آلِ سعود اور نجدیوں کے مسلمانوں پر مظالم
محترم قارئینِ کرام : آج کل کچھ لوگ سعودی سعودی کرتے ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس مختصر مضمون میں ایسے لوگوں کو آئینہ دیکھانے کےلیے یہ مختصر مضمون نجدیوں کی کتابوں سے ترتیب دیا ہے جس میں نجدیوں کے مسلمانوں پر بے انتہاء مظالم کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمان اِن ظالم ، فتنہ پرور ، تفرقہ و فساد پھیلانے والے ان خارجی نجدیوں کی اصلیت کو پہچانیں اور اِن کے فریب سے بچیں آیئے مضمون پڑھتے ہیں : ⬇
شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاھر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اھل سنت والجماعت سے قتل و قتال کی ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کہ غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اہل حرمین کو خصوصا اور اہل حجاز کو عموما اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شھید ہو گئے-الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار فاسق شخص تھا اس وفہ سے اھل عرب کو خصوصا اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے لہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے ۔ (الشہاب الثاقب ص221 دارالکتاب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،چشتی)
شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھے ہیں : محمدبن عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ تھا جملہ اہلِ عالم و مسلمانانِ دیار کافر ہیں انہیں قتل کرنا اور اُن کے مال لوٹنا حلال بلکہ واجب ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 222 شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی)
ابن سعود نے وہابی افکار و نظریات کی توسیع میں سب سے پہلا معرکہ سعودی عرب کے موجودہ دار السلطنت ریاض کے والی امیر دہم بن دواس کے خلاف قائم کیا جو کہ سعودی وہابی اشتراک کے سخت خلاف تھا ، مسلسل تیس سال تک جنگی کشمکش جاری رہی حتیٰ کہ 1773ء میں عبد العزیز بن محمد بن سعود نے ریاض کو فتح کر لیا ۔ اس تیس سالہ جنگ میں 1700 نام نہاد موحدین مارے گئے اور 2300 مظلوم مسلمان تہہ تیغ ہوئے ۔ ( سید سردار محمد حسنی سوانح حیات سلطان عبد العزیز آل سعود صفحہ نمبر 42 ، 43)
شاہ سعود کے ہاتھوں اسلامی وراثتوں کی تباہی اور مسلمانوں کا قتل عام
جب اہل حساء پر شاہ سعود کی فوج کے مظالم کی انتہاء ہو گئی تو اہل حساء کے دلوں میں ان کا زبر دست رعب بیٹھ گیا اور وہ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور شاہ سعود نے مقام طف میں احساء کے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کر لیا اور کافی طویل مدت تک اہل حساء پر پانی بند رکھا یہاں تک کہ اہل حساء کے سردار نے مجبور ہو با دل ناخواستہ اہل حسا کی جانب سے سعود کے ہاتھوں پر بیعت کی پیشکش کی تو سعود شہر سے باہر ایک چشمہ پر جا کر بیٹھ گیا اور لوگوں نے وہاں جا کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ اس کے بعد انہوں نے احساء کا رخ کیا اور وہاں مزارات پر جتنے بھی گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو منہدم کر دیا اور ان کے تمام آثار و باقیات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 98،چشتی)
شاہ سعود نے نواسہ رسول حضرت امام حسن ، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مزارات اور آثار و باقیات کو بھی مٹایا اور بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ خون ناحق بھی بہایا : ⬇
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : اس کے بعد سعود نے جامعہ زبیر پر حملہ کیا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں اور شہر کے باہر مزارات پر جس قدر گنبد اور آثار موجود تھے ان سب کو توڑ دیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر بنے گنبد کو بھی منہدم کر دیا اور ان کی قبروں کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر دوبارہ گنبد بنا دئے گئے تھے ۔ لہٰذا سعود نے نجدی فوج کو دوبارہ بہیمہ کے قصر پر دھاوا بول دینے کا حکم دیا اور انہوں نے دوبارہ تمام قبروں کو زمین بوس کر دیا اور اس کے حامیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض ج1، ص 132)
سرزمین کربلا پر وہابی نجدی افواج کے انسانیت سوز مظالم : ⬇
مسعود عالم ندوی لکھتا ہے : اور اس سال 1214 ھ میں سعود نے نجد، حجاز اور تہامہ سے ایک لشکر جرار لیکر سرزمین کربلا کا رخ کیا اور بلد الحسین کے باشندوں پر پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کا ہے۔ مسلمانوں (وہابی نجدی فوج) نے اس شہر پر دھاوا بول دیا۔ فوجی اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اور جبراً اس میں داخل ہو گئے اور کثرت کے ساتھ وہاں کے باشندوں کو گھروں اور بازاروں میں تہہ تیغ کر دیا اور اس قبہ کو منہدم کر دیا جو ان کے اعتقاد کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر بنایا گیا تھا۔ قبہ اور اس کے آس پاس موجود چڑھاوے کی تمام چیزوں کو ضبط کر لیا۔ قبہ زمرد، یاقوت اور جواہر سے آراستہ تھا۔ اور اس کے علاوہ شہر کے اندر جو بھی مال و متاع تھا سب کو اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شہر میں ایک پہر سے زیادہ نہیں ٹھہرے بلکہ ظہر کے وقت تمام مال و اسباب لیکر وہاں سے نکل آئے، اس حملےمیں اس شہر کے تقریباً دو ہزار آدمی قتل کئے گئے ۔ ( مسعود عالم ندوی محمد بن عبد الوہاب صفحہ نمبر 77،چشتی)
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : 1216ھ میں سعود اپنی طاقتور فوج اور گھڑ سوار لشکر جرار اور تمام نجدی غارت گروں کو لیکر بہ قوت تمام سرزمین کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذی قعدہ میں نجدی سورماؤں نے بلد حسین کا محاصرہ کر لیا اور شہر کی تمام گلیاں اور بازار اہلیان شہر کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ، قتل عام سے فارغ ہو کر انہوں نے امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قبر مبارک کے قبہ کو منہدم کر دیا ۔ روضہ کے اوپر زمرد ، ہیرے اور یاقوت کے جو نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، وہ سب لوٹ لیئے ۔ اس کے علاوہ شہر کے اندر لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع ، اسلحہ ، کپڑے حتیٰ کہ چارپائیوں سے بستر تک لوٹ لیئے ۔ اور یہ سب مال و متاع لوٹ کر تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ نجد واپس لوٹ گئے ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 121-122)
طائف میں شاہ سعود کی قتل و غارت گری : ⬇
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : سعود نے اپنے ایک کمانڈر عثمان کو سرزمین طائف کو لوٹنے پر مامور کیا ۔ طائف کا امیر غالب شریف قلعہ بند ہو گیا ۔ نجدیوں نے اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ یہاں تک کہ وہ جان بچا کر مکہ کی طرف نکل بھاگا ۔ عثمان نے طائف کی گلیوں اور بازاروں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا اور دو سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا اور طائف کے گھروں سے مال و متاع ، سونا چاندی ، اسلحہ اور تمام قیمتی اشیاء جن کا شمار حد بیان سے باہر ہے ، لوٹ کر نجدیوں میں تقسیم کیا اور اس کا پانچواں حصہ عبد العزیز کے پاس بھیجا جس کے صلہ میں اس کو طائف اور حجاز کا امیر مقرر کر دیا گیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 123)
مکہ اور طائف کی فتح کے بعد سعود کے مزید مظالم : ⬇
عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : ثم ان سعوداً و المسلمین رحلو من العقیق و نزلوا المفاصل فاحرموا منھا بعمرۃ و دخل سعود مکۃ و استولی علیھا و اعطیٰ اھلھا الامان و بذل فیھا من الصدقات و العطاء الاھلھا شیئا کثیراً فلما فرغ سعود و المسلمون من الطواف و السعی فوق اھل النواحی یھدمون القباب التی بنیت علی القبور و المشاھد الشرکیۃ ۔
ترجمہ : پھر سعود اپنے ساتھیوں کو لیکر مقام عقیق سے روانہ ہوا اور مفاصل پہنچ کر عمرہ کے لئے احرام باندھا ۔ مکہ پہنچ کر اہل مکہ کو امان دی اور زر کثیر خرچ کیا ۔ عمرہ سے فارغ ہو کر سعود اور اس کے تمام نجدی ساتھیوں نے مکہ کے تمام مزارات کے گنبد گرا دیئےاور متبرک مقامات کی تمام علامات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ، ریاض ج1، ص 123،چشتی)
شدت پسند وہابی تحریک حجاز سے بر صغیر میں : ⬇
محترم قارئینِ کرام : اسلام کو نقصان پہنچانے اور امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کے لیے انگریزوں اور یہودیوں نے ہر حربے آزمائے، سیاسی، معاشی ، فکری، نظریاتی، اعتقادی، تعلیمی، تمدنی، نسلی… اور داخلی و خارجی بھی۔ داخلی حملے یعنی مسلمانوں کے ذریعے سازش رچنا یہ زیادہ خطرناک طریقہ ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں پوری دنیا میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تحریک وہابیت : تاریخ پر نظر رکھنے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ ماضی میں ایک صدی پیش تر مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت سلطنت عثمانیہ تھی جس کی سرحدیں نیل کے ساحل سے کاشغر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اور عثمانی سلاطین سنی صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ حجاز مقدس حرمین میں انھیں کی خدمت تھی، تمام اسلامی یادگاریں اور نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے والے آثار نہایت احترام سے محفوظ کر دیا تھا۔ ان کی دین داری مثالی تھی جو برطانیہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ انھیں ایسے شخص کی تلاش تھی جو بہ ظاہر مسلمان ہو اور برطانوی کاز کے لیے کام کرے۔ اس سلسلے میں حکومت برطانیہ نے اپنے جاسوس پورے خطۂ عرب میں پھیلا دیے۔ انھیں میں ایک جاسوس مسٹر ہمفرے تھا جس نے پوری تن دہی سے کام کیا اور ایسے شخص کو تیار کر لیا جو مسلمانوں میں ایک نئے فرقے ’’وہابی‘‘کی بنیاد کا سبب بنا۔ اس کا نام محمد ابن عبدالوہاب (ولادت ۱۷۰۳ء) تھا۔ اس نے نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و ادب کو ہی شرک قرار دیا۔ اس کے نزدیک پوری دنیا کے مسلمان مشرک تھے۔ ’’توحید‘‘ کے قرآنی احکام سے جدا مفہوم تراشے۔ دوسری طرف نسلی منافرت کے لیے لارنس آف عربیہ نے کام کیا اور ترک عرب قضیہ کھڑا کر کے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کروا ڈالے۔ ادھر ابن عبدالوہاب نے برطانوی تعاون سے وہابی تحریک کو ’’توحید‘‘ کے ٹائٹل سے متعارف کروایا ۔
وہابیت کے نزدیک مسلمان مشرک : ان کی تحریک کا ایک ٹائٹل تھا شرک، وہ اپنے علاوہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو مشرک سمجھتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے نزدیک حرمین کے مسلمان بھی مشرک تھے، سعودی نجدی مفتی عبدالعزیز بن باز لکھتے ہیں : ⬇
اہل حرمین اپنے سابقہ موقف مثلاً گنبدوں کی تعظیم، قبروں پر تعمیر، قبروں کے پاس شرک کا ارتکاب اور اہل قبر سے فریاد طلبی پر جمے رہے۔(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت، ص۴۹)
حرمین شریفین اور یمن میں شرک و بدعت… کا رواج جڑ پکڑ گیا تھا۔ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۲۷)
وہابی عقیدے میں صحابی رسول حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کا آستانہ بھی شرک کا مرکز تھا، یہی نجدی صاحب اس بابت لکھتے ہیں:
