Thursday, 30 December 2021

معصوم صرف انبیائے کرام اور فرشتے علیہم السّلام ہیں

 معصوم صرف انبیائے کرام اور فرشتے علیہم السّلام ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : شریعت کی اصطلاح میں معصوم صرف انبیائے کرام اور فرشتے علیہم السّلام ہیں ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ہوتا اور معصوم ہونے کا مطلب شریعت میں یہ ہے کہ ان کےلیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو چکا جس کے سبب ان سے گناہ ہونا شرعاً محال ہے ۔ اس لحاظ سے انبیائے کرام اور فرشتوں کے سوا کسی کو بھی معصوم کہنا ہرگز جائز نہیں بلاشبہ گمراہی و بددینی ہے ۔ یاد رہے کہ اکابر اولیائے کرام سے بھی اگرچہ گناہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھتا ہے مگر ان سے گناہ ہونا شرعاً محال بھی نہیں ہوتا لہٰذا اس حوالہ سے بھی کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔


انبیاء اور ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں عقیدہ اہلسنّت


علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ان الانبیاء علیھم السلام معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیہ صفحہ نمبر 306)


جامع المعقول والمنقول علامہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الملائکة عباد اللہ تعالی العاملون بامرہ ۔ یرید انھم معصومون ۔

ترجمہ : ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق تمام امور سرانجام دیتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد کی شرح النبراس صفحہ نمبر 287)


امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الانبیاء علیہم السلام کلھم منزھون ۔ ای معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں ۔ (منح الروض الازھر صفحہ نمبر 56،چشتی)


امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بشر میں انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 187)


امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہاں سے خلیفہ و سلطان کے فرق ظاہر ہوگئے ، نیز کُھل گیا کہ سلطان خلیفہ سے بہت نیچا درجہ ہے ، ولہٰذا کبھی خلیفہ کے نام کے ساتھ لفظ سلطان نہیں کہا جاتا کہ اس کی کسرِ شان ہے آج تک کسی نے سلطان ابوبکر صدیق، سلطان عمر فاروق، سلطان عثمان غنی، سلطان علی المرتضٰی بلکہ سلطان عمر بن عبد العزیز بلکہ سلطان ہارون رشید نہ سنا ہوگا ، کسی خلیفہ اموی یا عباسی کے نام کے ساتھ اسے نہ پائیے گا ، تو کھل گیا کہ جس کے نام کے ساتھ سلطان لگاتے ہیں اسے خلیفہ نہیں مانتے کہ خلیفہ اس سے بلند و بالا ہے ، یہی وہ خلافت مصطلحہ شرعیہ ہے جس کی بحث ہے ۔۔۔ عرفِ حادث میں اگر کسی سلطان کو بھی خلیفہ کہیں یا مدح میں ذکر کرجائیں وہ نہ حکمِ شرع کا نافی ہے نہ اصطلاحِ شرع کا مُنافی ۔ جس طرح اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیاء علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے سواکوئی معصوم نہیں ، جو دوسرے کو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے ، پھر عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی معصوم کہتے ہیں یہ خارج ازبحث ہے جیسے لڑکوں کے معلم تک کو خلیفہ کہتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 188،چشتی)


تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الحاصل آیتِ تطہیر کا مورد خواہ اُمّہاتُ المومنین ہوں فقط یا آل کساء ہوں یا صرف آلِ کساء ہوں ، ایسا ہی تطہیر در رنگ انزالِ شرعیہ ہو یا در صورت عفو و مغفرت ، بہر کیف خطاء کا صدور مطہرین سے ممکن ہے ۔ علاوہ خلفائے ثلاثہ کے اہلبیت پاک علیہم السّلام نے باغِ فَدک کے غیر مورث ہونے کو اپنی طرز سے ثابت کر دکھایا ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ نمبر 217 مطبوعہ گولڑپ شریف،چشتی)

تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خطا کا صدور بہر کیف مطہّرین سے ممکن ہے ۔ البتہ حشر اُن کا آخرت میں مغفرت کاملہ کی صورت میں ہوگا ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 58 مطبوعہ گولڑہ شریف)

تاجدار گولڑہ حضرت حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا باغِ فدک کا مطالبہ کرتے ہوئے کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں ۔۔۔ اور آیت تطہیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ پاک گروہ معصوم ہیں اور اِن سے کسی قسم کی خطا سرزد ہونا نا ممکن ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بمقتضائے بشریت اُن سے کوئی خطا سرزد بھی ہو تو وہ عفو و تطہیر اِلہٰی میں داخل ہوگی ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 46 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)


صدرالشریعہ حضرت علاّمہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے ، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ عصمتِ انبیا (علیہم السّلام) کے یہ معنیٰ ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہولیا ، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنہیں محفوظ رکھتا ہے ، اُن سے گناہ ہوتا نہیں ، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں ۔ (بہار شریعت عقیدہ نمبر 16 جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 38 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)


صدرالافاضل استاذ العلماء حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انبیاء اور فرشتوں علیہم السّلام کے سوا معصوم کوئی بھی نہیں ہوتا ، اولیاء (کو اللہ تَعَالٰی اپنے کرم سے گناہوں سے بچاتا ہے مگر معصوم صرف انبیاء اور فرشتے علیہم السّلام ہی ہیں ۔ (کتاب العقائد صفحہ نمبر 21،چشتی)


عصمت انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو چکا ہے جس کے سبب ان سے صدور گناہ محال ہے ۔ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کی طرح کسی دوسرے کو معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ اور رہی بات بچوں کو معصوم کہنے والی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو معصوم کہنا اس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں شرعی اصطلاح ہے اس لیئے بچوں کو معصوم کہنے والے پر کوئی حکم نہیں ۔ عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی ”معصوم“ کہہ دیا جاتا ہے لیکن شرعی اصطلاحی معنیٰ جو اوپر بیان کئے گئے اس سے وہ مراد نہیں ہوتے بلکہ لغوی معنیٰ یعنی بھولا ، سادہ دل ، سیدھا سادھا ، چھوٹا بچہ ، نا سمجھ بچہ ، کم سن ، والے معنیٰ میں کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اس معنیٰ میں بچوں کو معصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ۔

عصمت کی تعریف اور مسئلہ عصمت میں اقوال علماء

مسئلہ عصمت میں آج کل ہر ایرا غیرا اپنی اپنی رائے دے رہا ہے حالانکہ اُصول یہ ہے کہ جب تک کسی بھی مسلہ کے متعلق جملہ معلومات حاصل نہ ہوں اور مکمل علم نہ ہو تو اُس پر بات نہیں کرنی چاہیئے مگر کیا کہنے رافضیت ، خارجیت اور ناصبیت کے جو ہمارے ہی اندر مختلف ناموں سے گھسی بیٹھی ہے جسے علم سے ذرا بھی تعلق نہیں بس اُس نے اپنے بدلے بھیس کا فائدہ اٹھا کر اور جذبات سے کھیل کر اپنے مقاصد پورے کرنے ہوتے ہیں یہی سب کچھ کل بھی ہو رہا تھا اور آج بھی ہو رہا ہے ۔ اس مسلہ کافی عرصہ پہلے فقیر نے مضمون پوسٹ کیا تھا لگتا ہے وہ آج کے حالات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا تھا آیئے مسلہ عصمت پر تفصیل سے پڑھتے ہیں :

مشہور کتاب تعریف الاشیاء میں علامہ میر سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (العصمۃ) ملکۃ اجتناب المعاصی مع التمکن منہا‘‘ (تعریف الاشیاء ص ۶۵ طبع مصر)


ترجمہ : گناہ کر سکنے کے باوجود گناہوں سے بچنے کا ملکہ عصمۃ ہے ۔


یہی عبارت اقرب الموارد میں ہے۔ ملاحظہ ہو اقرب الموارد جلد ۲ ص ۹۱ طبع مصر ۔

مفردا ت میں ہے : وعصمۃ الانبیاء حفظہ ایاہم اولا بما خصہم بہ من صفاء الجوہر ثم بما اعطاہم من الفضائل الجسمیۃ والنفسیۃ ثم بالنصـرۃ وتثبیت اقدامہم ثم بانزال السکینۃ علیہم وبحفظ قلوبہم وبالتوفیق (مفرداتِ امام راغب اصفہانی ص ۳۴۱ طبع مصر)


ترجمہ : ’’عصمت انبیاء‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا اپنے نبیوں کو (ہر قسم کی برائی سے) محفوظ رکھنا، اولاً اس صفاء جوہر کی وجہ سے جو انہی کے ساتھ خاص ہے پھر ان کے فضائل جسمیہ اور نفسیہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے پھر اپنی نصرتِ خاص اور انہیں ثابت قدم رکھنے کے ساتھ پھر ان پر سکون و طمانیت نازل فرما کر اور ان کے قلوب کو کجروی سے بچا کر اور اپنی توفیق ان کے شامل حال فرما کر ۔ یہی مضمون دستور العلماء میں ہے ۔ (دیکھئے دستور العلماء جلد ۲ ص ۳۴۵،چشتی)


نبراس میں ہے : العصمۃ ملکۃ نفسانیۃ یخلقہا اللّٰہ سبحانہ فی العبد فتکون سبباً لعدم خلق الذنب فیہ (نبراس ص ۵۳۲)


ترجمہ : عصمت وہ ملکہ ٔ نفسانیہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندے (نبی) میں پیدا کرتا ہے جو اس میں گناہ پیدا نہ ہونے کا سبب بن جاتا ہے ۔


شرح عقائد نسفی میں ہے : وحقیقۃ العصمۃ ان لا یخلق اللّٰہ فی عبد الذنب مع بقاء قدرتہ واختیارہ ۔ (شرح عقائد نسفی ص ۷۳)


ترجمہ : عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ کرنا ۔


اسی شرح عقائد میں بقول بعض علماء عصمت کی تعریف اس طرح بھی منقول ہے : ھی لطف من اللّٰہ تعالیٰ یحملہ علی فعل الخیر ویزجرہ عن الشر مع بقاء الاختیار تحقیقاً للابتلاء …… (شرح عقائد ص ۷۴،چشتی)


ترجمہ : عصمت ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا لطف ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقدس بندہ (نبی) کو فعل خیر پر برانگیختہ کرتا اور اسے شر سے بچاتا ہے ۔ مع ابقاء اختیار کے تاکہ ابتلاء کے معنی برقرار رہیں ۔


مجمع بحار الانوار میں ہے : والعصمۃ من اللّٰہ دفع الشر (جلد ۲، ص ۳۹۳)


ترجمہ : ’’عصمت من اللہ‘‘ دفع شر ہے ۔


مسامرہ میں ہے : العصمۃ المشترطۃ معناہا تخصیص القدرۃ بالطاعۃ فلا یخلق لہٗ ای لمن وصف بہا (قدرۃ المعصیۃ) ۔ (مسامرہ جلد ۲ ص ۸۱،چشتی)


ترجمہ : عصمت مشترطہ کے معنی ہیں قدرت کا طاعت کے ساتھ خاص کر دینا پس جو شخص اس عصمت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے اس کے لئے معصیت کی قدرت پیدا نہیں کی جاتی ۔


نبوۃ و عصمت کے متعلق ہم نے اکابر علمائے امت کے اقوال نقل کر کے ان کا خلاصہ ترجمہ ہدیہ ناظرین کر دیا ہے اور تفصیلی ابحاث کو صرف اختصار کلام کے لحاظ سے نظر انداز کر دیا ہے ۔


مسئلہ عصمت میں اقوال علماء

امور تبلیغیہ میں کذب عمد سے عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر جمیع اہل ملل و شرائع کا اجماع ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ تبلیغ میں انبیاء علیہم السلام سے عمداً صدور کذب عقلاً محال ہے ۔


شرح مواقف میں اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : اذ لوجاز علیہم التقول والافتراء فی ذالک عقلا لادی الی ابطال دلالۃ المعجزۃ وہو محال ۔ (شرح مواقف جلد ۸ ص ۲۶۳ طبع مصر،چشتی)


ترجمہ : کیوں کہ اگریہ (کذب عمد فی التبلیغ) عقلاً جائز ہو تو دلالت ِ معجزہ کے ابطال کی طرف مودی ہو گا اور وہ محال ہے ۔


البتہ علی سبیل السہو والنسیان ، میں قاضی ابوبکر نے اختلاف کیا ہے مگر ائمہ اعلام اس میں بھی عقلاً عدم جواز ہی کے قائل ہیں۔ رہے باقی ذنوب یعنی کذب فی التبلیغ کے علاوہ تو وہ کفر ہوں گے۔ یا غیر کفر۔ عصمت عن الکفر پر اجماع امت ہے۔ عام اس سے کہ قبل النبوۃ یا بعد النبوۃ۔ اس اجماع کے خلاف خوارج کے ایک خاص گروہ ازارقہ کا قول پایا جاتا ہے جو اہل حق کے نزدیک باطل و مردود ہے۔ قائلین تقیہ نے انبیاء علیہم السلام سے خوف کے وقت تقیۃً اظہار کفر کو جائز مانا ہے مگر اہل حق کے نزدیک یہ قول بھی قطعاً باطل ہے کیوں کہ یہ اخفائے دعوت اور ترک تبلیغ رسالت کی طرف مفضی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے حق میں محال ہے ۔


اب ان گناہوں کے متعلق سنئے جو کفر کے ماسوا ہیں تو ان کی دو قسمیں ہیں کبائر و صغائر ۔ ان میں سے ہر ایک کے دو حال ہیں یا ان کا صدور عمداً ہو گا یا سہواً۔ دو کو دو سے ملا کر چار قسمیں حاصل ہوئیں ۔ کبیرہ عمداً، کبیرہ سہواً ، صغیرہ عمداً ، صغیرہ سہواً۔ ان اقسام اربعہ میں سے ہر ایک قبل البعثت ہو گا یا بعد البعثت۔ انبیاء علیہم السلام سے کبائر کا صدور خواہ عمداً ہو یا سہواً بعد النبوۃ شرعاً محال ہے، قول مختار یہی ہے قبل النبوۃ اکثر مشائخ کے نزدیک محال نہیں ۔ اسی طرح عمداً بعد البعثت صغائر کا صدور بھی محال ہے ۔ سہواً میں اختلاف ہے۔ اکثر مشائخ جواز (یعنی امکان) کے قائل ہیں لیکن جو صغائر رذالت و خست اور دناء ۃ کا موجب ہوں بالاتفاق ان کا صدور انبیاء علیہم السلام سے ممکن نہیں ۔ علیٰ ہٰذا القیاس محققین اہلسنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام ان امور سے بھی معصوم ہیں جو موجب نفرت ہوں۔ جیسے امہات و زوجات کا فجور اور آباء کی دناء ۃ و رذالت۔ مختصر یہ کہ باب ذنوب میں جمہوراہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنی نبوت کے زمانہ میں کبائر سے مطلقاً اور صغائر سے عمداً معصوم ہیں اور انہوں نے اپنے اس دعویٰ پر حسب ِ ذیل دلائل قائم کئے ہیں ۔


پہلی دلیل : ازروئے قرآن و اجماع انبیاء علیہم السلام کی اتباع فرض ہے۔ کما قال اللّٰہ تعالیٰ: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ اور گناہ حرام ہے۔ اگر کسی نبی سے گناہ صادر ہو تو اس کی اتباع حرام ہو گی کیوں کہ اس صورت میں وہ گناہ بھی کرنا پڑے گا جو نبی نے کیا ورنہ اس کی اتباع نہ ہو سکے گی اور گناہ حرام ہونے کی وجہ سے نبی کی اتباع بھی حرام ہو گی اور نبی کی اتباع کا حرام ہونا قطعاً باطل ہے۔ لہٰذا نبی سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل ہو گا۔


دوسری دلیل : اجماع اور قرآن کی رو سے گناہگار کی شہادت مردود ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو معاذاللہ وہ مردود الشہادۃ قرار پائیں گے اور یہ قطعاً محال ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا ہونا بھی محال ہے ۔


تیسری دلیل : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو انہیں گناہ سے باز رکھنے کے لئے زجر کرنا پڑے گا جو ایذا ہے اور انبیاء علیہم السلام کی ایذا قطعاً حرام ہے۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور ممکن نہیں ۔


چوتھی دلیل : ’’گناہ‘‘ ظلم و معصیت اور موجب ملامت و مذمت ہے اور ظالم و عاصی کے حق میں لعنت او رنار جہنم کی وعید قرآن کریم میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ (پارہ ۲۹ سورۃ جن) نیز فرمایا اَلاَ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۸ سورۃ الاعراف) اسی طرح ملامت و مذمت بھی وارد ہے۔ ارشاد فرمایا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ الصف) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے اَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ (پارہ ۱ سورۃ بقرۃ) اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ صادر ہوں تو ’’خاکم بدہن‘‘ وہ نار جہنم کے مستحق، ملامت کے حق دار اور ملعون و مذموم ہوں گے جو قطعاً باطل ہے ۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صادر ہونا بھی باطل و مردود ہے ۔


پانچویں دلیل : اگرانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے گناہ صادر ہوں تو وہ اپنی امت کے گناہگاروں سے بھی زیادہ بدحال اور گئے گزرے ہوں گے۔ کیوں کہ بزرگی اور کرامت میں جس قدر زیادہ مرتبہ بلند ہو، گناہ کرنے پر اسی قدر عقلاً و نقلاً زیادہ عذاب کا استحقاق ہوتا ہے۔ نبوت سے زیادہ بلند کوئی مرتبہ نہیں۔ اس لئے نبی کے گناہ کا عذاب تمام گناہگاروں کے عذاب سے زیادہ ہو گا اور یہ ایسی زبوں حالی ہے جو نبی کے حق میں متصور نہیں۔ لہٰذا گناہ کا صدور بھی کسی نبی سے نہیں ہو سکتا ۔


چھٹی دلیل : ’’گناہ‘‘ اپنے نفس پر ظلم ہے اور ظالم اللہ تعالیٰ کے عہد کو نہیں پا سکتا۔ قرآن مجید میں ہے: لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ (پارہ ۱ سورۃ بقرہ) نبوت سب سے بڑا عہد ہے جو کسی ظالم کو نہیں مل سکتا۔ انبیاء علیہم السلام نے جب عہد نبوت کو پا لیا تو ثابت ہو گیا کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں ۔


ساتویں دلیل : انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے عباد مخلصین ہیں جیسا کہ یوسف ں کے حق میں ارشادِ الٰہی وارد ہے۔ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (پارہ ۱۲ سورۃ یوسف) اور موسیٰ ں کے متعلق فرمایا اِنَّہٗ کَانَ مُخْلَصًا وَّکَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً (پارہ ۱۶ سورۃ مریم) اور حضرت ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اِنَّا اَخْلَصْنَا ہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِo وَ اِنَّہُمْ عِنْدَ نَالَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورۃ ص) اَلْمُخْلَصِیْن ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور انہیں ہر چیز سے معصوم کر دیتا ہے جو طاعت ِ خداوندی کے خلاف ہے۔اس لئے مخلصین سے گناہ کا صدور نہیں ہو سکتا اور اسی بناء پر شیطان نے کہا تھا: لَاُ غْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْن (پارہ ۲۳ سورۃ ص) میں سب کو بہکاؤں گا سوا تیرے مخلص بندوں کے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اس کی تکذیب نہیں فرمائی بلکہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ (پارہ ۱۴ سورۃ حجر) کہہ کر تصدیق فرمائی۔ ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام معصوم ہیں اور گناہوں کا ارتکاب ان سے نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ ان کا مصطفیٰ اور اخیار (یعنی برگزیدہ اور پسندیدہ) ہونا ان کی عصمت عن المعصیۃ کو اور بھی زیادہ واضح کر رہا ہے اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ بعض انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام غیر مخلص ہیں اور بعض مخلص غیر انبیاء ہیں ۔ اگر مخلص ہونا عصمت کی دلیل ہے تو غیر مخلص نبی کی عصمت ثابت نہ ہو گی اور مخلص غیر نبی کا معصوم ہونا بھی لازم آ جائے گا۔ حالاں کہ یہ دونوں امر مستدل کے نزدیک باطل ہیں تو میں عرض کروں گا کہ یہ شبہ اس وقت درست ہو سکتا تھا جب کہ انبیاء علیہم السلام کو عام لغوی معنی کے اعتبار سے مخلص کہا جائے لیکن قرآن مجید میں ایسے خاص معنی کے لحاظ سے انبیاء کرام کو مخلص فرمایا گیا ہے جو نبوت کی خصوصیات اور اس کے لوازمات سے ہیں جن کی رو سے ہر نبی کا مخلص ہونا ضروری ہے اور کسی غیر نبی کا مخلص ہونا ممکن نہیں جیسا کہ سورۃ ص کی آیت منقولہ بالا ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ سے واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّا اَخْلَصْنَاہُمْ ‘‘ فرما کر ’’اَخْلَصَ‘‘ فعل کی اسناد اپنی ذات مقدسہ کی طرف فرمائی۔ یعنی ہم نے انہیں مخلص بنایا پھر آیۃ مبارکہ میں ان کے مخلص ہونے کا سبب خالصۃً کو قرار دیا گیا ہے اور ’’ذِکْرَی الدَّارِ‘‘ اس کا بیان ہے۔ خالصۃً کی تنوین تنکیر برائے تعظیم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ کے سبب مخلص کیا ہے جو آخرت کی یاد ہے اور یاد آخرت سے مراد ان کا انذار و تبشیر ہے جس کا ذکر آیۃ کریمہ وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ (پارہ ۷ سورۃ انعام) میں وارد ہے یوں تو ہر ایک یاد آخرت کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے بصیرت و یقین پا کر نعمائے جنت کی خوشخبری سنانے اور عذابِ نار سے ڈرانے پر مامور ہو کر یاد آخرت کرنا ایسی خصلت خالصہ عظیمہ و جلیلہ ہے جو نبوت کا خاصہ اور لازمہ ہے۔ نیز اس نوعیت سے بشیر و نذیر ہونا اور آخرت کی دائمی یاد کرنا ہر نبی کے لئے لازم اور نبوۃ کا خاصہ ہے۔ اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ہر نبی مخلص ہونے کی وجہ سے معصوم ہے اور کوئی غیر نبی ان معنی میں مخلص نہیں جو انبیاء مخلصین میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا کسی غیر نبی کا معصوم ہونا لازم نہیں آتا ۔(چشتی)


آٹھویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (پارہ ۲۲ سورۃ سبا) وجہ استدلال یہ ہے کہ اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے انبیاء علیہم السلام مراد ہیں یا ان کی امت کے مومنین؟ برتقدیر اول ہمارا مدعا ثابت ہے کیوں کہ اتباعِ شیطان ہی گناہ ہے جب وہ اتباع شیطان سے محفوظ رہے تو یہی محفوظیت ان کے حق میں عصمت ہے۔ برتقدیر ثانی انبیاء علیہم السلام کا اتباع شیطان سے محفوظ رہنا بطریق اولیٰ ثابت ہوگا کیوں کہ جس کی امت کے مومنین شیطان کے متبع نہیں وہ نبی کیوں کر اس لعین کا متبع ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شیطان کی اتباع سے بچنا تقویٰ ہے اور بدلالت نص قطعی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ (پارہ ۲۶ سورۃ الحجرات) تقویٰ معیارِ فضیلت ہے۔ اگر اِلاَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے مومنین مراد لے کر انبیاء علیہم السلام سے صدور گناہ کا قول کیا جائے تو غیر نبی کا نبی سے افضل ہونا لازم آئے گا جو بالاتفاق باطل ہے۔ ثابت ہوا کہ بہر تقدیر انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہونا اس آیت کا مفاد ہے ۔


نویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو دو گروہ میں تقسیم فرمایا ’’حزب اللّٰہ اور حزب الشیطان‘‘ اگر انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور مانا جائے تو کم از کم صدور معصیت کے وقت تو معاذ اللہ وہ ضرور ہی حزب الشیطان قرار پائیں گے۔ کیوں کہ مطیع حزب اللّٰہ ہیں اور عاصی حزب الشیطان۔ اور حزب الشیطان خاسرین ہیں۔ لقولہٖ تعالیٰ اَلَا اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ (پارہ ۲۸ سورۃ المجادلہ) ایسی صورت میں العیاذ باللہ! انبیاء کرام کو خواہ ایک آن ہی کے لئے ہو، خاسرین کہنا پڑے گا جو بداہۃً باطل ہے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور قطعاً ممکن نہیں ۔


علاوہ ازیں بکثرت افرادِ امت زہّاد و عباد زمرہ مفلحین میں داخل ہیں۔ پھر یہ عجیب بات ہو گی کہ افراد امت مفلحون ہوں اور انبیاء خاسرون۔ معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ۔


دسویں دلیل : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ں، حضرت اسحٰق ں، حضرت یعقوب ں و دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق فرمایا اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ (پارہ ۱۷ سورۃ الانبیاء) بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے۔ ’’الخیرات‘‘ جمع معرف باللام ہے اور ایسی جمع عموم کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ فعل اور ترک دونوں سے متعلق سب نیکیوں کو شامل ہو گی۔ فعل سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو عمل اور قول سے حاصل ہوتی ہیں۔ جیسے نماز روزہ، حج و زکوٰۃ اور ترک سے وہ نیکیاں مراد ہیں جو کسی کام کو نہ کرنے سے حاصل ہوتی ہیں جیسے جھوٹ، چوری، غیبت اور زنا نہ کرنا۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح عبادات فعلیہ کا عمل میں لانا نیکی ہے اسی طرح گناہ کے کاموں کا نہ کرنا (۱) بھی نیکی ہے اور ’’الخیرات‘‘ کا لفظ سب کو شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام گناہ نہ کرنے میں بھی مسارعت کی صفت سے متصف ہیں۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول ’’اِنَّہُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفِیْنِ الْاَخْیَارِ‘‘ (پارہ ۲۳ سورہ ص) میں لفظ ’’مصطفین‘‘ اور ’’اخیار‘‘ دونوں ہر اس فعل اور ہر اس ترک کو شامل ہیں جس میں نیکی، پسندیدگی اور برگزیدگی کے معنی پائے جائیں۔ اس عموم کی دلیل صحت استثناء ہے۔ کیوں کہ یہ کہنا جائز ہے کہ ’’فلان من المصطفین الا فی کذا او من الاخیار الا فی کذا۔‘‘ مستثنیٰ منہ کا عموم صحت استثناء کی شرط ہے۔ جب یہاں استثناء صحیح ہے تو عموم ثابت ہو گیا اور عموم اس امر کی دلیل ہے کہ انبیاء علیہم السلام کل امور میں برگزیدہ اور پسندیدہ ہیں۔ لہٰذا ان سے گناہ کا صدور جائز نہ ہوا ۔


استدراک : یہاں بعض لوگوں نے یہ شبہ وارد کیا ہے کہ اصطفاء صدور معصیّت کے منافی نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا


ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۔ پارہ ۲۲ سورۃ فاطر


اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مصطفین کو تین قسموں میں منقسم کر دیا۔ ظالم، مقتصد اور سابق ۔ ان اقسام میں ظالم کا ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ اصطفاء کے باوجود بھی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں :


ایک یہ کہ انبیاء علیہم السلام آیت کریمہ میں مذکور نہیں نہ وہ ’’الذین‘‘ میں شامل ہیں۔ یہاں غیر انبیاء کا اصطفاء مذکور ہے اور غیر انبیاء کے اصطفاء پر انبیاء علیہم السلام کے اصطفاء کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیوں کہ اصطفاء کے مراتب مختلف ہیں ہر شخص کا اصطفاء اس کے حسب حال ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا حال باقی تمام کائنات سے افضل و اکمل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا اصطفاء بھی کل مخلوقات سے اکمل و اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا غیر انبیاء کے (لغوی) اصطفاء کا صدور ذنب کے منافی نہ ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا اکمل و اعلیٰ اصطفاء بھی صدورذنب کے منافی نہ ہو ۔


دوسرا جواب یہ ہے کہ ’’فمنہم ظالم‘‘ میں ضمیر مجرور ’’مصطفین‘‘ کی طرف نہیں بلکہ ’’عباد‘‘ کی طرف راجع ہے کیوں کہ اقرب مذکورین کی طرف ضمیر کا لوٹنا اولیٰ ہے۔ لہٰذا اقسام ثلٰثہ (جن میں ظالم بھی شامل ہے) مصطفین کے نہیں بلکہ عباد کے ہیں۔ اس تقدیر پر شبہ مذکور اصل سے ساقط ہو گیا۔ وللّٰہ الحمد۔


زیر نظر مضمون کے اکثر مطالب اور عصمت انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر یہ دس دلیلیں ہم نے شرح مواقف کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہیں اور حسب ضرورت دلائل کی قوت کو واضح کرنے کے لئے بعض مقامات پر بسط کے ساتھ کلام کر دیا ہے۔ اہل علم حضرات سے امید ہے کہ وہ ہماری اس جرأت کو ضرورت پر محمول فرمائیں گے ۔


اب ان مخالفین کی طرف آیئے جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد البعثت عمداً صدور کبائر و صغائر کو جائز مانتے ہیں ۔


ان لوگوں کا استدلال قصص انبیاء علیہم السلام سے ہے۔ جن میں سے بعض قصے قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں منقول ہیں جن سے بظاہر وہم پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے ان کے زمانہ نبوۃ میں گناہوں کا صدور ہوا۔ سب کا اجمالی جواب یہ ہے کہ وہ واقعات اخبار آحاد میں منقول ہیں یا بطریق تواتر۔ پہلی صورت میں واجب الرد ہیں۔ اس لئے کہ کسی راوی کی طرف خطا کا منسوب کر دینا انبیاء علیہم السلام کی طرف گناہ منسوب کرنے سے زیادہ آسان ہے ۔


برتقدیر ثانی چونکہ وہ دلائل عصمت سے متعارض ہیں اس لئے مؤول ہوں گے۔ وجوہ تاویل، موقع محل اور اقتضاء کلام کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوں گی۔ مثلاً بعض واقعات کو بشرطِ اقتضاء مقام قبل البعثت پر حمل کیا جائے گا۔ بعض میں اقتضاء مقام کے لحاظ سے انبیاء علیہم السلام کے ان افعال کو جنہیں منکرین عصمت معصیت قرار دیتے ہیں ’’ترکِ اولیٰ‘‘ کہا جائے گا۔ بعض مواقع ایسے بھی ہوں گے جہاں موقع محل کی مناسبت سے ان افعال کو صدور صغیرہ سہواً قرار دیا جائے گا ۔ کسی جگہ موہم کلام کو دلیل کی روشنی میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تواضع اور کسر نفسی پر حمل کیا جائے گا ۔


رہا یہ شبہ کہ ان افعال میں بعض ایسے ہیں جن کے لئے لفظ ذنب وارد ہوا ۔ جیسے ’’لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ۔‘‘ بعض وہ ہیں جن کے ارتکاب کے بعد حضرات انبیاء علیہم السلام نے استغفار فرمایا۔ نیز ان میں بعض ایسے افعال بھی ہیں جنہیں کرنے کے بعد انبیاء علیہم السلام نے اپنے نفسوں پر ظلم کرنے کا اعتراف کیا۔ پھر انہیں کیوں کر ترک اولیٰ یا صغائر صادرہ عن السہو پر حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ترکِ اولیٰ جیسے ہلکے امور کو ذنب سے تعبیر کرنے کی وجہ منصب نبوت کی عظمت اور انبیاء علیہم السلام کے درجات کی رفعت و بلندی ہے اور اسی عظمت و رفعت کے پیش نظر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے صغیرہ صادرہ عن السہو اور خلافِ اولیٰ کاموں پر اعترافِ ظلم کر کے استغفار کیا۔ تعلیمات قرآنیہ کی روشنی میں یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین ۔ یہ بھی حق ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے عاجزی ، تواضع کسر نفسی کے لئے اعترافِ ظلم اور استغفار فرمایا۔ ان مقدسین کا ایسا کرنا دراصل اپنے رب کی بارگاہ میں تضرع و زاری ہے اور یہ اعتراف و استغفار ان کے انتہائی فضل و کمال پر دال ہے چہ جائیکہ اسے ان کے ظالم و عاصی ہونے کی دلیل بنا لیا جائے ۔ مخالفین کے دلائل کا اجمالی جواب تو ہم دے چکے ۔ البتہ اہل علم کی دلچسپی کے لئے تفصیلی گفتگو باقی ہے جسے ہم ان شاء اللہ پھر کسی وقت لکھیں گے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

لحد میں علی کا نام لیا فرشتے بھول گئے پڑھنے کا حکم

 لحد میں علی کا نام لیا فرشتے بھول گئے پڑھنے کا حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : فرشتے نوری مخلوق ہیں ۔ اللہ تعالی نے انہیں نور سے پیدا کیا اور ہماری نظروں سے پوشیدہ کر دیا اور انہیں ایسی طاقت دی کہ جس شکل میں چاہیں ظاہر ہو جائیں ۔ فرشتے حکمِ الٰہی کے خلاف کچھ نہیں کرتے ۔ یہ ہر قسم کے صغیرہ ، کبیرہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں ۔ کسی ”فرشتے“ کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے ۔ فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ ”فرشتہ“ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں ، یہ  کُفر ہے ۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے معصوم مخلوق ہیں اور نور سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ فرشتے ہماری نظروں سے غائب ہیں اور وہ نہ تو مذکر ہیں اور نہ مؤنث ہیں ۔ نیز فرشتے انسانی حاجتوں کھانا ، پینا اور سونا وغیرہ سے پاک ہیں ۔


لحد میں میں نے جو مولیٰ علی کا نام لیا

قسم خدا کی فرشتے سوال بھول گئے


اس طرح کے اشعار بے جا غلو اور گستاخی کے زمرے میں آتے ہیں ۔

دوسرے مصرعے کی شرعی قباحت اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں کہ ایک تخیلاتی احساس پر قسم اٹھانا اور وہ بھی ایک صریح کفر پر جس میں معصوم فرشتوں کی طرف نسیان کی نسبت کی گئ , بدترین گستاخی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ فرشتوں سے امکانِ نسیان تک محال ہے جبکہ مذکورہ بالا شعر میں صدورِ نسیان ثابت کیا گیا ہے ۔ ہمارے لکھنے والوں کو چاہیے کہ لکھنے سے پہلے حدود و قیود کا علم حاصل کریں اور جس کی مدح کرنی ہو کم از کم اس کی سیرت کے تابندہ گوشوں سے اخذ مضمون کریں اور ممدوح کے نظریات کی مخالف شاعری سے احتراز کریں , ایسی شاعری جس میں بجائے مدح کے ذم کا پہلو نکلتا ہو اور شرع شریف سے تصادم پیدا ہوتا ہو کرنے سے نہ کرنا بہتر ہے کیونکہ جن کی تعریف میں آپ ایسے غلو آمیز اور کفریہ شعر لکھتے پڑھتے ہیں بلا شبہ وہ ایسی مدح سے خوش نہیں بلکہ ناراض ہی ہونگے ۔


اس شعر میں کتنے کفریات و گستاخیاں ہیں یہ کسی اہل علم سے مخفی نہیں ۔


یہاں فرشتوں کو بھول جانے والا کہا گیا جو کہ سیدھی سیدھی گستاخی ہے اور یہی نہیں اس پہ قسم بھی اٹھائی گئی ۔


پاس بیٹھے نام نہاد مفکر اسلام و مفسر قرآن ریاض شاہ پنڈوی جھوم رہا ہے اور لوگوں سے ہاتھ چُمواتے ہوئے نذرانے وصول کر رہا ہے ، لیکن مجال ہے کہ موصوف کے کان پہ اس قدر غلو و گستاخی پر مبنی شعر سُن کر جوں تک رینگی ہو ۔ حالانکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ معصوم عن الخطاء ہیں ، بھول چوک سے پاک ہیں ۔ لیکن تفضیلی ٹولے کو عقائد اہل سنت کی پرواہ ہی نہیں ، کیونکہ اب یہ ٹولا اُن لوگوں کے باطل عقائد و نظریات کو اپنے انداز میں پھیلا رہا ہے جن کے نزدیک فرشتے بھول سکتے ہیں جیسا کہ ان رافضیوں کی کتابوں میں لکھا ہے ۔


شیعہ لکھتا ہے کہ : وحی پہنچانے میں جبرائیل سے غلطی ہوئی اور وہ حضرت علی کی بجائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس وحی لے گئے ۔ (انوارِ نُعمانیہ 2/208،چشتی)


اگر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی ایسی شانیں بیان کرو گے جس سے انبیاء و ملائکہ علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین و بے ادبی ہوتی ہو تو قبر میں ان شاءالله فرشتے بھولیں گے نہیں بلکہ بڑی اچھی طرح یاد رکھیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جو دنیا میں شریعت کو ہلکا سمجھتے ہوئے عقائدِ اہل سنت کی مخالفت کرتا رہا ۔


اور آخر میں ایسے اشعار پڑھنے والے نعت خوانوں اور پِیروں کو اُنہی کی بولی میں جواب کہ : ⬇


آل کی محبت بھی ہے وہی قبول

جو ہو شریعت کے مطابق یہ بھول گئے ؟


فرشتے ہیں نسیان سے پاک

عقائدِ اسلام کیوں بھول گئے ؟


قبر میں ہوں گے تین سوال

اے منکر بے ایمان ! یہ کیوں بھول گئے ؟


اور شیطان تو رہا خبیث و پلید

کیا تم بھی مسلمان ہونا بھول گئے ؟

(بصد شکریہ علامہ ارسلان احمد اصمعی قادری)


فرشتوں“ کے بارے میں اسلامی عقیدہ


فرشتے اللہ تعالیٰ کے معصوم مخلوق ہیں اور نور سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ فرشتے ہماری نظروں سے غائب ہیں اور وہ نہ تو مذکر ہیں اور نہ مؤنث ہیں ۔ نیز فرشتے انسانی حاجتوں (کھانا ، پینا اور سونا وغیرہ) سے پاک ہیں ۔


يجب أن يقول آمنت بالله وملائكته


(وملائكته) بأنهم عباد مكرمون لايسبقونه بالقول وهم بأمره يعملون وأنهم معصومون ولا يعصون الله ومنزهون عن صفة الذكورية ونعت الأنوثية وقد أنكر الله في كتابه على من قال إنهم بنات الله حيث قال وجعلوا الملائكة الذين هم عباد الرحمن إناثا أشهدوا خلقهم ستكتب شهادتهم ويسئلون وقال أيضا أصطفي البنات على البنين مالكم كيف تحكمون وذكر في جواهر الأصول أن الملائكة ليس لهم حظ من نعيم الجنان ولا من رؤية الرحمن كذا في شرح القونوى لعمدة النسفي وذكر أيضا أنهم أجسام لطيفة هوائية تقدر على التشكل بأشكال مختلفة أولو أجنحة مثنى وثلاث ورباع مسكنهم السموات أى مسكن معظمهم قال وهذا قول أكثر المسلمين (شرح الفقه الاكبر للقاري صـ ١٢)


الملائكة عباد مكرمون يواظبون على الطاعة ويظهرون في صور مختلفة ويتمكنون من أفعال شاقة ومع كونهم أجساما أحياء لا يوصفون بذكورة ولا أنوثة (شرح المقاصد ٥/٦٢)


فان قلت فما المراد بقوله تعالى وجعلوا بينه وبين الجنة نسبا هل هو الجن أو الملائكة كما هو المشهور من قولهم في الملائكة إنهم بنات الله تعالى عن ذلك فالجواب المراد بالجنة هنا الملائكة وسموا جنة لاستتارهم عن العيون مع كونهم يحضرون معنا في مجالسنا ولانراهم (اليواقيت والجواهر ٢/٥٠)


عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خلقت الملائكة من نور وخلق الجان من مارج من نار وخلق آدم مما وصف لكم (صحيح مسلم، الرقم: ۲۹۹٦)


وقوله فلما رأى أيديهم لا تصل إليه نكرهم، تنكرهم وأوجس منهم خيفة وذلك أن الملائكة لا همة لهم إلى الطعام ولا يشتهونه ولا يأكلونه (تفسير ابن كثير ٤/۳۳۳،چشتی)


فرشتے نوری مخلوق ہیں ۔ اللہ تَعَالیٰ نے انہیں نور سے پیدا  کیا اور ہماری نظروں سے پوشیدہ  کر دیا اور انہیں ایسی  طاقت دی کہ جس شکل میں چاہیں ظاہر ہو جائیں ۔ ”فرشتے“  حکمِ الٰہی کے  خلاف کچھ نہیں کرتے ۔ یہ ہر قسم کے صغیرہ ، کبیرہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں ۔ کسی ”فرشتے“ کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔”فرشتوں“ کے وجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ ”فرشتہ“ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں ، یہ  کُفر ہے ۔


فرشتوں کی تعداد


فرشتوں کی تعداد وہی رَبّ عَزَّوَجَلَّ بہتر جانتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور اُس کے بتائے سے اُس کا رسول جانے ۔


چار فرشتے بہت مشہور ہیں : حضرات جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اور یہ سب  ”فرشتوں“  پر فضیلت رکھتے ہیں ۔


فرشتے کیا کرتے ہیں ؟


اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے ذمے مختلف کام لگائے ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں : انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی خدمت میں وحی لانا ، بارش برسانا ، ہوائیں چلانا ، مخلوق تک روزی پہنچانا ، ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا ، بدنِ انسانی میں تصرف کرنا ، انسان کی حفاظت کرنا ، نیک اجتماعات میں شریک ہونا ، انسان کے نامۂ اعمال لکھنا ، دربارِ رِسالت مآب میں حاضر ہونا ، بارگارہِ رسالت میں مسلمانوں کا دُرُود و سلام پہنچانا ، مُردوں سے سوال کرنا ، روح قبض کرنا، گناہ گاروں کو عذاب کرنا ، صُور پُھونکنا اور اِن کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو ملائکہ انجام دیتے ہیں ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 90 تا 95) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 29 December 2021

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہوا اعتراض کا جواب

 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہوا اعتراض کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : رافضی و نیم رافضی اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت نہ تو شورٰی کے ذریعے تھی اور نہ اس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہوا بلکہ وہ تو فقط ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر قائم ہوئی ۔ اور اگر یہ بات درست ہو تو کیا تمام مسلمانوں پر ایسے شخص کی اطاعت کرنا واجب ہے جو اس وقت خلیفہ مسلمین بھی نہ تھا بلکہ اسلامی ملک کا ایک عام باشندہ اور دوسرے مسلمانوں کے مانند ایک مسلمان تھا ؟ اور اگر کوئی شخص ایسے آدمی کی اطاعت نہ کرے تو کیسے اس کا خون مباح ہو سکتا ہے ؟ کیا یہ ایک فرد قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر حجت ہے ؟ جبکہ ہمارے بہت سے علماء جیسے ابویعلیٰ حنبلی متوفٰی ٤٥٨ھ کہتے ہیں : لاتنعقد الاّ بجمھور أھل العقد والحلّ من کلّ بلد لیکون الرّضا بہ عاما، والتّسلیم لامامتہ اجماعا .وھذا مذھب مدفوع ببیعة أبی بکر علی الخلافة باختیارمن حضرھا ولم ینتظر ببیعة قدوم غائب عنھا.( الأحکام السلطانیة : ٣٣)

قرطبی کہتے ہیں : ((فانّ عقدھا واحد من أھل الحلّ والعقد..)). جامع احکام القرآن ١: ٢٧٢)


اس اعتراض کا جواب


اول : سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم منعقد ہو چکا تھا جس کا ثبوت ہم نے اس سے پہلے کی گئی پوسٹ میں دے دیا ہے ۔


دوم : ابو یعلی ، قرطبی وغیرہ کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بیعت وقت ضروری نہیں کہ پررے ملک کے لوگ ہیں بیعت کریں بس ہر جگہ سے اہل حال و عقد اگر بیعت میں شریک ہوں تو یہ امامت اجماع پر ہی ہے اور پھر عقلن بھی یہ محال ہے کہ پورے ملک سے سب کے سب بیعت کریں ۔ اور اجماع کےلیے بھی یہ ضروری ہے کہ امت کی غالب اکثریت جس چیز کو اپنائے وہ لازم ہوتی ہے اجماع کےلیے ضروری نہیں کہ ہر مسئلہ پر تمام امت متفق ہو کیوں کہ ایسا نا ممکن ہے ۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت تمام مہاجرین و انصار اور امت کی غالب اکثریت نے تسلیم کر لی تھی ۔ اس لیے ان کی خلافت کو ماننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے نہ ماننے والا شخص اس امت سے خارج ہو جاتا ہے ۔


سوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کیا تھا و نماز پڑھاتے تھے وہ کوئی عام باشندے کیسے ہو سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات ظاہری میں امام بنتے ہیں اور امام حج بھی ۔ چناچہ وہ کوئی عام باشندے نہیں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا تو ابی بکر رضی اللہ عنہ کیسے ہو سکتے ہیں ہاں وہ وقتی امام ضرور تھے جب انصار اور مہاجرین رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور آپ کو مستقل طور پر اپنا امام بنا لیا تو وہ خلیفہ بلا فصل بن گئے ۔ ان کی خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر نہیں قائم ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف ان کی حمایت کی بلکہ انصار کے و مہاجرین رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکمل مشورہ کیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے مسجد نبوی میں مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تو وہ اس پر راضی تھے ۔ اکیلے سیدنا عمر آپ کو خلیفہ کسیے بنا سکتے ہیں ۔


سیدنا فاروق اعظم و سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے مہاجرین میں سے سیدنا صدیق اکبر کا نام خلافت کےلیے تجویز کیا جیسے انصار نے سیدنا سعد بن عبادہ کا نام تجویز کیا تھا ۔ جب انصار بھی سیدنا صدیق کی بیعت ہر راضی ہوگئے اور ان کے امیدوار نے ہاتھ اٹھا لیا پھر اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اگر امید وار تھے انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیا جیسے نو بختی لکھتے ہیں انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تسلیم کرلیا وہ ان کےلیے دستبردار ہوگئے اور ابو بکر سے راضی تھی ۔ تو مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہ بنی ہاشم نے بھی بیعت کرلی ۔ اس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سب مسلمانوں نے اجماع کرلیا اس کی تفصیل ہم پہلے مضمون میں لکھ چکے ہیں جو لوگ غائب تھے یعنی اس وقت مدینہ میں نہ تھے یا دوسرے علاقوں کے تھے تو انہوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت ان کے عمال یعنی گورنروں کے ذریعے کی ۔


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنا خلیفہ بنایا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی مبارک گواہی حوالہ شیعوں کے گھر سے


شیعوں کا محدث و مفسر محمد بن مرتضی المعروف محسن کاشانی لکھتا ہے : حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وِصال مبارک کے بعد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ۔ (تفسیر الصافی الجزء السادس صفحہ نمبر 467 تفسیر سورہ محمد،چشتی)


خلفاء راشدین کی خلافت اور خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہم بر حق​ ہے


محترم قارئینِ کرام : امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے اپنی زندگی کی قسم میں حق کے خلاف چلنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جنگ میں کسی قسم کی رو رعایت اور سستی نہیں کروں گا ۔ (نہج البلاغہ مترجم اردو خطبہ نمبر 25 صفحہ 136،چشتی مطبوعہ محفوظ بک ایجنسی کراچی)


خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت حق تھی ورنہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ضرور ان سے جنگ کرتے کیونکہ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اللہ کے شیر ہیں ۔ وہ شیعہ روافض کی طرح ڈرپوک اور تقیہ کرنے والے نہ تھے ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا اور ان کا سیدنا ابو بکر ، عمر ، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے خلاف جنگ اور قتال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ لوگ حق پر ہیں ۔


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت


ثبوت شیعہ کتب سے


جب دیکھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےکلمہ توحید کی نشر و اشاعت اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کے معاملے میں کسی کو ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رض نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے انکی بیعت کر لی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی.کیونکہ اس سے اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت بھی تانکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں ۔ (کتاب اصل الشیعہ و اصولہا ‘الشیخ کاشف الغطا صفحہ 123’124,.193،چشتی)


سیدنا امام باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس آیت کریمہ( اَلَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَـهُمْ ۔ وہ لوگ جو منکر ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو بھی اللہ کے راستہ سے روکا تو اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیے) ، کی تلاوت کے بعد اپنا مقصد فنشھدالخ سے بیان فرمایا جس میں بطور شہادت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا ثبوت اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا (اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو) ، دوسری بات یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اگرچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وصی کے الفاظ سنے تھے لیکن اتفاق و اجماع صحابہ کو دیکھتے ہوئے اسے مرجوع قرار دیا اور خلافت صدیق کے حق ہونے کی بیعت کی ۔ (تفسیر صافی الجز السادس سورہ محمد آیت ۱)(تفسیر القمی الجز الثالث صفحہ ۹۷۵)


جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور حالات پرسکون ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے سفارش کی اور رضا کے طلب گار ہوئے تو آپ راضی ہو گئیں ۔ (کتاب شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 6 صفحہ 196)،(بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد 28 صفحہ 322)،(بیت الاحزان شیخ عباس قمی صفحہ ۱۱۳،چشتی)،(حق الیقین جلد اول صفحہ ۲۰۲)


علی رضی اللہ عنہ نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماںبرداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے۔ پس ھم بھی اس پر راضی ھیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ھمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ھم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ھم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (ر) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ھونے کی وجہ سے ابو بکر (ر) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی ۔ (کتاب فرق الشیعہ ص 31&32 محمد بن حسن نوبختی)


حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : جب اسامہ (رضی اللہ عنہ) کو (نبی (ص) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ہیں ۔ تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے کہا : یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو ۔ اسامہ (رضی اللہ عنہ) نے اُن سے پوچھا: کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ہے ؟ علی (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے ۔ (شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ صفحہ ۱۱۲&۱۱۳)


حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ہو جائے ، میں ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی ۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کے ساتھ) کھڑا ہوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے ۔ پس جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی ۔ (شیخ علی البحرانی “منار الہدی ص 685)


اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو ۔ (محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42)


اور جب ان سے (حضرت سیّدنا مولا علی رضی اللہ عنہ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بیعت کرنے کا سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : اگر ہم ابو بکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے ۔ (شرح نہج البلاغۃ: ۲/۴۵)


حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافر ہے


محترم قارئینِ کرام : جو شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا منکر ہو وہ کافر ہے ۔ (درس نظامی کی مشھور ومعتبر کتاب کنزالدقائق کی معرکۃ الآراء شرح البحرالرائق لابن نجیم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 611 ،چشتی مطبوعہ بیروت لبنان)


فتاوی عالمگیری میں ہے : من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہو کافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃ الاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح ۔

ترجمہ : جس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہوجائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بناء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ (فتاوی عالمگیری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 286،چشتی)


من انکر امامۃ ابی بکر الصدیق رضی ﷲ تعالی عنہ فھو کافر وعلی قول بعضھم ھو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر و کذٰلك من انکر خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ فی اصح الاقوال ۔ (بر جندی شرح نقایہ کتاب الشہادۃ فصل یقبل الشہادۃ من اہل الھواء نو لکشور لکھنؤ ۴/ ۲۰،۲۱)

ترجمہ : امامت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالی عنہ کا منکر کافر ہے ، اور بعض نے کہا بد مذہب ہے کافر نہیں ، اور صحیح یہ ہے کہ وُہ کافر ہے ، اسی طرح خلافت فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا منکر بھی صحیح قول پر کافر ہے ۔


یکفر بانکارہ امامۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الا صح کا نکارہ خلافۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (بحرالرائق باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۱)

ترجمہ : اصح یہ ہے کہ ابو بکر یا عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی امامت و خلافت کا منکر کافرہے ۔


مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے : الرافضی ان فضل علیا فھو مبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر ۔ (مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتاب الصلٰوۃ فصل الجماعۃ سنۃ موکدۃ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 108)،چشتی

ترجمہ : رافضی اگر صرف تفضیلیہ ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا منکر ہو تو کافر ہے ۔


یکفر بانکار ہ صاحبۃ ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ وبانکارہ امامتہ علی الاصح وبانکارہ صحبۃ عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ علی الاصح ۔ (جمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب المرتد فصل ان الفاظ الکفر انواع داراحیاء التراث العربی بیروت 1/ 692)

ترجمہ : جو شخص ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو کافر ہے ۔ یُونہی جو اُن کے امامِ برحق ہونے کا انکار کرنے مذہب اصح میں کافر ہے ، یونہی عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی صحابیت کا انکار قول اصح پرکفر ہے ۔


فتح القدیر میں علامہ کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر رافضی ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر ہے تو وہ کافر ہے ۔ (فتح القدیر ، باب الامامت صفحہ نمبر 8،چشتی)


فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸)


شرح فقہ اکبر میں ہے : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر:۱۹۸)


امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رد الرافضہ میں بڑی تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کا اختصار یہ ہے کہ : جو حضرات حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما خواہ ان میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگر چہ صرف اسی قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے ، کتاب معتبر و فقہ حنفی کی تصریحات اور عام ائمۂ ترجیح و فتویٰ کی تصحیحات سے یہ مطلقاً کافر ہیں ۔ (رد الرافضہ)۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شرکیہ پکار اعتراضات کا جواب

 شرکیہ پکار اعتراضات کا جواب

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکاروں نے ایک پوسٹر بنام : ہماری پکار قرآن کی پکار ۔ بنایا جو کہ درج ذیل ہے : ⬇


بھر دو جھولی میری یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کہہ دیں کہ میں تمہارے نفع و نقصان کے بارے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا ۔ (الجن، 21)

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا یہ سب میرے رب کا فضل ہے ۔ (النمل، 40)

کچھ بھی مانگنا ہے در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگو اور فرمایا تمہارے رب نے! مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ۔ (المومن، 60)

شہباز کرے پروازتے جانے حال دلاں دے اور اللہ دلوں کے حال جانتا ہے ۔ (آل عمران، 154)

رکھ لاج میری لج پاک بچالے مینوں غم تو قلندر لال اور اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جیسے چاہے ذلت دیتا ہے ۔ (آل عمران، 26)

تورانی نور ہے ہر بلا دور ہے اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گھٹلی کے ریشے جتنا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ (فاطر، 13)

سارے نبی تیرے در کے سوالی شاہ مدینہ اے لوگو! تم سب اللہ کے در کے فقیر ہو اور اللہ وہ بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے ۔ (فاطر، 15)

جھولے لال خوشیاں دے غم ٹال اور اللہ اگر تمہیں مصیبت میں ڈال دے تو کون ہے جو تمہیں اس مصیبت سے نکال دے اور اگر وہ تمہیں خیر سے نوازنا چاہے تو وہ رہ چیز پر قادر ہے ۔ (الانعام، 17)

اے مولی علی اے شیر خدا میری کشتی پار لگا دینا جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو خالص کر کے صرف اللہ کو پکارتے ہیں لیکن جب وہ نجات دے کرخشکی پر اتار دیتا ہے تو وہ یکایک شرک کرنے لگے ہیں ۔(العنکبوت، 65)

بابا شاہ جمال پتر دے دے رتا لال زمین اور آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہے بیٹے عطا کرتا ہے اور جسے چاہے دونوں (لڑکے، لڑکیاں) عطا کرتا ہے اور جسے چاہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ جانے والا اور قدرت والا ہے ۔ (شوری، 49 : 50)


پیشِ خدمت ہے اس کا جواب


پہلے سوال کا جواب : سورۃ الجن کی جو آیت بیان کی گئی ہے، اس میں یہ بات واضح ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس ذاتی اختیار نہیں، بلکہ عطائی ہے اور تمام اہل سنت وجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے تمام فضائل اختیار اور علمی وسعت عطائی من جانب اللہ ہے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے بہت زیادہ احادیث سنتا ہوں مگر یاد نہیں رہتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چادر بچھا دو۔ چادر بچھا دی گئی حضور علیہ الصلاۃ والسلام چلو بھر بھر کے چادر میں ڈال رہے ہیں، پھر فرمایا سینے سے لگا دو فرماتے ہیں :


فضممت الی صدری


تو میں نے چادر اپنے سینے سے لگا دی، اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا ہوں، تو یہ کیا ہے نفع ہے کہ نہیں۔ دنیا میں کوئی کسی کو حافظہ دے سکتا ہے، ہرگز نہیں یہ صرف آپ کی شان ہے کہ حافظہ بھی عطا کر دیا۔

دوسرے سوال کا جواب


وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (التَّوْبَة ، 9 : 59)

اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا، قرآن سے جواب لو تو لفظ فضل رسول کہتے بھی استعمال ہوا ۔


تیسرے سوال کا جواب


صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا ۔انی أسئلک فرافقتک فی الجنة.آپ نے فرمایا۔أو غير ذالک ۔

چوتھے سوال کا جواب


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ برابر نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر مجھ سے وہ سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں، میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں ۔ (صحيح بخاری کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکة، 3 / 1175، حديث نمبر : 3037،چشتی)


حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جو لوگوں ( کے ظاہر و باطن) کو (اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ) فہم و فراست سے جان لیتے ہیں ۔ (المعجم الوسيط : 3 / 207، حديث نمبر : 2935،چشتی)


درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ایسے بندے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بے پناہ قوت عطا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہ بندے دوسرے لوگوں سے ممتاز اور منفرد بن جاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہوتے ہیں۔ حدیث قدسی میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ قوت بصارت اللہ کی ہوتی ہے جس سے ظاہری و باطنی سارے پردے اٹھ جاتے ہیں، ہر چیز اس کے لیے منکشف ہو جاتی ہے اور وہ دلوں کے حالات بھی جان لیتے ہیں اور یہ سارا اللہ تعالیٰ کا فضل اور نعمت ہوتی ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ معاذ اللہ یہ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات جانتا ہے یہ اس کا ذاتی علم ہے اور بندہ پر اگر کرم نوازی ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے، اس بندے کا ذاتی علم نہیں ہوتا۔ دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولیاء کرام کے حوالے سے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اولیاء اللہ کو ایسا فہم وفراست اور ایسی بصارت عطا کرتا ہے جس سے وہ دلوں کے حالات جان لیتے ہیں، جب ساری کی ساری قوت، طاقت، نعمت علم اللہ تعالیٰ کا ہو تو پھر اولیاء اللہ سے سارے پردے اٹھ جاتے ہیں اور وہ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس پر کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا ۔


پانچویں سوال کا جواب


ولله العزة ولرسوله وللمومنين ۔ (الْمُنَافِقُوْن ، 63 : 8)

"حالانکہ عزّت تو صرف اللہ کے لئے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔"


لفظ عزت حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لئے اور مومنوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے اب فتوی کس پر ؟


چھٹے سوال کا جواب


هَذَا عَطَاؤُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ۔ (ص 38 : 39)

"(ارشاد ہوا:) یہ ہماری عطا ہے (خواہ دوسروں پر) احسان کرو یا (اپنے تک) روکے رکھو (دونوں حالتوں میں) کوئی حساب نہیں"


بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :

انما أنا قاسم والله يعطی ۔ بے شک قاسم میں ہی ہوں اور اللہ دینے والا ہے ۔


ساتویں سوال کا جواب


قیامت کے دن جب امتیں تمام انبیاء کرام کے پاس شفاعت کے لئے جائیں، تو سب یہی جواب دیں گے کہ آگے جاؤ آخر میں سیدنا عیسی علیہ السلام فرمائیں گے۔عليکم بمحمد صلی الله عليه وآله وسلم

تو یہاں یہی مطلب ہے ۔


آٹھویں سوال کا جواب


خوشی نعمت ہے ، اللہ پاک سارے انبیاءکرام اور رسل عظام باعث فرحت وخوشی ہے اور ان کے وجود مبارک سے تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں۔ سعدیہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ مشہور ہے کہ لیت بھی تنگ دستی کی حالت میں آتی تھی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے دونوں جہانوں کی خوشیاں نصیب ہوئیں ۔


نویں سوال کا جواب


من کنت مولاه فعلی مولاه ۔ جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے۔(ترمذی شريف)


دسویں سوال کا جواب


بی بی مریم علیہ السلام کے سیدنا جبرائیل آمین آئے اور فرمایا : قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاَمًا زَكِيًّا ۔ (سورة مريم 19 : 19)

(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔


ہم نے جو کچھ لکھا ہے قرآن وحدیث سے لکھا اور ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اللہ کے بندوں کو اللہ کے مقابل لا کھڑا کیا ، العیاذ باللہ ۔ بلکہ فقط یہ مطلوب ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو عزت طاقت اختیارات عطا کرتا ہے ، تاکہ عام بندوں سے ممتاز ہوں ۔ یہ اصول ہے کہ کبھی بھی ایک آیت قرآن یا ایک حدیث لے کر ایک مسئلے کا حل پیش نہ کیا جائے ۔ بلکہ تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سامنے رکھ کر توحید اور شرک جیسا بہت بڑا مسئلہ کا حل پیش کرنا چاہیے ۔ اللہ پاک کے تمام اختیارات قدرت ذاتی ہے، کسی کو اس میں ایک بال برابر شرکت نہیں ہے ۔


انبیاء کرام اور اولیاء کرام کو اللہ پاک نے عطا کی ہے ، اللہ معبود خالق ہے۔ انبیاء کرام اور اولیاء کرام مخلوق اور عبد ہیں۔ یہ تمام اختیارات اور عزت وقدرت اللہ کے لئے حقیقی ہیں اور مقربین کے لئے مجازاً ثابت ہیں ۔


دیوبندی ، وہابی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں


محترم قارئینِ کرام : دیوبندیوں اور وہابیوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جھوٹ بول بول کر مسلمانانِ اہلسنّت پر شرک کے فتوے لگاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث پر مکمل ایمان نہیں رکھتے اور خود غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں مگر فتوے دوسروں پر لگاتے اس مضمون میں ان کی اسی منافقت کو بے نقاب کیا گیا ہے ایک بار مکمل ضرور پڑھیں فضول کمنٹس سے پرھیز کریں :


قرآنی آیاتِ مبارکہ


إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ

(القران 5:55) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔


وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ۔ (القران 5:56)

ترجمہ : اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے ۔


وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (القران 9:59)

ترجمہ : اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی ۔


يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا ۔ (القران 9:74)

ترجمہ : یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔


فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے ، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ تو اب مسئلہ یہ ہے کہ قران کے صرف ظاہر کو لینے اور مجاز کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سب سے پہلے اللہ پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگے گا ۔


إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (القران 66:4)

ترجمہ : (اے نبی کی بیویو) اب تم توبہ کرو کہ تمہارے دل ٹیرھے ہو گئے ہیں ورنہ اگر تم اس (رسول) کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یاد رکہو کہ اس (رسول) کا ولی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور صالح مومنین اور فرشتے سب اس کے مددگار ہیں ۔


غیر مقلد وہابی غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں


وہابی مولوی نواب وحید الزمان لکھتا ہے : غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔(ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 20۔چشتی)


وہابی مولوی نواب صدیق حسن خان لکھتا ہے : قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( نفخ الطیب صفحہ نمبر 63 غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان)


قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)


نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل


غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے ۔


غیرمقلد ویابیوں کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں قاضی شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں وہابی مولوی رئیس ندوی تاویل کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ '' اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے ، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کےلیے ہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے ۔ (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ نمبر 868/869،چشتی)


نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل مولوی ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے ۔غیر مقلد شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ''ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے'' اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ''نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہارِ محبت ہے ۔ (رسالہ اہلحدیث امرتسر،3 جون 1938،صفحہ 7)


اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیق،حصہ دوم صفحہ 30/31)


بات بات پر اہلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لاگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی ، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پر بھی شرک کا فتوئ لگائیں گے ؟


دیوبندیوں کے شرکیہ عقاٸد


دیوبندیوں کے نزدیک ایصال ثواب جائز ، دیوبندی پیروں کے وسیلہ سے دعا بحرمت کہہ کر کرنا جائز ، دیوبندی پیر دستگیر بھی ہیں اور مشکل کشاء بھی ۔ (فیوضات حسینی صفحہ نمبر 68 دیوبندی علماء)


دیوبندیوں کا اقرار ہم بزرگوں کی ارواح سے امداد کے منکر نہیں ہیں


سوانح قاسمی میں ایک واقعہ بیان ہوا کہ بانی دیوبند قبر سے آکر ایک مولوی صاحب کی مدد کرتے ہیں اس طرح دیوبندی علماء اپنے خود ساختہ شرک کے فتوؤں میں جب پھنس گئے تو اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے خود ہی اقرار کر لیا کہ ہم بزرگوں کی قبروں اور ان کی ارواح سے مدد کے منکر نہیں ہیں بلکہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ہم اسے مانتے ہیں ہم پر انکار کا الزام لگانے والے جاہل ہیں پہلے یہ پڑھیئے :


دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں : پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت و جماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)


وہابیت کی راہ پر چل کر مسلمانانِ اہلسنت پر یہی عقیدہ و نظریہ رکھنے کی وجہ سے شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی جواب دیں بانی دیوبند ، شیخ الہند دیوبند اور مناظر احسن گیلانی صاحبان مشرک ہوئے کہ نہیں ؟


اور وہ لکھ رہے ہیں ارواح صالحین سے مدد کے انکار کا ہم پر الزام لگانے والے جاہل ہیں اور بہتان لگانے والے ہیں اب بتایئے آپ لوگ بہتان تراش اور جاہل ہیں کہ نہیں جو ارواح صالحین علیہم الرّحمہ سے امداد کے منکر بن کر اسے دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟


قطب العالمِ دیوبند غوث اعظم ہے (سب سے بڑا فریاد رس) قطب العام دیوبند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ثانی ہے ہے ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 4 از قلم شیخ الہند دیوبند محمود حسن)


دیوبندیوں کا سب سے بڑا مددگار غوث اعظم گنگوہی ہے ، بانی اسلام کا ثانی گنگوہی ہے، اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، ابر رحمت ، اللہ کا سایہ ، قطب ہے گنگوہی ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ نمبر 4،چشتی)


اے مسلمانو دیوبندیوں نے اپنے گنگوہی کو پیغمبرَ اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ثانی قرار دیا ھے سوال ھے آپ کی غیرتِ ایمانی سے کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانِ اقدس میں گستاخی نہیں ہے فرقہ واریت سے ھٹ کر ایک مسلمان کی حیثیت سے جواب دیجیئے ؟ اور یہ گنگوہی کو اللہ کا فیض تقسیم کرنے والا ، غوث اعظم ، اللہ کا سایہ اور اللہ کی رحمت کہیں تو کوئی شرک نہیں اور مسلمانانزِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں جناب عالی ؟


دیوبندیوں کا حاجت روا مشکل کشاء : اب ہم اپنی دین و دنیا کی حاجتیں کہاں لے جائیں وہ ہمارا قبلہ حاجات روحانی و جسمانی گیا ۔ (مرثیہ گنگوہی صفحہ 7 شیخ الہند دیوبند محمود حسن)


دیوبندیوں کا قطب العالم ، غوث زماں گنج عرفاں دستگیر بیکساں مولوی رشید احمد گنگوہی ہے ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ 136۔چشتی)


ہم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی اپنے گنگوہی کو غوث الاعظم لکھیں تو جائز ۔ (تذکرۃ الرشید جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 2)


دیوبندیوں کا مشکل کشاء حاجت روا رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں گنگوہی صاحب کا ایسا مرتبہ تھا کہ گنگوہی کے نام کے وسیلے سے حاجتیں پوری ہوتی تھیں ۔ (تذکرۃُ الرشید جلد دوم صفحہ297۔چشتی)


دیوبندیوں کا غوث (یعنی فریاد سننے والا) رشید احمد گنگوہی ہے جس کے وسیلے سے ہزاروں لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں ۔ (تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ نمبر 305)


دیوبندیوں کا سب سے بڑا فریاد رس غوثُ الاعظم رشید احمد گنگوہی ہے


عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتا ہے : رشید احمد گنگوہی قُطبُ العالم اور غوثُ الاعظم ہیں ۔ (تذ کرۃُ الرّشید جلد اوّل قدیم ایڈیشن صفحہ نمبر 2)


کوئی دیوبندی قطب العالم اور غوثُ الاعظم کے معنیٰ بتائے گا ؟


مسلمانانِ اہلسنّت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوثُ الاعظم کہیں تو شرک کے فتوے اور تم اپنے مولوی کو غوثُ الاعظم کہو لکھو تو عین توحید اور ایمان ہو جائے کیوں جناب من یہاں شرک کے فتویٰ کہاں گیا ؟


یا مان لو کہ مسلمانانِ اہلسنت کے عقائد و نظریات حق ہیں یا اپنے مولویوں پر فتویٰ لگاؤ شرک کا ؟


اپنے لیئے شریعت اور دوسروں کےلیئے اور یہ دہرا معیار چھوڑ کر فتنہ فساد اور تفرقہ پھیلانا چھوڑ دو ۔


دیوبندیوں کا مولوی مظہرِ نورِ ذاتِ خدا ، رنج و غم ٹالنے والا اور چارہ ساز بھی ہے جو اٹھ گیا اب کون رنج و غم مٹائے گا اور چارہ سازی کرے گا چارہ ساز جو اٹھ گیا ۔ (مرثیہ شیخ مدنی صفحہ 24 مطبوعہ راشد کمپنی دیوبند یوپی)


یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنّت کہیں تو شرک مگر یہاں جائز ؟


گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا پر شرک کے فتوے لگانے والے دیوبندی مفتیو اب لگاؤ نا یہاں شرک کے فتوے ؟


جس نے اللہ کا دیدار کرنا ہو وہ دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کی زیارت کرے


دیوبندیوں کے مولوی کی قبر کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے ، انوار و برکات ہیں ، دیوبندی مولوی دیوبندیوں کا مولا ہے ، دیوبندی مردہ مولوی کی قبر کی زیارت سے اسرار عیاں ہوتے ہیں ۔ دیوبندی مولوی کی قبر کی زیارت سے دیدار رب العالمین ہوگا ، قبر کو اونچا کرنا چاہا تو قبر والے دیوبندی مولوی کو علم ہو گیا کہا نہ کرو خلافِ سنت ہے اور دیوبندی مولوی کا لوہاری عورت سے عشق ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ 235 ، 236 علامہ محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)


دیوبندیوں کا مولوی جانتا ہے کون حلال خرید کر لایا ہے اور کون حرام حلال کے پیسوں کے سیب الگ کردیئے اور حرام کے پیسوں کے الگ کر دیئے ۔ (خوشبو والا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صفحہ نمبر 87 ، 88۔چشتی) ۔ یہاں شرک نہیں ہوا جناب ؟


حکیم الامت دیوبند نے پکارا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میری مدد کیجیے


حکیم الامتِ دیوبند لکھتے ہیں : یارسول اللہ میری مدد کیجیے آپ کے سوا کہاں میری پناہ ، مشکل میں آپ ہی تو ہیں ، یارسول للہ مد کیجیے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر 194 علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان)


حکیم الامت دیوبند نے پکارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ ہم سے دور نہیں


حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ ہمارے مددگار ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے مشکلیں حل ہوتی ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دور ہوں تو ہم مر جائیں ۔ (حیٰوۃُ المسلمین صفحہ نمبر 51 علاّمہ اشرف علی تھانوی دیوبندی مطبوعہ المیزان اردو بازار لاہور۔چشتی)


پکارو یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدد حکیمُ الاُمتِ دیوبند کی زبانی


ضروری نوٹ : دیئے گئے اشعار مؤلف یعنی حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کے ہیں ۔


حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں :


یا شفیع العباد خذبیدی

دستگیری کیجئے میری نبی


انت فی الضطرار معتمدی

کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی


لیس لی ملجاء سواک اغث

جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ


مسنی الضر سیدی سندی

فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی


غشنی الدھر ابن عبداللہ

ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف


کن مغیثا فانت لی مدری

اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری


نام احمد چوں حصینے شد حصین

پس چہ باشد ذات آں روح الامین


کچھ عمل ہی اور نہ اطاعت میرے پاس

ہے مگر دل میں محبت آپ کی


میں ہوں بس اور آپ کا دریا یارسول

ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی


خواب میں چہرہ دکھا دیجئے مجھے

اور میرے عیبوں کو کر دیجئے خفی


درگزر کرنا خطاو عیب سے

سب سے بڑھ کر ہے یہ خصلت آپ کی


سب خلائق کیلئے رحمت ہیں آپ

خاص کر جو ہیں گناہگار و غوی


کاش ہو جاتا مدینہ کی میں خاک

نعل بوسی ہوتی کافی آپ کی


آپ پر ہوں رحمتیں بے انتہا

حضرت حق کی طرف سے دائمی


جس قدر دنیا میں ہے ریت اور سانس

اور بھی ہے جس قدر روئیگی


اور تمہاری آل پر اصحاب پر

تابقائے عمر دار اخروی


(نشر الطیب صفحہ نمبر 194 ، 195 ۔ حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی مطبوعہ تاج کمپنی پاکستان،چشتی)


فیس بک کے مفتیانِ دیوبند سے سادہ سا سوال اس طرح پکار کر حکیم الامتِ دیوبند مشرک ہوئے کہ نہیں ؟


اگر نہیں تو کیوں ؟


اگر مشرک ہوئے تو آج تک کتنے دیوبندی علماء نے تھانوی صاحب اور ان کی اس کتاب پر شرک کے فتوے لگائے ہیں ؟


کوئی ایک فتویٰ بطور ثبوت دیجیے ؟


اِدھر اُدھر کی باتیں جواب تصور نہیں کی جائیں گی صرف اتنا جواب دیا جائے اس طرح پکارنا جائز ہے یا شرک ؟


الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین دیوبند جناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ امداد المشتاق صفحہ نمبر 60 ۔


اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیئے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیئے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیئے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیئے ناجائز و شرک ہوگا ۔


کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیئے بتایا جائے ؟


اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ہے آخر یہ دوغلہ پن و دہرا معیار فتویٰ کیوں ؟


یاد رہے اس جملہ پر بھی غور کیا جائے کہ : عالمِ امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو دور و نزدیک بحث عبث یعنی بے کار ہے ۔


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہادی عالم اور مشکل کشاء ہیں اکابرین دیوبند


اکابرین کے پیر و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشکل کشاء کہا ہے ۔


دور کر دل سے حجاب جہل و غفلت میرے رب

کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے رب

ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے

(کلیاتِ امدادیہ صفحہ نمبر 103ط مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)


ظاہر ہے کہ جب خود "مشکل کشاء" کی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے خلفاء و مریدین کو اس میں کیا عذر لاحق ہوسکتا ہے ۔


مشکل کشاء اور پیر دستگیر


دیوبندیوں کے امام جناب محمد سرفراز خان صفدر کے چھوٹے بھائی جناب صوفی عبدالحمید خان سواتی صاحب نے تو ’’فوائد عثمانی‘‘ کا حوالہ صحیح سمجھ کر نقل کیا ہے جس سے ایک صوفی بزرگ مولانا عثمان کو "مشکل کشاء" اور "پیر دستگیر" کہا گیا ہے ۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ اس صوفی بزرگ کے لئے حسب ذیل القابات میں نہ صرف "مشکل کشاء" بلکہ "دستگیر" کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔


ملاحظہ فرمائیں : الہی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشاء ، سید الاولیاء، سندالاتقیاء ، زبدۃالفقہاء، راس العلماء ، رئیس الفضلاء ، شیخ المحدثین ، قبلۃ السالکین ، امام العارفین ، برہان المعرفہ ، شمس الحقیۃ ، فرید العصر ، وحیدالزمان ، حاجی الحرمین الشریفین ، مظہر فیض الرحمن پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان رضی اللہ عنہ ۔ (فیوضات حسینی ص 68۔ مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ1387ھ)


شیخ الاسلام دیوبند جناب حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ : کیونکہ دعوات میں توسل کرنا خواہ اعمال صالحہ سے ہو یا عابدین صالحین سے ، اولیاء اللہ سے ہو یا انبیاء اللہ سے ، ملائکہ مقربین سے ہو یا اسماء و صفات و افعال الٰہیہ سے ایجابت دعاء میں بہت زیادہ مفید اور موثر اور سلف صالحین کا محمول بہ امر ہے ۔ اس لئے ان شجروں کو اسی طریق توسل پر ترتیب دیا گیا ہے ، مناسب یہ ہے کہ احباب روزانہ کم از کم ایک مرتبہ جونسا بھی شجرہ پسند خاطر ہو پڑھ لیا کریں اپنے لئے اور اس ناکارہ ننگ خاندان کے لئے بھی دعاء کریں ۔ امید قوی ہے کہ اس طریقہ پر دعاء قبول ہوگی ۔ (سلاسل طیبہ صفحہ نمبر 6 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)


آگے تمام شجروں میں مختلف الفاظ سے اور ایک شجرہ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ : ’’ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ۔ یا اللہ ہادی عالم علی مشکل کشاء کے واسطے ، اور صالحین علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ و واسطے سے کرم فرما ۔ (سلاسلِ طیّبہ صفحہ 14 شیخ الاسلام دیوبند)


اگر یہی الفاظ مسلمانانِ اہلسنت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کےلیے استعمال کرتے ہیں تو شرک کے فتوے مگر اہنے مردہ مٹی میں مل جانے اور گل سڑ جانے والے مولوی کےلیئے یہ سب کچھ جائز ہے آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ؟ اور اب تک کسی دیوبندی عالم اور پر جوش موحد نے اس کتاب پر اور لکھنے والے پر نہ کوئی فتویٰ لگایا اور نہ ہی رد لکھا آخر یہ دہرا معیار کیوں جناب اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر وہی افعال خود اپنا کر منافقت دیکھا کر تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اصل اسکن پیش خدمت ہیں فیصلہ اہل ایمان خود کریں مسلمانان اہلسنت یہ نظریات رکھیں اور کہیں تو شرک کے فتوے اور دیوبندی خود سب کچھ کریں تو جائز آخر یہ دہرا معیار و منافقت اپنا کر امت مسلمہ میں تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایاجاتا ہے ؟


ندائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم


قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بغیر قید زمان و مکاں ہر وقت ہر جگہ لفظ یا سے پکارنا 'ندا کرنا ' یا رسول اللہ ' یا حبیب اللہ کہنا جائز و مستحب ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : یا ایھا النبی 'یا ایھا الرسول یا ایھا المزمل'یا ایھا المدثر ۔ لا تجعلوادعاء الرسول بینکم کدعا ء بعضکم بعضا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔ (پارہ ١٨، سورۃ النور ، آیت ٦٣)


حدیث شریف : ینا د و ن یا محمد یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (صحیح مسلم شریف ص ٤١٩، جلد ٢)


امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا '' دو موتیں نہ آئیں گی ، یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے ۔ حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا فنبی اللہ حی ۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص ١١٩، جلاء الافہام ابن قیم)


ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر انورپر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اپنی اُمت کیلئے بارش طلب فرمائیں ۔ تحقیق وہ ہلاک ہو گئے ۔ اس کے بعد حضورنبی ئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو خواب میں زیارت عطا فرمائی اور فرمایا کہ عمر کو میرا سلام کہنا اور خوشخبری دو بارش ہو گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ از امام محدث ابوبکر عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ' اُستاذ امام مسلم و بخاری جلد نمبر١٢، ص ٣٢ کتاب الفضائل)(فتح الباری شرح بخاری جلد ٢ ، ص ٤٩٥ نیز فرمایا اس کی سند صحیح ہے،چشتی)


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ روضہ مبارک پر لے جا کر رکھ دیا گیا اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی ''السلام علیک یا رسول اللہ '' یہ ابوبکر صدیق ہیں اجازت چاہتے ہیں ۔ (آپ کے پاس دفن ہونے کی) پھر اس کے بعد دروازہ مبارک کھل گیا اور آواز آئی ا د خلو ا لحبیب ا لی حبیبہ ۔(خصائص الکبریٰ محدث جلال الدین سیوطی ، تفسیر کبیر ص ٤٧٨، جلد ٥)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد سیدنا عبد اللہ بن سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوا تو انہوں نے پکارا یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ۔ حضرت سیدنا خالد بن ولید نے مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت فرمایا : بشعار المسلمین یا محمداہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔ (فتوح الشام ص ١٦٠ ، ج ١)(ابن کثیر نے البدایہ ص ٣٢٤ جلد ٦ میں لکھا ہے : کا ن شعا ر ھم یو مئذ یا محمد اہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حلب میں لڑنے والے اسلامی لشکر نے کہا ''یا محمد یا محمد یا نصر ا للہ انزل '' (تاریخ فتوح الشام ، ج١)


حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے : السلام علیک ا یھا ا لنبی و رحمۃ ا للہ و برکا تہ ۔(الشفاء شریف جلد دوم ، ص ٥٣)


حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کا قدم مبارک سن ہوا تو انہوں نے پکارا '' یا محمد'' صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ٢٠٢ ، شوکانی)(الداء والدواء ص ٤٧ ، صدیق حسن خان)


قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لفظ یا سے ندا کرنا ' دور سے یا نزدیک سے پکارنا جائز ہے ' ان کی ظاہر ی زندگی میں بھی اوروصال کے بعد بھی' ہر طرح جائز اور باعث برکت ہے ۔ قرآن و حدیث عمل صحابہ اور ہر نمازی کا نماز میں سلام عرض کرنا یہ روشن دلیلیں موجود ہیں ۔ بدعقیدہ لوگ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں ۔ لفظ یا سے پکارنے والے پر شرک کا فتویٰ لگتاہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یا سے ندا فرماتا ہے' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ظاہری زندگی میں بھی اور وصال کے بعد بھی یا سے پکارتے رہے ۔ ان کے بارے میں بدمذہبوں کا کیا عقیدہ ہے ۔ ان پر کیا فتویٰ لگے گا ۔


عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے

یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا


غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل

یا رسول (ﷺ) کی کثرت کیجئے


حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں آیا ہے '' یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی ''یعنی یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ بیہقی اور جزری نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص ٢٤ عربی،چشتی)(نشر الطیب ص ٢٧٦)


ایک روایت میں ہے یا رسول اللہ انی توجہت بک الی ربی یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔ (ہدیۃ المہدی عربی ص ٢٤، مولوی وحید الزمان وہابی)


حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ۔ (الشمامۃ العنبریہ ص ١١٣ ، صدیق حسن بھوپالوی وہابی)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ ''۔ (فضائل حج ص ٩١٧ ، ذکریا سہارنپوری' دیوبندی)


جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ''۔ (ہدیۃ المہدی اُردو ص ٥١،٥٠)


صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھا ہے ''السلام علیک یا رسول اللہ ، السلام علیک یا نبی اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ، السلام علیک یا محمد ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام ص ١٢٦ ، فردوس شاہ قصوری وہابی)


تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩ ، فضائل حج ص ٢٥٣)


اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٧٩)


جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی نواب وحید الزمان حیدر آبادی وہابی)


غوث پاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ١٠٠ مرتبہ درود غوثیہ پڑھ کر ١١ بار یہ درود و سلام پڑھو اغثنی یا ر سو ل اللہ علیک ا لصلو ٰۃ و ا لسلام (کتاب غوث اعظم صفحہ نمبر ٣٢ احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا ر سو ل اللہ جاہ ۔ (یا حرف محبت صفحہ ٩٤ مصنف دیوبندی)


حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام ) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا ''ا لسلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر '' ۔ (کتاب معراج مصطفےٰ صفحہ نمبر ١٢ ، مولوی محمد علی جانباز وہابی)


فضائل اعمال میں لکھا ہے

زمہجوری بر آمد جان عالم

تراحم یا نبی اللہ تراحم

آپ کے فراق سے کائنات عالم کا ذرہ ذرہ جاں بلب ہے اور دم توڑ رہا ہے ۔ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نگاہ کرم فرمائیے اے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم رحم فرمائیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 27 December 2021

جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے

 جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ  عنہ پر طعن کرے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن و اعتراض کرنا یا آپ سے سوء عقیدت رکھنا بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے ، کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح اور عادل ہیں ، ان کا جب ذکر کیا جائے، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ۔ پھر جن اصحاب کے لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نام لے کر دعائیں فرمائیں ان میں سے ایک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں اورحضور نبی اکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےصحابہ پر طعن کرنے سے منع فرمایا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ۔

ترجمہ : اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین میں سب کا وارث اللہ ہی ہے ،  تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا،وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے  اللہ جنّت کا وعدہ فرماچکا  اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ (پارہ 27 ، سورۃ الحدید ، آیت10)


 تفسیر قرطبی میں اس آیت کے تحت فرمایا : فِيهِ خَمْسُ مَسَائِلَ الخامسة - قوله تعالى : (وكلا وعد اللہ الحسنى) أي المتقدمون المتناهون السابقون، والمتأخرون اللاحقون، وعدهم اللہ جميعا الجنة مع تفاوت الدرجات ۔

ترجمہ : اس میں پانچ مسائل کا ذکر ہے ۔پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : اللہ تعالیٰ نے سب سے حسنیٰ کا وعدہ فرمالیا ہے یعنی سبقت کرنے والے پہلے اور بعد میں شامل ہونے والے متاخرین اللہ تعالیٰ نے ان سب سے درجات کے فرق کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمالیا ہے ۔ (الجامع لاحكام القرآن جزء 17 صفحہ نمبر 205 ،207 مطبوعہ کوئٹہ)


 تفسیر مظہری میں ہے : وَكُلًّا ۔۔۔اى كل واحد من الفريقين من الصحابة الذين أنفقوا قبل الفتح والذين أنفقوا بعده وَعَدَ اللہ الْحُسْنى ، لا يحل الطعن فى أحد منهم ولا بد حمل مشاجراتهم على محامل حسنة واغراض صحيحۃ او خطأ فى الاجتهاد ۔۔۔ وَاللہ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ  عالم بالبواطن كعلمه بالظواهر فيجازى كلا على حسبه ۔

ترجمہ : اور تمام یعنی وہ صحابہ کرام جنہوں نے قبل فتح  مکہ خرچ کیا اور جنہوں نے بعد فتح  مکہ خرچ کیا ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعد فرمالیا ۔ان میں سے کسی ایک کے بارے میں طعن کرنا حلال نہیں ہے اور ان کے مشاجرات کو اچھے محامل اور درست اغراض یا اجتہادی خطا پر محمول کرنا ضروری ہےاور جو تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے ۔وہ باطن کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے ظاہر کو جانتا ہے،تووہ ہر ایک کو اس کے مطابق بدلہ دے گا ۔ (تفسير مظھری، جلد9،صفحہ192، مطبوعہ کوئٹہ)


حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تذکروا مساوی  اصحابی  فتختلف قلوبکم علیھم و اذکروا محاسن   اصحابی حتی تاتلف قلوبکم علیھم ۔

ترجمہ : میرے صحابہ کا تذکرہ برائی کے ساتھ مت کرو کہ تمہارے دل ان کے خلاف ہوجائیں ، میرے صحابہ کی اچھائیاں بیان کرو ،یہاں  تک کہ تمہارے دل ان کے لیے نرم ہوجائیں ۔ (کنز العمال ،کتاب الفضائل ،الباب الثالث ،الفصل الاول ، جزء 11، صفحہ247،مطبوعہ لاھور،چشتی)


صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’’لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم، ولا نصيفه‘‘ ۔

ترجمہ : میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو،پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ جتنا سونا خیرات کرے ، تو وہ ان کے ایک مُد یا آدھا مُد خیرات کرنے کو نہیں پہنچ  سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب جلد 1 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی)


 حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا بعدی ‘‘ ۔

ترجمہ : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد ان کو (اعتراضات کا) نشانہ نہ بنانا ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب فی من سب اصحاب النبی جلد 2 صفحہ 706 مطبوعہ لاھور)


صحیح بخاری میں ہے  کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا ”دعہ فانہ قد صحب رسول اللہ “ ۔

ترجمہ : ان کو کچھ نہ کہو یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کے صحابی ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ جلد 1 صفحہ531 مطبوعہ کراچی)


سنن  ترمذی  ، مسند امام احمد اور التاریخ  الکبیر  للبخاری میں حدیث صحیح منقول ہے (والنظم ھذا للبخاری ) : ” قال ابو مسھرحدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن ابن ابی عمیرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم  اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدہ واھدبہ“ ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا ابن ابو عمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعا فرمائی : اے اللہ ! اسے ہادی ومہدی بنا،اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (التاریخ الکبیر ،عبد الرحمن بن ابی عمیرہ جلد 5 صفحہ 240 دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدر آباد دکن)


امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد (ابن حجر ہیتمی ) شافعی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے  ہیں : ”فتامل ھذاالدعاء من الصادق المصدوق وان ادعیتہ لامتہ لا سیما اصحابہ مقبولۃ غیر مردودۃ، تعلم ان اللہ سبحانہ استجاب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بھذا الدعاء لمعاویۃ فجعلہ ھادیا للناس مھدیا فی نفسہ ومن جمع اللہ لہ بین ھاتین المرتبتین کیف یتخیل فیہ ماتقولہ علیہ المبطلون ووصمہ بہ المعاندون معاذ اللہ لایدعو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ھذاالدعاء الجامع لمعالی الدنیا والاخرۃ المانع لکل نقص نسبتہ الیہ الطائفۃ المارقۃ الفاجرۃ الا لمن علم صلی اللہ علیہ وسلم  انہ اھل لذلک حقیق بما ھنالک “ ۔

ترجمہ : پس غورکرو یہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بلا شبہ آپ کی امت کے حق میں بالخصوص آپ کے صحابہ کرام کے حق میں مقبول ہے ، رد ہونے والی نہیں ۔ تو جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں قبول فرما کر ان کو ہدایت یافتہ اور لوگوں کےلیے رہنما بنا دیا اور جس شخصیت میں اللہ تعالیٰ یہ دونوں مقام جمع فرمادے اس کے بارے میں وہ سب کچھ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے ، جو باطل پرست ان کے خلاف کہتے ہیں اور جو معاندین ان پر عیب لگاتے ہیں معاذاللہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسی دعا کہ جو دنیا وآخرت کے بلند مقامات کی جامع ہے اور ہر اس نقص کی مانع ہے ، جس کی نسبت فاسق وگمراہ فرقہ حضرت امیر معاویہ کی طرف کرتا ہے ، صرف اسی کے حق میں کرسکتے ہیں ، جو حقیقتاً اس دعا کا اہل وحق دار ہو ۔ (تطھیر الجنان الفصل الثانی صفحہ 49 دارالصحابہ للتراث )


مسند امام احمد ،مسند بزار،صحیح ابن حبان اور التاریخ الکبیر میں ہے : (والنظم ھذا للبخاری ) ”أبو مسهر عن سعيد بن عبد العزيز عن ربيعة بن يزيد عن عبد الرحمن بن عميرة عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال اللهم علم معاوية الحساب وقه العذاب“ ۔

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عمیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ معاویہ کو حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا ۔ (التاریخ الکبیر معاویۃ بن ابی سفیان بن حرب جلد 7 صفحہ 326 رقم 1405 دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دکن)


المسامرہ میں ہے : (واعتقاد أھل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنھم وجوباً بإثبات العدالۃ لکل منھم والکف عن الطعن فیھم ، (والثناء علیھم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالی علیھم) ۔

ترجمہ : اہل سنت کا عقیدہ (یہ ہے کہ) تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم  کی عدالت کو ثابت کرنے کے ساتھ ان کی  پاکیزگی بیان کرناواجب ہے اور ان سب کے معاملہ میں طعن سے رکے رہنا واجب ہے اور ان کی تعریف کرنا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے ۔ (المسامرۃ شرح المسامرہ الرکن الرابع الاصل الثامن صفحہ 259 دارالکتب العلمیہ،چشتی)


نبراس میں ہے : سبہ رجل عند خلیفۃ الراشد عمر بن عبد العزیز فجلدہ ۔

ترجمہ : ایک شخص نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے حضرت امیر معاویہ کو برا بھلا کہا ، تو  آپ نے اسے کوڑے لگوائے ۔ (النبراس شرح شرح العقائد محاربات الصحابۃ واجبۃ التاویل صفحہ 330 مطبوعہ ملتان)


جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے


حضرت امیر معاویہ رضی اللّہ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ہیں کاتبِ وحی ہیں ان کی مقدس شان میں بکنے والا ، بیہودہ گوئی کرنے والا اِن کی عظمت و شان پر کسی قسم کی حرف گیری (یعنی اعتراض) کرنے والا ، اِن سے بُغض رکھنے والا شخص لعنتی ہے رافضی ہے جہنمی کتا اور جہنمی خنزير ہے نطفہ حرام ہے ولدُ الزِنا ہے قرآن و سُنّت کا مُنکر ہے اہل بیت اَطہار رضی اللہ عنہم کا دشمن ہے اجماعِ اُمِّت کا منکر ہے ۔ اولیائے عظام و آئمہ کرام علیہم الرحمہ کی تعلیمات کا منکر ہے ۔

حضرت امام شعرانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس نے اللّٰہ تعالٰی کے ولی کی توہین کی اس کے دل میں زہر آلود تیر پیوست کردیا جاتا ہے ، اور وہ نہیں مرتا ، حتی کہ اس کا عقیدہ فساد کی نذر ہو جاتا ہے ، اور اس پر برے خاتمے کا خوف ہوتا ہے ۔ (الیواقیت الجواہر،مترجم،ص،٦٧)

اللہ اکبر ! جب اولیاءاللہ کی توہین کا یہ عالم ہے تو جو تمام ولیوں سے افضل ہستیوں یعنی حضراتِ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عنہم کے گستاخوں اور بے ادبوں کا کیا انجام ہوگا یہ خود ہی اندازہ کرلیں ۔


امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔

ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)۔(نسیم الریاض ،القسم الثانی جلد 3 صفحہ 430 مطبوعہ ملتان)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )(سنیوں کا لبادہ اڑھے جہنمی کتوں کو پہچانیئے)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ جہنمی کتا ہے ، اگر کوئی چورہ شریف سے تعلق رکھ کر حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہم گدی نشین ہونے کی حیثیت سے اسے تنبیہ کرتے ہیں انسان بن جاؤ ۔ (الدرّۃ الحیدریہ علیٰ کلب الھاویہ عدوّ معاویہ صفحہ نمبر 8 مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ لاہور،چشتی)


پاکستان کے نقشبندی مجددی آستانوں کے مرکزی آستانہ عالیہ چورہ شریف کا واضح حکم آ جانے کے بعد بھی اگر چورہ شریف کا کوئی مرید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہے تو وہ باز آ جائے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولے کہ ایک صحیح العقیدہ آستانے کے مرید نہ تو خارجیوں کے عقیدہ کے داعی ہیں اور نہ ہی رافضیوں کے عقیدہ کے داعی ۔


امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ای للامیر معاویۃ رضی اللہ عنہ اما عند اھل الحق فاستقامۃ الخلافۃ لہ رضی اللہ تعالی عنہ من یوم صلح السید المجتبی صلی اللہ تعالی علی جدہ الکریم وابیہ وعلیہ وعلی امہ واخیہ وسلم ۔

ترجمہ : بہر حال اہل حق کے نزدیک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کےلیے اس دن سے خلافت مستحکم ہوگئی ، جس دن حضرت امام مجتبیٰ امام حسن صلی اللہ تعالیٰ علی جدہ الکریم وابیہ وعلیہ وعلی امہ واخیہ وسلم  نے صلح کی ۔

اس کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالیٰ امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح والی حدیث بخاری نقل کرکے فرماتے ہیں ”وبہ ظھر ان الطعن علی الامیر معاویۃ طعن علی الامام المجتبی بل علی جدہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم،  بل علی ربہ عزوجل ۔

ترجمہ : اسی سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنا درحقیقت امام مجتبیٰ پر طعن کرنا ہے ، بلکہ یہ ان کے جد کریم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  پر طعن کرنا ہے ، بلکہ یہ تو اللہ عزوجل پر طعن کرنا ہے ۔

اس کے بعد اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : کیونکہ مسلمانوں کی باگ ڈور کسی غلط آدمی کے ہاتھ میں دینا اسلام اور مسلمین کے ساتھ خیانت ہے اور اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلط تھے ، جیسا کہ طعن کرنے والے کہہ رہے ہیں ، تو پھر اس خیانت کے مرتکب معاذ اللہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ٹھہریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  کی اس خیانت پر رضا لازم آئے گی اور یہ وہ ہستی ہے جس کی شان میں (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی)  وارد ہے ۔ یہ جملے اس شخص کو فائدہ دیں گے جس کے لیے اللہ نے ہدایت کا ارادہ فرمالیا ۔ (المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد صفحہ 192-193 برکاتی پبلشر کراچی)


فتاوی رضویہ میں ہے : سِیَر جن بالائی باتوں کےلیے ہے ، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے ، اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض و نفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات و معضلات و بے سر و پا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا ، اعتراض نکالنا ، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، مگر گمراہ بددین ، مخالف ومضاد حق تبیین ۔ (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 582 رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)


صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے ، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے ، ایسا شخص رافضی ہے ، اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے ۔ مثلاً :حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہم ، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا ۔ صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کے باہم جو واقعات ہوئے ، ان میں پڑنا حرام ، حرام ، سخت حرام ہے ۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں ۔  تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے ، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ۔ یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے ۔ صحابہ کر ام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم انبیاء نہ تھے ، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں ۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں ، مگر ان کی کسی بات پر گرفت ﷲ و رسول (عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے ۔ ﷲعزوجل نے سورہ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں ۔ مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا : (وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی) سب سے ﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ۔ ساتھ ہی ارشاد فرما دیا : (وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ) ﷲ خوب جانتا ہے ، جو کچھ تم کرو گے ۔ تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرما چکے ، تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے ؟ کیا طعن کرنے والا ﷲ (عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ (بہار شریعت جلد 1 حصہ 1 صفحہ نمبر 252-255 مکتبۃ المدینہ کراچی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ جہنمی کتا ہے ، اگر کوئی چورہ شریف سے تعلق رکھ کر حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہم گدی نشین ہونے کی حیثیت سے اسے تنبیہ کرتے ہیں انسان بن جاؤ ۔ (الدرّۃ الحیدریہ علیٰ کلب الھاویہ عدوّ معاویہ صفحہ نمبر 8 مطبوعہ کرمانوالہ بک شاپ لاہور،چشتی)


پاکستان کے نقشبندی مجددی آستانوں کے مرکزی آستانہ عالیہ چورہ شریف کا واضح حکم آ جانے کے بعد بھی اگر چورہ شریف کا کوئی مرید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہے تو وہ باز آ جائے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولے کہ ایک صحیح العقیدہ آستانے کے مرید نہ تو خارجیوں کے عقیدہ کے داعی ہیں اور نہ ہی رافضیوں کے عقیدہ کے داعی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 26 December 2021

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور صحابی کی توہین کا شرعی حکم

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور صحابی کی توہین کا شرعی حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے ، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں ، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے : من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب ۔ (مشکوٰة صفحہ نمبر ۱۹۷)

ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے ۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے ۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ ﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ . (سورۃ التوبة:100)

ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔


پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7)


عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کی تنقیص کرنے والا ملعون ہے . قارئین شفا شریف کا کیا عظیم مقام ہے آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں .


امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گمراہی پر مانے اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے گالی دی اسے سخت سزا دیجائے گی . برکات آل رسول ص 283 علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ القام الحجر میں اس بات پر اجماع نقل کیا کہ کسی بھی صحابی کو گالی دینے والا فاسق ہے اگر اسے وہ حلال نہ جانے اور اگر وہ حلال جانے تو کافر ہے اس لیے کہ اس توہین کا ادنی درجہ فسق ہے اور فسق کو حلال جاننا کفر ہے .


علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں.

الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383،چشتی)


اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” ۔ [مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢] ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ۔[الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973]

ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رسول الله سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا ، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل ۔ تخريج الحديث : 1) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285(1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405،چشتی) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863(5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69(70)


علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ ء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کےلیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور ۔ (برکات آل رسول 281)


حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما آپ نے فرمایا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ (الناہیہ صفحہ نمبر 16)


امام قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ علامہ معافی بن عمران علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور کاتب وحی ہیں . لناہیہ صفحہ نمبر 17)


بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ نمبر 112)


بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں .


محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .

شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے .


امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے


اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں

اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی


 فرق مراتب بے شمار

اور حق بدست حیدر کرار


مگر معاویہ بھی ہمارے سردار

طعن ان پر بھی کار فجار


جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ با ﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاہور،چشتی)


اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب رضی اللہ عنہم کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہل اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن > جنوری 2013 ء > الفقہ : آپ کے دینی مسائل)


اب کیا فرماتے ہیں منہاج القرآن کی آڑ میں چھپے رافضی جو توہین آمیز اندا ماموں ماموں کہتے ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتبِ وحی ہونے کا انکار کرتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا بھی حیاء نہیں کرتے رافضیوں کی پیروی میں منہاج القرآن کی آڑ میں چھپے رافضیوں کو پہچانو ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلیل الشان صحابی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب ہیں ۔ (فتاویٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 78  مفتی اہلسنّت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علی)


جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ  عنہ کی شان میں گستاخی کرے آپ کی خلافت کو حق نہ مانے وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا کھلا دشمن و باغی ہے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 79)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں  اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا گستاخ  رافضی  ہے اس سے توبہ کرائی جائے مسلمانوں پر فرض ہے ایسے شخص کا بائیکاٹ کریں جب تک کہ وہ شخص توبہ کر کے سنی مسلمان نہ ہو جائے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 80)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ ( فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ 32 شارح بخاری فقیہ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ)


سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اب کیا کہتے ہیں ؟ یہ فتویٰ کسی عام شخصیت کا نہیں ہے فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ یہ ہے اکابرین اہلسنت کا موقف اور ہمیں سنیوں کے لبادے میں چھپے کسی رافضی پیر ، مفتی ، مجدد ، مولوی یا عالم وغیرہ کے کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے ۔


امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔

ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان،چشتی)


امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


مشہور محدث شیخ الاسلام امام ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی979ھ) فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسب ، قرابت رسول ، علم اور حلم کے اعتبار سے اکابر صحابہ میں سے ہیں ..... پس ان اوصاف کی وجہ سے جو آپ کی ذات میں بالاجماع پائے جاتے ہیں واجب ضروری ہے کہ آپ سے محبت کی جائے ۔ (تطہیر الجنان واللسان عن الخطور والتفوہ بثلب سیدنا معاویہ بن ابی سفیان صفحہ نمبر3)


امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ


محدث و فقیہ شیخ ابوالمواھب امام عبد الوہاب بن احمد شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 973ھ) فرماتے ہیں کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرتا ہے بے شک وہ اپنے دین پر طعن کرتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دروازہ بالکل بند کر دیا جائے بالخصوص سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بارے میں ۔ (الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر، المبحث الرابع والاربعون فی بیان وجوب الکف عن شجر بین الصحابہ، جلد2، صفحہ نمبر323،چشتی)


امام مجاہد ، امام اعمش اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم


امام اعمش رضی اللہ عنہ جو کہ تابعین میں سے ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو دیکھتے تو کہتے کہ وہ مہدی ہیں ۔ (تطہیر الجنان، صفحہ نمبر27)


امام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو پا لیتے تو البتہ تم ضرور کہتے کہ یہ مہدی ہیں ۔ (حضرت امیر معاویہ صفحہ نمبر205 بحوالہ حاشیہ العواصم)


اما م اہلسنت ابو لحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324 ہجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنّت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے، اسی طرح جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626)


امام قاضی ابو بکر باقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں :

واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کریں ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان ، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چاروں آئمہ فقہا علیہم الرّحمہ کا مؤقف


حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105،چشتی)


حضرت امام مالک رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم  ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہم کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 102)


حضرت امام شافعی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105)


امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 106)


محترم قارئینِ کرام : گزشتہ چند دنوں سے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی مسلسل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں فقیر نے اہلسنت کے موقف کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے یاد رہے جو مقام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے اس لیے ان دونوں میں موازنہ کرنا ہی غلط ہے فقیر کا مقصد صرف یہ ہے کہ خدا را ایک جلیل الشان صحابی رسول رضی اللہ عنہ کی توہین مت کرو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...