث کیا ہو اور فرشتوں میں بھی رسول ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام وغیرہ لیکن ان کو کسی امت کی تبلیغ کےلیے نہیں بھیجا گیا اور نا ہی کسی قوم کو ان کی امت بنایا گیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...