اس قبہ نے لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیا ہے، عقیدے خراب کر دیے ہیں اور اس سے شرک کو رواج ملا، اس لیے اسے ڈھانا بہت ضروری ہے۔ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۲۵۔۲۶)
تشدد کا آغاز : سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہابیت کا مفہوم کیا ہے، ابوالمکرم عبدالجلیل وہابی لکھتے ہیں: ’’وہابیت کا مطلب بغاوت سمجھا جاتا تھا‘‘ (ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی ص۳۲) ظاہر سی بات ہے جو تحریک بغاوت سے فیض یاب ہو گی وہ ’’امن‘‘ کے بجائے ’’تشدد‘‘ کا ہی راستہ اختیار کرے گی، اور اس کے بانی ابن عبدالوہاب نے ایسا کیا بھی۔ ایک مثال دیکھیں، وہابی مفتی عبدالعزیز بن باز ’’محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت‘‘ میںلکھتے ہیں:تن من دھن کی بازی لگا دی(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۳۰)… دعوت جاری رکھی اور پھر جہاد شروع کیا (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۳۷)… ۱۱۵۸ھ میں زبان و قلم اور دلیل و برہان کے ساتھ ہی جہاد بالسیف کا آغاز ہو گیا، اور پھر جہاد بالسیف سے دعوت کا کام بدستور جاری رہا۔(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۴۳)… تقریباً پچاس سال تک جہاد (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۴۶) (یعنی پچاس سال تک مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیلتے رہے۔)
قارئین غور کریں! حجاز مقدس میں یہ جہاد کن سے ہو رہا تھا، مسلمانوں سے، تلواریں کن پر برس رہی تھیںمسلمانوں پر، کیا مسلمانوں کو قتل کرنا جہاد کہلائے گا؟ معلوم ہوا کہ وہابی تحریک کا آغاز ہی تشدد کے ساتھ ہوا۔ اور یہی فکر ان کے ماننے والوں میں آگے بڑھی۔ وہابیت کی اشاعت کے لیے جو تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا اس کا اعتراف بھی مذکورہ کتاب میں موجود ہے: ’’اس عقیدے (وہابی) کو منوانے کے لیے جہاد کیا۔‘‘ (ص۵۳) وہابی تحریک کے بانی کے بارے میں دیوبندی مکتب فکر کے مولوی حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:’’وہ ایک ظالم و باغی خوں خوار فاسق شخص تھا، (الشہاب الثاقب،ص۵۴،چشتی) … اس نے اہل سنت و جماعت سے قتل و قتال کیا ۔
ہند میں وہابیت : وہابی۱۲۱۸ھ میں مکہ پر قابض ہوئے، ۱۲۲۰ھ میں مدینہ منورہ پر آل سعود کی حکومت قایم ہوئی(محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۵۰) باضابطہ سعودی حکومت کے قیام سے متعلق ان کی تحریر یہ ہے: ’’حرمین شریفین عرصۂ دراز تک سعودی حکومت سے الگ رہے پھر ۱۳۴۳ھ میں ان کی بازیابی عمل میں آئی۔‘‘ (محمد بن عبدالوہاب: دعوت و سیرت ص۵۷)
ادھر ہندوستان میں ۱۲۲۱ھ میں ہی وہابی رسالہ ’’ردالاشراک‘‘ پہنچایا گیا مولوی اسمٰعیل دہلوی جو ابن عبدالوہاب سے متاثر تھا اس نے جزوی تبدیلی کے ساتھ اس کا ترجمہ ’’تقویت الایمان‘‘ کے نام سے کیا اس طرح ہند میں اس کتاب کے ذریعے ہندوستان میں وہابیت کی بنیاد پڑی۔ اس میں مسلمانوں کو مشرک لکھا گیا، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا گیا: ’’میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں۔‘‘ (تقویت الایمان،طبع سعودی ص۱۰۳) اس کی اول اشاعت فورٹ ولیم کالج پریس کلکتہ سے انگریزوں نے کی اور مفت تقسیم ہوئی۔ وہابی عقائد کی اشاعت طاقت و قوت کے زور پر بھی کی گئی ۔
ہند میں وہابی تشدد : حجاز میں وہابی ظلم و ستم اور جور و تشدد کے سبب ہندوستان میں ان کے مؤید اہل حدیث کے بارے میں مسلمانوں کا ذہن متنفر تھا، اعتراف ملاحظہ ہو’’ ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی‘‘ کا مصنف اس میں لکھتا ہے: ’’جماعت اہل حدیث کے بارے میں ہندوستان کی فضا انتہائی نازک اور مکدر تھی۔‘‘ (علماے اہل حدیث کی مساعی ص۵۰،چشتی) ازیں قبل مولوی اسمٰعیل دہلوی اور ان کے احباب نے انگریزوں کی حمایت میں جہاد کیا اور بہ زور قوت سرحدی پٹھانوں کو انگریز کا وفادار بنانے چلے اور سرحد میں ہی ذلت و رسوائی کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوئے ۔
اسی فکر کے علما کو انگریز نے وظائف دیے، ان کے اداروں کو گرانٹ دی اور دوسری طرف صدیوں سے اسلاف کے طریقے پر قایم اہل سنت کے ان سیکڑوں مدارس جن کو مغل حکومت کی سرپرستی حاصل تھی انھیں ختم کر دیا۔ اسماعیل دہلوی نے دہلی میں تشدد کے ذریعے انارکی پھیلائی، لال قلعے میں مغل سلطنت دم ٹوڑ رہی تھی، ایسے حالات کا اس نے پورا پورا فائدہ انگریز کو پہنچایا، ہر دور میں وہابیت اپنے متشدد چہرے کے ساتھ سرگرم نظر آتی ہے، ان کی فکری بنیاد چوں کہ شدت پسندی پر رکھی گئی تھی، اس لیے طاقت کا غلط استعمال وہابیت کی فرت ثانیہ بن چکا ہے۔ جس کا مظاہرہ ہر جگہ نظر آتا ہے ۔
عراق و افغانستان کی تاراجی : عراق پر امریکی حملہ کے پس پشت سعودی ہاتھ کار فرما ہے، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا، تو اس مسئلے کو عرب لیگ یا عربوں کے نمائندہ اجلاس میں حل کیا جا سکتا تھا، سعودی نے امریکہ کو عراق پر حملے کی دعوت دی، اپنی زمین، اپنی دولت امریکی فوج کو دی، انھیں اپنا ہوائی اڈہ دیا، ان کی مستقل خدمت کی اور کر رہے ہیں، اس طرح عراق تباہ ہوا… افغانستان میں طالبانی انقلاب وہابی فکر کے مدارس کے تربیت یافتہ طلبا کے نتیجے میں آیا، اسامہ بن لادن جو امریکہ کا منظور نظر تھاوہ ابن عبدالوہاب کی فکر سے فیض یاب تھا، لیکن امریکہ سے اس کے اختلاف کے سبب سعودی عرب سے کوچ کر جانا پڑا، انھیں کی امریکہ مخالف پالیسی نے افغانستان کو تباہی سے دوچار کیا، یہ تو جا چھپے لیکن عوام مسلسل ماری گئی اور انسانیت کا یہ قتل اب بھی جاری ہے ۔
اہل حدیث اور وہابی ایک ہی ہیں : وہابی کاز کے فروغ لیے ہندوستان میں ان کے فکری حامی اہل حدیث کے ٹائٹل کے ساتھ سرگرم ہیں۔اب اگر اہل حدیث خود کو وہابیت سے الگ بتاتے ہیں تو ان میں فکری اشتراک کی دلیل بھی انھیں کے الفاظ میں دیکھیں : اہل حدیث عقیدہ و منہج کے اعتبار سے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے حامی اور ان کی دعوت کے مؤید تھے، غیر مقلد اہلحدیث ابن وہاب نجدی خارجی کے حامی اور اسی کے عقائد کے پیروکار ہیں اور ابن وہاب نجدی ان کا امام ہے ۔ (امام محمد بن عبالوہاب اور علمائے اہلحدیث صفحات 10 ، 11،چشتی)
خود غیر مقلد اہلحدیث حضرات کا اقرار اور ابن وہاب کو اپنا امام لکھا جو کہتے ہیں ہمارے امام صرف محمد الرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں یہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں حقیقت یہی ہے کہ ان کا امام ابن وہاب نجدی خارجی ہے اور یہ اسی کے عقائد و نظریات کے پیروکار ہیں اب بھی کسی کو شک ہے اور نہ مانوں کی رٹ ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔
عقیدہ و منہج میں ربط اور ہم آہنگی کا لازمی نتیجہ تھا کہ جماعت اہل حدیث نے ہر دور میں شیخ (وہابی) کی اصلاحی دعوت اور شاہ عبدالعزیز کی موحد حکومت کی تائید اور ان کے متعلق ہر غلط افواہ کی پر زور تردید کی۔ (ابن عبدالوہاب کی دعوت اور علماے اہل حدیث کی مساعی ص ۱۵) ۔ ظاہر ہے کہ جب یہ جماعت وہابیت کا بدلا ہوا چہرہ ہے تو اس کی فکر بھی ان میں نظر آئے گی ، نتیجہ یہ ہوا کہ جو تشدد حجاز سے چلا تھا وہ ان میںبھی منتقل ہوا، ان کے نزدیک بھی مسلمان مشرک ٹھہرے، ان کے نزدیک بھی مزارات اولیا شرک کے اڈے قرار پائے ، بانیِ وہابیت نے بہ زور طاقت مزارات صحابہ کو شہید کیا ، ادھر بر صغیر میں وہابی فکر کی طالبانی تحریک نے پاکستان کے سرحدی علاقے میں اولیا کے مزارات پر تشدد کے ساتھ لوگوں کو روکنا شروع کیا، ان کو طاقت ملی تو کئی مزارات پر تالے بھی لگا دیے ۔ ابھی گزشتہ ماہ ممبئی میں اہل حدیث مولوی معراج ربانی نے خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کی ، ماضی میں اجمیر شریف اور مزار داتا صاحب میں بم بلاسٹ ہوا ظاہر ہے جو مزارات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شرک کا اڈہ سمجھ کے توڑتے تھے وہ بھلا درِ خواجہ کو کب چھوڑتے ؟ مزارات اولیا پر اس طرح بموں کے ذریعے حملہ کیااسی گروہ کا ہو سکتا ہے ؟ جو تشدد پر یقین رکھتا ہے ۔ یہ سوچنے اور غور کرنے والی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ فتنہ خارجیت وہابیت سے بچائے آمین ۔
آلِ سعود سے متعلق وہ حقائق ، جو آپ کو جاننے چاہیں : ⬇
سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کی بائیس بیویاں تھیں۔ ان میں سے ستّرہ بیویوں کے ہاں پینتالیس بیٹے پیدا ہوئے۔ اب السعود کے شاہی خاندان کے شہزادوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔
آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کو سعودی عرب کا نام دیا۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ السعود خاندان کا تعلق اٹھارویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا گیا ہے۔
شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں شعلہ بیان مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے ’خالص اسلام کی واپسی‘ کا نعرہ لگایا اور یہاں سے وہابی نظریات کے پرچار کا آغاز ہوا۔
بعدازاں سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج (ترکی) کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن اس کے چھ برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔
دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریفِ مکہ قرار پائے۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔
حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دیے اور آخر کار 1925ء حسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔
اس کے بعد عبدالعزیز بن سعود کی طاقت میں اس طرح بھی اضافہ ہوا کہ انہوں نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں۔ آج اس شاہی خاندان کے مجموعی افراد کی تعداد تقریباﹰ پچیس ہزار ہے جبکہ اثرو رسوخ رکھنے والے شہزادوں کی تعداد تقریبا دو سو بنتی ہے۔
اس قدامت پسند وہابی ریاست میں تیل کی پیداوار کا آغاز 1938ء میں ہوا، جس کے بعد سعودی عرب کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگا۔
عبدالعزیز بن سعود کے بیٹوں کی مجموعی تعداد پینتالیس بنتی ہے۔ نو نومبر 1953ء میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا انتقال ہوا اور اس کے بعد سعود کو ان کا جانشیں مقرر کیا گیا۔
دو نومبر 1964ء کو شاہ سعود کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے تحت معزول کر دیا گیا اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالا۔ شاہ سعود کی وفات 1969ء کو جلاوطنی میں ہوئی۔
جدید سعودی عرب کے معمار کا خطاب حاصل کرنے والے شاہ فیصل کو مارچ 1975ء میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کردیا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ قاتل کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد اور پنجاب کے شہر فیصل آباد کا نام سعودی شاہ فیصل کے نام پر ہی رکھا گیا۔
اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد کے حصے میں آئی اور وہ 1982ء میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد حکمران بنے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔
1995ء میں شاہ فہد پر فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد عملی طور پر زیادہ تر فرائض شاہ عبداللہ ہی سرانجام دیتے رہے۔ 2005ء میں شاہ فہد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ شاہ عبداللہ نے لی۔ رواں برس تیئس جنوری کو انتقال کرنے والے شاہ عبداللہ کی جگہ اُن کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز نے لی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment