حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سود کھایا کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی اور نیم رافضی اعتراض کرتے ہیں کہ : معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے سود کھایا ہے وہ حلق تک جہنم میں ہے ۔ (شرح معانی الاثار نکیرات الاعیان)
جواب : بُرا ہو اُس عینک کا جو حسد و بغض کی مشین پر تیار ہوئی ہے کہ جب وہ ناک پر چڑھ کر آنکھوں کے آگے اپنے تصرف کا اظہار کرتی ہے تو پھر سمجھ و عقل جواب دے جاتی ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔ شرح معانی الاثار میں ایک روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک قلاده (ہار) خریدا اس میں سونا ہیرے جواہرات وغیرہ سبھی کچھ تھا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 600 سو دینار میں وہ خریدا تھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب منبر پر چڑھے یا جب ظہر کی نماز پڑھی تو حضرت عبادہ بن الصامت نے فرمایا خبردار معاویہ رضی اللہ عنہ نے سود کا سودا کیا اور سود کھایا اور وہ حلق تک آگ میں ہے ۔ (شرح معاني الآثار) اس روایت میں قابل غور باتیں درج ذیل ہیں : ⬇
1 : وہ حلق تک آگ میں ہے ، اگر مراد اس سے جہنم ہے جیسا کہ شیعہ لوگوں نے سرخی چڑھائی ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ جہنم کی سزا دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد آخرت میں ملے گی اور اگر مراد یہ ہے کہ سود کھانے کا انجام آگ میں جانا ہے تو یہ درست ہے مگر اس آگ کو بجھانے کےلیے آنکھوں کی فائر برگیڈ ابھی تک سلامت اور موجود ہے ندامت سے بہنے والا ایک آنسو کا قطرہ ہی اس آگ کو چشم زدن میں بجھا کر فنا کر دے گا اس بنا پر یہ سرخی جو شیعہ لوگوں نے قائم کی ہے یہ سراسر جھوٹ اور بغض کی بدبو ہے ۔
2 : سود کس مال کو کہتے ہیں ؟ سونے چاندی وغیرہ چھ اشیاء کا نام لے کر رحمتِ کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مثلاً بمثل یدا بيد و الفضل رباء کہ ان چھ چیزون کو انہی کی جنس کے بدلے خریدنا برابر سرابر تو جائز ہے مگر اضافہ سے لینا دینادرست نہیں وہ قلادہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خریدا تھا اس میں سونا کے علاوہ باقی چیزیں ہیرے جواہرات بھی تھے اور مشترک چیزوں کو دیناروں کے بدلے خریدا تھا جس کی صورت یوں ہوئی کہ مثلاً ایک دینار کے بقدر سونا ہے تو سونا ایک دینار کے برابر ہو گیا اور باقی ہیرے جواہرات وغيره 599 دیناروں کے بدلے میں ہو گیا لہٰذا یہ سود نہ ہوا کیونکہ جو سونا اس قلادہ میں ہے وہ اس کی جنس کے بدلے کے برابر سرابر لیا ہے کمی زیادتی کے ساتھ نہیں لیا ۔ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا اور حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے یہ خیال فرمایا کہ یہ سونا بھی ساتھ شریک ہے لہٰذا جیسے دوسری چیزوں میں منافع حاصل کیا گیا ہے اسی طرح سونے پر بھی کمی زیادتی ہوئی ہو گی اور یہی سود ہے اس لیے انہوں نے وضاحت فرمائی کہ اس ہار کے خریدنے میں اصل صورت حال کیا ہے جب اس ہار کے خریدنے کی اصل صورت حال سامنے آ گئی تو معترض خاموش ہو گئے اب قائل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سودی یا جہنمی بتانا چاہتا ہے بلکہ وہ اصلاح کے جذبہ سے یہ اعتراض کر رہا ہے کہ خدانخواستہ یہ تجارت نقصان کی نہ بن جائے اور نہ ہی حقیقت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جان بوجھ کر سودی معاملہ کیا اور وہ آگ کے مستحق ہوئے اس جذبہ اصلاح کی بنا پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے قول کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جہنمی کہنا خود شیعہ لوگوں کے اپنے گھر اور مسکن کا پتہ بتانا ہے ورنہ یہ تو ایک شرعی مسئلہ ہے جس پر جانبین کو بعد از وضاحت تسلی ہو گئی تھی مگر شیعہ لوگوں کو تسلی اس وقت ہو گی جب اپنے گھر کے بتائے ہوئے پتہ کے مطابق اپنے مسکن و منزل میں بسیرا کر لیں گے مگر وہ رہنے کی بہت بُری جگہ ہے کاش کرم فرما اپنے حال پر بھی ترس کھا کر تعصب کی عینک اتار پھینکتے ۔
اعتراض : امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) سود خور تھا ۔ (ابن ماجہ، السنن الکبریٰ، طحاوی)
جواب : خوف آخرت نہ ہو تو بندہ بڑے سے بڑا جھوٹ بول کر بھی مطمئن ہی رہتا ہے کہ کس نے دیکھا اور کس کو پتہ! ورنہ آخرت کا ڈر رکھنے والے یوں بے خوفی سے جھوٹ پر جھوٹ نہیں بولتے ملاحظہ فرمائیے بات کو توڑ موڑ کر الزام دھرنے کی کیسی کیسی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت رحمہ اللہ نے سونے کو سونے کے مقابلے میں فروخت کرنے پر اعتراض کیا اور نکیر فرمائی مگر حقیقت میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس کی بیع کی تھی وہ ایک ہار تھا جس میں صرف سونا نہیں تھا بلکہ سونے کے علاوہ دیگر ہیرے جواہرات وغیرہ بھی تھے تو حضرت امیر معاویہ نے اس کو 600 کے بدلے خریدا اس میں سود کا تصور بھی نہیں چاہیۓ کہ سود ہو ۔ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس میں سونا اور اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز جڑی ہوئی ہو تو اس کی بیع کمی پیشی سے کرنا جائز ہے اس کی دلیل امام طحاوی رحمہ اللہ نے حضرت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا ہے کہ ایک تلوار جس کے دستے پر سونے کا کام کیا ہوا تھا وہ خریدی تھی اس کی قیمت اس سونے کے برابر نہ تھی معلوم ہوا ایسی چیز جس پر سونا اور بھی کچھ ہو تو اس کی بیع جائز ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا جس پر شیعہ لوگوں نے تعصب کی عینک لگا کر الزام تراش نکالا جواباً چند معروضات ملاحظہ فرمائیے ۔
روافض و نیم روافض دلیل پیش کرتے ہیں : حَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ، أَوْوَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : مَا أَرَى بِمِثْلِ هَذَا بَأْسًا، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ مُعَاوِيَةَ، أَنَا أُخْبِرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُخْبِرُنِي عَنْ رَأْيِهِ، لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ أَنْتَ بِهَا، ثُمَّ قَدِمَ أَبُو الدَّرْدَاءِ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى مُعَاوِيَةَ، أَنْ لَا يَبِيعَ ذَلِكَ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ ۔
مفہوم : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے یا چاندی کا برتن اس سے زیادہ وزن کے ساتھ بیچا حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس طرح کی تجارت سے منع فرماتے تھے،مگر یہ کہ دونوں طرف سے برابر ہو ( یعنی کمی بیشی نہ ہو) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں تو اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہنے لگے کون ہے جو معاویہ کے خلاف میرے عذر کو قبول کرے ۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور وہ اپنا رائے بتا رہے ہیں پھر حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میں آپ کے ساتھ اس زمین میں نہیں رہوں گا جس میں آپ موجود ہیں،پھر حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ حضرت عمر کے پاس آئے اور سب کچھ تذکرہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف خط لکھا کہ اس طرح تجارت نہ کریں ۔ (رواہ مالک فی المؤطا:1848)
اولا : یہ روایت سندا سخت ضعیف ہے ۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد جلد 4 صفحہ 71 پر لکھتے : ظَاهِرُ هَذَا الْحَدِيثِ الِانْقِطَاعُ لِأَنَّ عَطَاءً لَا أَحْفَظُ لَهُ سَمَاعًا مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَمَا أَظُنُّهُ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا۔
ظاھری طور پر یہ روایت منقطع ہے کیونکہ عطاء کا ابودرداء سے سماع کے حوالے سے میں کچھ نہیں یاد رکھتا مین سمجھتا ہوں کہ اس نے کچھ نہیں سنا ۔
ثانیاً : اس روایت کے بارے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تمهيد جلد 4 صفحہ 72 پر لکھتے ہیں : أَنَّ هَذِهِ الْقِصَّةَ لَا يَعْرِفُهَا أَهْلُ الْعِلْمِ لِأَبِي الدَّرْدَاءِ الا من حديث زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ وَأَنْكَرَهَا بَعْضُهُمْ لِأَنَّ شَبِيهًا بِهَذِهِ الْقِصَّةِ عَرَضَتْ لِمُعَاوِيَةَ مَعَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهِيَ صَحِيحَةٌ مَشْهُورَةٌ مَحْفُوظَةٌ لِعُبَادَةَ مَعَ مُعَاوِيَةَ ۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ کے اس قصے کو اھل علم نہیں جانتے سواء زید بن اسلم عن عطاء بن یسار سے ، بعض اھل علم نے تو اس کا انکار کیا ہے کیونکہ یہ قصہ اس قصے کے مشابہ ہے جو معاویہ رضی اللہ عنہ کا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا جو کہ صحیح مشہور اور محفوظ ہے ۔
جس واقعے کی طرف ابن عبدالبر نے اشارہ کیا ہے اس واقعے کے الفاظ یہ ہیں : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: كُنْتُ بِالشَّامِ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، فَجَاءَ أَبُو الْأَشْعَثِ، قَالَ: قَالُوا: أَبُو الْأَشْعَثِ، أَبُو الْأَشْعَثِ، فَجَلَسَ، فَقُلْتُ لَهُ: حَدِّثْ أَخَانَا حَدِيثَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْنَا غَزَاةً وَعَلَى النَّاسِ مُعَاوِيَةُ، فَغَنِمْنَا غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَكَانَ فِيمَا غَنِمْنَا آنِيَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَأَمَرَ مُعَاوِيَةُ رَجُلًا أَنْ يَبِيعَهَا فِي أَعْطِيَاتِ النَّاسِ، فَتَسَارَعَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ، فَبَلَغَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، فَقَامَ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ، إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ، عَيْنًا بِعَيْنٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ ازْدَادَ، فَقَدْ أَرْبَى»، فَرَدَّ النَّاسُ مَا أَخَذُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا مَا بَالُ رِجَالٍ يَتَحَدَّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ قَدْ كُنَّا نَشْهَدُهُ وَنَصْحَبُهُ فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُ، فَقَامَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَأَعَادَ الْقِصَّةَ، ثُمَّ قَالَ: " لَنُحَدِّثَنَّ بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ كَرِهَ مُعَاوِيَةُ - أَوْ قَالَ: وَإِنْ رَغِمَ - مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَصْحَبَهُ فِي جُنْدِهِ لَيْلَةً سَوْدَاءَ "، قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ ۔
ترجمہ : حماد بن زید نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی اور انہوں نے ابوقلابہ سے روایت کی، انہوں نے کہا : میں شام میں ایک مجلس میں تھا جس میں مسلم بن یسار بھی تھے ، اتنے میں ابواشعث آئے تو لوگوں نے کہا : ابواشعث، (آگئے) میں نے کہا: (اچھا) ابو اشعث! وہ بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا: ہمارے بھائی! ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا : ہاں، ہم نے ایک غزوہ لڑا اور لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ انہیں لوگوں کو ملنے والے عطیات (کے بدلے) میں فروخت کر دے ۔ (جب عطیات ملیں گے تو قیمت اس وقت دراہم کی صورت میں لے لی جائے گی) لوگوں نے ان (کو خریدنے) میں جلدی کی۔ یہ بات حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا، آپ سونے کے عوض سونے کی، چاندی کے عوض چاندی کی، گندم کے عوض گندم کی، جو کے عوض جو کی، کھجور کے عوض کھجور کی اور نمک کے عوض نمک کی بیع سے منع فرما رہے تھے، الا یہ کہ برابر برابر ، نقد بنقد ہو ۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود کا لین دین کیا۔ (یہ سن کر) لوگوں نے جو لیا تھا واپس کر دیا۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو وہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا: سنو! لوگوں کا حال کیا ہے! وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے احادیث بیان کرتے ہیں، ہم بھی آپ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ کے ساتھ رہتے تھے لیکن ہم نے آپ سے وہ (احادیث) نہیں سنیں ۔ اس پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہوا) سارا واقعہ دہرایا اور کہا: ہم وہ احادیث ضرور بیان کریں گے جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنیں، خواہ معاویہ رضی اللہ عنہ ناپسند کریں ۔۔ یا کہا: خواہ ان کی ناک خاک آلود ہو ۔۔ مجھے پروا نہیں کہ میں ان کے لشکر میں ان کے ساتھ ایک سیاہ رات بھی نہ رہوں۔ حماد نے کہا: یہ (کہا: ) یا اس کے ہم معنی ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر: 4063،چشتی)
اس راویت پر بات کرنے سے پہلے یہ مسئلہ سمھجیں کہ زیورات یا سونے اور چاندی کے برتن سونے یانقدرقم کے بدلے فروخت ’’بیع صر ف کہلاتی ہے‘‘جس کے شرعاً جائزہونے کے لیے دو ضرروی شرطیں ہیں ایک یہ کہ معاملہ دونوں جانب سے نقدہو۔ایک ہاتھ سے سونے کے زیوارت یا برتن دیئے جائیں اوردوسرے ہاتھ سے سونایارقم لی جائے کسی بھی ایک طرف سے ادھارکی صورت میں یہ معاملہ ناجائزہوگا۔ دوسری شرط یہ کہ ایک جنس کا جب تبادلہ ہو رہا ہو یعنی سونے کی سونے سے تجارت ہو رہی ہو تو بیع اس وقت جائز ہوگا جب طرفین کی طرف سے وزن برابری کی ساتھ دیا جائے ہاں اگر جنس تبدیل ہو تو کمی پیشی کی اجازت ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور کچھ دیگر صحابہ کا موقف یہ تھا کہ مذکورہ دو شرطیں نہ ہو یا ان میں سے ایک نہ ہو پھر بھی بیع جائز ہے کیونکہ منع والی احادیث ان تک نہیں پہنچی تھیں جیساکہ مذکورہ حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ واضح موجود ہیں کہ : وَقَدْ شَهِدْنَا النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَلَمْ نَسْمَعْهُ نَهَى عَنْهُ
کہ ھم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں لیکن ھم نےآپ سے اس بات سے منع نہیں سنی ۔
محترم قارئینِ کرام : اسلام نے یہ قانون وضع کیا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی مسئلہ کا علم نہیں تو اس مسئلہ پر اس کا مواخذہ نہیں کیا جاتا معزز احباب اگر اس طرح کی تنقید کرتے جائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہیں بچیں گے مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرمائیں : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَرَّقَ قَوْمًا، فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ۔ [صفحہ 62] ، وَلَقَتَلْتُهُمْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ۔
ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو ( جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خدا کہتی تھی ) جلادیا تھا ۔ جب یہ خبر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 3017،چشتی)
اب اگر کوئی ناصبی اٹھ کر کھڑا ہو جائے اور کہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حدیث کی مخالفت کی ہے تو آپ کیا کہیں گے ؟ ۔ ہم تو اس ناصبی کو منہ توڑ جواب دیں گے اور کہیں گے کہ ، اے گستاخ ! علی رضی اللہ عنہ کی گستاخی مت کر ، علی رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا تبھی انہوں نے ان مرتدین کو جلانے کا حکم دیا تھا ہمارا ایمان ہے کہ جان بوجھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کبھی نہیں کر سکتے۔ جبکہ جس مسئلہ کی وجہ سے معترض حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کر رہا ہے اس طرح کا فتوی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ اور ابن عمر عنہمم بھی دیتے تھے۔جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت بخاری شریف کے اندر موجود ہے ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّ أَبَا صَالِحٍ الزَّيَّاتَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ فَقُلْتُ لَهُ فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لَا يَقُولُهُ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ سَأَلْتُهُ فَقُلْتُ سَمِعْتَهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ كُلَّ ذَلِكَ لَا أَقُولُ وَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا رِبًا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ ۔
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں ابوصالح زیات نے خبر دی، اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم درہم کے بدلے میں (بیچا جا سکتا ہے جبکہ مسلم شریف کے الفاظ ہیں مثلا بمثل، من زاد أو ازداد فقد أربى،دونوں طرف سے برابر ہونے چاہییں جو زیادہ دیتا اور لیتا ہے وہ سود کا مرتکب ہوا) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس تو اس طرح نہیں کرتے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کامیں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی احادیث ) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ البتہ مجھے اسامہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا (مذکورہ صورتوں میں) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 2179،چشتی)
کیا آپ اہل بیت کے شہزادے ابن عباس رضی اللہ عنہم پر سود کا وہ فتوی لگا سکتے ہیں ؟ جوحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ نے لگایا ہے ؟ ۔ باقی رہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جس حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لیتے تھے وہ ان کا اجتہاد درست نہیں تھا اس حدیث کا مفہوم علماء نے اور بیان کیا ہے یا بعض نے اس روایت کو منسوخ کہا ہے ۔
ایک اور اعتراض : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گزارا ہے ہم نے تو یہ حدیث کبھی نہیں سنی۔روافض ان جملوں سے غلط مفہوم نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ پر الزام لگایا ہے ۔
جواب : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے استفسار کا مقصد قطعا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ پر الزام عائد کرنا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زندگی گزاری ہے لیکن ہم نے کبھی یہ بات نہیں سنی ان کا مقصد یہی تھا کہ ممکن ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کو سننے یا سمجھنے میں خطا لگی ہو اس لیے انہوں نے تثبت،اور اور یقینی معلومات کے لیے اپنا خیال رکھا۔لیکن جب حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تاکید کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے دوبارہ کوئی اعتراض نہیں کیا جو دلیل ہے کہ انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا تھا ورنہ آپ رضی اللہ عنہ صاحب اقتدار تھے رد کرنے کےلیے کوئی چیز مانع نہیں تھی ۔ اس طرح کا تو تثبت اور تحقیق کرنا دیگر صحابہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کی حدیث پیش کی گئی طلاق شدہ عورت کے خرچہ اور رہائش کے بارے میں تو حضرت عمر رضی اللہ علیہ نے تثبت اور تحقیق کے لیے اسکو رد کر دیا تھا کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ خیال آگیا کیا یہ ممکن ہے ہے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے معاملہ بھول گیا ہو یا غلط فہمی ہو گئی ہو ۔ (تفصیل صحیح مسلم : 3710) ۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہی خیال آگیا۔ ورنہ حضرت معاویہ رضی اللہ رسول صلی علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ بے حد محبت کرتے تھے اور پوری زندگی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق بسر فرمائی ؛ آپ کی سنت کے ساتھ محبت کی کئی مثالیں موجود ہیں ہم چند کا ذکر کرتے ہیں : ⬇
مثال نمبر 1 : عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ: اكْتُبْ إِلَيَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ، فَأَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ: ""لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ""، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ، أَنَّ وَرَّادًا، أَخْبَرَهُ بِهَذَا، ثُمَّ وَفَدْتُ بَعْدُ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَمِعْتُهُ يَأْمُرُ النَّاسَ بِذَلِكَ الْقَوْلِ ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ دعا لکھ کر بھیجو جو تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے بعد کرتے سنی ہے ۔ چنانچہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو لکھوایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے « لا إله الا الله، وحده لا شريك له، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اے اللہ! جو تو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے سامنے دولت والے کی دولت کچھ کام نہیں دے سکتی۔ اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے خبر دی ، پھر اس کے بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دے رہے تھے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 6615)
مثال نمبر 2 : عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَامِرٍ، فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِابْنِ عَامِرٍ: اجْلِسْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ ابن زبیر اور ابن عامر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، معاویہ نے ابن عامر سے کہا: بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے سامنے ( با ادب ، بطور تعظیم) کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے ۔ (سنن ابو داؤد : 5229)
مثال نمبر 3 : حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْفَيْضِ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ، وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلَادِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ غَزَاهُمْ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غَدَرَ، فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ مُعَاوِيَةُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَشُدُّ عُقْدَةً وَلَا يَحُلُّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَي سَوَاءٍ ، فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان ایک متعین وقت تک کے لیے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپس میں لڑائی نہیں کریں گے ، ( اس مدت میں ) معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے، یہاں تک کہ جب معاہدہ کی مدت گزر گئی، تو انہوں نے ان سے جنگ کی، ( یہاں پر شاید مقصد یہ ہے کہ ابھی معاھدہ پورا ہونے میں کچھ ٹائم تھا معاویہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے تاکہ جیسے ٹائم پورا ہو حملہ کر دیں ،جب معاملہ ہوا تو) ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، وہ کہہ رہا تھا : اللہ اکبر، اللہ اکبر، وعدہ کا پاس و لحاظ ہو بدعہدی نہ ہو لوگوں نے اس کو بغور دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا، اس نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو معاہدہ نہ توڑے اور نہ نیا معاہدہ کرے جب تک کہ اس معاہدہ کی مدت پوری نہ ہو جائے ، یا برابری پر عہد ان کی طرف واپس نہ کر دے ، تو یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ واپس آ گئے ۔ (ابوداؤد: 2759 ۔ ورواه أحمد والترمذي وقال حسن صحيح)
نوٹ : معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ لمبا سفر کرکے روم پہنچے لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سن کر واپس آگئے یہ تھا حدیث کا احترام ۔
مثال نمبر 4 : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ طَافَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بِالْبَيْتِ، فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ يَسْتَلِمُ الْأَرْكَانَ كُلَّهَا، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : لِمَ تَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا ؟ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْبَيْتِ مَهْجُورًا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ : صَدَقْتَ ۔
جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو حضرت معاویہ بیت اللہ کے چاروں کونوں کا استلام کر رہے تھے(انہیں چھو رہے تھے) حضرت عباس نے انہیں کہا آپ ان دو (یمنی) کونوں کا استلام کیوں کرتے ہیں ؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کونوں کا استلام نہیں کرتے تھے ، معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے لگےاس گھر کے کسی بھی ٹکڑے کو چھوڑنے کا دل نہیں کرتا ، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت تلاوت کی (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے ؛اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم نے بالکل سچ فرمایا ہے ۔ (روا ھذ السیاق الامام احمد : 1877)
مثال نمبر 5 : عمر بن مرہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ سے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے : جو بھی حاکم حاجت مندوں، محتاجوں اور مسکینوں کےلیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت، حاجت اور مسکنت کے لیے اپنے دروازے بند رکھتا ہے“، جب معاویہ رضی الله عنہ نے یہ سنا تو لوگوں کی ضرورت کے لیے ایک آدمی مقرر کر دیا ۔ (ترمذی:1332،چشتی)(ابوداؤد:2948)
وضاحت : معاویہ رضی اللہ عنہ مذکورہ حدیث سن کر اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے ایک بندہ مقرر فرماتے ہیں . یہ دلیل ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بے حد محبت کرتے تھے ۔
مثال نمبر 6 : حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِيُّ، وَابْنُ عَوْفٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ أَوْ كِدْتَ أَنْ تُفْسِدَهُمْ ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ كَلِمَةٌ سَمِعَهَا مُعَاوِيَةُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ نَفَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے، یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کر دو ٫ ابو الدرداء کہتے ہیں: یہ وہ کلمہ ہے جسے معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے اور اللہ نے انہیں اس سے فائدہ پہنچایا ہے ۔
وضاحت : اس حدیث میں موجود سید ابو درداء رضی اللہ عنہ کے فرمان کو بار بار پڑھیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حدیث پر بڑے جذبے کے ساتھ عمل کرتے تھے اور لوگوں کے عیبوں کو چھپاتے تھے اس بات کی گواہی حضرت ابو درداء نے بھی دی اور کہا کہ اللہ نے اس حدیث کے ذریعے حضرت معاویہ کو بڑا فائدہ پہنچایا ۔ (سنن ابوداؤد : 4888)
خلاصہ یہ ہے کہ جس چیز کو شیعہ لوگوں نے سود قرار دیا ہے وہ سود ہی نہیں محض سینہ زوری سے الزام کی بڑھ مار دی ہے ۔ اللہ عزوجل ہدایت عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment