فقہ اور اسلامی فقہ کے بنیادی ماخذ حصّہ سوم
ادلہ فقہ کا چوتھا ماخذ قیاس : قیاس : قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا ، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے ۔
قیاس کی مثال
نص سے یہ بات ثابت ہے کہ غلاموں کو گھروں میں آنے کیلئے اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ انکی آمد و رفت کثرت سے ہوتی ہے لہذا بار باراجازت لینے میں حرج کے سبب ان سے حکم استئذان اٹھا لیا گیا تو اس پر قیاس کرتے ہوئے بلی کے جھوٹے سے ناپاکی کے حکم کو اٹھا لیا گیا کیونکہ اس کا بھی گھروں میں کثرت سے آنا جانا ہے اور نجاست کا حکم باقی رکھنے میں حرج ہے ۔
قیاس کا حکم
قیاس دلائلِ شرعیہ میں سے ایک دلیل شرعی ہے اور اس پر عمل واجب ہے جب تک کہ کسی مسئلے میں اس سے اوپر کی کوئی دلیل نہ پائی جائے ۔
قیاس لغت میں ”تقدیر“ یعنی اندازہ لگانے کوکہتے ہیں ۔ عربی زبان میں کہاجاتاہے : قست الثوب بالزراع، یعنی میں نےکپڑے کومیٹر سے ناپا ۔ اصطلاح میں قیاس سے مراد ہےاشتراک علت کی بناء پرحکم منصوص کوغیر منصوص میں جاری کرنا۔ یاقرآن وسنت میں صراحت سے بیان کیے ہوئے حکم کوایسی چیز میں جاری کرنا جس کاحکم صراحتاً مذکور نہیں۔ اس بناء پر کہ قرآن وسنت میں بیان کیے ہوئے حکم کی علت اس چیز میں بھی پائی جاتی ہے ۔
مزید وضاحت کیلیے قرآن وحدیث میں سے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورۃ المائدہ آیت نمبر90)
ترجمہ : اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔
اس آیت کی رو سے شراب حرام ہے ۔ اس کی حرمت کی علت نشہ پیدا کرنا ہے ۔ لہٰذا یہ علت جس میں بھی پائی جائےگی اس پرشراب کا حکم نافذ ہوگا اور وہ حرام ہے ۔
حدیث مبارک
جامع ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک حدیث شریف میں ہے : من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ۔ (جامع الترمذی رقم حدیث 1291)
ترجمہ : جو شخص خوراک خریدے اور وہ اس کواس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ وصول نہ کرلے ۔
اس حدیث معلوم ہوا کہ غلہ خرید کرقبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے ۔ اس کی علت یہ ہے کہ خریدا ہوا غلہ بھی قبضہ کے ذریعے خریدار کے قبضہ اور تصرف میں نہیں آیا ۔ اگر غلہ کے علاوہ کوئی اور چیز خریدی گئی ہو اوراس پر خریدار کا قبضہ نہ ہواہو تو خریدار کے قبضہ میں داخل نہ ہونے والی علت اس میں بھی موجود ہے ۔ لہٰذاغلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ خریدنے کے بعد جب تک ان کو وصول نہ کیا جائے ، آگے بیچنا جائزنہیں ہے ۔ چنانچہ کہا جائےگا کہ غلہ کے علاوہ دیگر اشیاء کا یہ حکم حدیث میں مذکورہ طعام کے حکم پرقیاس فرمانے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمایا کرتےتھے : وأحسب كل شيء مثله ۔ (جامع الترمذی رقم حدیث 1291،چشتی)
میری رائے میں ہرچیز کا حکم طعام کی طرح ہے ۔
”قیاس“ قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم میں ہے : فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ۔ (سورہ حشر)
ترجمہ : تو عبرت لو اے نگاہ والو ۔
اس آیت میں ”اعتبار“ کا حکم ہے مفسرین نے ”اعتبار“ کی تفسیر اس طرح کی ہے:
رد الشيء إلى نظيره بأن يحكم عليه بحكمه ۔ (روح المعانی ج 28 ص 42، اصول السرخسی ج 2 ص 125)
یعنی چیز کو اس کی نظیر (مثال) کی طرف لوٹانا تاکہ نظیر کا حکم اس چیز پر بھی جاری کیا جاسکے ۔ قیاس کی حقیقت بھی یہی ہے ، لہٰذا قرآن کریم کے اس ”اعتبار“ کے حکم میں قیاس بھی شامل ہے ۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں قیاس کےبل بوتے احکام کو ظاہر کیا گیاہے ۔
حافظ ابن قیم (المتوفیٰ 751ھ) لکھتے ہیں : اس قسم کی آیات جن میں قرآن کریم قیاس کے طریقے سے دلیل پیش کررہا ہے ، چالیس سے زیادہ ہیں ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 130)
مثال کے طورپر إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے ۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کو حضرت آدم علیہ السلام کے بغیر ماں باپ پیدا ہونے پر قیاس کیا گیا ہے اور بھی کئی مثالیں موجودہیں ۔
”قیاس“ احادیث کی روشنی میں
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوال کیا إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا کہ میری والدہ نے حج کی نذر (منت) مانی تھی اور اب ان کا انتقال ہوگیاہے ۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ قَالَآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ فَقَالَ اقْضُوا اللّهَ الَّذِي لَهُ فَإِنَّ اللّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ ۔ (بخاری شریف رقم حدیث 7315،چشتی)
ہاں ! تم والدہ کی طرف سے حج کرسکتی ہو ۔ بھلایہ بتاؤ کہ اگرتمہاری والدہ پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتی ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : توپھر اللہ کا قرض بھی اداکرو اس لئیے کہ اللہ تعالیٰ ادائیگی کا زیادہ حقدارہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی بیوی نے ایک سیاہ رنگ کے بچےکو جنم دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سے پوچھا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : ان کےرنگ کون کون سے ہیں ؟ عرض کیا : سرخ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کیا ان اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا : اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے وہ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے جواب دیا کہ ممکن ہے وہ کسی رگ کے فساد کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : وہی رگ کا فساد یہاں بھی پایا جا سکتا ہے ۔ (عمدۃ الاحکام ج 1 ص 118)
اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نوزائیدہ بچے کے سیاہ رنگ کو اونٹ کے خاکستری ہونے پرقیاس فرمایا اور یوں صحابی کو سمجھا دیا کہ وہ اپنی بیوی پر بدگمانی مت کرے ۔
مندرجہ بالا روایات اس بات کی طرف واضح طور پر نشاندہی کر رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زندگی مبارک میں خود قیاس فرماکر امت کے مجتہدین کے لیئے قیاس سے کام لینے کی اجازت عطافرمائی ہے ۔
”قیاس “اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں
یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسائل میں قیاس فرماتے تھے اور ان کا قیاس کرنا انتہائی مشہور ہے ۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بے شمار مسائل میں قیاس کیا ۔ کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قیاس کرنے پر اعتراض کیا ہو یا اس کی تردید کی ہو ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قیاس کے شرعی دلیل ہونے پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع ہے ۔
قیاس اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی آیت میں جو کلالہ کا ذکر ہے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : میں اپنے قیاس سے اس کے بارے میں بتاتا ہوں کہ کلالہ سے اولاد ، باپ اور دادے کے علاوہ رشتہ دار مرادہیں ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 204)
قیاس اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قاضی شریح کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تم اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کرو۔ اگر اللہ کی کتاب کا ہرپہلو تمہارے علم میں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق فیصلے کرو ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے تمام فیصلے تمہارے علم میں نہ ہوں توہدایت یافتہ ائمہ کے جو فیصلے تمہارے علم میں ہوں ان کےمطابق فیصلے کرو اور اگر ائمہ کرام کے تمام فیصلے بھی تمہارے علم میں نہ ہوں تومسئلہ کے نظائر ڈھونڈو اور قیاس کرو ۔ (اعلام الموقعین ج 1 ص 204،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں شراب پینے کی سزا کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قیاس کی روشنی میں یہ مشورہ دیا کہ شراب پینے کی سزا 80 دُرِّے (کوڑے ) مقرر کیے جائیں ۔
ان چند مثالوں کے علاوہ بے شمارمسائل ایسے ہیں جن میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیاس کرکے مسئلہ بتایا ۔ مثلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو نماز کی امامت پر قیاس کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہمارے دین یعنی ہماری نماز کی امامت کےلیئے پسند فرمایا تو کیا ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پانی دنیا کےلیئے پسند نہ کریں ۔ اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کرتے وقت زکوٰۃ کو صلوٰۃ پر قیاس کیا ۔
”قیاس“ عقلی دلائل کی روشنی میں
قیاس انسان کی ایک فطرت ہے ۔ کوئی فطرت سلیمہ رکھنے والا عقلمند شخص قیاس کا انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ روزمرہ کے بے شمار واقعات ہیں ہرانسان ایک واقعہ کو دیکھ کر اس سے ملتے جلتے واقعات کا حکم سیکھتا ہے ۔ حتی کہ بچے تک قیاس سے واقف ہیں ۔ مثلاً کلاس میں استاد صاحب ایک بچے کوکسی غلطی پر ڈانٹتے ہیں تو اس کو دیکھ کر دوسرے بچے بھی سنبھل جاتے ہیں کہ یہی غلطی ہم سے ہوئی تو ہمیں بھی ڈانٹ پڑے گی ۔ یہ قیاس نہیں تو اورکیا ہے ؟
اس سے معلوم ہوا کہ قیاس ایک فطری چیزہے ۔ زندگی میں پیش آنے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم فقہائے امت نے قیاس کے ذریعے معلوم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔ اگرقیاس کو بطور دلیل شرعی تسلیم نہ کیاجائے تو ان مسائل میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہیں ۔ کیونکہ ان مسائل کا حکم قرآن و سنت میں مذکور نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیاس کا انکار کرنے سے دین میں تعطل پیدا ہوتا ہے ۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ دین ایک کامل ضابطہ حیات ہے ۔
یہ بھی معلوم ہے کہ تمام مسائل کا حکم صراحتاً قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے ۔ اب یہ بات کہ دین کامل ضابطۂ حیات ہے ۔ اسی وقت درست ہوسکتی ہے جبکہ قیاس سے مسائل کا حکم معلوم کرنے کو تسلیم کرلیا جائے ۔ ورنہ جن مسائل کا حکم قرآن و سنت میں صراحتاً مذکور نہیں اور قیاس کے ذریعے ان کا حکم معلوم کرنا بھی درست نہ ہو تو ان مسائل کے سلسلے میں دین کی کوئی رہمنائی نہ رہے گی اور پھر اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کیونکر رہ سکے گا ۔
ضروری بات : دین کے مسائل میں قیاس کرنے کی ہرشخص کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، اس کےلیئے بھی اہلیت کا ہونا ضروری ہے ۔ اور وہ اہلیت قرآن و سنت اور تاریخ اسلامی پر مضبوط دسترس کا نام ہے ۔ ورنہ ہر ایرا غیرا اگر دین کے مسائل میں قیاس شروع کر دے تو دین کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ جائے ۔ اس اہلیت کے اہل درحقیقت حضرات مجتہدین ہیں ۔ یعنی مجتہد کا قیاس دلیل شرعی ہے ۔ ہر عام آدمی کا نہیں ۔
حجت رائے و قیاس اور غیر مقلدین
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں : اس حدیث سے قیاس کی مشروعیت ثابت ہے ۔ (تحفۃ الاحوذی ج 2 ص 43)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کتاب اللہ پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور پھر آثار ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فیصلہ کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ ان سے نہ ملتا تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے ۔ (فتاویٰ علمیہ ص 22)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے امام شوکانی صاحب شرعی دلائل کی ترتیب میں لکھتے ہیں : سب سے پہلے قرآن اس کے بعد سنت اس کے بعد اجماع اور آخر میں قیاس ۔ (فقہ الحدیث ج1 ص 105)
دوسری طرف غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے کے مولوی نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں : اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ (عرف الجادی ص 3)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے عبد المنان نوری پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں : اجماع و قیاس کا قانون سازی کی بنیاد ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ۔ (مکالمات نور پوری ص 85)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے کے امام العصر محمد جونا گڑھی صاحب اپنی جہلات بکھیرتے ہوئے لکھتے ہیں : تعجب ہے جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجنے لگے ۔ (طریق محمدی ص 40-41)
غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے وہ لکھتے ہیں : ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ (تاریخ اہل حدیث صفحہ 164)
یہ تمام باتیں کافی ہیں غیر مقلدین اہلحدیث حضرات کا عمل بالحدیث اور صرف قرآن حدیث کے جھوٹے نعرے اور دعوے کی پول کھولنے کیلئے ۔ اور یہ لوگ ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کی تقلید سے نکال کر صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے پیچھے لگاتے ہیں ۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوح کروانا ہے تو آئمہ اربعہ علیہم الرّحمہ میں کیا خرابی ہے ؟ غیر مقلدین اہلحدیث عوام کو اس بات میں غور کرنا چاہئے کہ ان کے علما آئمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کی تقلید سے ہٹا کر کوئی اللہ عز وجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ اپنی اپنی تحقیق کے پیچھے آپ لوگوں کو چلا رہے ہیں ۔
مورخ اسلام علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 808 ھ) لکھتے ہیں : جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلید کرتا ہے اس کے ساتھ رہے۔اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ کے مذاہب آگے نقل کیئے جائیں ۔ (مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 صفحہ 448 مصر) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment