Thursday, 5 October 2023

فضائل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحیح احادیث کی روشنی میں

فضائل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحیح احادیث کی روشنی میں










































محترم قارئینِ کرام : رافضی اور اُن کے چھوٹے بھاٸی نیم رافضی آۓ دن گمراہ کُن پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں کوٸی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ اِن گمراہوں کے جواب میں فقیر شتی نے ادنیٰ سے کوشش کی ہے آٸیں پڑھیں اور فیصلہ کریں گستاخیوں ، بے ادبیوں اور گستاخوں و بے ادبوں سے بچیں ۔ صحابی ابنِ صحابی حضرت امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ 6 ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا ۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرحبا فرمایا ۔ (طبقاتِ ابن سعد جلد 7 صفحہ 285)

حلیہ مبارکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے ، چہرہ نہایت وجیہ اور رعب و دبدبے والا تھا ۔ زرد خِضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے ۔ (تاریخ الاسلام للذھبی جلد  4 صفحہ 308)

معاویہ رات کے آخری پہر میں آسمان پر چمکنے والے ستارے کا نام ہے کہ جس کے طلوع ہونے پر کتے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں اور کتوں کی عادت ستاروں کو دیکھ کر بھونکنا ہے ۔ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 108)

حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کے بھائی حضرت جعفر طیار رضی ﷲ عنہ کے پوتے اور حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کے بھتیجے کا نام "معاويہ رضی للہ عنہ" تھا ۔ (طبقات ابن سعد جلد نمبر سوم حصّہ پنجم و ششم صفحہ نمبر 292 مترجم اردو مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی،چشتی)
خدا را بغض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں مبتلا لوگو معاویہ نام کو برا بھلا کہنے والو معاویہ نام کے غلط معنیٰ بتانے والو اور کچھ نہیں نسبت صحابیت کا تمہیں پاس نہیں تو نسبت اہلبیت رضی اللہ عنہم کا خیال کر لو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کے بھائی حضرت جعفر طیار رضی ﷲ عنہ کے پوتے اور حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کے بھتیجے کا نام "معاويہ" تھا اس نسبت کا ہی خیال کرو ۔
یاد رہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں یقیننا ستارے کو دیکھ کر کتے ہی بھونکتے ۔
تاریخ کی کتب اور شیعہ کی کتب کا مطالعہ کریں تو نام "معاويہ" صرف حضرت امیر معاويہ رضی ﷲ عنہ کا ہی نہیں بلکہ اور بھی کافی اشخاص خاص طور پر اہل بیت رضی اللہ عنہم میں بھی کافی لوگوں کا نام معاويہ تھا ۔ مگر افسوس کہ شیعہ حضرات اپنی کتب ہی نہیں پڑھتے توان بے چاروں کو کیا معلوم معاویہ نام کتنا مقدس و محترم ہے ۔ انہیں تو صرف طعن و تشنیع کرنا ہی آتا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم پر ۔ دونوں حوالوں کے اسکن پیش خدمت ہیں ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ، فقیہ اور امیر المومنین ہیں صحیح بخاری شریف

حدثنا الحسن بن بشر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا المعافى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عثمان بن الأسود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أوتر معاوية بعد العشاء بركعة وعنده مولى لابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأتى ابن عباس فقال دعه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم‏. ۔
ترجمہ : کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا ، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ، وہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا) اس پر انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت اٹھائی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی​ حدیث نمبر: 3764)

حدثنا ابن أبي مريم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا نافع بن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قيل لابن عباس هل لك في أمير المؤمنين معاوية،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإنه ما أوتر إلا بواحدة‏.‏ قال إنه فقيه‏ ۔
ترجمہ : ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی​ حدیث نمبر: 3765،چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دعا : ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﻳﺰ ﻋﻦ ﺭﺑﯿﻌﮧ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﻤﯿﺮﮦ، ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻨﺒﯽ ‏ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﺟﻌﻠﻪ ﻫﺎﺩﻳﺎ ﻣﻬﺪﻳﺎ ﻭﺍﻫﺪﻩ ﻭﺍﻫﺪﺑﻪ ۔
ترجمہ : ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﻻ ﺍﺳﮯ ‏( ﯾﻌﻨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ‏) ﮐﻮ ﮨﺎﺩﯼ ﻭ ﻣﮩﺪﯼ ﺑﻨﺎ ، ﺍﺳﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ۔ (ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻓﯽ ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 640/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 791/)

ﻣﺴﺘﺠﺎﺏ ﺍﻟﺪﻋﻮﺍﺕ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﻗﺎ ﻭ ﻣﻮﻟﯽ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﯿﺪ ﺍﻟﻤﺮﺳﻠﯿﻦ ﺟﻨﺎﺏ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺠﺘﺒﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﻤﺮﺗﺒﺖ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ، ﻓﻘﻬﺎ ، ﻣﺘﮑﻠﻤﯿﻦ ، ﻣﺆﺭﺧﯿﻦ ، ﻣﻔﺴﺮﯾﻦ ، ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﺑﺰﺭﮔﺎﻥ ﺩﯾﻦ ﻭ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ، ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ، ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺝ ﮐﯿﺎ ، ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺣﺼﻮﻝ ﺑﺮﮐﺖ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﮐﺴﯽ ﺭﺍﻓﻀﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺴﺎﺭﺕ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ : (ﺍﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 292/7 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3746/)(ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ، 426/29 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1789/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺧﺜﯿﻤﮧ، ﺍﻟﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 349/1)(ﺗﺮﻣﺬﯼ، ﺍﻟﺠﺎﻣﻊ ﺍﻟﺼﺤﯿﺢ، 687/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 3842/)(ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻋﺎﺻﻢ، ﺍﻵﺣﺎﺩ ﻭﺍﻟﻤﺜﺎﻧﯽ، 358/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1129/)(ﺍﺑﻦ ﺧﻼﻝ، ﺍﻟﺴﻨﺔ، 450/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 699_697/)(ﺑﻐﻮﯼ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 146/2)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﻌﺠﻢ ﺍﻷﻭﺳﻂ، 205/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 656/)(ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻣﯿﯿﻦ، 181/1 ﺍﻟﺮﻗﻢ 311/)(ﺁﺟﺮﯼ، ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﮧ، 2436/5 ﺍﻟﺮﻗﻢ 1915/، چشتی)(ﺷﯿﺦ ﺍﺻﺒﯿﮩﺎﻧﯽ، ﻃﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﯿﻦ، 343/3)(ﺩﻗﺎﻕ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ، 211/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 452/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺻﺒﮩﺎﻥ، 221/1915)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﺍﻟﺼﺤﺎﺑﮧ، 1836/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4634/)(ﺃﺑﻮ ﻧﻌﻴﻢ، ﺣﻠﯿﺔ ﺍﻻﻭﻟﯿﺎﺀ، 358/8)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ، _407 408/1)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، _405 406/1)(ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ، ﺗﺎﻟﯽ ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻤﺘﺸﺎﺑﮧ، 539/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 328/)(ﻗﺮﺷﯽ، ﺍﻟﺤﺠﺔ، 404/2 ﺍﻟﺮﻗﻢ 379،چشتی)(ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺩﻣﺸﻖ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺘﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ، _80 83/59)(ﺍﺑﻦ ﺧﺮﺍﻁ، ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﺍﻟﺸﺮﻋﻴﺔ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼ، 428/4)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻷﺻﻮﻝ، 107/9)(ﺍﺑﻦ ﺍﺛﯿﺮ، ﺍﺳﺪ ﺍﻟﻐﺎﺑﮧ، 155/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 4985/)(ﻧﻮﻭﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻻﺳﻤﺎﺀ ﻭﺍﻟﻠﻐﺎﺕ، 104/2)(ﺧﻄﯿﺐ ﺗﺒﺮﯾﺰﯼ، ﺍﻟﻤﺸﻜﺎﺓ ﺍﻟﻤﺼﺎﺑﯿﺢ، 1748/3 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﻣﺰﯼ، ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﻜﻤﺎﻝ، 327/17)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺳﯿﺮ ﺍﻋﻼﻡ ﺍﻟﻨﺒﻼﺀ، _125 126/3)(ﺫﻫﺒﯽ، ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺸﯿﻮﺥ ﺍﻟﮑﺒﯿﺮ، 155/1)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ، 301/4)(ﺫﻫﺒﯽ، ﺗﻠﺨﯿﺺ ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ ﻟﻼﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، 93/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 225/)(ﺻﻔﺪﯼ، ﺍﻟﻮﺍﻓﯽ ﺑﺎﻟﻮﻓﻴﺎﺕ، 124/18)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻤﺴﺎﻧﯿﺪ، 536/5)(ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ، ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﮧ ﻭﺍﻟﻨﮩﺎﯾﮧ، 129/8)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺇﺗﺤﺎﻑ ﺍﻟﻤﻬﺮﺓ، 625/10 ﺍﻟﺮﻗﻢ 13513/
ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻋﺴﻘﻼﻧﯽ، ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﻤﻌﺘﻠﯽ، 268/4 ﺍﻟﺮﻗﻢ 5869/)( ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻟﺨﻠﻔﺎﺀ، 152/)(ﺳﯿﻮﻃﯽ، ﺗﻄﮩﯿﺮ ﺍﻟﺠﻨﺎﻥ، 388/)(ﻻﻟﮑﺎﺉ، ﺷﺮﺡ ﺍﻷﺻﻮﻝ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺍﮨﻠﺴﻨﺔ، 1441/8 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6778/)(ﺍﺑﻦ ﺟﻮﺯﯼ، ﺍﻟﻌﻠﻞ ﺍﻟﻤﺘﻨﺎﮨﯿﮧ، 674/ ﺍﻟﺮﻗﻢ 446/)(ﺟﻮﺭﻗﺎﻧﯽ، ﺍﻷﺑﺎﻃﻴﻞ، 193/1)(ﺍﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻫﯿﺘﻤﯽ، ﺍﻟﺼﻮﺍﻋﻖ ﺍﻟﻤﺤﺮﻗﮧ، 310/)(ﮐﻨﺎﻧﯽ، ﺗﻨﺰﯾﮧ ﺍﻟﺸﺮﯾﻌﺔ ﺍﻟﻤﺮﻓﻮﻋﺔ، 8/2 ﺗﺤﺖ ﺍﻟﺮﻗﻢ 12/)(ﻋﺼﺎﻣﯽ، ﺳﻤﻂ ﺍﻟﻨﺠﻮﻡ، 155/3)(ﻃﯿﺒﯽ، ﺷﺮﺡ ﻋﻠﯽ ﻣﺸﮑﻮﺓ، 3948/12 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244،چشتی)0ﻣﻼ ﻋﻠﯽ ﻗﺎﺭﯼ، ﻣﺮﻗﺎﺓ ﺍﻟﻤﻔﺎﺗﯿﺢ، 4022/9 ﺍﻟﺮﻗﻢ 6244/)(ﭘﺮﮨﺎﺭﻭﯼ، ﺍﻟﻨﺎﻫﯿﺔ ﻋﻦ ﻃﻌﻦ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ﻣﻌﺎﻭﯾﺔ، 15/)(ﺣﻠﺒﯽ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﯿﻮﻥ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺳﯿﺮﺕ ﺣﻠﺒﯿﮧ، 136/3)( ﺷﺎﮦ ﻭﻟﯽ ﺍﻟﻠﮧ، ﺇﺯﺍﻟﺔ ﺍﻟﺨﻔﺎﺀ، _571 572/1)(ﻣﺠﺪﺩ ﺍﻟﻒ ﺛﺎﻧﯽ، ﻣﮑﺘﻮﺑﺎﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺑﺎﻧﯽ، ﺩﻓﺘﺮ 1/ ﺣﺼﮧ 4/ ﺟﻠﺪ 1/ ﺻﻔﺤﮧ 58/ ﻣﮑﺘﻮﺏ 215)

ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ نبی ﮐﺮیﻡ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻟیئے ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻮ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ﻟﻌﻦ ﻃﻌﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍن کو ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺭﻭﺵ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔاﻖ ﻭ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻏﻼﻇﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﮯ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﮯ ﺑﻬﭩﮏ ﻧﮧ ﺟﺎنا ۔

عجیب بات ہے آج کل شیعہ رافضیوں کی بنائی ہوئی من گھڑت پوسٹیں سنیوں کے لبادے ونسبتوں کے پیچھے چھپے رافضی ہماری پوسٹوں کے جواب میں کمنٹ کر رہے اور اپلوڈ کر رہے ہیں جن کا مدلّل جواب ہم دے چکے ہیں انہیں میں سے ایک پوسٹ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر کے کی گئی کہ وہ فرماتے ہیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے متعلق کوئی حدیث نہیں ہے آیئے اس جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی زبان و قلم مبارک سے پڑھیئے :

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں : اے اللہ معاویہ کو کتاب کا علم سکھا ، عذاب سے بچا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 562 ، امام احمد بن حنبل علیہ الرّحمہ،چشتی)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ مزید لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں : اے اللہ معاویہ کو کتاب کا علم سکھا ، عذاب سے بچا ۔ (فضائل صحابہ اردو صفحہ 594 ، امام احمد بن حنبل علیہ الرّحمہ)

اے بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں مبتلا لوگو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو لے کر غلط مطلب بیان کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے والو یہ پڑھو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فضائل صحابہ میں فضائل سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا باب قائم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں لکھ رہے ہیں اگر کہیں شرم و حیاء غیرت باقی ہو تو اسے آواز دو اور گستاخیوں سے باز آجاؤ ۔
حدثني عمرو بن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا محمد بن جعفر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي التياح،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سمعت حمران بن أبان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معاوية ـ رضى الله عنه ـ قال إنكم لتصلون صلاة لقد صحبنا النبي صلى الله عليه وسلم فما رأيناه يصليها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولقد نهى عنهما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يعني الركعتين بعد العصر‏ ۔
ترجمہ : مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا ، انہوں نے حمران بن ابان سے سنا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم لوگ ایک خاص نماز پڑھتے ہو ، ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت میں رہے اور ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تو اس سے منع فرمایا تھا ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مراد عصر کے بعد دو رکعت نماز سے تھی ۔ (جسے اس زمانے میں بعض لوگ پڑھتے تھے) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی​ حدیث نمبر: 3766،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کاارشاد ہے کہ (اول جیش من أمتي یغزون البحر قد أو جبوا) میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین) کےلیے (جنت) واجب ہے ۔ (صحیح البخاری: ۲۹۲۴)
یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا ۔ (صحیح بخاری: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)
اور اس جہاد میں سیدنا معاویہ ضی اللہ عنہ شامل تھے ۔ (صحیح بخاری: ۲۷۹۹، ۲۸۰۰)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لیے تشریف لائے ہیں لہٰذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا : (اذھب فادع لي معاویۃ) وکان یکتب الوحي ۔ إلخجاؤاور معاویہ کو بُلا لاؤ، وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے ۔ إلخ ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۲۴۳/۲ و سندہ حسن)

حافظ ابن عساکر علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : خال المؤمنین و کاتب وحي رب العالمین ، أسلم یوم الفتح“ ۔ مومنوں کے ماموں اور رب العالمین کی وحی لکھنے والے ، آپ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ۔ (تاریخ دمشق ۳۸/۶۲)

جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا ، پھر ابن عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا : “أصاب إنہ فقیہ” انہوں نے صحیح کیا ہے ، وہ فقیہ ہیں ۔ (صحیح بخاری: ۳۷۶۵)

صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاویہ (رضی اللہ عنہ) کےلیے فرما یا : (اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً واھد بہ) اے اللہ ! اسے ہادی مہدی بنا دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (سنن الترمذی : ۳۸۴۲ وقال : ھٰذا حدیث حسن غریب” التاریخ الکبیر للبخاری: ۲۴۰/۵ ، طبقات ابن سعد ۴۸۷/۷ ، الآحادو المثانی لابن ابی عاصم ۳۵۸/۲ ح ۱۱۲۹، مسند احمد ۲۱۶/۴ ح ۱۷۸۹۵، وھو حدیث صحیح)

اُم علقمہ سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر اور بال مانگا ۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا ۔ (تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان)

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک وفد کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے پاس گئے تو انہوں (معاویہ) نے ان (مسور) کی ضرورت پوری کی پھر تخلیے میں بلا کر کہا : تمہارا حکمرانوں پر طعن کرنا کیا ہوا ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ چھوڑیں اور سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں ۔ معاویہ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! تمہیں اپنے بارے میں بتانا پڑے گا اور تم مجھ پر جو تنقید کرتے ہو ۔ مسور نے کہا : میں نے ان کی تمام قابلِ عیب باتیں (غلطیاں) انہیں بتا دیں ۔ معاویہ نے کہا : کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ہے ۔ اے مسور ! کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی ہے ، ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا ۔ یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو ؟ مسور نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہم دیکھتےہیں ۔ معاویہ نےکہا : ہم اپنے ہر گناہ کو اللہ کے سامنے تسلیم کرتے ہیں ۔ اے مسور ! کیا تمہارے ایسے گناہ ہیں جن کے بارے میں تمہیں یہ خوف ہے کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہو جاؤ گے ؟ مسور نےکہا : جی ہاں ! ۔ معاویہ نے کہا : کس بات نے تمہیں اپنے بارے میں بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے میں تم یہ امید نہیں رکھتے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم ! دو باتوں میں صرف ایک ہی بات کو اختیار کرتا ہوں ۔ اللہ اور غیر اللہ کے درمیان صرف اللہ کو ہی چنتا ہوں ۔ میں اس دین پر ہوں جس میں اللہ عمل قبول فرماتا ہے ، وہ نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سوائے اس کے کہ وہ جسے معاف کر دے۔ میں ہر نیکی کے بدلے یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے کئی گنا اجر عطا فرمائے گا ۔ میں ان عظیم امور کا سامنا کر رہا ہوں جنہیں میں اور تم دونوں گن نہیں سکتے ۔ میں نے اقامتِ صلوٰۃ کا نظام ،جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ایسے بھی کام ہیں اگر میں انہیں تمہیں بتادوں تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے ، اس بارے میں فکر کرو ۔ مسور فرماتے ہیں کہ میں جا ن گیا کہ معاویہ مجھ پر اس گفتگو میں غالب ہو گئے ۔ عروہ بن الزبیر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا گیا کہ مسور (رضی اللہ عنہ) نے معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی کبھی مذمت کی ہو۔ وہ تو ان کے لیے دعائے مغفرت ہی کیا کرتے تھے ۔ (تاریخ بغداد ج ۱ص ۲۰۸، ۲۰۹ ت ۴۹ و سندہ صحیح،چشتی)

امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے “قاسم بن محمد  قال قال معاویۃ بن أبي سفیان رضی اللہ عنہم” کی سند سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں آیا ہے کہ قاسم بن محمد (بن ابی بکر) نے فرمایا : “فتعجب الناس من صدق معاویۃ“ ۔ پس لوگوں کو معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی سچائی پر بڑا تعجب ہوا ۔ (تاریخ دمشق ۱۱۵/۶۲ و سندہ حسن)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے نزدیک سچے تھے ۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : “ما رأیت رجلاً کان أخلق یعني للملک من معاویۃ” ۔ میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کےلیے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا ۔ (تاریخ دمشق ۱۲۱/۶۲ و سندہ صحیح،چشتی)(مصنف عبدالرزاق ۴۵۳/۱۱ ح ۲۰۹۸۵)

عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللھم علّم معاویۃ الکتاب و الحساب ، وقہ العذاب ۔ اےمیرے اللہ ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا ۔(مسند احمد ۱۲۷/۴ ح ۱۷۱۵۲، و سندہ حسن ، صحیح ابن خزیمہ : ۱۹۳۸)
(حارث بن زیاد و یونس بن سیف صدوقان لا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن و الجرح فیہما مردود)

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ ۔ (مناقب احمد لابن الجوزی صفحہ ۱۶۰ و سندہ صحیح، تاریخ دمشق ۱۴۴/۶۲)

امام معافی بن عمران الموصلی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۸۵؁ھ) سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ کسی کو بھی برابر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ، ام المؤمنین ام حبیبہؓ کے بھائی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب اور اللہ کی وحی (لکھنے) کے امین ہیں ۔ (تاریخ بغداد ۲۰۹/۱ و سندہ صحیح ، الحدیث: ۱۹ ص ۵۷،چشتی)(تاریخ دمشق: ۱۴۳/۶۲)

امام احمد بن حنبل علیہ ارحمہ نے فرمایا :“من تنقص أحداً من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فلا ینطوی إلا علیٰ بلیۃ، ولہ خبیئۃ سوء إذا قصد إلیٰ خیر الناس وھم أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم” ۔ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص کرے تو وہ اپنے اندر مصیبت چھپائے ہوئے ہے ۔ اس کے دل میں برائی ہے جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ پر حملہ کرتا ہے حالانکہ وہ (انبیاء کرام علیہ السلام کے بعد) لوگوں میں سب سے بہترین تھے ۔ (السنۃ للخلال ۴۷۷/۲ ح ۷۵۸ وقال المحقق: إسنادہ صحیح،چشتی)

ابراہیم بن میسرہ الطائفی علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو گالیاں دی تھیں ، انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے ۔ (تاریخ دمشق ۱۴۵/۶۲ و سندہ صحیح،چشتی)

مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) حدیثیں موجود ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۶۲/۳)

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جریر بن عبداللہ البجلی ، السائب بن یزید الکندی ، عبداللہ بن عباس، معاویہ بن حدیج اور ابوسعید الخدری وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینابو الشعثاء جابر بن زید، حسن بصری، سعید بن المسیب ، سعید المقبری، عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین، محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بابن الحنفیہ، ہمام بن منبہ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ تابعین رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے ۔ (تہذیب الکمال ۲۰۲،۲۰۱/۱۸)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں ۔ آپ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی ۔ (معجم کبیر جلد 5 صفحہ 108 حدیث نمبر 4748)

دعائے مصطفے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کئی بار نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم و حِلم کی یوں دعا دی : اے اللہ معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے ۔ (تاریخ کبیر جلد 8 صفحہ 68 حدیث نمبر 2624)

کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا : یااللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا ، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کےلیے ذریعۂ ہدایت بنا ۔ (ترمذی جلد 5 صفحہ 455 حدیث نمبر 3868)

کبھی نوازشوں کی بارش کو یوں برسایا : اے اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا عِلم عطا فرما اور اس سے عذاب کو دور فرما ۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 85 حدیث نمبر 17152)

کبھی خاص مجلس میں ان کی عظمت پر یوں مہر لگائی : معاویہ کو بلاؤ اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھو ، وہ قَوی اور امین ہیں ۔ (مسند بزار جلد 8 صفحہ 433 حدیث نمبر 3507)

کبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی : معاویہ اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا ۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 32 حدیث: 16931)

اوصافِ مبارکہ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔ بُردباری ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہسے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو ۔ (حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، صفحہ 22)

اصلاحِ نفس کا جذبہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے کام کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لیے نصیحت ہو ۔ (ترمذی،ج4،ص186، حدیث: 2422)

حضرت امیرُ المؤمنین حضرت مولا علیُّ رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا : معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل) ۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔(مصنف ابن ابی شیبہ،ج 8،ص724، رقم: 18)

شیرِ خدا سے مَحبّت حضرت سیّدُنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت ضرار رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میرے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ الْکریم کے اوصاف بیان کریں ۔ جب حضرت ضرار رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف بیان کیے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی ، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے ۔ (حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ 126)

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی خدمت حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے : فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا ۔ (کشف المحجوب صفحہ 77)

کعبہ میں نماز جب آپ رضی اللہ عنہ مکۂ مُکرّمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ میں کس جگہ نماز پڑھی تھی ؟ انہوں نے کہا : دیوار سے دو یا تین ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لیجیے ۔ (اخبارِ مکۃ للازرقی جلد 1 صفحہ 378،چشتی)

موئے مبارک کا دھووَن پیا ایک بار آپ رضی اللہ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں ، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں ، حضرت عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حصولِ بَرَکت کےلیے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا ۔ (تاریخ ابنِ عساکر،ج 59،ص153)

وصالِ مبارک آپ رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف ، ردائے اقدس ، قمیصِ اطہر ، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے ، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا ، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 59،ص229تا231)

کاتبِ وحی ، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 22رجب المرجب 60ھ میں 78سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا ۔ (معجم کبیر جلد 19 صفحہ 305 رقم: 679)(استیعاب جلد 3 صفحہ472)

حضرت ضَحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا ۔ (الثقات لابن حبان،ج1،ص436)

بدگوئی سے توبہ شمسُ الائمہ امام سَرْخَسی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات:483ھ) نے مبسوط میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ پہلے پہل امامِ جلیل محمد بن فضل الکماری رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات : 381ھ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بدگوئی اور عیب جوئی میں مبتلا ہوگئے تھے پھر ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے منہ سے لمبے لمبے بال نکل کر پاؤں تک لٹک گئے ہیں اور وہ ان بالوں کو اپنے پاؤں میں روندتے چلے جارہے ہیں جبکہ زبان سے خون جاری ہے جس سے ان کو سخت تکلیف اور اذیت ہورہی ہے، بیدار ہونے کے بعد انہوں نے تعبیر بتانے والے سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا : آپ کِبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کی بدگوئی اور ان پر طعن کرتے ہیں ، اس فعل سے بچئے اور اجتناب کیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس سے فوراً تائب ہو گئے ۔ (المبسوط،جز:24 جلد 12 صفحہ 57،چشتی)

اہل سنت و جماعت کے نزدیک تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل (روایت میں سچے) ہیں ۔ (اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ۴۹۸/۲)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اجتہادی اختلافات اور جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں وہ معذور و ماجور ہیں اور ہمیں اس بارے میں مکمل سکوت کرنا چاہیے ۔ یا اللہ ہمار ے دلوں کو تمام صحابہ و اہلبییت رضی اللہ عنہم کی محبت سے بھر دے اور ان کی توہین و تنقیص سے بچا ۔ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...