حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ شہید کرے گا حصہ اول
محترم قارئینِ کرام : قرآن و سنت میں غور کیا جائے تو باغی دو طرح کے ہوتے ہیں : (1) اجتہادی باغی ۔ (2) دنیا دولت حکومت برے مقاصد بغض و عناد حسد وغیرہ کے لیے ہونے والے باغی ۔ اجتہادی باغی خاطی گناہ گار نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم والا باغی گناہ گار ہوتا ہے صحیح حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اولیاء علیہم الرّحمہ نے جو باغی کہا وہ بمعنی مجتہد باغی کہا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان باغیوں کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے بھائی کہا اور آئمہ اسلاف نے دو ٹوک لکھا کہ اجتہاد تھا ۔ اور اجتہاد میں غلطی پر ایک ثواب اور اجتہاد مین درستگی ہو تو ڈبل ثواب ۔ بشرطیکہ معاملہ ایسا ہو کہ جس مین اجتہاد کی اسلام نے اجازت دی ہو اور اجتہاد کرنے والا اجتہاد کی شرائط پر بھی پورا اترتا ہو ۔ لفظ باغی منقولات شرعیہ میں سے ہے ۔ اس کا معنی اول جدید شرعی اصطلاح میں بد ل چکا ہے اور لفظ خطا آج بھی الفاظ محتملہ میں سے ہے ۔ نہ لفظ خطا کے معانی بدلے ہیں ، نہ ہی کسی ایک معنی میں اس کا استعمال خاص ہوا ہے ۔ صحابی رسول حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلیفہ برحق شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مخالفت کی ، لیکن وہاں اجتہادی خطا کے سبب مخالفت تھی ۔ وہاں گناہ کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ اس مخالفت کو پہلے بغاوت کہا جاتا تھا ، لیکن بعد میں علمائے اسلام نے اس مخالفت کو بغاوت سے تعبیر کرنا ناجائز قرار دے دیا ، کیوں کہ بعد میں بغاوت کا مفہوم بدل گیا ، اسی لیے اب ان نفوسِ قدسیہ کو باغی نہیں کہا جائے گا ۔ اب باغی کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کرنا ہو گا ۔
صدر الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ نے صحابی رسول حضرت طلحہ و حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا : عرف شرع میں بغاوت مطلقاً مقابلہ امام برحق کو کہتے ہیں ۔عناداً ہو ، خواہ اجتہاداً ۔ ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ گروہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر حسبِ اصطلاح شرع اطلاق فۂ باغیہ آیا ہے ، مگر اب کہ باغی بمعنیٰ مفسد و معاند وسرکش ہو گیا اور دشنام سمجھا جاتا ہے ۔ اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں ۔(بہارشریعت حصہ اول صفحہ 260 مجلس المدینۃ العلمیہ)
اب سوال یہ ہے کہ کیا لفظ باغی کی طرح ارباب فضل وکمال کےلیے لفظ خطا کابھی استعمال نہیں ہونا چاہیے ، گرچہ لفظ خطا سے وہاں گناہ مراد نہ ہو ، بلکہ بھول چوک ، سہو و نسیان وغیرہ مراد ہو ۔ دراصل ہند و پاک میں اردو زبان مروج ہے ۔ اردو کے مشہور لغت فیروز اللغات میں لفظ خطا کے متعدد معانی مرقوم ہیں ۔ یہ مشترک لفظ ہے ۔ اردوزبان میں غلطی ، سہو ، بھول ، چوک کے معنی میں اس کا استعمال مشہور ہے ۔
لفظ خطا کے معانی
(1) قصور ، گناہ ، جرم ، تقصیر ۔ (2) غلطی ، سہو ، بھول ، چوک ۔ (فیروز اللغات فصل خ ط)
لفظ باغی منقولات شرعیہ میں سے
بغاوت کا پہلا معنیٰ
امام برحق کی مخالفت و مقابلہ ، خواہ عناد کے سبب ہو ، یا اجتہاد کے سبب ۔
بغاوت کا دوسرا معنیٰ
مفسد و معاند و سرکش ۔ یہ اہل شرع ہی کی اصلا ح جدید ہے ۔
اب اصطلاحِ شرع میں اس کوباغی کہا جاتا ہے جو امامِ برحق کے خلاف ناحق خروج کرے ۔ اگر حق کے سبب خروج ہوتو بغاوت نہیں ۔ قال الحصکفی : (وشرعاً) (ہم الخارجون عن الامام الحق بغیر حق) فلو بحق فلیسوا ببغاۃ) ۔ (الدرالمختار جلد 4 صفحہ 448 دارالفکر بیروت)
قال الشامی : (قولہ : بغیر حق ای فی نفس الامر ۔ والا فالشرط اعتقادہم انہم علی حق بتاویل ۔ والا فہم لصوص) ۔ (رد المحتار جلد 16 صفحہ 375 مکتبہ شاملہ)
توضیح : علامہ شامی کی مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہو گیا کہ یہ باغی لوگ حقیقت میں غلط راہ پر ہوتے ہیں ، گرچہ وہ شبہہ فاسدہ کے سبب خود کو حق سمجھتے ہوں ، بلکہ انہیں خود کو حق سمجھنا شرط ہے ، ورنہ ان کا شمار چوروں اور ڈاکوؤں میں ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر حقیقت میں خلیفہ ہی غلط راہ پر ہو تو پھر وہ امامِ عدل نہیں اور یہ لوگ باغی نہیں ۔
در اصل ظالم خلیفہ کے خلاف خروج بغاوت نہیں ، پھر یہ دفع ظلم کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے ۔ قال الشامی : (وفی الاختیار : اہل البغی کل فئۃ لہم منعۃ یتغلبون ویجتمعون ویقاتلون اہل العدل بتاویل ۔ یقولون : الحق معنا ۔ ویَدَّعُونَ الولایۃ) ۔ (رد المحتار جلد 16صفحہ 377 مکتبہ شاملہ)
توضیح : اہل بغاوت حکومت کے دعویدار ہوتے ہیں اور حاکم اسلام کو اپنے شبہہ فاسدہ کے سبب نا اہل سمجھتے ہیں ۔ قال الشامی : (قولہ : وتمامہ فی جامع الفصولین) حیث قال فی اول الفصل الاول ۔ بیانہ ان المسلمین اذا اجتمعوا علٰی امام وصاروا آمنین بہ ۔ فخرج علیہ طائفۃ من المؤمنین ۔ فان فعلوا ذلک لظلم ظلمہم بہ فلیسوا من اہل البغی ۔ وعلیہ ان یترک الظلم وینصفہم ۔ ولا ینبغی للناس ان یعینوا الامام علیہم ۔ لان فیہ اعانۃ علی الظلم ۔ ولا ان یعینوا تلک الطائفۃ علی الامام ایضًا ۔ لان فیہ اعانۃ علی خروجہم علی الامام ۔ وان لم یکن ذلک لظلم ظلمہم ۔ ولکن لدعوی الحق والولایۃ ۔ فقالوا : الحق معنا-فہم اہل البغیی ۔ فعلی کل من یقوی علی القتال ، ان ینصروا امام المسلمین علی ہؤلاء الخارجین ۔ لانہم ملعونون علی لسان صاحب الشرع ۔ قال علیہ الصلٰوۃ والسلام : (الفتنۃ نائمۃ لعن اللّٰہ من ایقظہا) ۔ (رد المحتار جلد 16 صفحہ 376-مکتبہ شاملہ)
توضیح : مذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہو گیا کہ اب اگر کوئی اجتہاد کے سبب امام برحق کے خلاف خروج کر ے تو اس کا شمار باغیوں میں نہیں ہوگا ، بلکہ باغی وہ ہوگا جو ناحق فاسد شبہہ کے سبب امامِ برحق کی مخالفت کرے ۔
مذکورہ تعریف کے مطابق حکم شرع کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امامِ برحق کے مقابلے پر اترنا ، اور کسی فاسد شبہہ کو پیش کر کے اپنے حق ہونے کا دعویٰ کرنا بغاوت ہے ۔ اگر حقیقت میں باغیوں کا کوئی شبہہ تھا تو امامِ برحق کے سامنے پیش کرنا تھا ، تاکہ اس کا حل نکل سکے ۔
باغی کی مذکورہ وضاحت کے مطابق اجتہاد کے سبب خروج کرنے والا باغیوں میں شامل نہیں ہوگا ، کیوں گہ جدید اصطلاح کے اعتبار سے ہر باغی فاسق ہے ، جب کہ اجتہاد کرنے والا فاسق نہیں ہوتا ، بلکہ اسے اپنے اجتہاد پر اجر ملتا ہے ۔ اگر اجتہاد صحیح ہے تو دو اجر ، ورنہ ایک اجر ملتا ہے ۔ جس کام پر اجر ملے ، وہ فسق نہیں ہو سکتا ۔ الحاصل لفظ باغی کا مفہوم اہلِ شرع کے یہاں بدل چکا ہے ، اسی لیے اس کا اطلاق ان حضرات پر نہیں ہوگا جو اجتہاد کے سبب امامِ برحق کے مقابلے پر اترے ، لیکن لفظ خطا کے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔
لفظ خطا آج بھی متعدد معانی کا محتمل ہے تو لفظ باغی کا حکم لفظ خطا پر جاری نہیں ہوگا۔اہل فضل کے لیے لفظ خطا کا استعمال پہلے جائز تھا تو آج بھی جائز رہے گا ، جب تک کہ ممانعت کی کوئی وجہ صحیح موجود نہ ہو ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لفظ باغی کا استعمال اب ناجائز ہو گیا تو لفظ خطا کا استعمال بھی ناجائز ہو جائے گا ۔ لفظ باغی کے اطلاق کی ممانعت کا سبب موجود ہے اور غیر مومن بہ کےلیے لفظ خطا کے اطلاق کی ممانعت کی دلیل موجود نہیں ۔
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید لکھتے ہیں : مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)
اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی ۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے ۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے : اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو، پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو ۔‘‘ نیز ایک مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے رسوم و رواج کو بھی حالات زمانہ اور ضروریات معاشرہ وغیرہ کو بھی جانتا ہو ۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے ، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا : إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ ۔
ترجمہ : جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919)(مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716)
حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دستِ شفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس ! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ (مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن،چشتی)
بخاری شریف کے اندر یہ حدیث شریف موجود ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو پتھر اٹھا کر لارہے تھے ، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی، جو عمار کو جہنم کی طرف بلا رہی ہوگی اور عمار ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہوںگے ۔
عن عکرمۃ قال : قال لي ابن عباس ولابنہ علی: انطلقا إلی أبي سعید فاسمعا من حدیثہ، فانطلقنا، فإذا ہو في حائط یصلحہ، فأخذہ رداء ہ فاحتبي، ثم أنشأ یحدثنا حتی أتی علی ذکر بناء المسجد، فقال: کنا نحمل لبنۃ لبنۃ وعمار لبنتین لبنتین، فرأہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فجعل ینفض التراب عنہ، ویقول: ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ یدعوہم إلی الجنۃ ویدعونہ إلی النار، قال: یقول عمار: أعوذ باللہ من الفتن۔ (بخاري شریف، کتاب الصلاۃ، باب التعاون في بناء المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۴، رقم: ۴۴۲، ف: ۴۴۷، وکذا في کتاب الجہاد، باب مسح الغبار عن الرأس ۱/ ۳۹۴، رقم : ۲۷۲۸، ف: ۲۸۱۲)
یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے ۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا ۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگار نہ ہوں گے کیونکہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : عن عمرو بن العاص أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : إذا حکم الحاکم فاجتہد ، ثم أصاب ، فلہ أجران ، وإذا حکم فاجتہد ثم خطأ ، فلہ أجر ۔ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا ۔ (بخاري کتاب الاعتصام باب أجر الحاکم إذا اجتہد، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۰۹۲، رقم: ۷۰۵۵، ف: ۷۳۵۲،چشتی)،(حاشيه بخاری بحواله کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوة)
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ ۔ باغی گروہ والی حدیث میں آپ نے پڑھا حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام کہیں نہیں لکھا ، اس کے برعکس سورہ حدید آیت 10 کے مطابق فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کےلیے اللّٰہ نے جنّت کا وعدہ فرمایا ہے ، اب رافضی اور ان کے پیروکار نیم رافضی بتاٸیں کہ کیا تم لوگ قرآن کے منکر ہو کہ نہیں ؟ ۔ اور صحیح بُخاری حدیث 3764 اور 3765 میں حضرت سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کو "صحابی رسول ، امیر المومنین اور فقیہ اُمت" قرار دیا گیا ہے ، اسی طرح صحیح بُخاری 2800 اور 2924 کے مطابق قسطنطنیہ فتح کرنے والے پہلے بحری بیڑے پر اللہ نے جنت واجب کردی ہے اور وہ پہلا بحری بیڑاحضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں اور اُنہی کی قیادت میں ہوا اور تو اور صحیح بُخاری حدیث 2704 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے گروہ کو "مسلمانوں کا عظیم گروہ" قرار دیا ۔ لہٰذا یہ بھی بتاو کہ کیا تم لوگ منکر حدیث ہوۓ کہ نہیں ؟ ۔ اور کیا تم بُخاری مسلم کے منکر ہوۓ کہ نہیں ؟
اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے ۔ پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کا گروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں ۔ اس صورت میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ” افسوس اے عمار ! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ” اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا ۔ ِ وﷲ تعالیٰ اعلم ۔ بہر حال حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے ۔
رافضیوں کا اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ اور تفضیلی حضرات اکثر حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور جہنمی ٹھہرے ۔
اس حدیث میں جس باغی گروہ کی بات کی گئی ہے وہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود خارجی گروہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ تعالی عنہ) کو قتل کیا اس سے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) بالکل مراد نہیں اور نہ ان کا نام موجود ہے اسی طرح کے خارجی لوگ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں بھی موجود تھے جب ایک شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کو خوشخبری ہو میں نے حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) (جو حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں موجود تھے) کو قتل کر دیا ہے تو اس کے جواب میں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے کہا میں تجھے جہنمی ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں کیوں کہ حضرت زبیر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تو حدیث رسول تھی کہ جو ان کو قتل کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔ اب جس طرح حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) پر کوئی الزام نہیں جہنمی ہونے کا (کیوں کہ وہ شخص حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے لشکر میں سے تھا) اسی طرح حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر بھی باغی ہونے کا کوئی الزام نہیں لگ سکتا ۔
حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ : وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه ۔ (کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج 3 - الصفحة 540،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس گئے اور فرمایا : آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلان عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا ۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کو محض خلافت سے کوئی غرض نہیں تھی ان کا مطالبہ صرف قتل عثمان کا قصاص لینا تھا اور یہی بات مولا علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مکتوب میں بھی موجود ہے : وكان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام. والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ۔ (کتاب نهج البلاغة - خطب الإمام علي (ع) - مکتوب 58 - الصفحة 448)
ترجمہ : ہمارے معاملے کی ابتداء یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب کہ بظاہر دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں تھا ۔
دوسری بات یہ کہ فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں یہ الفاظ کہ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائیں گے ایسے الفاظ ہیں کہ جن سے امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کی بھی اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) والے گروہ کے ایمان اور مسلمان ہونے کی خود زبان نبوت نے تصدیق فرما دی اور صلح اور بیعت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) کر کے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس کی تائید مزید فرما دی ۔
یہ حدیث شیعہ کتاب كشف الغمة میں بھی موجود ہے : روى عن أبي بكرة قال بينما رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطب إذ صعد إليه الحسن فضمه إليه وقال إن ابني هذا سيد وان الله عله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظمتين ۔ (کتاب كشف الغمة - ابن أبي الفتح الإربلي - ج 2 - الصفحة 320)
ترجمہ : ابی بکرہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے دوران یکا یک امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) منبر پر چڑھ گئے تو آپ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور الله اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۔
تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض اس حدیث کے مطابق حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی ٹھہرے تو پھر امام حسن و امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے کیوں کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) سے نہ صرف بیعت کی بلکہ انہیں مسلمانوں کا امیر بھی بنا دیا کیا امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) ایک باغی جہنمی کی بیعت کر سکتے ہیں اور انہیں سلطنت دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ حدیث امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) کو معلوم نہ تھی جو ان کی بیعت کرلی اور کیا اس حدیث کا مفہوم آج کل کے شیعہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں یا امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) ؟ امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اور امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی بیعت حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) پر دلائل اور بھی ہیں لیکن اختصار کے طور پر ایک حوالہ رجال کشی کا دے دیتے ہیں امام جعفر صادق (رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے امام حسن و حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو : وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام ۔ (کتاب اختيار معرفة الرجال (رجال الكشي) - الشيخ الطوسي - ج 2 - الصفحة 104،چشتی)
ترجمہ : ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اٹھیئے اور بیعت کیجیئے وہ اٹھے اور بیعت کی پھر امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کو کہا آپ اٹھیئے اور بیعت کیجیئے تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو اس نے امام حسین (رضی اللہ تعالی عنہ) کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) میرے امام ہیں ۔
چوتھی بات یہ کہ جس کو خود حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) باغی اور منافق نہ کہیں انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے : جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 93،چشتی)
ترجمہ : امام جعفر عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدِمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کی لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ان سے لڑائی اس لیئے نہیں کی کہ وہ ہمیں یا ہم ان کو کافر سمجھتے تھے لیکن ہوا یوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو اور ہم نے اپنے آپ کو حق پر سمجھا ۔
شیعہ محقق قمی لکھتا ہے : جعفر، عن أبيه عليه السلام : أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول : " هم إخواننا بغوا علينا ۔ (کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة 94،چشتی)
ترجمہ : امام جعفر صادق عليه السلام اپنے والد امام باقر عليه السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی عليه السلام اپنے مدمقابل (حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ تعالی عنہ) اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔
موجودہ زمانے میں اس حدیث شریف کی تشریح کرنے میں بے شمار احباب نے ٹھوکر کھائی ، اور پھر آپس میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی گئی ۔ لوگ شریعت پر اس قدر جری ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ آج ہمارے زمانے میں ہو رہا ہے ۔ بعض اہلِ علم بھی (باوجود کہ وہ صاحبانِ مسند درس و افتاء پر متمکن ہیں) وہ بھی اس معاملے میں بہت جلد بازی کرتے ہیں ، میری دانست میں اکثر بیان مبنی بر جہالت ہوتا ہے ۔ قلتِ علم کی بنیاد پر لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ اصل کتب میں متن کیونکہ عربی میں ہے اس تک رسائی کم ہی لوگ کرتے ہیں ، اس وقت فقیر کے پیشِ نظر علامہ عینی کی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، شرح ابن بطال مالکی قرطبی اور نعمۃ الباری فی شرح صحیح بخاری از علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیھم ہیں ، اس میں سے کچھ عبارات کا ترجمہ قارئین کے ذوق مطالعہ کے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔ اس امید پر کہ فضا میں موجود تلخیاں کچھ کم ہو جائینگی ۔
علامہ عینی علیہ لرّحمہ فرماتے ہیں کہ : حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شھادت کے خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ما بین ’’حکم‘‘ بنایا گیا ، واقعہ تحکیم صفین میں قتال کے بعد ہوا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمار (رضی اللہ عنہ) کو اس قبل ہی شھید کر دیا گیا تھا ۔
حضرت عمّار رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا تھا ، اور ان پر اس حدیث میں باغی اور دوزخ کی طرف بلانے والا فرمایا گیا ۔
اس کا جواب : ان پر باغی اور دوزخ کی طرف بلانے والے کا اطلاق بہ اعتبار ظاہر ہے ۔ حقیقت کے اعتبار سے نہیں ۔ ان کے گمان کے اعتبار سے ان کا اقدام بر حق تھا ، وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے طالب تھے ۔ جبکہ ان کا یہ اجتہاد مبنی پر خطاء ۔ کیونکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کر رہے تھے ، اور حضرت علی خلیفہ بر حق تھے ۔ اور امیر و خلیفہ بر حق کے ساتھ جنگ کرنا بغاوت ہے۔ اس لیے ظاہر کے اعتبار سے وہ باغی تھے ۔ لکین حقیقت میں وہ باغی نہیں تھے، کیونکہ ان کا یہ اقدام اپنے اجتہاد کی وجہ سے تھا ۔
اس حدیث کی نظیر قرآن مجید کی یہ آیت ہے : وعصیٰ ادم ربہ فغویٰ ۔ (سورہ طہ: ۱۲۱)
ترجمہ : اور آدم نے اپنے رب کی معصیت کی اور وہ بے راہ ہوئے ۔
اس آیت میں شجر ممنوعہ کھانے پر حضرت آدم علیہ السلام پر معصیت اور غوایت کا اطلاق بہ اعتبار ظاہر ہے ۔
اللہ کریم نے فرمایا : فنسیٰ فلم نجد لہ عزما، (طہ۔ ۱۱۵) پس آدم بھول گئے اور ہم نے ( ان کی معصیت) کا کوئی عزم نہ پایا ۔
قرآن مجید میں حضرت آدم کے فعل پر معصیت کا اطلاق ظاہر اور صورت کے اعتبار سے ہےجبکہ حقیقت کے اعتبار سے نہیں۔۔۔ اسی طرح اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ پر باغی ہونے اور دوزخ کی طرف بلانے والے ہونے کا اطلاق ظاہر اور صورت کے اعتبار سے ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے نہیں۔ اور اس قرینہ پر دلیل یہ ہے کہ حضرت علی نے حضرت معاویہ اور ان کے لشکر کے متعلق بہت دعائیں کیں ہیں ۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے نزدیک جماعت معاویہ رضی اللہ عنھم صراحۃً باغی ہوتی تو وہ ان سے جنگ موقوف نہ کرتے اور کبھی بھی تحکیم کو قبول نہ کرتے ۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا کی آڑ لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی کہہ کر جہنّمی کہنے اور ثابت کرنے والو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کیا فتوے لگاؤ گے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل تھے ؟
آیئے ہم آپ کو مختصرا بتاتے ہیں کہ وہ جماعت کِن لوگوں پر مشتمل تھی ؟
حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ والے صحابی ہیں ۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ : عَمْرٌو وَهِشَامٌ ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 8042)
ترجمہ : عاص کے دونوں بیٹےمومن ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے نام بھی لیے ، عمرو بن عاص اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنھما ۔
جس کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دیں آپ لوگ ان کو بد نیت قراردیتے ہیں کہ جن کے ایمان کی گواہی بذریعہ وحی دی گئی ۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور تلاوت سن کر اپنے ساتھ موجود صحابی سے پوچھا کہ : تَرَاهُ مُرَائِيًا ؟ آپ کا کیا خیال ہے ، آپ انہیں ریا کار سمجھتے ہیں ؟ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ، لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ ۔ نہیں ، یہ تو مومن ہیں ، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 22952)
جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بذریعہ وحی ایسی بشارتیں دیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ ڈھوگ رچاتے رہے ، یہ امت کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کرتے رہے ہیں ۔ ہمارا مدعا و مقصد صرف یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر توہین صحابہ رضی اللہ عنہم نہ کی جائے اور نہ ہی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا موازنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا جائے کیونکہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت بلند و بالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو عقلِ سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment