Wednesday, 25 October 2023

فقہ اور اسلامی فقہ کے بنیادی ماخذ حصّہ اوّل

فقہ اور اسلامی فقہ کے بنیادی ماخذ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : فقہ کا لغوی معنی ہے : کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا ۔ (ابن منظور، لسان العرب جلد 13 صفحہ 522)

قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے : ⬇

قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ ۔
ترجمہ : وہ بولے : اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ (سورہ هود آیت نبر 91)

قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ۔
ترجمہ : آپ فرما دیں (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 78)

فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ۔
ترجمہ : تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتے ۔
(سورہ المنافقون آیت نمبر 3)

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب العلم باب من يرد اللہ به خيرا يفقهه فی الدين جلد 1 صفحہ 39، رقم : 71،چشتی)(مسلم، الصحيح کتاب الزکاة باب النهی عن المسألة جلد 2 صفحہ 718 ، رقم : 1037)

اسی لیے شرعی اصطلاح میں فقہ کا لفظ علمِ دین کا فہم حاصل کرنے کےلیے مخصوص ہے ۔ (ابن منظور لسان العرب جلد 13 صفحہ 522)

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الفقه : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها . ترجمہ : فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے ۔ (الزرکشی المنثور جلد 1 صفحہ 68)

بالعموم فقہاء کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية ۔
ترجمہ : (فقہ) شریعت کے وہ فروعی احکام جاننے کا نام ہے جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں ۔

مندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو جیسے نماز کی فرضیت کا علم اَقِيْمُو الصَّلٰوۃ کے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علم اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعے حاصل ہوا ۔

اسلامی فقہ کے بنیادی ماخذ : ⬇

ماخذ کا معنی حاصل کرنے اور پانے کی جگہ یا ذریعہ ہے۔ اسلامی فقہ کے چار بنیادی ذرائع ہیں جہاں سے کوئی فقیہ یا مجتہد مسائل شرعیہ کو اخذ کرتا ہے ان کی ترتیب یہ ہے : (1) قرآن حکیم ۔ (2) سنت ۔ (3) اجماع ۔ (4) قیاس ۔

(1) قرآن حکیم : فقہ اسلامی کا سب سے پہلا ماخذ اور دلیل قرآن حکیم ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے ۔ قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کرنا دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ یہ ایک مکمل اور جامع کتابِ ہدایت ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کےلیے رہنمائی عطا کی گئی ہے ۔ ایک مجتہد یا فَقِیہہ کےلیے ضروری ہے کہ وہ تمام مسائل کو قرآن حکیم کے بیان کردہ بنیادی اصولوں کے ذریعے حل کرے ۔ فقہ کا سب سے پہلا ماخذ قرآن پاک ہے ،جس کے حجت ہونے میں کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا تو جو چیز اس سے ثابت ہو اس میں شک کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اگر کوئی آدمی قرآن پاک میں شک کرے گا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کافرمان ہے ’’ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ ۔
ترجمہ : وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں ، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو ۔

قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے : ⬇

قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کی ؛ چونکہ یہ سلسلہ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے ؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا ۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کر دیے جائیں ۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں ؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے ۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کر دی ہوں ؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایا گیا ۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کر دی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کر دیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی ، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہو جاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہو کر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہو جاتیں ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، صفحہ نمبر 61،چشتی)

مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کےلیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہو گا ؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہو گا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہو گی ؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہر جزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا ؛ بلکہ اصول متعین کر دیے ۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا ۔

فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے ۔ ذیل میں علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے : جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے ۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیا تھا ۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا ۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو ؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں ۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا ۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہو گئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہو گئے ۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی ؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا ۔ (نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف صفحہ نمبر 18،چشتی)

بہر حال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنا فقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کر کے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔ یہ سات اصول ہیں : (1) عدم حرج (2) قلت تکلیف (3) تدریج (4) نسخ (5) شانِ نزول (6) حکمت و علت (6) عرب کی معاشرتی حالت ۔

اگر عمومی طور پر قرآنِ کریم کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امتِ مسلمہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے : ⬇

(1) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو ۔
(2) لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
(3) طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو ۔
(4) طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا ۔
(5) حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے ۔
(6) بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے ۔
(7) بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
(8) بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا ۔
احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا ، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا ۔
(9) تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی ۔
(10) نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی ۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔
(11) بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی ۔ (فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر صفحہ 92 ، 93،چشتی)

چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے ، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے ۔ احکامِ شرعیہ کا بنیادی مَاخَذ قرآن مجید ہے اور اس سے مراد وہ کلام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنازل کیا گیا ، مصاحف میں لکھا گیا اور بطریق تواتر نقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ۔ اصو ل فقہ میں قرآن پاک کی تقریبا پانچ سو آیات مبارکہ سے بحث کی جاتی ہے کیونکہ احکام شرعیہ کا تعلق انہی سے ہے یعنی ان ہی آیات سے احکام کا استنباط ہوتا ہے اور بقیہ جو آیات مبارکہ ہیں وہ قَصَصِ اُمَمِ سابقہ (گذشتہ اُمتوں کے واقعات) اور تبشیر و تنذیر پر مشتمل ہیں ۔ حلال و حرام کے احکام کو قرآنی دلائل سے جاننا قرآن کے الفاظ کی اقسام کو جاننے پر موقوف ہے ۔ اس لیے فقہی مسائل پر بحث کےلیے قرآنی الفاظ کی اقسام کو جاننا ضروری ہے فقہی مسائل پر بحث ہر شخص کا کام نہیں ہے ۔

(2) سنت : قرآنِ حکیم کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ سنت ہے ۔ اس کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) ، فعل (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا) اور ہر اس کام پر ہوتا ہے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی ۔ اس لحاظ سے سنت کی تین اقسام بنتی ہیں : (1) سنت قولی ۔ (2) سنت فعلی ۔ (3) سنت تقریری ۔

فقہ کا دوسرا ماخذ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کو خود قرآن پاک نے حجت قرار دیا ہے ، اور متعدد آیات اس پرشاہد ہیں ۔ اس کی حجیت قرآن کریم سے ثابت ہے : و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا ۔ (سور ہ حشر آیت نمبر ۷)

حدیث شریف میں قطعی الثبوت اور ظنی الثبوت دونوں موجود ہیں ۔ ثبوت عقیدہ کےلیے قطعی الثبوت ہونا اور وجوب عمل کےلیے ظنی الثبوت اور رجحان ظن ہونا بھی کافی ہے ۔ دو گواہوں سے قاضی کا فیصلہ ، استقبالِ قبلہ میں تحری سے نماز پڑھنا یہ سب رجحان ظنی ہی سے ہے ۔ شریعت کے ہر حکم و مسئلہ میں قطعی الثبوت کا التزام ایک حرج ہے اور شریعت میں حرج نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : و ماجعل علیکم فی الدین من حرج ۔ (سورہ حج آیت نمبر ۷۸)

بہر حال حدیث شریف کا انکار قرآن مجید کا انکار ہے ۔

سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہ عمل کے ہیں ۔ اصطلاح میں سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال ، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں ، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے : اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِہِمْ ۔ (نور الانوار)
ترجمہ : سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے ۔

صاحبِ کشف الاسرار لکھتے ہیں : سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و صحابہ رضی اللہ عنہم کو شامل ہے ۔ (کشف الاسرار، صفحہ 359،چشتی)

ڈاکٹر محمود احمدغازی صاحب لکھتے ہیں : ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے ، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے ۔ (محاضراتِ فقہ، صفحہ نمبر 20)

(1) فرمانِ باری تعالیٰ ہے : وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ ، اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحیٰ ۔ وہ نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا اس کی ہربات ایک وحی ہوتی ہے جو وحی کی جاتی ہے ۔
(2) ’’وَمَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘ ۔ اورنبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) تمہیں جو چیز دیں اس کو لے لو اورتمہیں جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ۔
(3) ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْْلَ فَقَدْاَطَاعَ اللّٰہَ‘‘ ۔ جس نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ ()عز وجل) کی اطاعت کی ۔
(4) یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ ‘‘اے ایمان والو اللہ (عز وجل) کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی اطاعت کرو ۔
(5) وَاَنْزَلْنَااِلَیْکَ الذِّکْرَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ‘‘ ۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف اس قرآن کو اتارا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) لوگوں کے لیئے اس کی وضاحت کریں ۔
(6) اِنَّااَنْزَلْنَااِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ‘‘ ۔ بے شک ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی طرف کتاب کو اتارا سچائی کے ساتھ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان ۔
(7) فَلَاوَرَبِّکَ لَایُوؤمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَبَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْافِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجاًمِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً‘‘ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے رب کی قسم وہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو فیصل اور حکم تسلیم نہ کرلیں اپنے جھگڑوں میں پھروہ اپنے نفسوں میں کوئی کجی نہ پائیں آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے فیصلہ کے بارے میں اور وہ اپنے آپ کو سپردنہ کردیں سپردکرنا ۔
(8) ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُوؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ ‘‘ ۔ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) زیادہ قریب ہیں مومنوں کے ان کی جانوں سے ۔
ان آیات مبارکہ میں حدیث پر عمل کرنے کولازمی قراردیا گیا ہے ،اورخود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی اپنے فرامین میں سنت کو لازم پکڑنے کی تاکید فرمائی ہے : ⬇

(1) عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ‘‘ ۔ میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے کو لازم پکڑو اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہ کے طریقے کو لازم پکڑو ۔
(2) فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَِ منِّیْ‘‘ ۔ جس نے میرے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) طریقے سے اعراض کیا وہ میری جماعت سے نہیں ہے ۔
(3) لَایُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعاًلِّمَاجِءْتُ بِہٖ ‘‘ ۔ کوئی آدمی تم میں سے اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جس کو میں لے کر آیا ہوں ۔
(4) اذاامرتکم بشئ من دینکم فخذوہ‘‘ ۔ جب میں تمہیں تمہارے دین میں سے کسی چیز کے بارے میں حکم دوں تواس کو لے لیاکرو ۔

یہ چند نمونے ہیں قرآن وحدیث کے جن سے سنت کا حجیت ہونا معلوم ہوتا ہے ۔

جس طرح یہ زمانہ ظاہری دورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دور ہوتا جا رہا ہے اسی طرح فتنوں کا ظہور بھی اسی تیزی سے ہو رہا ہے ، ایک نیا فرقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جنہوں نے سنت اور حجیتِ حدیث کا انکار کیا ، اور انہوں نے کہا کہ ہدایت کےلیے رب کا قرآن ہی کافی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف قرآن پاک کوہی مانتے ہیں ، جو شخص حدیث کو چھوڑ کر یہ کہے کہ میں تو بس قرآن کو ہی مانتا ہوں وہ اپنے دعویٰ میں ہرگز سچا ثابت نہیں ہو سکتا ہے ، قرآن پاک تو کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات حجت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو حکم فرمائیں اس کو لے لو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت ہی اللہ عز و جل کی اطاعت ہے ، وہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فیصل نہ مان لیں ، تو قرآن پاک میں تو حدیث اور سنت کو ماننے کا بار بار حکم دیا گیا ہے تو جو شخص حدیث اور سنت کو نہیں مانتا وہ در حقیقت قرآن پاک کو ہی نہیں مانتا ، لہٰذا وہ اپنے اس دعوے میں بھی جھوٹا ہے کہ میں قرآن پاک کو مانتا ہوں ۔ جس طرح سنت ایک دلیل ہے اور اس سے احکام ثابت ہوتے ہیں اسی طرح آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ایک دلیل ہے ، ان سے بھی احکام ثابت ہوتے ہیں اور یہ دلیل اسی دوسری دلیل سنت کا ہی حصہ ہے ۔

فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائلِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کو بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے ؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی ان معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے : (1) ناسخ و منسوخ (2) مجمل و مفسر (3) خاص وعام (4) محکم و متشابہہ (5) احکامات کے درجے اور مراتب (6) قرآن سے استدلال (7) درایت و روایتِ حدیث کا علم ۔

ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کےلیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500 کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے ، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے ؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے ۔ سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں : ⬇

(1) قرآنِ کریم نے نماز ، روزہ ، زکوٰة ، صدقات ، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے ؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال ٹیکسٹ کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہو سکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی ، رکعت ، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہو گی ؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں ۔

(2) قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْحَبَائِثَ ۔ (سورہ الاعراف آیت نمبر 157) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں ۔
اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کےلیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کر کے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہو گیا ۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کر کے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کر دی ۔

(3) سنت اگر موجود نہ ہو تو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہو سکتا ۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے ؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے ؟ عاکف کس کو کہتے ہیں ؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں ، جن کی تعبیر و تشریح کےلیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے ۔

(4) قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے ؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کےلیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے ۔

(5) قرآن کریم کا اصول ہے : لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 29)
یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو ؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے ؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیا جائے تو اس کی ممانعت کی گئی ۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے ؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہو گا اور کن کن صورتوں میں ہو گا ؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیا گیا ہے ، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو ؛ تاکہ فساد سے بچا جا سکے ۔ (اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے ۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی ؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے ۔

(6) قرآن حکیم میں ارشاد ہے : وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 23) ، یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے ؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہو سکتا ۔

ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کر دے تو یہ درست نہیں ؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اجازت دی ۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کر سکتا ہوں ۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں ؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اور فقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے ۔ اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے ؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...