میرا یہ قدم اللہ تعالیٰ کے ہر ولی کی گردن پر ہے حصّہ دوم
قطب الاقطاب ، فرد الافراد ، قطب ربانی ، محبوب سبحانی ، غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی اپنے فضائل و مناقب اور کمالات کی بنا پر جماعت اولیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے ، غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ تمام اولیاے متقدمین و متاخرین سے افضل و اعلیٰ واکمل ہیں ۔
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ⬇
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
تمام اولیاے کرام علیہم الرحمہ خواہ آپ کے قبل کے ہوں یا آپ کے ہم عصر یا آپ کے عہد مبارک کے بعد کے ہوں گے سب آپ کے مداح اور آپ کی نظر کرم کے امیدوار ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جب بحکم خداوندی غوثیت کبریٰ کا اظہار فرمایا ” قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ” یعنی میرایہ قَدم ہروَلی کی گردن پرہے ۔ تو دربارِ خداوندی اور بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض کرم اور رحمت و نور کی بارش کا جو عالم تھا اس کے متعلق اس عہد کے مشہور بزرگ امام ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب حضرت سید شیخ عبد القادر نے فرمایا میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے تو اس وقت اللہ عزوجل نے ان کے قلب مبارک پر تجلی فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ مقربین کے ایک گروہ کے ہاتھ ان کےلیے خلعت بھیجی اور تمام اولیاے اولین و آخرین کا مجمع ہوا جو زندہ تھے وہ جسم کے ساتھ حاضر ہوئے اور جو دار فانی سے کوچ کر گئے تھے ان کی ارواح طیبہ آئیں اور ان سب کے سامنے وہ خلعت حضرت غوث اعظم کو پہنائی گئی ، ملائکہ اور رجال الغیب کا اس وقت اس قدر ہجوم تھا کہ فضا میں پرے( صفیں) باندھے کھڑے تھے ، تمام افق ان سے بھر گیا تھا اور روے زمین پر کوئی ایسا ولی نہ تھا جس نے گردن نہ جھکائی ہو ۔ (بہجۃ الاسرار مکمل حوالہ جات ہم سابقہ مضمون میں پیش کر چُکے ہیں)
” قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ” حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر بعض حضرات نے کہا کہ اس عموم میں اگلے پچھلے تمام اولیاے کرام علیہم الرحمہ شامل نہیں اس لیے کہ اگلے اولیا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہیں جن کی افضلیت سب پر مسلم ہے اور متاخرین میں سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ ہیں جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت ہے لہٰذا ارشاد مذکور کا مطلب یہ ہے کہ صرف زمانہ غوثیت کے ہر ولی کی گردن پر قدم غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے : ⬇
(1) تخصیص بلا ضرورت نہیں کی جاتی ، اور کی جاتی ہے تو بقدرِ ضرورت ۔
(2) عُرْفاً لفظ اولیا کا اطلاق غیر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم پر ہوتا ہے ، لہٰذا فرمان غوثیت "کل ولی اللہ” کے زیر اطلاق وہ نہیں آئیں گے کہ حاجت تخصیص ہو ۔
(3) کسی کی افضلیت دلیل سمعی سے ثابت ہوتی ہے ۔ سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تفضیل پر جب کوئی دلیل نہیں تو ان افضلیت کا دعویٰ بے جا ہے ۔
(4) محض بشارت آمد ، دلیل افضلیت نہیں ورنہ بشارت تو غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کےلیے بھی ہے ۔
(5) مفضل بشارت ہونی بھی افضلیت کی مقتضیٰ نہیں ، ورنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ان ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل ماننا پڑے گا جن کے متعلق کوئی تفصیلی بشارت مسموع نہیں ۔
(6) امام مہدی رضی اللہ عنہ کا خلیفة اللہ ہونا بھی ان کی افضلیت کا مقتضیٰ نہیں ۔ کیوں کہ یہ خلافتِ الٰہیہ براہ راست تو ہے نہیں ، بوسائط ہے ۔ یہ سرکار غوثیت کو بھی حاصل ہے ۔
(7) بر سبیل تنزل اگر مان لیا جائے کہ سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت ہے اور لفظ اولیا کا اطلاق صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کےلیے عام ہے ، اور اس بنا پر غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ میں تخصیص کی جائے ، تو صرف بقدرِ ضرورت تخصیص کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ سرکار غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد مذکور سے صحابہ و تابعین اور سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہم مستثنیٰ کیے جائیں گے ۔ نہ یہ کہ تخصیص کا دائرہ اتنا عام کر دیا جائے کہ تمام اولیاے متقدمین و متاخرین علیہم الرحمہ کو محیط ہو جائے اور حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان صرف ان کے اہلِ زمانہ کےلیے محدود کر دیا جائے ۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ ضرورت کے تقاضے پر اگر کہیں تخصیص کی جائے تو بس بقدرِ ضرورت اور اس سے زیادہ تجاوز ناروا ۔ (مقالات مصباحی صفحہ 206)
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ہمارے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ امام حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب اولیا اللہ کے سردار ہیں اور ان سب کی گردن پر ان کا قدم پاک ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 26)
بقسم کہتے ہیں شاہان صریفین و حریم
کہ ہوا ہے نہ ولی ہو کوئی ہمتا تیرا
فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۸ (کتاب الشتّٰی)
رسالہ فتاوٰی کرامات غوثیہ
مسئلہ اولٰی : از اوجین ریاست گوالیار مرسلہ جناب محمد یعقوب علی خاں صاحب ۱۷ربیع الآخر ۱۳۱۰ھ
مسئلہ ۱۲:کیافرماتے ہیں علمائے حق الیقین اورمفتیان پابند شرع متین اس مسئلہ میں کہ عبارت نظم "شام ازل اورصبح ابد"سے بیٹھ جانا براق کا وقت سواری آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ثابت ہے۔
"مقولۂ جبرئیل علیہ السلام"
نظم
مسند نشین عرش معلٰی یہی تو ہے
مفتاح قفل گنج فاوحٰی یہی تو ہے
مہتاب منزل شب اسرٰی یہی تو ہے
خورشید مشرق فتدلّٰی یہی تو ہے
ہمراز قرب ہمدم اوقاتِ خاصہ ہے
ہژدہ ہزار عالمِ رب کا خلاصہ ہے
سن کر یہ بات بیٹھ گیا وہ زمیں پر
تھامی رکاب طائرسدرہ نے دوڑکر
رونق افزائے دیں ہوئے سلطان بحروبر
کی عرض پھر براق نے یا سید البشر
محشرکو جب قدم سے گہر پوش کیجیے
اپنے غلام کو نہ فراموش کیجیے
خیرالورٰی نے دی اسے تسکیں کہا کہ ہاں
خوش خوش وہ سوئے مسجداقصٰی ہوا رواں
صاحبِ "تحفہ قادریہ" لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اتنا بڑا اور اونچا ہوگیا کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اور پاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ ترحکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح (خوشحال ) ہوتاہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اورولایت مطلق اورغوثیت برحق اورقطبیت اصطفاء اورمحبوبیت مجدوعلاسے آج مالا مال ہی کردیاجائے۔
چنانچہ صاحب "منازل اثنا عشریہ" "تحفہ قادریہ سے لکھتاہے کہ اس وقت سیدی ومولائی مرشدی وملجائی ، قطب الاکرم، غوث الاعظم، غیاث الدارین وغوث الثقلین، قرۃ العین مصطفوی نوردیدۂ مرتضوی ، حسنی حسینی سروحدیقہ مدنی، نورالحقیقت والیقین حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح پاک نے حاضرہوکر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اوراس طرح عرض کیا: (بیت)
برسرودیدہ ام بنہ اے مہ نازنین قد بودبسر نوشت من فیض قدم ازیں قدم
(اے نازنین میرے سر اورآنکھوں پرقدم رکھئے تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پر فیضان قدم ہو۔ت)
خواجہ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوئے اوراس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟عرض کیا : میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشئے گا توآپ کے دین کو زندہ کروں گا۔فرمایا : تو محی الدین ہے اورجس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے کل تیرا قدم کُل اولیاء کی گردن پر ہوگا۔
بیت قصیدہ غوثیہ : ⬇
وکل ولی لہ قدم وانی علٰی قدم النبی بدرالکمال۱
(ہرولی میرے قدم بقدم ہے اورمیں حضورسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرہوں جو آسمان کمال کے بدرکامل ہیں۔ت)
(۱فتوح الغیب علی ھامش بہجۃ الاسرارالقصیدۃ الغوثیۃ مصطفٰی البابی مصرص۲۳۱)
پس ان دونوں عبارت کتب سے کون سی عبارت متحقق ہے ؟ کس پر عمل کیا جائے ؟ یا دونوں ازروئے تحقیق کے درست ہیں ؟ بیان فرمائیے ۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ۔
الجواب : حضورپرنورسیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے وقت براق کا شوخی کرنا ، جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسے تنبیہ فرمانا کہ : اے براق! کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ یہ برتاؤ! واللہ !تجھ پرکوئی ایسا سوار نہ ہوا جو اللہ عزوجل کے حضوران سے زیادہ رتبہ رکھتا ہو ۔ اس پر براق کا شرمانا، پسینہ پسینہ ہوکر شوخی سے باز رہنا، پھر حضور پرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کا سوار ہونا، یہ مضمون تو ابوداود وترمذی ونسائی وابن حبان وطبرانی وبیہقی وغیرہم اکابر محدثین کی متعدد احادیث صحاح وحسان وصوالح سے ثابت ۔ کما بسط اکثرھا المولی الجلال السیوطی قدس سرہ فی خصائصہ الکبرٰی۱ وغیرہ من العلماء الکرام فی تصانیفھم الحسنٰی ۔
جیسا کہ اس میں سے اکثرکی تفصیل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "الخصائص الکبرٰی "میں اوردیگر علماء کرام نےاپی شاندار تصانیف میں فرمائی ہے ۔ (ت) ۔ (الخصائص الکبری باب خصوصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم بالاسراء حدیث ام سلمہ مرکز اہل سنت برکات رضا گجرات ہند ۱/۱۷۹)(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت۳/ ۴۱)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر الاسراء والمعراج دارابن کثیر بیروت الجزأین، الاول والثانی ص۳۹۸)
اوراس کا حیا کے سبب براہ تذلل وانقیادپست ہوکر لپٹ جانا بھی حدیث میں وارد ہے ۔
ففی روایۃ عند ابن اسحٰق رفعا الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال فارتعشت حتی لصقت بالارض فاستویت علیہا ۔
اورایک روایت میں ابن اسحٰق سے مرفوعًا مروی ہے کہ حضور پرنورصلوات اللہ وسلامہ علیہ فرماتے ہیں : جب جبریل نے اس سے کہا تو براق تھراگیا اورکانپ کر زمین سے چسپاں ہوگیا،پس مٰیں اس پر سوار ہوگیا۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہ وبارک وسلم ۔ (المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ / ۳۹)
اوریہ روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور،اس کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم میں مذکور ۔۔۔۔۔فاضل عبدالقادر قادری (عہ) بن شیخ محی الدین اربلی، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں : ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر،ونعل رجلہ کالھلال الباھر،ومسمارہ کالانجم الظواھر،ولم یأخذ ہ السکون والتمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، لم لم تسکن یابراق حتی ارکب علٰی ظھرک ، فقال روحی فداءً لتراب نعلک یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لاترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولک الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لک ماتمنیت ، فقال البراق التمس ان تضرب یدک المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ ونمٰی اربعین ذراعامن فرحہ وتوقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ ،فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمک علٰی رقبتی وارکب،فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ ورکب، فقال قدمی علٰی رقبتک وقدمک علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرالمنقبۃ الاولی سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل آباد ص۲۵ ،۲۴) ۔ نوٹ : زیر نظرنسخہ حضرت مولانا ابوالمنصورمحمد صادق قادری فاضل جامعہ رضویہ فیصل آبادکے ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا ہے) ۔
یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچک لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب روتھا،اوراس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اوراس کی کیلیں جیسے روشن تارے ۔ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کےلیے اسے قراروسکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاکِ نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوارہوکر جنت میں تشریف لے جائیں ۔ حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے فرمایا : ایسا ہی ہوگا ۔ براق نے عرض کی: میں چاہتاہوں حضور میری گردن پر دست مبارک لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت وشادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اورطرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضورپُرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک حکمت نہانی ازلی کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاک میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارک پر قدم اقدس رکھ کر سوارہوئے اورارشاد فرمایا : "میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر۔"
عہ : حضرت علامہ عبدالقادرقادری بن محی الدین الصدیقی الاربلی رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم شریعت وحقیقت تھے ۔ علماء کرام اورصوفیہ عظام میں عمدہ مقام پایا ۔ آپ کے اساتذہ میں الشیخ عبدالرحمن الطالبانی جیسے اجلّہ فضلاء علیہم الرحمہ شامل ہیں ۔ اورفہ میں ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء میں وصال پایا ۔ آپ کی تصانیف میں سے مشہور کتابیں یہ ہیں : ⬇
۱۔ آداب المریدین ونجاۃ المسترشدین
۲۔تفریح الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر
۳۔ النفس الرحمانیۃ فی معرفۃ الحقیقۃ الانسانیہ
۴۔الدرالمکنون فی معرفۃ السرالمصون
۵۔ حدیقۃ الازھار فی الحکمۃ والاسرار
۶۔شرح الصلاۃ المختصرۃ للشیخ اکبر
۷۔ الدررالمعتبرۃ فی شرح الابیات الثمانیہ عشرہ
۸۔ شرح اللمعات للفخرالدین العراقی
۹۔القواعد الجمعیۃ فی الطریق الرفاعیۃ
۱۰۔ مجموعۃ الاشعارفی الرقائق والاثار
۱۱۔مرآۃ الشہودفی وحدۃ الوجود
۱۲۔مسک الختام فی معرفۃ الامام ، مختصرفی کراستہ
۱۳۔الالہامات الرحمانیہ فی مراتب الحقیقۃ الانسانیۃ
۱۴۔حجۃ الذاکرین وردالمنکرین ۔
۱۵۔الطریقۃ الرحمانیہ فی الرجوع والوصول الی الحضرۃ العلیۃ ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : ⬇
ا ۔ معجم المولفین،عمر رضاکحالہ ، الجزء الخامس ص۳۵۴
ب ۔ ہدیۃ العارفین ، اسماعیل باشاالبغدادی جلد اول ص۶۰۵
حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبِ معراج حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر قدم شریف رکھ کر براق پر سوار ہونا : اعلی حضرت امامِ اہلسنت رحمہ اللہ کا اس روایت سے متعلق موقف یہ ہے کہ یہ روایت اگرچہ حدیث میں مذکور نہیں ہے مگرمشائخ صوفیہ نے اسے ذکر کیا ہے اور بیان کیا کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے شبِ معراج حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کو اپنی گردن پر رکھا ۔ یہ بات عقلا و شرعا کسی طرح محال نہیں ۔ احادیثِ کریمہ سے ایسےاحوال کی تائید ہوتی ہے۔
ہم فتاوی رضویہ شریف جلد 28 کے رسالہ کراماتِ غوثیہ سے چیدہ چیدہ ابحاث یکجا کر کے پیش کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی تحقیقی ابحاث پر مشتمل ہے اور عام و خاص سب کےلیے مفید ہے۔
اعلی حضرت قدس سرہ ارقام فرماتے ہیں ، کتب احادیث وسِیَرمیں اس روایت کا نشان نہیں ۔
پھر اس روایت کی تخریج فرماتے ہوئے ارقام کرتے ہیں ،
فاضل عبدالقادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی، تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ میں لکھتے ہیں کہ،
جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں :
ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر،ونعل رجلہ کالھلال الباھر،ومسمارہ کالانجم الظواھر،ولم یأخذ ہ السکون والتمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، لم لم تسکن یابراق حتی ارکب علٰی ظھرک ، فقال روحی فداءً لتراب نعلک یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لاترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولک الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لک ماتمنیت ، فقال البراق التمس ان تضرب یدک المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ ونمٰی اربعین ذراعامن فرحہ وتوقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ ،فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمک علٰی رقبتی وارکب،فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ ورکب، فقال قدمی علٰی رقبتک وقدمک علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی۔ یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچک لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب روتھا،اوراس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اوراس کی کیلیں جیسے روشن تارے ۔ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے لئے اسے قراروسکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاکِ نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوارہوکر جنت میں تشریف لے جائیں ۔ حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے فرمایا : ایسا ہی ہوگا ۔ براق نے عرض کی: میں چاہتاہوں حضور میری گردن پر دست مبارک لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت وشادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اورطرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضورپُرنورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک حکمت نہانی ازلی کے باعث ایک لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاک میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارک پر قدم اقدس رکھ کر سوارہوئے اورارشاد فرمایا : "میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر۔ المنقبۃ الاولی۔ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ۔فیصل آباد۔صفحہ 24 ۔ 25)
اس کے بعد فاضل عبدالقادر اربلی فرماتے ہیں : فایاک یااخی ان تکون من المنکرین المتعجبین من حضور روحہ لیلۃ المعراج لانہ وقع من غیرہ فی تلک اللیلۃ کما ھو ثابت بالاحادیث الصحیحۃ کرؤیتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارواح الانبیاء فی السمٰوٰت وبلالا فی الجنۃ واویسا القرنی فی مقعدالصدق وامرأۃ ابی طلحۃ فی الجنۃ ، وسماعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خشخشۃ الغمیصاء بنت ملحان فی الجنۃ کما ذکرنا قبل ھذا ۔
یعنی اے برادر! بچ اور ڈر اس سے کہ کہیں تُو انکار کر بیٹھے اورشعب معراج حضورغوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حاضری پر تعجب کرے کہ یہ امر توصحیح حدیثوں میں اوروں کے لئے وارد ہواہے ، مثلاً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آسمانوں میں ارواح انبیاءعلیہم الصلوٰۃ والسلام کو ملاحظہ فرمایا، اورجنت میں بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھا اورمقعد صدق میں اویس قرنی اوربہشت میں زوجۂ ابوطلحہ کو اورجنت میں غمیصاء بنت ملحان کی پہچل سنی، جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کرچکے ہیں ۔
وذکرفی حرز العاشقین وغیرہ من الکتب ان نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقی لیلۃ المعراج سیدنا موسٰی علیہ السلام فقال موسٰی مرحبابالنبی الصالح والاخ الصالح انت قلت علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل، ارید ان یحضراحد من علماء امتک لیتکلم معی فاحضر النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روح الغزالی رحمہ اللہ تعالٰی الٰی موسٰی علیہ السلام (وساق القصۃ ثم قال)، وفی کتاب رفیق الطلاب لاجل العارفین الشیخ محمد الجشتی نقلا عن شیخ الشیوخ قال قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی رأیت رجالا من امتی فی لیلۃ المعراج ارانیھم اللہ تعالٰی (الخ ثم قال) وقال الشیخ نظام الدین الکنجوی کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راکبا علی البراق وغاشیتہ علی کتفی انتھی ۔
اور حرز العاشقین وغیرہ کتابوں میں کہ حضرت سیدنا موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست پر حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روح امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو حکم حاضری دیا ۔ روحِ امام نےحاضرہوکر موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کلام کیا۔ اورعارف اجل شیخ محمد چشتی نے کتاب رفیق الطلاب میں حضرت شیخ الشیوخ قدست اسرارہم سے نقل کیاکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے شب معراج کچھ لوگ اپنی امت کے ملاحظہ فرمائے اورشیخ نظام الدین گنجوی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے تھے: جب حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ رونق افروز پشت براق پر تھے اوربراق کا زین پوش میرے کندھے پرتھا۔(تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر۔ المنقبۃ الاولی۔ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ ۔فیصل آباد۔صفحہ 28 تا 25)
یعنی جب معراج میں اتنے لوگوں کی ارواح کا حاضر ہونااحادیث واقوال علماء واولیاء سے ثابت ہے تو روح اقدس حضور پرنورسید الاولیاء غوث الاصفیاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حاضری، کیا جائے تعجب وانکار ہے بلکہ ایسی حالت میں حاضرنہ ہونا ہی محل استعجاب ہے اک ذرا انصاف واندازہ قدرقادریت درکار ہے ۔
یہاں ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ جب ایسی کوئی روایت حدیث میں موجود نہیں تو محض مشائخ کرام کے اقوال کو بنیاد بناکر اس کی تشہیر کیوں کی جائے ؟؟
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس پر ایک دلیل ذکر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات اگرچہ احادیث کی کتب میں موجود نہیں مگر یہ لازم نہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہی نہ ہوا ہو۔۔ اس کے لئے صرف اتنی سند کافی ہے کہ مشائخ کرام نے اسے بیان کیا اور جب یہ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو تو اس کا کلیۃً انکاردرست نہیں ۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں : امام خاتمۃ المحدثین جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ الشریف نے "مناھل الصفاء فی تخریج احادیث الشفاء "میں اس روایت کی نسبت کہ امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضو رپُرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کے وصال اقدس کے بعد کلام طویل میں حضور کو ہرجملہ پر بکلمہ "بابی انت وامی یارسول اللہ"(یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ت) نداکرکے فضائل جلیلہ وخصائص جمیلہ بیان کئے ، تحریر فرمایا :
لم اجدہ فی شیئ من کتب الاثرلکن صاحب اقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفٰی بذلک سندا لمثلہ فانہ لیس ممایتعلق بالاحکام۔
یعنی میں نے یہ روایت کسی کتابِ حدیث میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اورامام ابن الحاج نے اپنی مدخل میں اسے ایک حدیث طویل کے ضمن میں ذکر کیا اورایسی روایت کو اسی قدر سند کفایت کرتی ہے کہ انہیں کچھ باب احکام سے تعلق نہیں انتہٰی۔
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں نقل کیا اور مقرر رکھا ۔ (نسیم الریاض بحوالہ مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء۔ الفصل السابع ۔برکات رضا ۔گجرات ۔ہند۔ جلد 01۔صفحہ 248)
رہ گئی یہ بات کہ کیا احادیث سے ایسے احوال کی تائید ہوتی ہے تو اس پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل ذکر کے واضح فرمایا کہ بلاشبہ اس طرح کے احوال و واقعات احادیث سے ثابت ہے تو اس روایت کا سرے سے انکار کردینا کہ ایسا واقعہ ہی نہ ہوا ، درست نہیں۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں ،
اصل کلمات بعض مشائخ میں مسطور ، اس میں عقلی وشرعی کوئی استحالہ نہیں، بلکہ احادیث واقوال اولیاء وعلماء میں متعددبندگان خدا کے لئے ایسا حضور روحانی وارد۔
(1،2) مسلم اپنی صحیح اورابوداود طیالسی مسند میں جابر بن عبداللہ انصٓاری اورعبد بن حمید بسند حسن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی ، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ودخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالواھذا بلال ثم دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ فقلت ماھذہ قالوا ھذہ الغمیصاء بنت ملحان۔ میں جب جنت میں داخل ہوا تو ایک پہچل سنی،میں نے پوچھا : یہ کیاہے؟ ملائکہ نے عرض کی: یہ بلال ہیں۔ پھر تشریف لے گیا، پہچل سنی، میں نےپوچھایہ کیاہے؟عرض کیا: غمیصاء بنت ملحان ، یعنی ام سلیم مادرِ انس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔(کنزالعمال بحوالہ عبد بن حمید عن انس والطیالسی عن جابر۔ حدیث #33161 ۔ موسسۃ الرسالہ بیروت۔ جلد 11۔ صفحہ 653)
(مسندابی داودالطیالسی عن جابر۔ حدیث # 1719 ۔ دارالمعرفۃ بیروت ۔ الجز ء السابع ۔ صفحہ 238)(صحیح مسلم ۔ کتاب الفضائل ۔ باب من فضائل ام سلیم الخ ۔ قدیمی کتب خانہ ۔ کراچی۔ جلد 02 ۔ صفحہ 292)
ان کا انتقال خلافت امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہوا کما ذکرہ الحافظ فی التقریب (جیسا کہ حافظ نے تقریب میں اس کو ذکر کیا ۔ت)
(تقریب التہذیب۔ ترجمہ8780 ۔ ام سلیم بنت ملحان ۔ دارالکتب العلمیہ۔ بیروت۔جلد 02۔صفحہ 688)
(3) امام احمدوابویعلٰی بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس اور
(4)طبرانی کبیر اورابن عدی کا مل بسندحسن ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روای، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
دخلت الجنۃ فسمعت فی جانبھا وجسافقلت یا جبرئیل ماھذا قال ھذا بلال المؤذن۔
میں شب معراج جنت میں تشریف لے گیا اس کے گوشہ میں ایک آواز نرم سنی ، پوچھا: اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ عرض کی : یہ بلال مؤذن ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ (کنزالعمال ۔ حدیث # 33162 ۔ 33163 ۔ مؤسسۃ الرسالہ۔ بیروت ۔ جلد 11۔ صفحہ 653)(الکامل لابن عدی ۔ترجمہ یحیٰی بن ابی حبۃ ابن جناب الکلبی۔ دارالفکر ۔بیروت۔ جلد 07 ۔ صفحہ 2670)
(5) امام احمد ومسلم ونسائی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہٗ علیہ فرماتے ہں : دخلت الجنۃ فسمعت خشفۃ بین یدی، فقلت ماھذہ الخشفۃ، فقیل الغمیصاء بنت ملحان۔ (میں بہشت میں رونق افروز ہوا ، اپنے آگے ایک کھٹکا سنا، پوچھا: اے جبریل!یہ کیا ہے ؟عرض کی گئی: غمیصاء بنت ملحان ۔ (صحیح مسلم ۔کتاب الفضائل ۔باب من ام سلیم الخ۔ قدیمی کتب خانہ ۔کراچی ۔ جلد 02 ۔ صفحہ 292)
سبحان اللہ! جب احادیث صحیحہ سے احیائے عالم شہادت کا حضور ثابت تو عالم ارواح سے بعض ارواح قدسیہ کا حضور کیا دور۔
بالجملہ روح مقد س کا شب معراج کوحاضر ہونا اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حضرت غوثیت کی گردن مبارک پر قدم اکرم رکھ کر براق یا عرش پر جلوہ فرمانا، اورسرکارابدقرارسے فرزند ارجمند کو اس خدمت کے صلہ میں یہ انعام عظیم عطاہونا ۔۔۔۔ ان میں کوئی امر نہ عقلاً اورشرعاً مہجور اورکلماتِ مشائخ میں مسطور وماثور،کتبِ حدیث میں ذکر معدوم ، نہ کہ عدم مذکور، نہ روایات مشائخ اس طریقہ سند ظاہری میں محصور، اورقدرت قادر وسیع وموفور، اورقدر قادری کی بلندی مشہور پھر ردوانکارکیا مقتضائے ادب وشعور۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں : رہا شب معراج میں روح پر فتوح حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حاضر ہوکر پائے اقدس حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نیچے گردن رکھنا، اوروقتِ رکوب براق یا صعودعرش زینہ بننا، شرعاً وعقلاً اس میں کوئی بھی استحالہ نہیں۔
سدرۃ المنتہٰی اگر منتہائے عروج ہے تو باعتبار اجسام نہ بنظرارواح۔ عروج روحانی ہزاروں اکابر اولیاء کو عرش بلکہ مافوق العرش تک ثابت وواقع ، جس کا انکار نہ کرے گا مگر علوم اولیاء کا منکر۔ بلکہ باوضو سونے والے کے لئے حدیث میں وارد کہ :
"اس کی روح عرش تک بلند کی جاتی ہے۔"
ایک مقام پر خاص اس روایت کی تائید ایک حدیث سے ذکر فرماتے ہیں کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے شبِ معراج بیت المعمور میں حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا فرمائی ، ملاحظہ فرمائیں ۔
اعلی حضرت ارقام کرتے ہیں ،
ثم اقول وباللہ التوفیق (پھر میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے)کیوں راہ دور سے مقصد قرب نشان دیجئے، فیض قادریت جوش پر ہے، بحر حدیث سے خاص گوہر مراد حاصل کیجئے۔ حدیث مرفوع مروی کتب مشہورہ ائمہ محدثین سے ثابت کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ مع اپنے تمام مریدین واصحاب وغلامان بارگاہ آسمان قباب کے شب اسرٰی اپنے مہربان باپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحضور اقدس کے ہمراہ بیت المعمور میں گئے حضور پرنورکےپیچھے نماز پڑھی، حضور کے ساتھ باہر تشریف لائے۔
والحمدللہ رب العٰلمین اب ناظر غیروسیع النظرمتعجبانہ پوچھے گاکہ یہ کیونکر؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ہم سے سنے۔
واللہ الموفق۔ ابن جریروابن ابی حاتم وابویعلٰی وابن مردویہ وبیہقی وابن عساکر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل معراج میں راوی، حضور اقدس سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ثم صعدت الی السماء السابعۃ فاذاانا بابراھیم الخلیل مسندا لظھرہ الی البیت المعمور(فذکرالحدیث الی ان قال) واذابامتی شطرین شطرعلیھم ثیاب بیض کانھاالقراطیس وشطرعلیھم ثیاب رمد فدخلت البیت المعمور ودخل معی الذین علیھم الثیاب البیض وحجب الاخرون الذین علیھم ثیاب رمد وھم علی خیر فصلیت انا ومن معی من المومنین فی البیت المعمورثم خرجت انا ومن معی (الحدیث)
پھر میں ساتویں آسمان پر تشریف لے گیا،ناگاہ وہاں ابراہیم خلیل اللہ ملے کہ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے تشریف فرماہیں اورناگاہ اپنی امت دوقسم پائی،ایک قسم کے سپید کپڑے ہیں کاغذکی طرح، اوردوسری قسم کا خاکستری لباس۔میں بیت المعمورکے اندر تشریف لے گیااورمیرے ساتھ سپیدپوش بھی گئے، میلے کپڑوں والے روکے گئے مگرہیں وہ بھی خیر وخوبی پر۔پھر میں نے اورمیرے ساتھ کے مسلمانوں نے بیت المعمورمیں نماز پڑھی ۔ پھر میں اورمیرے ساتھ والے باہر آئے ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ۔باب ذکر عروجہ الی السماء الخ ۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت۔ جلد 03 ۔ صفحہ 294،چشتی)(دلائل النبوۃ للبیہقی باب الدلیل علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عرج بہ الی السماء دارالکتب العلمیۃ ۔بیروت۔ جلد 02۔ صفحہ 393۔394)
ظاہر ہے کہ جب ساری امت مرحومہ بفضلہ عزوجل شریف باریاب سے مشرف ہوئی یہاں تک کہ میلےلباس والے بھی۔ تو حضور غوث الورٰی اورحضور کے منتسبان باصفا تو بلاشبہہ ان اجلی پوشاک والوں میں ہیں ، جنہوں نے حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بیت المعمورمیں جاکر نماز پڑھی، والحمدللہ رب العالمین۔
اب کہاں گئے وہ جاہلانہ استبعاد کہ آج کل کے کم علم مفتیوں کے سدراہ ہوئے، اور جب یہاں تک بحمداللہ ثابت تو معاملۂ قدم میں کیاوجہ انکارہے کہ قولِ مشائخ کو خواہی نخواہی رد کیاجائے۔
ہاں سند محدثانہ نہیں ۔۔۔۔۔پھر نہ ہو۔۔۔۔۔اس جگہ اسی قدربس ہے۔سند معنعن کی حاجت نہیں،
کما بیناہ فی رسالتنا "ھدی الحیران فی نفی الفئی عن سیدالاکوان " جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ"ہدی الحیران فی نفی الفیئی عن سیدالاکوان " میں اسے بیان کیا ہے ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس فتاویٰ پر امام اہلسنت کی تصدیق ہو گئی اب اس میں شکوک وشبہات کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لہٰذا جب امام اہلسنت نے فتاویٰ افریقہ میں فرمایا ہے تو درست ہی ہے، مزید قوت کیلئے فقیر آپ کو فتاویٰ رضویہ سے حوالہ دے رہا ہے وہاں پر آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں جس کتاب سے مذکورہ روایت کو نقل کیا گیا ہے اس عظیم ہستی (مصنف) کی بھی وضاحت آپ نے فرمائی ہے کہ کتنے قابل رہے ہیں، آپ فرماتے ہیں : اس پر براق کا شرمانا،پسینہ پسینہ ہوکر شوخی سے باز رہنا،پھر حضور پرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ کا سوار ہونا،یہ مضمون تو ابوداود وترمذی ونسائی وابن حبان وطبرانی وبیہقی وغیرہم اکابر محدثین کی متعدد احادیث صحاح وحسان وصوالح سے ثابت۔
*" کما بسط اکثرھاالمولی الجلال السیوطی قدس سرہ فی خصائصہ الکبرٰی وغیرہ من العلماء الکرام فی تصانیفھم الحسنٰی۔*
جیسا کہ اس میں سے اکثر کی تفصیل امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب *"الخصائص الکبرٰی "* میں اور دیگر علماء کرام نے اپنی شاندار تصانیف میں فرمائی ہے،
اوراس کا حیا کے سبب براہ تذلل وانقیادپست ہوکر لپٹ جانا بھی حدیث میں وارد ہے۔
*" ففی روایۃ عند ابن اسحٰق رفعا الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال فارتعشت حتی لصقت بالارض فاستویت علیہا "*
اور ایك روایت میں ابن اسحٰق سے مرفوعًا مروی ہے کہ حضور پر نور صلوات اللہ و سلامہ علیہ فرماتے ہیں:جب جبریل نے اس سے کہا تو براق تھرّا گیا اور کانپ کر زمین سے چسپاں ہو گیا، پس مٰیں اس پر سوار ہوگیا۔صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ و صحبہ و بارك وسلم۔
اوریہ روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور،اس کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم میں مذکور۔۔۔۔۔ فاضل عبدالقادر قادری عــــــہ بن شیخ محی الدین اربلی،تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادررضی اللہ تعالٰی عنہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں : ان لیلۃ المعراج جاء جبرئیل علیہ السلام ببراق الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسرع من البرق الخاطف الظاھر، و نعل رجلہ کالھلال الباھر، و مسمارہ کالانجم الظواھر، ولم یأخذہ السکون و التمکین لیرکب علیہ النبی الامین، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، لم تسکن یا براق حتی ارکب علٰی ظھرک، فقال روحی فداءً لتراب نعلك یارسول اللہ اتمنی ان تعاھدنی ان لا ترکب یوم القٰیمۃ علٰی غیر حین دخولك الجنۃ،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون لك ماتمنیت، فقال البراق التمس ان تضرب یدك المبارکۃ علٰی رقبتی لیکون علامۃ لی یوم القٰیمۃ، فضرب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یدہ علٰی رقبۃ البراق، ففرح البراق فرحا حتی لم یسع جسدہ روحہ و نمٰی اربعین ذراعا من فرحہ و توقف فی رکوبہ لحظۃ لحکمۃ خفیۃ ازلیۃ، فظھرت روح الغوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وقال یا سیدی ضع قدمك علٰی رقبتی و ارکب، فوضع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدمہ علٰی رقبتہ و رکب، فقال قدمی علٰی رقبتك و قدمك علٰی رقبۃ کل اولیاء اللہ تعالٰی انتہٰی۔*
یعنی شب معراج جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والسلام خدمت اقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں براق حاضر لائے کہ چمکتی اُچك لے جانیوالی بجلی سے زیادہ شتاب رو تھا، اور اس کے پاؤں کا نعل آنکھوں میں چکا جوند ڈالنے والا ہلال اور اس کی کیلیں جیسے روشن تارے۔حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سواری کے لئے اسے قرار و سکون نہ ہوا، سیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے سبب پوچھا: بولا: میری جان حضور کی خاك نعل پر قربان، میری آرزو یہ ہے کہ حضور مجھ سے وعدہ فرمالیں کہ روز قیامت مجھی پر سوار ہوکر جنت میں تشریف لے جائیں۔حضور معلّٰی صلوات اللہ تعالٰی و سلامہ علیہ نے فرمایا: ایسا ہی ہوگا۔براق نے عرض کی: میں چاہتا ہوں حضور میری گردن پر دست مبارك لگادیں کہ وہ روز قیامت میرے لیے علامت ہو۔حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔دست اقدس لگتے ہی براق کو وہ فرحت و شادمانی ہوئی کہ روح اس مقدار جسم میں نہ سمائی اور طرب سے پھول کر چالیس ہاتھ اونچا ہوگیا۔حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایك حکمت نہانی ازلی کے باعث ایك لحظہ سواری میں توقف ہوا کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مطہر نے حاضر ہوکر عرض کی : اے میرے آقا ! حضور اپنا قدم پاك میری گردن پر رکھ کر سوار ہوں۔سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گردن مبارك پر قدم اقدس رکھ کر سوار ہوئے اور ارشاد فرمایا : میرا قدم تیری گردن پر اور تیرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردنوں پر ۔ (تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادرالمنقبۃ الاولی صفحہ ۲۴ / ٢٥ سنی دارالاشاعت علویہ رضویہ فیصل آباد)(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد (۲۸) ص (۴۰۵/۴٠٧) مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛ شب معراج میں حضور غوث اعظم رضی الله تعالی عنہ کی روح پاک حاضر ہوئی اور اپنا کندھا پیش کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے کاندھے پر قدم رکھا اور براق سے عرش پر تشریف لے گئے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا میرا قدم تیری گردن پر اور تمہارا قدم سارے اولیاء الله کی گردن پر ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۱۲) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment