Sunday, 22 October 2023

انگریز کا وفادار و ایجنٹ کون ؟ حقاٸق و دلاٸل کی روشنی میں

انگریز کا وفادار و ایجنٹ کون ؟ حقاٸق و دلاٸل کی روشنی میں



































محترم قارئینِ کرام : دیوبندی فاضل محمد ایوب قادری نے "مولانا محمد احسن نانوتوی" کے نام سے موصوف کی سوانح حیات لکھی جسے مکتبہ عثمانیہ کراچی پاکستان نے شائع کیا ہے اپنی کتاب میں مصنف نے اخبار انجمن پنجاب لاہور مجریہ 19 فروری 1875 کے حوالہ سے لکھا ہے کہ 13 جنوری 1875 بروز یک شنبہ لیفٹینٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے مدرسہ دیوبند کا معائنہ کیا معائنہ کی جو عبارت موصوف نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے اس کی یہ چند سطریں خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں : جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے ۔ جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر ، کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہا ہے ۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاونِ سرکار ہے ۔ (مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ نمبر 217 محمد ایوب قادری فاضل دیوبند)

دیابنہ اور وہابیہ جگی جگہ جاہلانہ کمنٹس کرتے ہیں اور مسلمانان اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو انگریز کا ایجنٹ کہتے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں یہ مضمون ایسے جھوٹے کذاب لوگوں کے رد میں پیش کیا جا رہا ہے پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے زباں میری ہے بات ان کی :

دیوبندی لکھتے ہیں : انگريزوں كے مقابلے ميں جو لوگ لڑ رهے تهے ان ميں حضرت مولانا شاه فيصل ارحمن گنج مراد آبادى رحمۃ الله بهى تهے اچانك ايك دن مولانا كو ديكها گيا كہ خود بهاگے جا رہے تهے اور كسى چودهرى كا نام لے كر جو باغيوں كى فوج كى افسرى كر رهے تهے كہتے جاتے تهے كہ لڑنے كا كيا فائده, خضر كو تو ميں انگريزوں كى صف ميں پا رہا ہوں - نواب صاحب دوسرے واقع كا ذكر بهى فرماتے تهے كہ غدر كے بعد جب گنج مراد آباد كى ويران مسجد ميں حضرت مولانا جا كر مقيم ہوئے تو اتفاقاً اسى راستہ سے جس كے كنارے مسجد ہے كسى وجہ سے انگريزى فوج گذر رہى تهى , مولٰنا مسجد سے ديكھ رہے تهے اچانك مسجد كى سيڑهيوں سے اتر كرديكها گيا كہ انگريزى فوج كے ايك سايئس سى جو باگ دوڑ كهونٹے وغيره گهوڑے كا لئے ہوئے تها اس سے باتيں كر كے مسجد واپس آ گئے , اب ياد نہيں رہا كہ پوچهنے پر خود بخود فرمانے لگے كہ سايئس جس سے ميں نے گفتگو كى يہ خضر عليہ السلام تهے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

یہاں تک تو روایت تھی اب اس روایت کی توثیق و تشریح ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں باقی خود خضر کا مطلب کیا ہے ؟ نصرت حق کی مثالی شکل تھی جو اس نام سے ظاہر ہوئی تفصیل کے لیے شاہ ولی اللہ وغیرہ کی کتابیں پڑھیے گویا جو کچھ دعکھا جارہا تھا اسی کے باطنی پہلو کا یہ مکاشفہ تھا ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد 2 صفحہ 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)

بات ختم ہوگئی لیکن یہ سوال سر پر چڑھ کے آواز دے رہا ہے کہ جب حضرت خضر کی صورت میں نصرت حق انگریزی فوج کے ساتھ تھی تو ان باغیوں کیلئے کیا حکم ہے جو حضرت خضر کے مقابلے میں لڑنے آئے تھے ؟ کیا اب بھی انہیں غازی اور مجاہد کہا جاسکتا ہے اپنے موضوع سے ہٹ کر ہم بہت دور نکل آئے لیکن آپ کی نگاہ پر بار نہ ہو تو اس بحث کے خاتمے پر اکابرینِ دیوبند کی ایک دلچسپ دستاویز اور ملاحظہ ہو :

خط لکھتے لکھتے شوق نے دفتر کیے رواں
افراطِ اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

دیوبندی حلقے کے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں انگریزی حکومت کے ساتھ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی تصویر کھنچتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں آپ سمجھے ہوئے تھے کہ میں جب حقیقت میں سرکار کا فرماں بردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بیکانہ ہوگا اور اگر مارا بھی آگیا تو سرکار مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے ۔ (تذکرۃ الرشید ج 1 ص 80 ادارہ اسلامیات لاہور،چشتی)

کچھ سمجھے آپ ؟

کس الزام کو یہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے علم جہاد بلند کیا تھا میں کہتا ہوں کہ گنگوہی صاحب کی یہ پر خلوص صفائی کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کم از کم ان کے معتقدین کو تو ضرور ماننا چاہیے لیکن غضب خداکا کہ اتنی شد و مد کے ساتھ صفائی کے باوجود بھی ان کے ماننے والے یہ الزام ان پر آج تک دھرا رہے ہیں کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو اور سرکار مالک ہے سرکار کو اختیار ہے یہ جملے اسی کی زبان سے نکلتے ہیں جو تن سے لے کر من تک پوری طرح کسی کے جذبہ غلامی میں بھیگ چکا ہو ۔

آہ دلوں کی بد بختی اور روحوں کی شقاوت کا حال بھی کتنا عبرت انگیز ہوتا ہے سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ خدا کے باغیوں کے لیے جذبہ عقیدت کا اعتراف یہ کہ وہ مالک بھی ہیں اور مختیار بھی : لیکن احمد مجتبٰی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ان حضرت کے عقیدے کی زبان یہ ہے جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار ( مالک ) نہیں ۔ (تقویۃ الایمان ص 70 مطبوعہ اسلامی اکادمی لاہور)

بے شک یہ بتانے کا حق مخلوق ہی کو ہے کہ اس کا مالک کون ہے کون نہیں جو مالک تھا اس کے لیے اعتراف کی زبان کھلنی تھی اور جو مالک نہیں تھا اس کا انکار ضروری تھا ہوگیا ۔ اب یہ بحث بالکل عبث ہے کہ کس کا مقدر کس مالک کے ساتھ وابستہ ہو یہاں پہنچ کے ہمیں کچھ نہیں کہنا تھا تصویر کے دونوں رخ آپ کے سامنے ہیں مادی منفحت کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ دلوں کی اقلیم پر کس بادشاہ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا یا تاج برطانیہ کا ؟ بات چلی تھی گھر کے مکاشفہ سے اور گھر ہی کی دستاویز پر ختم ہوگئی ۔ یہ ہیں انگریز کے اصل خیر خواہ دیوبندی پہچانیے انہیں آج فضل الرحمٰن کیوں کہتا ہے جشن آزادی نہیں منایں گی اصل وجہ کو پہچانیے ان لوگوں نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ۔

قطب العالم دیوبندجناب رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں کہ میں رشید سرکار (انگریز) کا فرمانبردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اور مارا گیا تو سرکار (انگریز) مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے ۔ (از کتاب: تذکرۃ الرشید صفحہ نمبر 80 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)

حکیم الامتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے چھ سو روپے ماہوار ملا کرتے تھے (مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 9 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہانپور)

تبلیغی جماعت کے بانی مولوی الیاس کاندھلوی کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے بذریعہ لیٹر پیسے ملتے تھے (از کتاب: مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 8 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور)

جمعیت علمائے اسلام کو حکومت برطانیہ (انگریز) نے قائم کیا اور ان کی امداد کی ۔ (مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 7‘ دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور،چشتی)

مولوی اسماعیل دہلوی صاحب فرماتے ہیں کہ گورنمنٹ برطانیہ (انگریزوں) سے جہاد کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔ (حیات طیبہ صفحہ نمبر 23-24)

قارئین کرام ان تمام باتوں کو پڑھ کر اندازہ لگائیں کہ اکابر دیوبند انگریزوں کے کس قدر فرمانبردارتھے۔

غیر مقلدین اہلحدیث وہابی کا انگریزوں سے رشتہ

پاک ہند میں لفظ ’’اہل حدیث‘‘ کی ایک سیاسی تاریخ ہے۔ جو نہایت ہی تعجب خیز اور حیران کن ہے۔ برصغیر میں اس فرقے کو پہلے وہابی کہتے تھے جو اصل میں غیر مقلد ہیں چونکہ انہوں نے انقلاب 1857ء سے پہلے انگریزوں کا ساتھ دیا اور برصغیر میں برطانوی اقتدار قائم کرنے اور تسلط جمانے میں انگریزوں کی مدد کی… انگریزوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد تو اہل سنت پر ظلم و ستم ڈھائے لیکن ان حضرات کو امن وامان کی ضمانت دی۔

سرسید احمد خان (م۔1315ھ/1868ئ) کے بیان سے جس کی تائید ہوتی ہے۔
انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں اس فرقے کیلئے جو وہابی کہلایا‘ ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار ہے بلکہ ناممکن ہے۔ سلطان کی علمداری میں وہابیوں کا رہنا مشکل ہے اور مکہ معظمہ میں تو اگر کوئی جھوٹ موٹ بھی وہاں کہہ دے تو اسی وقت جیل خانے یا حوالات میں بھیجا جاتا ہے… پس وہابی جس آزادی مذہب سے انگلش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں رہتے ہیں دوسری جگہ ان کو میسر نہیں۔ ہندوستان ان کے لئے دارالامان ہے ۔ (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 202،چشتی)

یہ اس شخص کے تاثرات ہیں جو ہندوستانی سیاست بلکہ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتا تھا ۔

ہندوستان میں ان حضرات کو امن ملتا اور سلطنت عثمانیہ میں نہیں (جو مسلمانوں کی عظیم سلطنت تھی‘ ایشیائ‘ یورپ‘افریقہ تک پھیلی ہوئی) امن اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ ان حضرات کا تعلق انگریزوں سے رہا تھا… آل سعود کی تاریخ پر جن کی گہری نظر ہے ان کو معلوم ہے کہ انہی حضرات نے سلطنت اسلامیہ کے سقوط اور آل سعود کے اقتدار میں اہم کردار ادا کیا… یہ کوئی الزام نہیں تاریخی حقیقت ہے‘ جوہمارے جوانوں کو معلوم نہیں ہے۔

خود اہل حدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی (جنہوں نے انگریزی اقتدار کے بعد برصغیر کے غیر مقلدوں کی وکالت کی) کی اس تحریر سے سرسید احمد خان کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے وہ کہتا ہے : اس گروہ اہل حدیث کے خیر خواہ وفاداری رعایات برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی اور روشن دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے کو اسلامی سلطنتوں کے ماتحت رہنے سے بہتر سمجھتے ہیں (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 203،چشتی)

آخر کیا بات ہے کہ اسلام کے دعویدار ایک فرقے کو خود مسلمانوں کی سلطنت میں وہ امن نہیں مل رہا ہے جو اسلام کے دشمنوں کی سلطنت میں مل رہا ہے۔ ہر ذی عقل اس کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لئے تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ ملکہ وکٹوریہ کے جشم جوبلی پر مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو سپاسنامہ پیش کیا اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے ۔ آپ نے فرمایا : اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اوران کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 204)
ایک اور جگہ تحریر کرتا ہے ۔ جو اہل حدیث کہلاتے ہیں وہ ہمیشہ سے سرکار انگریزکے نمک حلال اور خیر خواہ رہے ہیں اور یہ بات بار بار ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 205)

یہود ونصاری کو مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے ہمیشہ ڈر لگتا رہتا ہے ۔ 1857ء کے فورا بعد انگریزوں کے مفاد میں اس جذبے کو سرد کرنے کی ضرورت تھی چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جہاد کی خلاف 1292ھ/ 1876ء میں ایک رسالہ ’’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘‘ تحریر فرمایا جس پر بقول مسعود عالم ندوی حکومت برطانیہ نے مصنف کو انعام سے نوازا… (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 206)
آپ نے بار بار لفظ ’’اہل حدیث‘‘ سنا جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ اس فرقے کو پہلے ’’وہابی‘‘ کہتے تھے۔ انگریزوں کی اعانت اور عقائد میں سلف صالحین سے اختلاف کی بناء پر برصغیر کے لوگ جنگ آزادی 1857ء کے بعد ان سے نفرت کرنے لگے‘ اس لئے وہابی نام بدلوا کر ’’اہل حدیث‘‘ نام رکھنے کی درخواست کی گئی… یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں : بنا بریں اس فرقے کے لوگ اپنے حق میں اس لفظ (وہابی) کے استعمال پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور کمال ادب و انکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں وہ سرکاری طور پر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کو استعمال سے ممانعت کا حکم نافذ کرے اور ان کو ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے مخاطب کیا جائے ۔ (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 207)

حکومت برطانیہ کے نام مولوی محمد حسین بٹالوی کی انگریزی درخواست کا اردو ترجمہ جس میں حکومت برطانیہ سے ’’وہابی‘‘ کی جگہ ’’اہل حدیث‘‘ نام منظور کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
ترجمہ درخواست برائے الاٹمنٹ نام اہل حدیث و منسوخی لفظ وہابی
اشاعۃ السنہ آفس لاہور
از جانب ابو سعید محمد حسین لاہوری‘ ایڈیٹر اشاعۃ و وکیل اہل حدیث ہند
بخدمت جناب سیکریٹری گورنمنٹ
میں آپ کی خدمت میں سطور ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کا درخواست گزار ہوں۔ 1886ء میں‘ میں نے ایک مضمون اپنے ماہواری رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کیا تھا جس میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ لفظ وہابی جس کو عموما باغی و نمک حرام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے‘ کااستعمال مسلمانان ہندوستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکار انگریزکے نمک حلال و خیر خواہ رہے ہیں‘ اور یہ بات (سرکار کی وفاداری و نمک حلالی) بارہا ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے‘ مناسب نہیں ۔ بناء بریں اس فرقہ کے لوگ اپنے حق میں اس لفظ کے استعمال پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور کمال ادب و انکساری کے ساتھ‘ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ (ہماری وفاداری‘ جاں نثاری اور نمک حلالی کے پیش نظر) سرکاری طور پر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال کی ممانعت کا حکم نافذ کرے اور ان کو اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے۔ اس مضمون کی ایک کاپی بذریعہ عرض داشت میں (محمد حسین بٹالوی) نے پنجاب گورنمنٹ کوبھی ارسال کی ہے تاکہ اس مضمون کی طرف توجہ دے اور گورنمنٹ ہند کو بھی اس پر متوجہ فرمادے اور فرقہ کے حق میں استعمال لفظ وہابی سرکاری خط و کتابت میں موقف کیا جاوے اور اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے۔ اس درخواست کی تائید کے لئے اور اس امرکی تصدیق کے لئے کہ یہ درخواست کل ممبران اہل حدیث پنجاب و ہندوستان کی طرف سے ہے (پنجاب و ہندوستان کے تمام غیر مقلد علماء یہ درخواست پیش کرنے میں برابر کے شریک ہیں) اور ایڈیٹر اشاعتہ السنہ ان سب کی طرف سے وکیل ہے۔ میں (محمد حسین بٹالوی) نے چند قطعات محضرنامہ گورنمنٹ پنجاب میں پیش کئے‘ جن پر فرقہ اہلحدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں اور ان میں اس درخواست کی بڑے زور سے تائید پائی جاتی ہے۔ چنانچہ آنریبل سرچارلس ایچی سن صاحب بہادر (جو اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے) نے گورنمنٹ ہندکو اس درخواست کی طرف توجہ دلا کر اس درخواست کو باجازت گورنمنٹ ہند منظور فرمایا اور استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام ’’اہل حدیث‘‘ کا حکم پنجاب میں نافذ فرمایا جائے۔
میں ہوں آپ کا نہایت ہی فرمانبردار خادم ابو سعید محمد حسین ایڈیٹر ’’اشاعت السنہ) ۔ (اشاعۃ السنہ ص 24 تا 26 شمارہ 2‘ جلد 11)
یہ درخواست گورنر پنجاب سرچارلس ایچی سن کو دی گئی اور انہوں نے تائیدی نوٹ کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا کو بھیجی اور وہاں سے منظوری آگئی اور 1888ء میں حکومت مدراس‘ حکومت بنگال‘ حکومت یوپی‘ حکومت سی پی‘ حکومت بمبئی وغیرہ نے مولوی محمد حسین کو اس کی اطلاع دی۔

سرسید احمد خان نے بھی اس کا ذکر کیا ہے‘ وہ لکھتے ہیں : جناب مولوی محمد حسین نے گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ اس فرقے کو جو درحقیقت اہل حدیث ہے‘ گورنمنٹ اس کو ’’وہابی‘‘ کے نام سے مخاطب نہ کرے‘ مولوی محمد حسین کی کوشش سے گورنمنٹ نے منظور کرلیا ہے کہ آئندہ گورنمنٹ کی تحریرات میں اس فرقے کو ’’وہابی‘‘ کے نام سے تعبیر نہ کیا جاوے بلکہ ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاوے (مقالات سرسید احمد خان صفحہ نمبر 208)

غیر مقلد اہلحدیث اکابر مولوی میاں نذیر احسین دہلوی) زمانہ عذر 1857ء میں جبکہ دہلی کے بعض مقتداء اور بیشتر مولویوں نے انگریز سے جہد کا فتویٰ دیا تو میاں صاحب نے نہ اس پر دستخط کئے نہ مہر… وہ خود فرماتے تھے کہ میاں وہ ہلر تھا بہادر شاہی نہ تھا… وہ بے چارہ بوڑھا بہادر شاہ کیا کرتا… بہادر شاہ کو بہت سمجھایا کہ انگریزوں سے لڑنا مناسب نہیں ہے‘ مگر وہ باغیوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہورہے تھے‘ کرتے تو کیا کرتے (الحیات بعد الممات صفحہ نمبر 125)

غیر مقلد اہلحدیث اکابر مولوی میاں نذیر حسین کو شمس العلماء کا خطاب گورنمنٹ انگلشیہ کی طرف سے 22 جون 1891ء بمطابق 21 محرم الحرام 1315ھ بروز سہ شنبہ کو ملا (الحیات بعد الممات صفحہ نمبر 180)

غیر مقلد اہل حدیث اکابر مولوی نواب صدیق حسن خان بھوپالی خود اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں تیس سال کامل سے متوسل وطن اس ریاست بھوپال کا ہوں اور ہمیشہ معزز و مکرم رہا۔ رئیسہ معظمہ (بھوپال) نے روجیت سے مجھے عزت و افتخار بخشا اور امر باطلاع گورنمنٹ عالیہ و حسب مرض سرکار انگریز ظہور میں آیا اور چوبیس ہزار روپیہ سالانہ اور خطاب ’’معتمہ الہامی‘‘ سے سرفرازی ہوئی۔ حکام عالی منزلت یعنی کار پروازان دولت انگلش کو تجربہ اس ریاست کی خیر خواہی اور وفاداری عموما اور اس سے صولت دولت (صدیق حسن خان بھوپالی) کا خصوصا ہوچکا ہے (ترجمان وہابیہ صفحہ نمبر 29,27,19,17)

امام ابو ہابیہ ثناء اﷲ امرتسری نے کلکتہ کے جلسے میں آپ نے اﷲ کا شکر ادا کرنے کے بعد انگریز حکومت اور انگریز حکام کا شکریہ ادا کیا اور پھر داعیان جلسہ کا پھر دعا مانگی (از کتاب: روئیداد اہلحدیث کانفرنس صفحہ نمبر 20)

غیر مقلد اہلحدیث اکابر مولوی محمد حسین بٹالوی انگریز حکومت سے تعاون کے حق میں تھے اور بظاہر انگریزی نظام کے ثناء خواں بھی تھے (از کتاب: تحریک آزادی فکر صفحہ نمبر 107)

قارئین محترم : آپ نے تمام مستند حوالے ملاحظہ کئے‘ جس سے واضح ہوگیا کہ دیوبندیوں اور وہابیوں کا انگریزوں سے بہت پرانا رشتہ ہے‘ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انگریزوں سے مال اور اسلحہ کی صورت میں مدد لے کر اسلام اور اسلامی قوانین کو نقصان پہنچایا اور مزید پہنچا رہے ہیں۔
اگر ہیلری کلنٹن کا بیان غلط ہے تو پھر اس کے بیان کے بعد دنیائے وہابیت کے کسی وہابی‘ دیوبندی مولوی نے اس بیان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا ؟
21 مئی سے لے کر اب تک کسی اخبار میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بیان کی وہابیوں نے مذمت کیوں نہیں کی ؟
ہم دنیائے وہابیت کی پراسرار خاموشی کو کیاسمجھیں ؟
انگریز کا ایجنٹ یا ان کا آلہ کار ؟

اس طرح کا واضع غیر مبہم ثبوت دو

اسماعیل دہلوی انگریز کا ایجنٹ تھا : جس وقت بر صغیر کے مسلمان انگریزی حلومت کے خلاف جہاد کے لئے بے قرار تھے علماء کا ایک گروہ جسے مولانا فضل حق خیر آبادی کی حمایت حاصل تھی جہاد کا فتوی دے چکا تھا - اس دور میں علماء سوء کا ایک طبقہ انگریز کی حمایت میں سرگرم عمل تھا چنانچہ کلکتہ کے جلسہ عام میں جب 1 شخص نے اسماعیل دہلوی سے دریافت کیا کہ انگریزوں کے خلاف آپ جہاد کا فتوی کیوں نہِں دیتے تو اس وقت انہوں نے جو جواب دیا وہ مرزا حیرت دہلوی کی زبانی سنَے انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف جہاد کسی طرح واجب نہیں ہے ایک تو ہم ان کی رعیت ہیں دوسرا وہ ہمیں عبادت سے نہیں روکتے ہمیں انکی حکومت میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے بلکہ اگر انگریزوں پر جو حملہ آور ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ حملہ آور سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں ۔ (حیات طیبہ طبع قدیم صفحہ 364،چشتی)

.ایک اور مقام پر مرزا حیرت دہلوی : مولوی اسماعیل دہلوی کا موئقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مولوی اسماعیل صاحب نے اعلان کر رکھا تھا کہ انگریزی سرکار کے خلاف جہاد نہ مذہبی طور پر واجب ہے اور نہ ہی ہمیں ان سے کچھ مخاصمت{جگڑا} ہے ۔ (حیات طیبہ طبع قدیم صفحہ 201})

اور اب سید احمد بریلوی کے انگریزوں کے ایجنٹ ہونے پر ثبوت ملاحظہ فرمایئں
مولانا محمد جعفر تھانیسیری لکھتے ہیں : کہ سید احمد نے اپنے جہاد کی حقیقت واضع کرتے ہوئے کہا ؛ سرکار انگریز گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر لوئی ظلم نہیں کرتی اور نہ ان کو عبادات سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے ہیں انہوں نے کبھی منع نہیں کیا تو پھر ہم سرکار انگریز کے خلاف کس وجہ سے جہاد کریں ۔ (حیات سید احد شہید صفحہ 171)
مزید لکھتے ہیں : سید صاحب کا انگریزی سرکار سے جہاد کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا ۔ (حیات سیداحمد شہید صفحہ 293)

سرسید احمد خان اپنے مقلالات میں لکھتے ہیں : اور یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ وھابی اپنے مذہب میں بڑے پکے ہوتے ہیں اور جن دو شخصوں کی نسبت میں لکھ رہا ہوں وہ{جہاد پر جاتے ہوئے} اپنے بال بچوں اور مال اسباب کو گورنمنٹ انگریزی کی حفاظت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ان کے مذہب میں اپنے بال بچوں کے محافظوں پر حملہ کرنا ممنوع ہے اگر وہ حملہ کرتے تو جنت سے حروم ہو جاتے ۔(مقالات سرسید حصہ نہم صفحہ 148،چشتی)

اسی موضوع پر مرزا حیرت : نے سید احمد شہید کا ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جس کی کسی غیور مسلمان سے توقع نھیں کی جا سکتی : مرزا حیرت لکھتے ہیں :
1231ء تک سید احمد صاحب امیر خان کی ملازمت میں رہے مگر ایک ناموری کا کام آپ نے یہ کیا کہ انگریزوں اور امیر خان کی صلح کرا دی اور آپ ہی کے ذریعے سے جو شہر بعد ازاں دئے گئے اور جن پر امیر خان صاحب کی اولاد حکمرانی کرتی ہے دینے طے پائے تھے لارڈ ہستنگ سید احمد صاحب کی بے نظیر کارگزاری سے بہت خوش تھا - { صلح کے وقت }دونوں لشکروں کے بیچ میں خیمہ کھڑا کیا گیا اور اس میں تین آدمیوں کا باہم معاہدہ ہوا - امیر خان لارص ہیستنگ اور سید احمد صاحب - سید احمد صاحب نے امیر خان کو بڑی مشکل سے شیشہ میں اتارا تھا ، آپ نے اسے یقین دلایا تھا کہ انریزوں سے مقابیلہ کرنا اور لڑنا بھڑنا اگر تمہارے لئے برا نہیں تو تمہاری اولاد کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ' یہ ناتیں امیر خاں کی سمجھ میں آگئی تھیں اور اب وہ اس بات پر رضا مند تھاکہ گزارہ کے لئے کچھملک مجھے دے دئے جائیں تو میں بآرام بیٹھوں - امیر خان نے ریاستوں اور ان کے ساتھ انگریزوں کا بھی ناک میں دم کر رکھا تھا آخر 1 بڑے مشورے کے بعد سید احمد صاحب کی کارکردگی سے ہر ریاست سے کچھ حصہ دے کر معاہدہ کر لیا جیسے جے پور سے سے کوتک تاک دلوا دیا بھوپال سے سرونج - اسی طرح بڑی قیل و قال کے بعد انگریزون سے دلوا کر بپھرے ہوئے شیر کو پنجرے میں بند کر دیا ۔ (حیات طیبہ مطبوعہ مکتبۃ السلام صفحہ 513-514)

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہاد کی حقیقت : ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے نتیجے میں ہندوستانیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ان کے خلاف بے چینی اور بغاوت کا ماحول پیدا ہوتا رہا‘ جو 1857ء میں ایک منظم پیمانے پر میرٹھ کی چھائونی سے شروع ہوکر ہندوستان کے دیگر خطوں میں بھی پہنچ گیا۔ اس سلسلے میں ہندو قوموں کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں اور علمائے کرام کی کوششیں بھی مسلسل آزادی کے حصول تک جاری رہیں۔ متعصب تاریخ نگاروں نے جب ان حالات اور ماحول کا نقشہ اپنے طور پر پیش کیا تو حقائق کے ماتھے پر سیاہی پوت کر تعصب اور تنگ نظری سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے کردر کو بالکلیہ ختم کردینے کا ناپاک جرم کیا۔ اس پہلو کا دوسرا رخ یہ سامنے آیا کہ سواداعظم اہلسنت سے خارج علماء جنگ آزادی کا سارا کردار اپنے نام کرنے لگے اور علمائے اہلسنت کے مقتدر مجاہدین آزادی کو انگریز نوازوں کی فہرست میں شمار کروانے لگے یا پھر اپنی جماعت کا فرد بنا کر علمائے اہلسنت کے عظیم کارناموں کے نشانات پر مٹی ڈالنے کی ننگی جرات ہی کر بیٹھے۔ اب ان حالات میں ضروری ہے کہ اصل واقعات سے قوم کو روشناس کرایا جائے اور بازار سیاست کے دلالوں کے سامنے حقیقی صورتحال پیش کردی جائے تاکہ آج جو غدار وطن کا بدنما داغ اقتدار کے زور پر ہماری پریشانیوں پر مڑھا جارہا ہے‘ اس کا بے بنیاد ہونا معلوم ہوجائے ۔
سید احمد اور شاہ اسماعیل کے تعلق سے پورا دیوبندی مکتب فکر مسلسل تحریر و تقریر کے ذریعہ یہ ذہن دینے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی اور جہادی سرگرمیوں میں سارا رول ان ہی کا ہے اور انہوں نے ہی مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کے لئے وعظ کے ذریعہ منظم کرنے کے بعد جنگیں کیں اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے‘ جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے۔ بلکہ یہ دونوں اور ان کے دیگر حامی و متبعین انگریزوں کے وظیفہ خوار اور مکمل ہم نوا تھے۔ اس سلسلے میں خود افراد خانہ کی بیشمار شہادتیں موجود ہیں‘ جن میں سے چند ایک ہدیہ قارئین ہیں۔
سیاسی مصلحت کی بناء پر سید احمد صاحب نے اعلان کیا کہ سرکار انگریز سے ہمارا مقابلہ نہیں اور نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے۔ ہم صرف سکھوں سے اپنے بھائیوں کا انتقام لیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ حکام انگلشیہ بالکل باخبر نہ ہوئے اور نہ ان کی تیاری میں مانع آئے ۔ (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260)

سید صاحب کے پاس مجاہدین جمع ہونے لگے‘ سید صاحب نے مولانا شہید کے مشورے سے شیخ غلام علی رئیس الہ آبادی کی معرفت لیفٹیننٹ گورنر ممالک مغربی شمالی کی خدمت میں اطلاع دی کہ ہم لوگ سکھوں سے جہاد کرنے کی تیاری کرتے ہیں‘ سرکار کو تو اس میں کچھ اعتراض نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے صاف لکھ دیا کہ ہماری عملداری میں امن میں خلل نہ پڑے تو نہیں‘ آپ سے کچھ سروکار نہیں‘ نہ ہم ایسی تیاری میں مانع ہیں۔ یہ تمام بین ثبوت صاف اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جہاد صرف سکھوں سے مخصوص تھا‘ سرکار انگریزوں سے مسلمانوں کو ہرگز مخاصمت نہ تھی‘‘ ۔ (حیات طیبہ‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 523)

اس تعلق سے مولانا جعفر تھانیسری کی تحریر اس طرح ہے : سید صاحب کا انگریزی سرکار سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت آزاد عمل داری کو اپنی ہی عمل داری سمجھتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ سرکار انگریز اس وقت سید صاحب کے خلاف ہوتی تو ہندوستان سے سید صاحب کو کچھ بھی مدد نہ ملتی‘ مگر سرکار انگریزی اس وقت دل سے چاہتی تھی کہ سکھوں کا زور کم ہو‘‘ ۔ (حیات سید احمد شہید‘ ص 293)

سرسید بھی اس واقعات کی طرف عنان قلم موڑتے ہوئے بالکل ملتی جلتی باتیں لکھتے ہیں‘ جن سے سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جہادی کارناموں کا سراغ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔
سید احمد صاحب نے پشاور پر پھر سکھوں کا قبضہ ہونے کے بعد اپنے ان رفیقوں سے جو جہاد میں جان دینے پر آمادہ تھے‘ یہ کہا کہ تم جہاد کے لئے بیعت شروع کرلو‘ چنانچہ کئی سو آدمی نے اسی وقت بیعت کی اور یہ بات تحقیقی ہے کہ جو شخص شیر سنگھ کے مقابلے میں لڑائی سے بچ رہے تھے‘ ان میں صرف چند آدمی اپنے پیشوا سید احمد صاحب کی شہادت کے بعد مولوی عنایت علی اور ولایت علی ساکن پٹنہ ان کے سردار ہوئے‘ لیکن انہوں نے جہاد کے فرائض انجام دینے میں کچھ کوشش نہیں کی اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگریز کا تسلط ہوا تو مولوی عنایت علی اور ولایت علی مع اپنے اکثر رفیقوں کے 1847ء میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیئے گئے‘ پس اس سے ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ خاص پٹنہ یا بنگالہ کے اور ضلعوں شے بلکہ عموما ہندوستان سے روپے اور آدمی اس وہابیت کے پہلے تین زمانوں میں ضرور سرحد کو بھیجے گئے تھے۔ لیکن میری رائے میں یہ بات بہت کھلی ہوئی ہے کہ ان میں سے کوئی آدمی انگریز گورنمنٹ پر حملہ کرنے کے واسطے ہرگز نہیں گیا تھا اور نہ ان سے یہ کام لیا گیا اور نہ تین زمانوں میں سے کسی کو اس کا کچھ خیال ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نیت بغاوت کی جانب مائل ہے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم 145-146)

جب مولوی عنایت علی اور ولایت علی 1847ء کو ہندوستان لوٹ آئے تو اس وقت سید احمد صاحب کے چند پیروکار سرحد پر باقی رہ گئے تھے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان دو شخصوں نے پٹنہ اور اس کے قرب و جوار کے آدمیوں کو اس کی ترغیب دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کی کہ وہ جہاد میں شریک ہوں اور یہ اس کام کے واسطے روپیہ جمع کریں۔ چنانچہ وہ برابر بڑی سرگرمی سے کوشش کرتے رہے اور جس بات کا اب تک ان کو دل سے خیال تھا‘ اس کا اظہار انہوں نے 1851ء میں اس طرح صحیح ہے‘ کیا کہ وہ پھر ہندوستان سے سرحد کی جانب چلے گئے‘ مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے خیال کیا کہ یہ لوگ دوبارہ سرحد کو انگریزوںپر حملہ کی نیت سے گئے تھے اور انہوں نے بجائے سکھوں کے انگریزوں پر جہاد کیا تھا۔ حالانکہ جب ان لوگوں کو انگریزوں سے کسی طرح کی شکایت نہ تھی تو پھر ان کا ارادہ کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتا‘‘ ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 147)

اس پر تھوڑی اور روشنی ڈالتے ہوئے سرسید اک رواں قلم سرخ لکیر کھینچتا ہوا نظر آتا ہے جس سے سید احمد رائے بریلوی کا کردار پوری طرح لہولہان نظر آتا ہے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ وہابی اپنے مذہب میں بڑے پکے‘ نہایت سچے ہوتے ہیں اور اپنے اصول سے کسی حال میں منحرف نہیں ہوتے اور جن شخصوں کی نسبت میں یہ لکھ رہا ہوں‘ وہ اپنے بال بچوں اور مال و اسباب کو گورنمنٹ انگریزی کی حفاظت میں چھوڑ گئے تھے اور ان کے مذہب میں اپنے بال بچوں کے محافظوں پر حملہ کرنا نہایت ممنوع ہے‘ اس لحاظ سے اگر وہ انگریزوں سے لڑتے اور لڑائی میں مارے جاتے تو وہ بہشت کی خوشبوئوں اور شہادت کے درجہ سے محروم ہوجاتے‘ بلکہ اپنے مذہب میں گناہ گار خیال کئے جاتے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 148)

مذکورہ اقتباسات کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کے پیشوا سید احمد رائے بریلوی کو انگریز نوازوں کی پہلی فہرست اور بانیوں میں شمار کرنا تاریخی سچائی ہے اور اس میں کوئی جرم نہیں کہ انہیں انگریزوں کا کھلا ہوا معاون اور ناصر گردانا جائے‘ جبکہ ان شکستہ حالات ‘ فریاد کناں ماحول میں علمائے اہلسنت اپنے وطن کی آزادی کے لئے پوری طرح انگریزی افواج کے خلاف صف آراء اور تحریر و تقریر کے ذریعہ عام ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کررہے تھے‘ جس کے نتیجے میں قیدوبند کی صعوبتوں کے ساتھ جان و مال کے اتلاف کا شکار بنتے رہے۔
انگریز نوازی کے ایسے واقعات سے خود سید احمد کے ماننے والوں ہی کی کتابیں شور محشر جیسا ماحول پیش کرتی ہیں اور بعد کے متبعین کی جھوٹی کہانی کا کھلا مذاق اڑاتی ہیں۔ سوانح احمدی‘ مخزن احمدی‘ نقش حیات‘ الدرالمنثور وغیرہ کی عبارتیں بھی سید صاحب کے جہاد کو انگریز مخالف برسر پیکار طاقتوں کے خلاف بتاتی ہیں مگر اس جماعت کے شرپسندوں نے تاریخ نگاری کی روایت پر فرنگی ظلم کرتے ہوئے تاریخ سازی کی نئی طرح ایجاد کرکے یہ بتادیا کہ جھوٹی شہیدی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اب جھوٹی تاریخ کا سبق بھی عام کریں گے۔ حالانکہ سید احمد کے عہد کے قریبی مورخین وہی باتیں لکھتے رہے جو علمائے اہلسنت بتاتے رہے ہیں۔ مگر بعد کے مورخین نے اپنی جماعت کے اکابرین کا دامن الجھتا دیکھ کر دروغ گوئی سے تاریخ کے صفحات پاٹ دیئے۔(پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سید احمد کے جہادی پہلو کے سلسلے میں مندرجہ ذیل اقتباس بھی کافی واضح ہے۔
’’سرکار انگریز گو منکر اسلام ہے‘ مگر مسلمانوں پر کوئی ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرائض مذہبی اور عبادات لازمی سے روکتی ہے‘ ہم ان کے ملک میں اعلانیہ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع و مزاحم نہیں ہوتی‘ بلکہ اگر ہم پرکوئی ظلم و زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے‘ پھر ہم سرکار انگریز پر کس سبب سے جہاد کریں اور اصول مذہب کے خلاف بلاوجہ طرفین کا خوف گرادیں‘‘ ۔ (حیات سید احمد شہید‘ ص 171)
فرانس کے مشہور مستشرق گارسن وتاسی کی کتاب تاریخ ادب اردو کی تلخیص طبقات الشعرائے ہند‘ ص 295‘ مطبوعہ 1848‘ میں سید صاحب کے تعلق سے موجود ہے کہ
’’بیس برس کا عرصہ ہوا کہ وہ سکھوں کے خلاف جہاد کرتا ہوا مارا گیا۔
یہی بات دوسرے لفظوں میں نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے ترجمان وہابیہ میں بھی لکھی ہے کہ : حضرت شہید کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہ تھا ۔ (ترجمان وہابیہ‘ ص 12-88)
یہی حال شاہ اسماعیل کا بھی تاریخ کے صفحات پر نظر آتا ہے۔ خود وہابی نظریات کے حامل قلم کاروں اور ان کے عہد کے قریبی تذکرہ نگاروں نے ان کی انگریزی سے قربت اور وفاداری کے لڈو ہر خاص و عام کو بانٹے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1857ء کے وقت وہابی‘ دیوبندی جماعت کا وجود ہی نہیں تھا۔ لہذا یہ کہناکہ اکابر دیوبند نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا بگل بجایا‘ شدید ترین ناانصافی اور زیادتی ہے۔ اس کے برعکس علامہ فضل حق خیرآبادی‘ مفتی صدر الدین آزردہ‘ مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی‘ مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی‘ مولانا احمد اﷲ شاہ مدراسی‘ مولانا وہاج الدین مراد آبادی‘ مولانا لیاقت علی الہ آبادی اور دوسرے علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور عام مسلمانان ہند کو بیدار کیا۔ مگر علمائے سو کا یہ طبقہ پوری چاپلوسی کے ساتھ انگریزی حمایت میں قولاً و عملاً سرگرم رہا‘ جس کی گواہی خود افراد خانہ نے ہی دے دی ہے۔ کلکتہ کے جلسہ عام میں جب ایک شخص نے شاہ اسماعیل سے پوچھا کہ انگریزوں کے خلاف آپ جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے تو شاہ صاحب نے فرمایا:ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں‘ ایک تو ان کی رعیت ہیں‘ دوسرے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست درازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے‘ بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں‘‘ ۔ (حیات طیبہ‘ طبع قدیم ص 364)
مرزا حیرت دہلوی کی یہ بھی تحریر ملاحظہ ہو:مولوی اسماعیل نے اعلان کررکھا تھا کہ انگریزی سرکار پر نہ جہاد مذہبی طور پر واجب ہے نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے‘‘ ۔ (حیات طیبہ ص 201)
اس تعلق سے سرسید نے بھی انتہائی واضح الفاظ استعمال کرکے انگریز نوازی کا سرا پول کھول دیا۔اس زمانے میں مجاہدین کے پیشوا سید احمد صاحب تھے۔ مگر وہ واعظ نہ تھے ۔واعظ مولوی محمد اسماعیل صاحب تھے‘ جن کی نصیحتوں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا ولولہ خیز اثر پیدا ہوتا تھا جیسا کہ بزرگ کی کرامت کا اثر ہوتا ہے۔ مگر اس واعظ نے اپنے زمانہ میں کبھی کوئی لفظ اپنی زبان سے ایسا نہ نکالا جس سے ان کے ہم مشربوں کی طبیعت ذرا بھی برافروختہ ہو‘ بلکہ ایک مرتبہ کلکتہ میں سکھوں پر جہاد کرنے کا وعظ فرما رہے تھے۔ اثنائے وعظ میں کسی شخص نے ان سے دریافت کیا کہ تم انگریزوں پر جہاد کرنے کا وعظ کیوں نہیں کہتے‘ وہ بھی تو کافر ہیں؟ اس کے جواب میں مولوی اسماعیل دہلوی نے کہا کہ انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کچھ اذیت نہیں ہوتی اور چونکہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں۔ اس لئے ہم پر اپنے مذہب کی رو سے یہ بات ہے کہ انگریزوں پر جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 141,42)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...