Thursday 19 October 2023

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے ، یہ محض قتال ، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں ۔ یہ اس وقت ہر مومن پر فرض ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں ، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔ قرآنی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر اذنِ دفاع نازل ہوا : أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۔ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔ (سورہ الحج آیت نمبر 39 - 40)
ترجمہ : پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے ۔

اس آیتِ مبارکہ کے مطابق مسلمانوں کےلیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا ، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا ۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے ۔

مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا ، نماز قائم کی جاتی ، زکوٰۃ دی جاتی ، نیکی کا حکم دیا جاتا ، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا ۔

ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ ﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ۔ (سورہ البقره آیت نمبر 190)

اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ ۔
ترجمہ : اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر ۔ (سورہ البقره آیت نمبر 193)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَى الْقِتَالِؕ-اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ ۔ اَلْــٴٰـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًاؕ-فَاِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ (سورہ انفال آیت نمبر 65 ۔ 66)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزا ر پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ اب اللہ نے تم پر سے تخفیف فرمادی اور اسے معلوم ہے کہ تم کمزو ر ہو تو اگر تم میں سو صبر والے ہوں د و سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں کے ہزار ہوں تو دو ہزار پر غالب ہوں گے اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے ۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت صابر رہے تو مددِ الٰہی سے دس گنا کافروں پر غالب رہے گی کیونکہ کفار جاہل ہیں اور ان کی جنگ سے غرض نہ حصولِ ثواب ہے نہ خوف ِعذاب، جانوروں کی طرح لڑتے بھڑتے ہیں تو وہ للہیت کے ساتھ لڑنے والوں کے مقابل کیا ٹھہر سکیں گے ۔ (تفسیر مدارک سور الانفال آیت ۶۵ صفحہ ۴۲۰)

بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر فرض کر دیا گیا کہ مسلمانوں کا ایک فرددس افراد کے مقابلہ سے نہ بھاگے ، پھر آیت ’’ اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ‘‘ نازل ہوئی تو یہ لازم کیا گیا کہ ایک سو مجاہدین دو سو 200 لوگوں کے مقابلے میں قائم رہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب الآن خفّف اللہ عنکم ۔۔۔ الخ ، جلد ۳ صفحہ ۲۳۱ الحدیث : ۴۶۵۳)

یعنی دس گنا سے مقابلہ کی فرضیت منسوخ ہوئی اور دو گنا کے مقابلہ سے بھاگنا ممنوع رکھا گیا ۔

اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کے حکم سے معلوم ہوا کہ جہاد بہت اعلیٰ عبادت ہے جس کی رغبت دلانے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کی ہر جائز طریقہ سے رغبت دینا جائز ہے۔ غازی کی تنخواہ مقرر کرنا، اس کے بیوی بچوں کی پرورش کرنا، بہادروں کی قدر دانی کرنا سب اس میں داخل ہیں ۔

اس آیت کے علاوہ قرآنِ پاک کی اور کئی آیات میں کفار سے جہاد کرنے کی ترغیب بیان کی گئی ہے ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ الصف آیت نمبر 10 ، 11)
ترجمہ : اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتادوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (اپنا حقیقی نفع) جانتے ہو ۔

ایک مقام پر ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ ۔ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ ۔ (سورہ التوبہ آیت ۱۱۱)
ترجمہ : بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں ۔

ایک جگہ ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(۳۸)اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ (سورہ التوبہ آیت نمبر ۳۸ ، ۳۹)
ترجمہ : اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟ تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے ۔ اگر تم (اللہ کی راہ میں) کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اوراللہ ہرشے پر قادرہے ۔

کثیر احادیثِ مبارکہ میں بھی جہاد کی ترغیب دی گئی ہے ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں : ⬇

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے بہتر اس کی زندگی ہے جو اللہ عزوجل کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہے ، جب کوئی خوفناک آواز سنتا ہے یا خوف میں اسے کوئی بلاتا ہے تو اُڑ کر (یعنی بہت جلد) پہنچ جاتا ہے ۔ قتل و موت کو اس کی جگہوں میں تلاش کرتا ہے (یعنی مرنے کی جگہ سے ڈرتا نہیں ہے) یا اس کی زندگی بہتر ہے جو چند بکریاں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی میں رہتا ہے، وہاں نماز پڑھتا ہے اور زکوٰۃ دیتا ہے اور مرتے دم تک اپنے رب عزوجل کی عبادت کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الجہاد والرباط صفحہ ۱۰۴۸، الحدیث : ۱۲۵(۱۸۸۹))

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مشرکین سے اپنے مال ، جان اور زبان سے جہاد کرو ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب کراہۃ ترک الغزو ۳ / ۱۶، الحدیث: ۲۵۰۴)

یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کےلیے تیار ہو جاؤ ۔

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مرجائے اور نہ تو جہاد کرے اور نہ اپنے دل میں اس کا خیال کرے تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب ذمّ من مات ولم یغز ۔۔۔ الخ ، صفحہ ۱۰۵۷، الحدیث: ۱۵۸(۱۹۱۰)،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غازی ( مجاہد) کےلیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کےلیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔(سنن ابوداؤد کتاب الجہاد باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)

حضرت زید بن خالد  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان دیا تو اس نے جہاد کیا ـ اور جو کسی غازی کے گھر بار میں بھلائی کے ساتھ اس کا نائب بن کر رہا اس نے جہاد کیا ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)

عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا : اسے علم ہے کہ تم کمزو ر ہو ۔ اس سے ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ اَبدان کی کمزوری مراد ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۳ صفحہ ۳۷۱،چشتی)

یعنی پہلے تو سو کے مقابلہ میں دس مسلمانوں کو ڈٹ جانا فرض تھا اب سو کافروں کے مقابلے میں پچاس کو ڈٹ جانا فرض رہ گیا ۔

کفار کی طاقت سے مرعوب اور راہِ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے کنارہ کش لوگ ‘ جب قرآن مجید میں آیات ِ جہاد پڑھتے ہیں اور اُنہیں کلام اللہ کی پوری پوری سورتیں فریضۂ جہاد کے بارے میں نظر آتی ہیں ‘ اسی طرح وہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بدر کے میدان میں اور کبھی احد پہاڑ کے دامن میں کھڑے دیکھتے ہیں‘ کبھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں مدینہ منورہ کے ارد گرد خندق کھو دتے ، بنو قریظہ کے قتل کا حکم دیتے ، خیبر اور مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرتے اور کبھی سینکڑوں میل دور تبوک کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں تو اُن کی یہ ہمت اور جرأت تو نہیں ہوتی کہ فریضۂ جہاد کا انکار کر دیں یا اس کے شرعی معنی کو بدل کر ہر نیکی کے کام کو جہاد قرار دے ڈالیں تو اس کیلئے وہ ایک نئے گمراہی کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔

یہ جہاد کےلیے ایسی خود ساختہ اور من گھڑت شرائط عائد کرتے ہیں ‘ جن کا قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ ہے نہ آج تک کسی مفسر ، محدث یا فقیہ نے اُن کا ذکر کیا ہے ۔ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار ہوں ‘ بجائے جہاد کی تلقین کرنے کے الٹا اُن کی مسلح جدوجہد کو صرف اس لیے غلط قرار دیتے ہیں کہ یہ کسی منظم حکومت کے ماتحت نہیں ہے ۔ گویا جب تک اُن کی منظم حکومت ( وہ بھی ان نام نہاد دانشوروں کی نظر میں صرف وہ ہی حکومت ہو گی جسے کفار تسلیم کر لیں) قائم نہیں ہوتی ‘ تب تک اُن کا کام صرف مار کھانا اور ظلم سہنا ہی ہے ۔ ان میں سے بعض اقدامی جہاد کی شرائط اٹھا کر دفاعی جہاد پر چسپاں کر دیں گے اور بعض مجاہدین کی تعداد میں کمی کو بہانہ بنا کر جہاد کے غیر شرعی ہونے کے حکم صادر فرما دیں گے ۔ کچھ حضرات استطاعت اور مقابلے کی طاقت نہ ہونے کو بہانہ بنا کر جہاد سے پہلو تہی کریں گے ۔ حالانکہ جہاد کےلیے استطاعت اور تربیت حاصل کرنا ‘ یہ بھی تو خود ایک فرض ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو باقی تو پورے مدنی دور کے دین پر عمل کریں گے لیکن صرف جہاد کو چھوڑنے کیلئے فوراً الٹی قلابازی لگا کر مکی دور میں پہنچ جائیں گے ۔ اگر ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو یہ پوری ایک کتاب کا موضوع بن جائے گا ۔ اس لیے فقیر اصولی طور پر ظاہری زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صرف چند ایسے مستند واقعات پیش کرتا ہے جن سے خود بخود ان لوگوں کے بے بنیاد خیالات کی تردید ہو جاتی ہے : ⬇

صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائے گا ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے واپس کریں گے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے تو ابو بصیر رضی اللہ عنہ نامی ایک مکّی صحابی جنہیں مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں ، وہ چھوٹ کر بھاگ نکلے ۔ قریش نے ان کی واپسی کےلیے دو آدمی بھیجے اور یہ کہلوایا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان عہد و پیمان ہے ، اس کی پابندی کیجیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو بصیر ؓ کو ان دونوں کے حوالے کر دیا ۔ یہ دونوں اسے لا رہے تھے کہ ذوالحلیفہ کے مقام پر ایک چال کے ساتھ ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو قتل کر دیا اور دوسرا بھاگ کر مدینے پہنچ گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ یہ خوفزدہ نظر آتا ہے ۔ اس نے کہا بخدا ! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ اتنے میں ابو بصیر رضی اللہ عنہ آگئے اور بولے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے آپ کا عہد پورا کر دیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف پلٹا دیا ۔ پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کوئی ساتھ مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا ۔ یہ سن کر ابو بصیر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ انہیں پھر کافروں کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آگئے ۔ ادھر ابو جندل بن سہیل ؓ بھی چھوٹ بھاگے اور ابو بصیر سے آملے یہاںتک کہ ان کی ایک جماعت اکٹھی ہو گئی ۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ملکِ شام آنے جانے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کر تے اور قافلے والوں کو مار کر ان کا مال لوٹ لیتے۔ قریش نے تنگ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بلا لیں اور اب جو بھی آپ کے پاس جائے گا ، مامون رہے گا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلوا لیا اور وہ مدینہ آگئے ۔ ( فتح الباری :۷؍۴۳۹،زاد المعاد :۲؍۱۲۲)

ابو بصیر اور ابو جندل رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف بدلہ لینے کےلیے منظم حکومت کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک کوئی شرط نہ تھی وگرنہ وہ اس شرط کا ضرور اہتمام کرتے ۔ لیکن اگر ایسی کوئی شرط نام نہاد دانشوروں کے بقول تھی تو کیا یہ لوگ (نعوذ باللہ) ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اپنی تعریف کی روشنی میں دہشت گردی کا الزام لگانے کی ہمت کریں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بصریٰ کے حکمران کے پاس بھیجا تو قیصرروم کے گورنر شرجیل بن عمرو نے انہیں شہید کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کا بدلہ لینے کےلیے تین ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اور اس پر تین امیر مقرر فرمائے ۔ پہلے امیر تھے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ یہ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور یہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ، اسے غزوئہ موتہ کہا جاتا ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران معرکہ ہی اس کے بارے میں صحابہ کو بتانا شروع کر دیا فرمایا علَم جہاد زید رضی اللہ عنہ نے پکڑا وہ شہید کر دیے گئے پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے پکڑا وہ شہید ہو گئے پھر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے پکڑا وہ بھی شہید ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔ پھر اللہ کی تلواروں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا پکڑا تو اللہ نے فتح عطا فرمادی ۔ فتح الباری میں ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے : ثم اخذ اللواء خالد بن ولید ولم یکن من الامراء وھو امیر نفسہ ’’ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا اور وہ مقرر نہیں کئے گئے ، وہ خود ہی امیر بن گئے ‘‘ ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اللھم ھو سیف من سیوفک فانصرہ ’’ اے اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما  ۔ (مسند احمد : ۵؍ ۲۹۹،چشتی) ۔ یہی حدیث کتاب الجہاد میں ہے تو وہاں یہ وضاحت ہے : ثم اخذھا خالد بن الولید من غیر امرۃ ‘‘ پھر جھنڈاخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پکڑ لیا اور انہیں امیر نہیں مقرر کیا گیا ۔

اس حدیث میں بھی غور کریں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بغیر اجازت آگے بڑھے اور جہاد کیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا ‘ آنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس دن نو(۹) تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹی تھیں ۔ سنن ابی دائود میںعوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس غزوہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو واپسی پر اپنی طرف سے مقرر کردہ امیر ہی قرار دیا ۔ (سنن ابی دائود ، کتاب الجہاد:۲۷۱۹ )

۴؍ ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبائل) کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے کےلیے ہمارے ہمراہ روانہ کیجیے ۔ آپ نے کچھ لوگوں کو سیدنا عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی امارت میں روانہ کر دیا ۔ جب یہ لوگ رجیع نامی چشمے پر پہنچے تو مذکورہ قبائل کے افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان کے پیچھے لگا دیا ۔ بنو لحیان کے تقریباً سو تیرا نداز ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے ان صحابہ تک جا پہنچے ۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر پناہ گزیں ہو گئے ۔ بنو لحیان نے انہیں گھیرے میں لے کر کہا کہ تمہارے لیے عہد و پیمان ہے کہ اگر تم ہمارے پاس اتر آئو تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کر یں گے ۔ سیدنا عاصمؓ نے اترنے سے انکار کر دیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کر دی ۔ بالآخر سات صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے ۔ بنو لحیان نے اپنا عہد و پیمان پھر دہرایا تو باقی تین صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا ۔ اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ، ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ تو انہوں نے اسے بھی شہید کر ڈالا اور باقی دو صحابہ کو مکہ لے جا کر بیچ دیا ۔ (صحیح بخاری ۴۰۸۶، ابن ہشام :۲؍۱۶۹،چشتی)

مذکورہ واقعہ سے ثابت ہوا کہ اگر کہیں تین مسلمان بھی ہوں تو وہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر کے ظلم کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کریں گے اور اسلام انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کا حق دیتا ہے ۔

ظاہری عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شہر بن باذان صحابی رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر مقرر تھے لیکن ان کی وفات پر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنی قوم کو لے کر صنعاء (دارالحکومت) پر قبضہ جما لیا اور باذان کی بیوی ’’ مرزبانہ‘‘ کو زبردستی اپنے حرم میں شامل کر لیا ۔ اس طرح ایک اسلامی علاقہ کفار کے تسلط میں چلا گیا ۔ چنانچہ فیروز دیلمی قیس بن عبد یغوث ، دادویہ رضی اللہ عنہم اور کچھ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے مرزبانہ کے ساتھ مل کر اسود عنسی کے خلاف کاروائی کا پروگرام تشکیل دیا ۔ حسب پروگروام مر زبانہ نے اس رات اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا کر مدہوش کر دیا جبکہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس محل کی دیوار میں نقب لگایا اور اندر جا کر اسود عنسی کو قتل کر دیا ۔ چنانچہ اس طرح اسود عنسی کے غاصبانہ تسلط کا خاتمہ کیا گیا ۔ صحیح روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ وحی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس گوریلا کاروائی سے مطلع کیا اور جب یہ خبر یمن سے مدینہ پہنچی تو ابو بکر ؓ خلیفہ بن چکے تھے ۔ (فتح الباری :۸؍۹۳، دلائل النبوۃ :۵؍۳۳۴تا ۳۳۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دور مبارک میں یہ گوریلا کاروائی کی گئی جبکہ یمن میں کوئی ’’منظم حکومت ‘‘ اس وقت موجود نہ تھی بلکہ اسود عنسی جس نے منظم حکومت کا شیرازہ بکھیر ا تھا ، اس کذاب کو ’’غیر علانیہ ‘‘ خفیہ طور پر اور بغیر کسی’’ منظم حکومت ‘‘ کے قتل کر کے اسلامی اقتدار بحال کیا گیا ۔ ان تمام واقعات میں غور کریں تو موجودہ دور میں جب جہاد مسلمانوں کیلئے سانس لینے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے ‘ جہاد کے خلاف جتنے وساوس اور شبہات پیدا کیے جاتے ہیں‘ سب مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ثابت ہوں گے ۔ یہاں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اہلِ حق کے درمیان امورِ مجتہد فیہا میں نصوص کے ثبوت اور ان کی تطبیق کی بابت اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اس کا مقصد کسی فریضے کا انکار ‘ اس میں بے جا تاویل یا اُسے معطل کرنا نہیں ہوتا بلکہ شرعی دلائل کی روشنی میں ‘شرعی حدود کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا مقصد ہوتا ہے ‘ ایسی صورت میں کسی کی تفسیق اور تضلیل درست نہیں ۔

کچھ لوگوں کا جہاد کے ساتھ یہ بھی عجیب رویہ ہے کہ اتنی عظمت والا عمل ‘ جو فرائض اسلام میں سے ہے‘ یہی تمام مفسرین ‘ محدثین اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے ‘ اس کی اہمیت کو امت مسلمہ کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر نکالنے کے لیے چند ایسی روایات کا سہارا لیتے ہیں ‘ جو یا تو بے بنیاد اور من گھڑت ہوتی ہیں یا اُن کا صحیح مفہوم نظر انداز کر کے خواہ مخواہ انہیں جہاد کے مقابلے میں پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ آسان سی بات ہے کہ جب جہاد کی فرضیت ‘ ترکِ جہاد پر وعیدیں اور مجاہدین کے فضائل یہ سب کچھ قرآن مجید کی آیات ِ مبارکہ اور صریح و صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں تو پھر دین ِاسلام کے کسی اور عمل کو اس کے مقابلے میں لانے کی کیا ضرورت ہے ۔

دینِ اسلام کے جتنے بھی احکامات ہیں‘ سب پر عمل ضروری ہے ۔ تمام اعمال کے اپنے اپنے فضائل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمام کام بھی کیے ہیں اور ساتھ جہاد بھی کیا ہے ۔ پھر آج کے کسی مسلمان کےلیے یہ کیسے جائز ہو گیا کہ وہ کسی ایک کام کا انتخاب کر لے اور باقی کا انکار کر دے یا اُس کی اہمیت اور عظمت کو کم کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہو جائے ۔

اگر دشمن (کفار) مسلمانوں کے کسی بارڈر پر حملہ کردیں تو : ⬇

صاحب رد المحتار لکھتے ہیں : اگر دشمن (کفار) مسلمانوں کے کسی بارڈر پر حملہ کردیں تو ہر اس شخص پر جو دشمن سے قریب ہو جہاد فرض عین ہوجائے گا ۔ البتہ جو لوگ ان سے پیچھے دشمن سے دوری پر واقع ہوں جب تک ان کی ضرورت نہ ہو تو ان پر فرض کفایہ ہوگا ۔ اور اگر ان کی ضرورت محسوس کی جانے لگے بایں طور کہ جو لوگ دشمن سے قریب ہوں وہ دشمن سے لڑنے پر قادر ہی نہ ہوں ، یا قادر تو ہوں لیکن سستی کرنے لگیں اور جہاد نہ کریں ، پس ایسی حالت میں ان لوگوں پر جو ان کے قریب ہوں جہاد اسی طرح فرض عین ہوجائے گا جیسے نماز و روزہ ۔ ان لوگوں کو جہاد چھوڑ دینے اور بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں ہوگی ، اور پھر اسی ترتیب سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر مشرق سے مغرب تک جہاد فرض عین ہوجائے گا ۔ (ردالمحتار، المعروف بالشامی/ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 238،چشتی)

کفار جب کسی شہر پر ہلہ بول دیں (جیسا کہ اس وقت فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں کفّار نے ہلہ بول دیا ہے) تو اس حالت میں جہاد فرض عین ہو جائے گا ۔

علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ ’’بدائع الصنائع‘‘ میں لکھتے ہیں : پس جب نفیر عام ہو جائے اس طرح کہ کفار کسی شہر پر ہلہ بول دیں تو اس حالت میں جہاد فرض عین ہوجائے گا، بشرط قدرت ہر ایک مسلمان پر فرض ہوگا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے : نکل پڑو اللہ کی راہ میں کفار سے لڑنے کےلیے ہلکے ہو یا بوجھل‘‘۔ (کہا گیا ہے کہ یہ آیت پاک نفیر عام کے لئے نازل ہوئی ہے) اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے : نہ چاہیے مدینہ والوں کو اور ان کے گرد و نواح گنواروں کو ، کہ وہ پیچھے رہ جائیں رسول (صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم) کے ساتھ سے اور نہ یہ کہ اپنی جان کو نبی کی جان پر چاہیں (ترجیح دیں) ۔ پارہ نمبر ۱۰/ رکوع نمبر ۱۴۔ نیز اس لیے کہ نفیر عام سے پہلے ہر ایک پر وجوب ثابت تھا، بعض سے سقوط فرضیت دوسرے بعض کے عمل پیرا ہوجانے سے ہوا تھا۔ پس جب نفیر عام ہوجائے تو اس کا تحقق جب ہی ہوگا جب ہر ایک اٹھ کھڑا ہو لہذا اس حالت میں ہر ایک پر عین فرضیت باقی رہے گے، جیسے کہ نماز و روزہ، یہاں تک کہ غلام آقا کی اجازت کے بغیر، عورت شوہر کی اجازت کے بغیر میدان کار زار میں کود پڑیں گے، اسی طرح بچے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ کے لئے نکل پڑیں گے ۔ (بدائع الصنائع/ ج ۷ / ص۹۸،چشتی)

لوگوں کو یہ خبر مل جائے کہ دشمن اسلامی شہر پر چڑھ آیا ہے تو جہاد فرض ہے ۔

فقہ حنفی کی قدیم کتاب فتاویٰ قاضی خان میں ہے : جب تک نفیر عام نہ ہوجائے تب تک غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اور عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر جہاد کےلیے نہ نکلے ۔ البتہ جب نفیر عام ہو جائے اور لوگوں کو یہ خبر مل جائے کہ دشمن اسلامی شہر پر چڑھ آیا ہے (تو بدوں اذن ہی جہاد کےلیے نکلنا ضروری ہے) نیز جب مسلمانوں کی جان یا اولاد یا مال خطرے میں پڑ جائیں تو آدمی کو بغیر والدین کی اجازت کے نکلنا درست ہے اور نابالغ بچے کےلیے نفیر عام کے وقت جہاد میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ اس کے والدین منع ہی کریں اور اگر روم والے حملہ کردیں تو ہر اس شخص پر جو جہاد میں جا سکتا ہو اور اس کے پاس سواری اور سفر خرچ کا انتظام ہو ۔ جہاد کےلیے نکلنا ضروری ہے اور کسی بَیِّن عذر کے علاوہ پیچھے رہنا جائز نہیں ۔ اگر ایک مسلمان عورت مشرق میں قید کردی گئی تو مغرب میں رہنے والے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کو کفار کی قید سے چھڑائیں ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ، الموضوع بہا مش فتاویٰ الہندیہ /ج ۵/ص ۵۵۹،چشتی)

اس سے معلوم ہوا اس وقت فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اہلِ اسلام پر جہاد فرض ہو چکا ہے مسلم علاقے پر کفر کا قبضہ اور عزتیں غیر محفوظ ہیں ۔

نفیرِ عام سے پہلے جہاد نفل ہے ، اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہوجاتا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں نفیر عام ہو چکا ہے اور مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہو چکا ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب جہاد کا یہ فریضہ ادا کر لازم ہو چُکا ہے ۔

فقہ حنفی کی مشہور مفتیٰ بہ کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ جو صدھا علماء کرام کی محنت شاقہ اور متفقہ رائے سے مرتب ہوئی تھی ، اس کی ’’کتاب السِّیَر‘‘ کے شروع ہی میں یہ بحث ہے : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نفیر عام سے پہلے جہاد نفل ہے ، اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہو جاتا ہے ۔ مگر اکثر مشائخ کا قول کے مطابق جہاد ہر حال میں فرض ہے ، صرف اتنی بات ہے کہ نفیر عام سے پہلے فرض کفایہ ہے اور نفیر عام کے بعد فرض عین ہوجاتا ہے ، یہی صحیح ہے ۔ نفیر عام کا یہ مطلب ہے کہ اہل شہر کو صرف یہ اطلاع پہنچ جائے کہ دشمن آ پہنچا ہے ، جو تمہاری جان ، اولاد اور مال کا خواہاں ہے ۔ (کچھ آگے چل کر لکھا ہے) یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ نفیر عام کی خبر دینے والا ، عادل و فاسق دونوں اس مسئلہ میں برابر ہیں ، ان کی خبر بہر حال قبول کی جائے گی ۔ (فتاویٰ عالمگیری/ جلد۳/ ص۲۸)

آج دنیا بھر میں جہادی بہاریں امتِ مسلمہ کےلیے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر ان کی عملی تصدیق کر رہی ہیں ۔ اللہ کے نیک بندے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار امتی اپنے مقدس لہو سے فریضۂ جہاد کی آبیاری کر رہے ہیں ۔ راہِ حق کے فدائیوں کے جذبات قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادیں تازہ کر رہے ہیں ۔ مسلمان خواتین کے خیالات کا رخ بھی بدل رہا ہے اور وہ حضرت ام عمارہ ، حضرت خنساء اور حضرت صفیہ کا کردار ادا کر نے کےلیے بے تاب ہیں ۔ مسلمانوں کے معصوم بچے بھی حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کر رہے ہیں ۔ جس کی زندہ مثال فلسطین ، مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کے مسلمان ہیں ۔ اللہ عزوجل مجاہدین کو ہر قدم پر کامیابی عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان محترم قارئینِ کرام : بے شک ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰحضرت سچے پکے اصلی اور حقیقی اہلسنت کی علامت و نشان و شنا...