Sunday, 8 October 2023

مسلمانوں پر جہاد کب فرض ہوتا ہے ؟ جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام

مسلمانوں پر جہاد کب فرض ہوتا ہے ؟ جہاد فرضِ عین کی تعریف و احکام

محترم قارئینِ کرام : اسلامی تعلیمات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے، یہ محض قتال ، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں ۔ یہ اس وقت ہر مومن پر فرض ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں ، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں۔ قرآنی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر اذنِ دفاع نازل ہوا ۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ۔ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔
ترجمہ : پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسا اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے ۔ (سورۃ الحج آیت نمبر 39 - 40)

اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کےلیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ میں حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اذن نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔

مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا۔

ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے : وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو ۔ (سورۃ البقره، 2 : 190)

اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ ۔
ترجمہ : اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملاً) اللہ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں ۔ (سورۃ البقره، 2 : 193)

خدا را اے مسلمانو کیا اب بھی نہیں جاگو گے ذرا دیکھو مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے ہیں یہ کٹی پھٹی لاشیں یہ میرے بچوں اور بچیوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے بے گور و کفن لاشے برما میں میانمار میں کشمیر ، فلسطین ، عراق و افغانستان میں تڑپتے سسکتے مسلمان اے بے ضمیر و بے حمیت مسلم حکمرانو اور مسلمانو کب جاگو گے خواب غفلت سے ، کب اٹھو گے ؟

اے اللہ میں تیرا عاجز و کمزور بندہ اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں میرے مولا میرے اختیار میں کچھ نہیں جو توفیق توں نے عطاء فرمائی تیری ہی توفیق سے اس بے ضمیر مردہ ضمیر قوم کو جنجھوڑنا پیغام جہاں تک ممکن ھو سکا پہنچا دیا میرے کریم مالک تیرا عاجز گناہ گار بندہ فقیر حقیر پر تقصیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی تیری بارگاہ لم یزل میں التجا کرتا ہے میرے مالک ھمیں غیرت مند مسلم حکمران عطاء فرمادے صدقہ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آمین ۔

کافر ہمارے کسی شہر [یا علاقے] میں داخل ہوجائیں یا اس پر چڑھائی کردیں یا شہر کے دروازے کے باہر آکر حملے کی نیت سے پڑاؤ ڈال دیں اور ان کی تعداد اس علاقے کے مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو جہاد اس وقت فرض عین ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا اور عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نکلے گی۔ بشرطیکہ اس میں دفاع کی طاقت ہو۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور ہر شخص اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اور اگر کافر مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں اور مسلمانوں کو لڑائی کیلئے تیار ہونے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے تو ہر اس شخص پر تنہا لڑنا اور اپنا دفاع کرنا فرض ہے۔جسے معلوم ہو کہ اگر اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ مارا جائے گا یہ مسئلہ ہر مسلمان کیلئے ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا اندھا، لنگڑا ہو یا بیمار، اور اگر امکان ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد قتل بھی ہو سکتے ہیں اور [بچ کر ] گرفتار بھی تو ایسے وقت میں لڑنا افضل ہے اور ہتھیار ڈالنا جائز۔اور اگر عورت کو علم ہو کہ اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو [غلیظ] ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو اس پر اپنے دفاع میں لڑنا فرض ہے اگرچہ اس میں اس کی جان بھی چلی جائے کیونکہ جان بچانے کیلئے عزت کو داؤ پر لگانا جائز نہیں ہے ۔

علامہ اذرعی رحمۃ اللہ علیہ [ المتوفی ۷۸۳ ] اپنی کتاب غنیتہ المحتاج میں فرماتے ہیں کہ خوبصورت بے ریش لڑکے کو اگر علم ہو کہ اس کے ساتھ کافر ابھی یا آئندہ بے حیائی کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اس کا حکم بھی عورت کی طرح ہے بلکہ عورت سے بھی بڑھ کر [ اسے اپنے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے اور عصمت کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دینی چاہئے ] اور اگر جس علاقے پر کافروں نے حملہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کی کثرت ہو اور اتنے لوگ کافروں کے مقابلے پر نکل چکے ہوں جو مقابلے کیلئے کافی ہوں تب بھی باقی مسلمانوں پر زیادہ صحیح قول کے مطابق ان مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے۔ اور جو شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں سے حملہ آور دشمن مسافت سفر [ یعنی اڑتالیس میل کی مسافت ] پر ہوں تو اس شخص پر اسی طرح جہاد فرض عین ہو جائے گا جیسا کہ اس علاقے والوں پر فرض ہے جہاں دشمن نے حملہ کیا ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں کے حملے کے بعد اب یہ جہاد دفاعی ہوچکا ہے۔ اقدامی نہیں رہا اس وجہ سے یہ ہر اس شخص پر فرض ہوگا جو اس کی طاقت رکھتا ہو [ تاکہ مسلمانوں کے علاقے اور ان کی جان و مال کا دفاع کیا جا سکے جوکہ فرض عین ہے۔ ] اور جو شخص اس شہر سے جس پر کافروں کا حملہ ہو اہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] کی دوری پر ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً اس شہر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہو اگرچہ وہ خود اس شہر یا اس کے آس پاس کا رہنے والا نہ ہو اور اگر اتنے لوگ وہاں جاچکے ہوں جو دشمن کیلئے کافی ہوں تو پھر باقی لوگوں سے فرضیت تو ساقط ہو جائے گی لیکن وہ نہ جانے کی صورت میں اجر عظیم اور بے انتہا ثواب سے محروم ہو جائیں گے ۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مسافت سفر کے اندر والوں پر سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی اگرچہ کافی مقدار میں لوگ دشمن کے مقابلے پر جاچکے ہوں بلکہ ان پر مجاہدین کی مدد کرنا ور خود میدان جنگ کی طرف سبقت کرنا فرض ہوگا ۔

وہ مسلمان جو اس شہر سے جس پر کافروں نے حملہ کیا ہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] سے زیادہ دور رہتے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ زیادہ صحیح قول تو یہ ہے کہ اگر مسافت سفر کے اندر کے لوگ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہورہے ہوں تو پھر ان لوگوں پر جہاد فرض عین نہیں ہوتا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ جہاد الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے فرض ہوتا چلا جاتا ہے اس میں کسی مسافت وغیرہ کی قید نہیں ہے بلکہ قریب والوں پر پھر ان کے بعد والوں پر پھر ان کے بعد والوںپر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ خبر آجائے کہ کافروں کو شکست ہوگئی اور وہ مسلمانوں کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ۔

جو شخص لڑائی والے شہر سے مسافت سفر کے اندر ہوگا اس پر جہاد کی فرضیت کیلئے سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر مسافت سفر سے دور ہوتو بعض حضرات سواری کو شرط قرار دیتے ہیں جبکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسے سخت حالات میں سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ توشے کا ہونا جہاد کی فرضیت کےلیے شرط ہے کوئی قریب ہو یا دور ۔

اگر کافر مسلمانوں کے ملک میں ان کے شہروں اور آبادیوں سے دور ویرانوں میں یا پہاڑوں میں داخل ہوجائیں تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام الحرمین نقل فرماتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی بھی حصے میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شہر میں داخل ہونا [ اس لئے ان کو نکالنے کیلئے جہاد فرض عین ہوگا۔] لیکن خود امام الحرمین کا رجحان اس طرف ہے کہ جن علاقوں میں کوئی آباد ہی نہیں ہے ان کیلئے لڑائی کرنا اور خود کو تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام الحرمین کا یہ رجحان قطعاً درست نہیں ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان دفاع کی قوت رکھتے ہوئے بھی کافروں کو دارالاسلام کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دیں ۔ (روضۃ الطالبین ص ۲۱۶ ج۔۱۰)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے کیلئے باہر نکلیں اور [ اور لڑتے رہیں ] یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہو اور مرکز اسلام محفوظ، سرحدیں بے خطر اور دشمن ذلیل وخوار ہوجائے ۔ (الجامع لاحکام القرآن ص ۱۵۱ج۔۸،چشتی)

اور یہی مطلب ہے علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں تو قریبی لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور دور والوں پر فرض کفایہ رہتا ہے [بشرطیکہ قریب والے مقابلہ کررہے ہوں اور کافی ہو رہے ہوں ۔ (شرح السنہ ص ۳۷۴ج۔ ۱۰ )

اس باب کی مناسبت سے یہ چند مسائل میں نے یہاں ذکر کردئیے ہیں ان مسائل کی تفصیلات کی اصل جگہ فقہ کی کتابیں ہیں ۔

آپ نے جہاد کے فرض عین اور فرض کفایہ ہونے کی بحث پڑھ لی ہے یہی وہ بحث ہے جسے آڑ بنا کر آج بہت سارے مسلمان خود بھی جہاد چھوڑ بیٹھے ہیں اور دوسروں کو بھی اس بحث میں الجھا کر جہاد سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ نے خود پڑھ لیا کہ جہاد اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب مسلمان کافروں کی طرف سے امن میں ہوں ۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آج مسلمان امن میں ہیں؟ یقینا آپ کو ہر طرف مسلمانوں کی چیخ وپکار اور ان کی برہنہ لاشیں اور عقوبت خانوں میں سسکتی جوانیاں چیخ چیخ کر بتائیں گی کہ مسلمان ہر گز امن میں نہیں ہیں بلکہ ان پر تو وہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں جو سفاک درندے بھی کمزور جانوروں پر نہیں ڈھاتے۔ جہاد تو اس وقت فرض کفایہ ہوتا ہے جب کافر اپنے ملکوں میں ہوں اور ان کی فوجیں ان کی سرحدوں کے اندر ہوں۔ مگر آج ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ امریکی فوجیں ہوں یا ہندوستانی، برطانوی لشکر ہوں یا فرانسیسی، سربیائی درندے ہوں یا اسرائیلی، ایتھوپیا کے کالے کافر ہوں یا اقوام متحدہ کی وردی پہنے گورے کافر، یہ سب کے سب ہماری سرحدوں کے اندر گھس کر ہمارے علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اور انہوں نے پوری دنیا میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے تو کیا اب بھی جہاد فرض کفایہ ہے۔ امریکی راکٹ اسلامی امارت پر گر رہے ہیں برطانوی جہازوں کی گھن گرج حدود حرم میں سنائی دے رہی ہے اور ترکی کی خلافت کا خون آلود چہرہ ہماری نظروں کے سامنے بار بار آتا ہے اور ہمیں برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیا ان حالات میں بھی جہاد فرض کفایہ ہی رہے گا اگر جہاد اب بھی فرض کفایہ ہے تو پھر فرض عین کب ہوگا؟ کیا اس وقت جب امت کے مردہ جسم تک کو بیچ دیا جائے گا کیا اس وقت جب اسرائیل کے یہودی خیبر کے بعد نعوذ باللہ مدینہ منورہ میں جشن منا رہے ہوں گے کیا اس وقت جب ہمارا گوشت ریسٹورنٹوں میں پکا کر کھایا جائے گا۔ شاید اب تک یہی کچھ نہیں ہوا ، ورنہ تو سب کچھ ہوچکا ہے ہماری زندہ مسلمان بہنوں کے ساتھ ساتھ شہید ہونے والیوں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ہمارے بچوں کے سروں سے فٹ بال تک کھیلی جاچکی ہے۔ شعائر اسلام کو دنیا میں ذلیل و رسوا کیا جارہاہے۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کرکے اور دل تھام کر یہ مان لیتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے تو ذرا بتائیے کہ یہ کفایہ آج کون ادا کررہاہے فرض کفایہ جہاد کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان خود جا کر کافروں کے ملک پر حملہ کریں یہ حملہ آج دنیا میں کہاں ہو رہا ہے فرض کفایہ میں تو مسلمانوں کے لشکر حملہ کرتے ہیں مگر آج خود ہم پر حملے کئے جارہے ہیں۔ فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمانوں کے مسلح لشکر کافروں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں مگر آج تو ہمارے ملکوں میں ہماری نسلوں کو مرتد کیا جارہا ہے فرض کفایہ جہاد میں تو مسلمان کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو پھر ہمارے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرو اور ہمیں جزیہ دے کر امن سے رہو ۔ مگر آج تو ہم خود کافروں کو جزیہ دیتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی شکل میں ان کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور پھر بھی ہمیں امن کی بھیک نہیں ملتی۔ معلوم ہوا کہ فرض کفایہ بھی ادا نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے آج پوری امت ذلت و پستی کا شکار ہے اور کافر قومیں اسے نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں ۔ اے مسلمانو! اب اس بحث کا وقت نہیں رہا کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ بلکہ اب تو جہاد ہر فرض سے بڑا فرض ہے اور ایسا فرض ہے جس پر ہماری زندگی، ہمارا ایمان اور ہماری نسلوں کا ایمان موقوف ہے۔ تم اسے فرض عین سمجھو یا فرض کفایہ تمہارے دشمنوں نے تمہیں مٹانا اپنے اوپر فرص کر رکھا ہے وہ اپنی فوجیں لے کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ اے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپاہیو! آج اسلام کی عزت کا مسئلہ ہے تمہاری غیرت کس طرح سے یہ بات گوارا کرتی ہے کہ جن علاقوں کو تمہارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک خون اور پسینے بہا کر آزاد کرایا تھا اب وہ پھر یہودیوں کی دسترس میں ہیں فضول لفظی بحثیں چھوڑو زمین پر دیکھو کفر تمہیں چیلنج کررہاہے اور آسمان کی طرف دیکھو رب کے فرشتے تمہارے ساتھ اتر کر لڑنے کے منتظر ہیں ۔

جہاد کا لغوی اور شرعی مفہوم و اقسام

محترم قارئینِ کرام : شرعی اِصطلاح میں جہاد کا معنی اپنی تمام تر جسمانی، ذہنی ، مالی اور جانی صلاحیتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر نیکی اور بھلائی کے کام میں وقف کر دینا ہے ۔ گویا بندے کا اپنی تمام تر ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اَعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں صرف کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے ۔ اِس حوالے سے چند اَئمہ کی تصریحات ملاحظہ ہوں : ⬇

امام جرجانی رحمۃ اللہ علیہ (740-816ھ) کے نزدیک جہاد کی تعریف درج ذیل ہے : هُوَ الدُّعَاءُ إِلَی الدِّيْنِ الْحَقِّ ۔ (کتاب التعريفات: 112)
ترجمہ : جہاد دینِ حق کی طرف دعوت دینے سے عبارت ہے ۔

سید محمود آلوسی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ (م1270ھ) تفسیر ’روح المعانی‘ میں لفظِ جہاد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِي دَفْعِ مَا لَا يُرْضٰی ۔
ترجمہ : کسی ناپسندیدہ اور ضرر رساں شے کو دور کرنے کے لیے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے ۔ (روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 10: 137)

شرعی مفہوم کی مزید تفصیل اَلْبَابُ الثَّانِي میں اَئمہ کے اَقوال و آثار میں ملاحظہ فرمائیں :

شیخ علی احمد الجرجاوی رحمۃ اللہ علیہ جہاد کے مفہوم اور مقصود کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : اَلْجِهَادُ فِي الإِْسْلَامِ هُوَ قِتَالُ مَنْ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا لِتَقْوِيْضِ دَعَائِمِ الأَمْنِ وَإِقْلَاقِ رَاحَةِ النَّاسِ وَهُمْ اٰمِنُونَ فِي دِيَارِهِمْ أَوِ الَّذِيْنَ يُثِیرُوْنَ الْفِتَنَ مِنْ مَکَامِنِهَا إِمَّا بِإِِلْحَادٍ فِي الدِّيْنِ وَخُرُوْجٍ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَشَقِّ عَصَا الطَّاعَةِ أَوِ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ إِطْفَاءَ نُوْرِ ﷲِ وَيَنْاؤَوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْعَدَاءَ وَيُخْرِجُوْنَهُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ويَنْقُضُونَ الْعُهُوْدَ ويَخْفِرُوْنَ بِالذِّمَمِ. فَالْجِهَادُ إِذَنْ هُوَ لِدَفْعِ الْأَذَی وَالْمَکْرُوهِ وَرَفْعِ الْمَظَالِمِ وَالذَّوْدِ عَنِ الْمَحَارِمِ ۔ (حکمۃ التشریع و فلسفتہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 330،چشتی)
ترجمہ : اِسلام میں جہاد کا مفہوم ان لوگوں کی سرکوبی کرنا ہے جو بناء اَمن کو تباہ و برباد کرنے، اِنسانوں کے آرام و سکون کو ختم کرنے اور ﷲ کی زمین میں فساد انگیزی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خصوصاً اُس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں انتہائی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں (یعنی Civilians اور Non-Combatants ہوں) ۔ یا ان لوگوں کے خلاف جد و جہد کرنا جو پوشیدہ جگہوں اور خفیہ طریقوں سے (اَمنِ عالم کو تباہ کرنے کے لیے) فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں ، خواہ (یہ کاوش) کسی کو دین سے منحرف کرنے کی صورت میں ہو یا جماعت سے باغی کرنے اور اطاعت کی زندگی سے رُوگردانی کرنے کے لیے ہو یا ان لوگوں کے خلاف ہو جو ﷲ کے نور کو (ظلم و جبر سے) بجھانا چاہتے ہوں اور مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں (اپنے وطن سے نکال کر) دور بھگانا چاہتے ہوں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرتے ہوں، عہد شکنی کرتے ہوں اور باہمی اَمن و سلامتی کے معاہدات کی پاس داری نہ کرتے ہوں۔ غرضیکہ جہاد اِنسانیت کے لیے اَذیت و تکلیف دہ ماحول اور ناپسندیدہ، ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو ختم کرنے اور محارم کی حفاظت کرنے کا نام ہے ۔

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں لفظ جہاد کا مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کے لیے جد و جہد میں اگر اِنتہائی طاقت اور محنت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، تو اس کوشش کو جہاد کہیں گے۔ جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری hegemony and) expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے ۔

اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان ، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے ۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی ، ظلم و بربریت ، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights) کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ ﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔ جہاد محض جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ اِسلام نے تصورِ جہاد کو بڑی وسعت اور جامعیت عطا کی ہے۔ اِنفرادی سطح سے لے کر اِجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اَمن و سلامتی، ترویج و اِقامتِ حق اور رضاء اِلٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے ۔

عربی لغت کے مطابق سرزمینِ عرب میں قبل اَز اِسلام دورِ جاہلیت میں جنگ کے لیے جو تراکیب، محاورے، علامتیں، اِستعارے اور اِصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، ان سب سے بلاشبہ وحشیانہ طرزِ عمل اور دہشت گردی کا تاثر اُبھرتاتھا۔ عسکری لٹریچر کی اِصلاح کے لیے اِسلام نے ان تمام الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اِصلاحِ اَحوال کی جدوجہد کی طرح دفاعی جنگ کو بھی ’جہاد‘ کا عنوان دیا۔ یعنی اِسلامی نکتہِ نظر سے لفظِ جہاد کا اِطلاق اَعلیٰ و اَرفع مقاصد کے حصول، قیامِ اَمن، فتنہ و فساد کے خاتمہ اور ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کو مٹانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروے کار لانے پر ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو ساری زندگی جھوٹ، منافقت ، دجل و فریب اور جہالت کے خاتمہ کے لیے اِبلیسی قوتوں سے مصروفِ جہاد رہتا ہے ۔ لفظِ جہاد کے حقیقی معنی سے لوٹ مار، غیظ و غضب اور قتل و غارت گری کی بُو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ مقاصد کے حصول کی کاوشوں پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی صلح جو اور اَمن پسند قوم کی عظیم جد و جہد کے لیے لفظِ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ جہاد اپنے وسیع تر معانی میں وقتی یا ہنگامی عمل نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پر محیط تصورِ حیات ہے۔ وہ لمحہ جو اِحترامِ آدمیت اور خدمتِ انسانیت کے جذبہ سے خالی ہے، اِسلام کے لیے قابل قبول نہیں اور نہ ہی جہاد کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے ۔

جہاد کے لغوی معنی​

جہاد جہد بالضم یا جہد بالفتح سے مشتق ہے جس کا معنی خوب محنت و مشقت کے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں جہاد ک لغوی معنی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔

بذل اقصی ما یستطیعہ الانسان من طاقتہ لنیل محبوب او لدفع مکروہ
انسان کا اپنی کسی مرغوب چیز کو حاصل کرنے یا نا پسندیدہ چیز سے بچنے کے لئے انتہائی درجے کی بھر پور کوشش کرنا ۔

جہاد کے شرعی معنی ​

تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ جہاد شریعت میں قتال فی سبیل اللہ اور اس کی معاونت کو کہتے ہیں اس کی مکمل وضاحت کے لئے مذاہب اربعہ کی مستند کتابوں کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے ۔

جہادکی تعریف فقہ حنفی میں

(1) الجہاد بذل الوسع والطاقۃ بالقتال فی سبیل اللہ عزوجل بالنفس والمال و اللسان و غیر ذالک ، اللہ رب العزت کے راستے میں قتال کرنے میں اپنی جان ، مال اور زبان اور دوسری چیزوں سے بھر پور کوشش کرنے کو جہاد کہتے ہیں ۔ (البدائع والصنائع )
(2) الجہاد دعوۃ الکفار الی الدین الحق وقتالہم ان لم یقبلوا ، جہاد کے معنی کافروں کو دین حق کی طرف دعوت دینا اور ان سے قتال کرنا اگر وہ دین حق کو قبول نہ کریں ۔ (فتح القدیر)

جہاد کی تعریف فقہ مالکی میں​

قتال المسلم کافراً ذی عہد لا علاء لکلمۃ اللہ ، جہادکے معنی مسلمانوں کا ذی عہد کافروں سے اللہ ک دین کی سر بلندی کے لئے قتال کرنا۔ (حاشیہ العدوی ۔ الشرح الصغیر)

جہاد کی تعریف فقہ شافعی میں​

وشر عابذل الجہد فی قتال الکفار ، اور جہاد کے شرعی معنی اپنی پوری کوشش کافروں سے قتال کرنے میں صرف کرنا ۔ (فتح الباری)

جہاد کی تعریف فقہ حنبلی میں ​
الجہاد قتال الکفار ، جہاد کافروں سے لڑنے کو کہتے ہیں ۔ (مطالب اولی النہی)

یہ تو تھی جہاد کی شرعی تعریف اب آئیے جہاد کے حکم کی طرف

جہاد کا حکم​

امام سرخسی رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جہاد ایک محکم فریضہ اور اللہ پاک کا قطعی فیصلہ ہے ۔ جہاد کا منکر کافر ہوگا اور جہاد سے ضد رکھنے والا گمراہ ہوگا ۔ (فتح القدیر ص 191،ج5)

صاحب الاختیار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ ہے جس کا منکر کافر ہے اور یہ فریضہ قرآن و حدیث اور امت کے اجماع سے ثابت ہے ۔ (فتح القدیر ص 191 ،ج5)

جہاد کی اقسام​

کافروں سے جہاد کرنے کی دو قسمیں ہیں (1) اقدامی جہاد (2) دفاعی جہاد
اقدامی جہاد : یعنی مسلمانوں کا کافروں کے خلاف خود اقدام جہاد کرنا ، اگر یہ اقدام ان کافروں پر ہے جن تک دین کی دعوت پہنچ چکی ہے تو ایسے کافروں کو حملے سے پہلے دعوت دینا مستحب ہے اور اگردعوت نہیں پہنچی تو پہلے دعوت دی جائے گی اگر نہ مانیں تو جزیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور یہ بھی نہ مانیں تو ان سے قتال کیا جائےگا ۔

اقدامی جہاد

کی بدولت وہ کافر جو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہوں دب جاتے ہیں اور ان کے دشمن خوف زدہ اور مرعوب ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں نہیں کرتے اس لئے کافروں کو مرعوب رکھنے اور انہیں اپنے غلط عزائم کی تکمیل سے روکنے اور دعوت اسلام کو دنیا کے ایک ایک چپے تک پہنچانے اور دعوت کے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے اقدامی جہاد فرض کفایہ ہے ۔ اگر کچھ مسلمان یہ عمل کرتے ہیں تو سب کی طرف سے کافی ہے لیکن اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہیں مسلمانوں کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ دارالحرب کی طرف ہر سال ایک یا دو مرتبہ لشکر بھیجے اور عوام پر ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے امام کی مدد کریں اگر امام لشکر نہیں بھیجے گا تو گناہ گار ہوگا ۔ (فتاویٰ شامی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے کا اکثر جہاد اقدامی تھا ۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو اقدامی جہاد کی تلقین فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اقدامی جہاد ہوتا رہے تو دفاعی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن جب مسلمان اقدامی جہاد کے فریضے غفلت کرتے ہیں تو انہیں دفاعی جہاد پر مجبور ہونا پڑتا ہے جیسا کہ اس دور میں ہو رہاہے ۔

دفاعی جہاد

یعنی اپنے ملک پر حملہ کرنے والے کفار سے دفاعی جنگ لڑنا یہ اہم ترین فریضہ ہے ۔ حضرات فقہاء کرام کی عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔

(1) جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر یا بستی پر حملہ آور ہو جائیں یا قابض ہو جائیں ۔

(2) جب کفار مسلمانوں کے کچھ افراد کو گرفتار کرلیں ۔

(3) ایک مسلمان عورت گرفتار ہو جائے تو اسے کافروں سے نجات دلانا تمام مسلمانان عالم پر فرض ہو جاتا ہے ۔

(4) جب امام پوری قوم یا کچھ افراد کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے ۔

(5) جب مسلمانوں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائٰیں اور جنگ شروع ہو جائے ۔

فرض عین کا معنی یہ ہے کہ اس جہاد میں سب نکلیں گے یہاں تک کہ بیٹا والدین کی اجازت کے بغیر ، بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر ، مقروض اپنے قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلیں گے ۔

ابتدائی طور پر یہ جہاد اس علاقے کے مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے جن پر حملہ ہوا ہو لیکن اگر وہ کافروں کے مقابلے میں کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر فرض ہوجاتا ہے ۔ اگر وہ بھی کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر ۔ اس طرح سے مشرق سے لے کر مغرب تک تمام مسلمانو ں پر فرض ہوجاتا ہے ۔

دفاعی جہاد کے متعلق علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :​ دفاعی جہاد یعنی اپنے دین اور حرمت کے دفاع کے لئےلڑنا یہ اجتماعی طور پر اہم ترین فریضہ ہے ۔ وہ دشمن جو مسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کے لئے حملہ آور ہواہے ایمان کے بعد اس کے ساتھ لڑنے سے بڑا فریضہ اور کوئی نہیں ۔ اس دفاعی جہاد کے لئے کوئی چیز شرط نہیں یعنی توشہ اور سواری تک شرط نہیں بلکہ ہر ایک حتی الامکان دشمن کا مقابلہ کرے ۔ فقہاء کرام کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دفاعی جہاد صرف اسی وقت فرض نہیں ہوتا جس وقت کافر حملہ کردیں بلکہ جب کافر مسلمانوں سے "مسافت سفر "کی دوری پر ہو ں تو اسی وقت اس شہر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے ۔ (نہایۃ المحتاج ص58 ،ج8)

قرآن مجید اور جہاد​

قرآن مجید میں جہاد کا مسئلہ بہت ہی اہمیت اور تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ محققین کی رائے یہ ہے کہ اعمال میں جس قدر تفصیل قرآن مجید نے جہاد کی بیان کی ہے اور کسی عمل کی اس قدر تفصیل بیان نہیں کی ۔ اللہ رب العزت نے اس عمل پر اہل ایمان کو کھڑا کرنے کے لئے قرآن مجید کی سورتوں کی سورتیں نازل فرمائیں۔ سینکڑوں ایات میں مختلف انداز اور پیراؤں میں مسائل جہاد کو سمجھایا جہاد کے منافع اور مقاصد کا تفصیل سے بیان ہوا۔ مجاہد کے مقام کو مکمل وضاحت سے کھول کھول کر بیان کیا ۔ جہاد نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدوں کو پوری طرح تفصیل سے بیان کیا گیا۔ قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے اور سمجھنے والے بعض بڑے مفسرین حضرات کی رائے یہ ہے قرآن مجید کا موضوع ہی جہاد ہے ۔
قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کو جا بجا استعمال فرمایا ہے ۔ جس کے معنی قتال فی سبیل اللہ کے آتے ہیں اور خود قتال کا صیغہ بھی بار بار استعمال ہوا ہے ۔ کتاب اللہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے26 صیغے ہیں اور قتال کے 79 صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید کی بعض پوری کی پوری سورتیں جہاد کے احکام و فضائل اور جہاد ترک کرنے والوں پر وعیدوں کے متعلق نازل ہوئٰیں جیسے دس رکوع پر مشتمل سورۃ انفال جس کا دوسرا نام سورۃ بدر ہے اور سولہ رکوع پر مشتمل سورۃ براۃ جس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ قرآن مجید کی سورۃ حدید میں آلات جہاد کی طرف اشارہ ہے ، سورۃ بقرہ، سورۃ نساء اور سورۃ مائدہ میں بھی تفصیل سے جہاد کا بیان ہے۔ سورۃ احزاب ، سورۃ محمد (قتال) ، سورۃ فتح ، سورۃ الصف کے جنگی ناموں ہی سے ان سورتوں کے جہادی مضامین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، سورۃ عادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں اور سورۃ نصر میں جہاد کے ذریعے دین کے عالمگیر انقلاب اور مقبولیت کا بیان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان ایک مرتبہ قرآن مجید کا صحیح مطالعہ کرے تو اس کی روح میدان جہاد میں جانے کے لئے بے چین ہو جاتی ہے اور اسے جہاد کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے ۔ اس لئے دشمنان جہاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھیں کیونکہ قرآن مجید کے سمجھنے والے کسی بھی مسلمان کو جہاد سے دور کرنا بہت ہی مشکل ہے ۔

حدیث شریف اور جہاد​

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قتال کرنے اور قتال پر ابھارنے کا حکم دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان دونوں احکام پر کما حقہ عمل فرمایا۔ چنانچہ ترغیب جہاد کے سلسلے میں آپ صلی علیہ وسلم کے ہزاروں فرامین کتب حدیث میں موجود ہیں ۔
حضرات محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جہاد کے متعلق اقوال و افعال کو جمع فرمایا ہے۔ ان اقوال و افعال کی کثرت کا اندازہ تو ان کتب کے مطالعہ ہی سے ہو سکتاہے جو جہاد کی اہمیت کاواضح ثبوت ہیں ۔ ذیل میں ہم کتب حدیث میں کتاب الجہاد کے مقامات لکھ رہے ہیں تاکہ ذوق تحقیق رکھنے والے قارئین سہولت کے ساتھ احدیث جہاد تلاش کرسکیں ۔

1۔ صحیح بخاری شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 241 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 390 تا 452 جلد اول)
2۔ صحیح مسلم شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 100 ابواب ہیں ۔(صفحہ 81 تا 144 جلد دوم)
3 ۔ ترمذی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 155 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول،چشتی)
4۔ ابو داؤد شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 176 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول / 2 تا 9 جلد دوم)
5۔ نسائی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 48 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 53 تا 66 جلد دوم )
6۔ ابن ماجہ شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 46 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 197 تا 207 )
7۔ مشکوٰۃشریف میں کتاب الجہاد جلد اول صفحہ 329 تا 355 ( کل صفحات 26 )
8۔ الترغیب والترہیب میں کتاب الجہاد صفحہ 365 تا 455 جلد ثانی ( کل صفحات 90 )
9۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کتاب الجہاد صفحہ 212 تا 546 ( کل صفحات 334 )
10۔ سنن کبرٰی بیہقی میں کتاب الجہاد جلد 9 صفحہ 1 تا 183 ( کل صفحات 183 )
11۔ کنزالعمال میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 278 تا 637 (کل صفحات 359 )
12۔ اعلاء السنن میں کتاب الجہاد جلد 12 صفحہ 1 تا 674 )
کتب فقہ میں کتاب الجہاد کے مراجع​
1۔ فتح القدیر میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 187 تا 333 ( کل صفحات 146 )
2۔ البحرالرائق میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 70تا 142 (کل صفحات 72 )
3۔ فتاوٰی شامی میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 119 تا 268 ( کل صفحات 149 )

جہاد کے موضوع پر مستقل تصانیف ​

ویسے تو جہاد کی ضرورت اور اہمیت اور اس کے عظیم الشان فضائل اور اعلی مقام کے پیش نظر حدیث و فقہ کی ہر کتاب میں جہاد پر طویل ابواب باندھے گئے ہیں اور سینکڑوں صفحات پر جہاد کے فضائل و احکام کو لکھا گیا ہے مگر امت می٘ں سے بعض اکابر نے اس موضوع پر مستقل تصانیف فرمائیں ، ان اسلاف میں سے چند کے اسماء گرامی ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) ابو سلیمان داؤد بن علی داؤد الاصفہانی الظاہری المتوفی 270ھ(کتاب الجہاد )
(2) احمد بن عمروبن الضحاک الشیبانی ، ابو بکر، المعروف بابن ابی عاصم المتوفی 278 ھ (الجہاد )
(3) ثابت بن نذیر القطبی المالکی المتوفی 318 ھ (الجہاد )
(4) ابراہیم بن حماد بن اسحاق الازدی المالکی المتوفی 323 ھ (کتاب الجہاد )
(5) ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی المتوفی 388 ھ (الجہاد)
(6) ابو بکر محمد بن الطیب الباقلانی المتوفی403 ھ (فضل الجہاد)
(7) تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد بن ولی الجماعیلی المقدسی المتوفی 600 ھ ان کی کتاب کا نام "تحفۃ الطالبین فی الجہاد و المجاہدین " ہے۔
(8) ابو قاسم بن علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف با بن عساکر 600 ھ(الجہاد )
(9) عزالدین علی بن محمد الجزری المعروف با بن اثیر المتوفی 630 ھ (الجہاد )
(10) بہاءالدین ابو المحاسن یوسف بن رافع المعروف با بن شداد الموصلی الجلی المتوفی 632 ھ ھ (احکام الجہاد)
(11) ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی المتوفی 660 ھ ان کی کتاب کا نام "احکام الجہاد و فضائلہ" ہے ۔
(12) عماد الدین اسماعیل بن عمر المعروف با بن کثیر الحافظ الد مشقی المتوفی 774 ھ ۔ان کی کتاب کانام "الاجتہادفی طلب الجہاد "ہے ۔
(13) علی بن مصطفٰی علاء الدین البوسنوی الرومی الحنفی الشہیر علی ددہ المتوفی 1007 ھ(الجہاد و فضائلہ،چشتی)
(14) حسام الدین خلیل البر سوی الرومی المتوفی 1042 ھ (فضائل جہاد )(ماخوذ از مقدمہ کتاب الجہاد لا بن المبارک از۔ ڈاکٹر نزہہ حماد)

اِسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہِ کار اِنسانی زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط، معتدل اور پُراَمن اِنسانی معاشرے کا قیام ہے۔ اِسلام نے اِجتماعی اور ریاستی سطح پر قیامِ اَمن (establishment of peace)، نفاذِ عدل (enforcement of justice)، حقوقِ اِنسانی کی بحالی (restoration of human rights) اور ظلم و عدوان کے خاتمہ (elimination of violence and aggression) کے لیے جہاد کا تصور عطا کیا ہے۔ جہاد دراَصل اِنفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے ۔

بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اِسلام اور عالم مغرب میں آج کل تصورِ جہاد کو غلط انداز میں سمجھا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ اَمن اور نظریہ عدمِ تشدد کا متضاد سمجھا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔

آج کل عالم اِسلام یا غیر اِسلامی دنیا میں سے جو بھی جہاد کا نام سنتا ہے اس کے سامنے ایک ایسا تصور اُبھرتا ہے جس میں نفاذِ اِسلام اور قیامِ خلافت کے نام پر مسلمان غیر مسلموں کو قتل کرتے ہوئے، فتنہ و فساد پھیلاتے ہوئے، خون خرابہ کرتے ہوئے اور اِنسانی معاشروں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں جہاد ایک ایسی پُراَمن، تعمیری، سماجی، اَخلاقی اور روحانی جد و جہد (peaceful, constructive, social, moral and spiritual struggle) کا نام ہے جو حق و صداقت اور اِنسانیت کی فلاح کے لیے انجام دی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اِس جد و جہد کا جنگی معرکہ آرائی اور مسلح ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جد و جہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں اَمن اَمان کا دور دورہ ہو۔ اِنسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ ظلم و اِستحصال اور جبر و اِستبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو اور دنیا کے تمام ممالک پُراَمن بقاے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہو کر مقابلہ پر آجائیں اور اِجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اَمن و سلامتی اور اِنسانیت کے دشمنوں کے خلاف مسلح جد و جہد کی جائے تاکہ اَمن و آشتی کے ماحول کو بحال (restoration of peaceful environment) اور خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے ۔

امام ابن فارس رحمۃ اللہ علیہ (م395ھ) لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جَهْدٌ الْجَيْمُ وَالْهَاءُ وَالدَّالُ أَصْلُهُ الْمَشَقَّةُ، ثُمَّ يُحْمَلُ عَلَيْهِ مَا يُقَارِبُهُ ۔
ترجمہ : لفظِ جہد (جیم، ھاء اور دال) کے معنی اَصلاً محنت و مشقت کے ہیں، پھر اس کا اطلاق اس کے قریب المعنی الفاظ پر بھی کیا جاتاہے ۔ (معجم مقاييس اللغة : 210)

امام ابو منصور محمد بن احمد الازھری رحمۃ اللہ علیہ (م370ھ) معروف لغوی امام اللیث رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہیں : وَقَالَ اللَّيْثُ: اَلْجَهْدُ: مَا جَهَدَ الإِْنْسَانَ مِنْ مَرَضٍ أَوْ أَمْرٍ شَاقٍٍّ فَهُوَ مَجْهُوْدٌ. قَالَ: وَالْجُهْدُ لُغَةً بِهٰذِهِ الْمَعْنٰی، قَالَ : وَالْجُهْدُ : شَيئٌ قَلِيْلٌ يَعِيْشُ بِهِ الْمُقِلُّ عَلٰی جَهْدِ الْعَيْشِ. قَالَ ﷲُ جَلَّ وَعَزَّ: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} (التوبة، 9 : 79) عَلٰی هٰذَا الْمَعْنٰی ۔ (تهذيب اللغة، 6 : 37)

امام لیث رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : جَهْدٌ (جیم کی فتح کے ساتھ) سے مراد وہ شے ہے جو انسان کو تھکا دے، خواہ وہ کوئی بیماری ہو یا کوئی دوسرا مشقت آمیز کام۔ انہوں نے کہا: لغوی طور پر جُهْدٌ کا بھی یہی معنی ہے۔ جُهْدٌ کا ایک معنی قلیل شے ہے جس پر کوئی مفلس شخص بڑی مشکل کے ساتھ گزارا کرتاہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے ۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (م502ھ) لفظ جہد کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جَهَدَ ، الْجَهْدُ، والْجُهْدُ: الطَّاقَةُ وَالْمَشَقَّةُ. وَقِيْلَ : الْجَهْدُ بِالْفَتْحِ الْمَشَقَّةُ، وَالْجُهْدُ : الْوَاسِعُ وَقِيْلَ : الْجُهْدُ لِلإِْنْسَانِ : وَقَالَ تَعَالٰی: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُم (التوبة، 9 : 79) . وَقَالَ تَعَالٰی : {وَاَقْسَمُوْا بِاﷲِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ} (الانعام، 6 : 109) أَيْ حَلَفُوْا وَاجْتَهَدُوْا فِي الْحَلْفِ أَنْ يَأْتُوْا بِهِ عَلٰی أَبْلَغِ مَا فِي وُسْعِهِمْ. وَالْاِجْتِهَادُ: أَخْذُ النَّفْسِ بِبَذْلِ الطَّاقَةِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ. يُقَالُ : جَهَدْتُ رَأْيِي. وَأَجْهَدْتُهُ: أَتْعَبْتُهُ بِالْفِکْرِ. وَالْجِهَادُ وَالْمُجَاهَدَةُ: اسْتِفْرَاغُ الْوَسْعِ فِي مُدَافَعَةِ الْعَدُوِّ. وَالْجِهَادُ ثَـلَاثَةُ أَضْرُبٍ: مُجَاهَدَةُ الْعَدُوِّ الظَّاهِرِ؛ وَمُجَاهَدَةُ الشَّيْطَانِ؛ وَمُجَاَهَدَةُ النَّفْسِ . وَتَدْخُلُ ثَـلَاثَتُهَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی: {وَجَاهِدُوْا فِی ﷲِ حَقَّ جِهَادِهِ} (الحج،22 : 78)، {وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ ﷲِ} (التوبة: 9 : 41)، {اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ ﷲِ} (الأنفال، 8 : 72). وَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : ’جَاهِدُوْا أَهْوَاءَ کُمْ کَمَا تُجَاهِدُوْنَ أَعْدَاءَکُمْ‘. وَالْمُجَاهَدَةُ تَکُوْنُ بِالْيَدِ وَاللِّسَانِ، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم: ’جَاهِدُوْا الْکُفَّارَ بِأَيْدِيْکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ ۔ ( المفردات في غريب القرآن: 101،چشتی)

جَهَدَ، اَلْجَهْدُ اور اَلْجُهْدُ کے معنی طاقت و اِستطاعت اور محنت و مشقت کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیم پر زبر کے ساتھ الجَہد مشقت کے معنی میں ہے اور الجُہد کا معنی کسی چیز کا وسیع ہونا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الجُھد کا استعمال اِنسانوں کے لیے خاص ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے‘‘ اور فرمایا: {وَاَقْسَمُوْا بِاﷲِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ} ’’وہ بڑے تاکیدی حلف کے ساتھ ﷲ کی قسم کھاتے ہیں‘‘ یعنی وہ حتی الوسع تاکید کے ساتھ قسم کھاتے ہیں کہ وہ اس قسم کو پورا کریں گے ۔ اسی طرح اِجتہاد کا معنی ہے : نفس کو ہمت و طاقت کے صرف کرنے اور مشقت کو برداشت کرنے کا پابند بنانا۔ کہا جاتا ہے: جَهَدْتُ رَأْيِي وَأَجْهَدْتُهُ یعنی ’میں نے اپنی رائے خوب سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد قائم کی ہے‘۔ جہاد اور مجاہدہ کا معنی ہے: دشمن سے مدافعت کرتے ہوئے اپنی قوت و طاقت اور صلاحیت کو استعمال کرنا۔ جہاد کی تین اقسام ہیں: ظاہری دشمن کے خلاف جہاد، شیطان کے خلاف جہاد اور نفس کے خلاف جہاد۔ یہ تینوں اَقسام ان اِرشاداتِ ربانی میں شامل ہیں : {وَجَاهِدُوْا فِی ﷲِ حَقَّ جِهَادِهِ} ’اور ﷲ (کی محبت و طاعت) میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے‘، {وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ ﷲِ} ’اور اپنے مال و جان سے ﷲ کی راہ میں جہاد کرو‘، {اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ ﷲِ} ’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لیے) وطن چھوڑ دیے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرو جس طرح تم اپنے دشمن کے خلاف جہاد کرتے ہو ۔ یہ جہاد ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور زبان سے بھی، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں سے جہاد کرو ۔

علامہ اِبن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ (630-711ھ) امامِ لغت فراء کے حوالے سے لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہیں : قَالَ الْفَرَّاءُ : اَلْـجُهْدُ فِي هَذِهِ الآيَةِ الطَّاقَةُ ؛ تَقُوْلُ: هٰذَا جُهْدِي أَيْ طَاقَتِـي؛ وَقُرِيئَ {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} (التوبة،9 : 79) وَجَهْدَهُمْ ، بِالضَّمِّ وَالْفَتْـحِ ؛ الْـجُهْدُ ، بِالضَّمِّ: الطّاقَةُ وَالْـجَهْدُ ، بِالْفَتْـحِ: مِنْ قَوْلِکَ: إِجْهَدْ جَهْدَکَ فـِي هٰذَا الأَمْرِ أَيْ أُبْلُغْ غَايَتَکَ . (لسان العرب،3 : 134)

فراء کہتے ہیں : اِس آیت میں جہد سے مراد طاقت و اِستطاعت (strength & capacity) ہے ۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں: هٰذَا جُهْدِي ’یہ میری طاقت و استطاعت ہے‘۔ آیت {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے‘ لفظِ جہد جیم پر پیش اور زبر دونوں حرکات کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ پیش کے ساتھ جُهْد کا معنی ’طاقت و استطاعت‘ ہے اور زبر کے ساتھ اس کا معنی ’غایت درجہ کوشش کرنا‘ ہے؛ جیسا کہ آپ کہتے ہیں: إِجْهَدْ جَهْدَکَ فـِي هٰذَا الأَمْر ِ یعنی ’اس معاملہ کو اپنی انتہائی کوشش و محنت سے انجام تک پہنچاؤ‘ ۔

جہاد کے موضوع پر اہم ترین تصنیف حضرت امام ابو عبد الرحمان عبد اللہ بن المبارک المروزی الحنظلی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الجہاد "ہے ۔ عظیم مجاہد اور بلند پایہ امام و فقیہ کے قلم سے نکلنے والی یہ تصنیف اپنے موضوع پر ایک منفرد مقام کی حامل ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے یہ جواہر پارے بار بار چھپ چکے ہیں اور عوام و خواص میں مقبول ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...