Friday, 30 November 2018

حدیثِ وسیلہ راویت سنن دارمی پر اعتراض کا جواب

حدیثِ وسیلہ راویت سنن دارمی پر اعتراض کا جواب

حدیث وسیلہ پر منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کے وسیلے سے دعا کا فرمایا ۔ مسند دارمی جلد1صفحہ 227) ۔ (اس روایت کے رجال ثقہ ہیں )

منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب انہی کے عالم سے۔ توسل کے متعلق سنن دارمي والی حدیث عائشہ (رضي الله عنها) کا دفاع. زبیرعلی زئی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں سنن دارمی کی اس روایت کا رد کیا ہے. حدیث : حدثنا : ‏ ‏أبو النعمان ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏سعيد بن زيد ‏ ‏، حدثنا : ‏عمرو بن مالك النكري ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏أبو الجوزاء أوس بن عبد الله ‏ ‏قال :" قحط ‏ ‏أهل ‏ ‏المدينة ‏ ‏قحطاً ‏ ‏شديداً فشكواً إلى ‏ ‏عائشة ‏ ‏فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) ‏فإجعلوا منه ‏ ‏كوى ‏ ‏إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى ‏ ‏تفتقت ‏ ‏من الشحم فسمي عام ‏ ‏الفتق". ‏ترجمہ:ابی الجوزاء“ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے.اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا۔" حوالہ : مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة. "امام ابن عدی ﷫نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱) جواب : یہ جرح مردود ہے. اس کا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے [ مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ ] ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ 2- محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227)۔(اس روایت کے رجال ثقہ ہیں )

اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة.
امام ابن عدی ﷫نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔" (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
جواب : یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔( مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ - (محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227،چشتی)

غیر مقلد حافظ زبیر علی زائی کے شاگرد شیخ غلام مصطفیٰ امن پوری نے امام نسائی کی کتاب ” وفاۃ النبی ؐ پر تحقیق کرتے ہوئے سنن دارمی کی ایک روایت کا رد کیا ہے.روایت اس طرح ہے : ‏ ‏أبو النعمان ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏سعيد بن زيد ‏ ‏، حدثنا : ‏عمرو بن مالك النكري ‏ ‏، حدثنا : ‏ ‏أبو الجوزاء أوس بن عبد الله ‏ ‏قال : قحط ‏ ‏أهل ‏ ‏المدينة ‏ ‏قحطاً ‏ ‏شديداً فشكواً إلى ‏ ‏عائشة ‏ ‏فقالت : إنظروا قبر النبي (ص) ‏فإجعلوا منه ‏ ‏كوى ‏ ‏إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى ‏ ‏تفتقت ‏ ‏من الشحم فسمي عام ‏ ‏الفتق.
ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے ۔ (سنن دارمی-امام دارمی : ١ /١٥٨ / رقم ٩٣ , مشکاۃ مصابیح -امام تبریزی : ٥٩٥٠،چشتی)
نیچھے غلام مصطفیٰ صاحب نے اس کو ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہے : اس کی سند ضعیف ہے.اسکے راوی عمرو بن مالک النکری ( ثقہ حسن الحدیث ) کی روایت ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے . یہ روایت بھی ایسی ہی ہے. حافظ ابن حجر لکھتے ہے : امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ عمرو بن مالک النکری نے ابو الجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث نقل کی ہے – ( تہذیب التہذیب ١ /٣٣٦ ) ( وفاۃ النبی للنسائی بتحقیقی / صفحہ 235-236 / طبع پاکستان )
ان کے استاد شیخ زبیر علی زائی نے بھی مشکواۃ کی تحقیق میں اس روایت کو اسکی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ (مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی )
لیکن ان دونون کی یہ جرح مردود ہے. اسکا جواب مہشور ناصبی سلفی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتے ہے : عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, انکی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥)

ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ۔ ( نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ،چشتی)
نوٹ : اس کا مقدمہ مہشور اھل الحدیث عالم ارشاد الحق الاثری نے لکھا ہے

ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں : صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء ۔ حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم.
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے ۔ (نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے۔)
کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا ؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی ؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟

انتہائی اہم اصول : ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت

اگرچہ کی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے ۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے۔

اسی لئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے

مگر اہلحدیث حضرات نے اسکا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دارومدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُن کی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔ جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں ۔

غیر مقلدین وہابی حضرات کی دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ)

اگرچہ کہ غیر مقلدین وہابی حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے ، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں ۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت/دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں (اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی غیر مقلدین وہابی حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، تو پھر وہ ان آیات کو حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما پر چسپاں کیوں نہیں کرتے ؟ مثلاً یہ آیت کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔

اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۔

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66) (ابراہیم علیہ السّلام نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟ ۔ اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








بعد از وصال وسیلہ کی حدیث پر وہابیہ کے اعتراض کا جواب

بعد از وصال وسیلہ کی حدیث پر وہابیہ کے اعتراض کا جواب

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا: حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا: ”عمر کے پاس جاؤ ،میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔



اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤) ، یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے،مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق!آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے.علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا ".(الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣،چشتی)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")

الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤ ،چشتی)

الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")

اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں َ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦،چشتی)

جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔

تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .

اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104،)( جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32" )

امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے( بخاری اور مسلم نے اپنی )صحیح روایت لی .

علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة.("الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار")

اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال.(ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ( ال- ١تصال).(ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 27 November 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اس دستر خوان سے بارہا اپنے دست مبارک اور لب مبارک کو صاف کیا اس لیئے اسے آگ نہیں جلا سکتی


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اس دستر خوان سے بارہا اپنے دست مبارک اور لب مبارک کو صاف کیا اس لیئے اسے آگ نہیں جلا سکتی

حافظ ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ متوفی (۴۳۰ ھ) نے بروایت عباد بن عبد الصّمد رضی اللہ عنہما نقل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں آئے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کنیز سے کہا کہ دستر خوان لاؤ تا کہ ہم چاشت کا کھانا کھائیں ، وہ لے آئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ رومال لا ؤ وہ ایک میلا رومال لے آئی ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تنورگرم کر اس نے تنور گرم کیا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے رومال اس میں ڈال دیاگیا ۔ وہ ایسا سفید نکلا گویا کہ دودھ ہے ۔ ہم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے روئے مبارک کو مسح فرمایا کرتے تھے ۔ جب یہ میلا ہوجاتا ہے تو اسے ہم یوں صاف کرلیتے ہیں کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے روئے مبارک پر سے گذری ہو ۔ (شواہد النبوۃ مترجم اردو رکن خامس ، صفحہ نمبر 235)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا دستر خوان اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا روٹیاں لگانا اور جن کو کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا ہاتھ لگا آگ نے اثر نہ کیا ۔ (خطبات فقیر جلد دوم صفحہ 92 ،93)

عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اے دل اگر تجھے آتش دوزخ سے نجات پانے کی فکر ہے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قرب حاصل کر ، جب ان کے دست مبارک کو مس کرنے کی وجہ سے ایک بے جان جلنے سے محفوظ رہا ,, تو جو ان کا عاشق زار ہو گا وہ کیسے جلے گا " پھر مہمانوں نے خادمہ سے پوچھاکہ تو نے بلا تامل دستر خوان آگ میں ڈال دیا, کیا تو ڈری نہیں کہ یہ جل جائے گا ؟ اس نے جواب دیا "میں کی غلام ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جو آپ ؓ حکم دیں گے وہ کبھی نقصان پہنچانے والا نہیں ہو گا ۔
عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرماتے ہیں کہ : اگر کسی شخص کا دل جہنم کی آگ سے خوف ذدہ ہو اس کوچاہیے کہ ایسے مبارک لبوں اور ہاتھوں کے قریب ہو جائے جو قرب والے ہیں ۔
اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ جس چیز کو مس کر دیں تو وہ آگ میں نہیں جل سکتی ، تو جو امتی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ سے عقیدت رکھتا ہو گا تو اسے کیا کچھ عطا ہو گا ۔ اے عزیز صدق اور پختگی میں عورت سے کم نہ ہو مردان خدا اولیاء اللہ کا دامن پکڑ ان کے لمس سے تم کندھن بن جاؤ گے . درس حیات: جو کوئی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طالب ہے اسے چاہیے کہ وہ اولیا اللہ کی ہمنشینی اختیار کرے ان کی صحبت اور نگاہ سے عشق کا وہ رنگ نصیب ہو گا کہ وہ دونوں جہان میں لا یحتاج ہو جائے گا ۔ (ماخوذ مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ رضی اللہ عنہم اور بحالتِ نماز دیدارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

صحابہ رضی اللہ عنہم اور بحالتِ نماز دیدارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کے آخری ایام کے اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں جس میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کے بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں حالت نماز میں تھے مگر جیسے ہی حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ۔ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ چناچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور قرآن کے اوراق کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جماعت کو دیکھ کر) مسکرانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں تشریف لارہے ہیں ۔ اس لئے انھوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر مقتدیوں میں مل جانا چاہا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ۔ (بخاری کتاب الاذان 648 ، 721 ، کتاب التھجد 1147 ، کتاب المغازی 4183 )(مسلم کتاب الصلوۃ 419)

محترم قارئین غور فرمایئے اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان بحالت نماز دیدار مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لذتوں سے فیضیاب ہورہے تھے۔ یعنی بحالت نماز آمد و مسکراہٹ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر توجہ ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیچھے کی طرف ہوجانے کا عمل اور شوق دیدار میں نماز توڑنے تک کی کیفیات اگر کسی عام سے منسوب ہوتیں تو لائق جراح بن جاتیں مگر اسے کیا کہئے کہ یہ اعمال خود صحابہ کرام علیھم الرضوان سے منسوب و ثابت ہیں۔ لہٰذا کہنے دیجئے کہ ادب و تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیکھنا ہو تو صحابی کی طرف رجوع کرو کسی ۔ کی کیا اوقات کہ وہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھ سکے ۔ بے شک صحابہ کرام علیھم الرضوان ہی نے سب سے بہتر سمجھا اور ہمارے لئے لائق تقلید اعمال کا ایک خزانہ چھوڑا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یا اللہ ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم والا ادب و عقیدہ عطاء فرما آمین


یا اللہ ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم والا ادب و عقیدہ عطاء فرما آمین

عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي اﷲ عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ قَالَ : فَوَاﷲِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ : أَي قَوْمِ، وَاﷲِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاﷲِ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا. وَاﷲِ، إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَ إِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه …الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ ۔ (صحیح بخاري کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 / 974، الرقم : 2581)(مسند حمد بن حنبل ، 4 / 329،چشتی)(صحيح ابن حبان ، 11 / 216، الرقم : 4872)(معجم الکبيرطبرانی ، 20 / 9، الرقم : 13)(سنن الکبری بیہقی، 9 / 220)

ترجمہ : حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (کے معمولاتِ تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس حکم کی فوراً تعمیل کی جاتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ پانی اسے مل جائے) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے انتہائی پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے شان و شوکت والے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، اور غایت درجہ تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے ۔ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد علیہما الرّحمہ نے روایت کیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کیوں جناب بوہریرہ (رضی اللہ عنہ) تھا وہ کیسا جام شیر

کیوں جناب بوہریرہ (رضی اللہ عنہ) تھا وہ کیسا جام شیر

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی اک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بڑے بڑے خوبصورت واقعات کو دو مصرعوں میں بیان فرما دیا اور بڑا خوبصورت انداز اختیار فرمایا ۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :

کیوں جناب بوہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا

یہ مکمل واقعہ کچھ اس طرح : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے تھے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کہ میں بسا اوقات بھوک کی شدت کے باعث اپنا شکم اور سینہ زمین پر لگا دیتا (تاکہ زمین کی نمی اور ٹھنڈک سے بھوک کی حرارت میں کچھ کمی آجائے) اور بعض اوقات پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تاکہ سیدھا کھڑا ہوسکوں ۔
ایک روز سرراہ جاکر بیٹھ گیا ۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا ادھر سے گزر ہوا۔ میں نے ان سے ایک آیت قرآنی کا مطلب دریافت کیا۔ غرض تو یہ تھی کہ وہ میری صورت اور ہیئت دیکھ کر کھانا کھلانے کے لیئے اپنے پمراہ لے جائیں گے لیکن وہ چلے گئے اسی طرح حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) گزرے ان سے بھی ایک آیت کا مطلب دریافت کیا مگر وہ بھی گزر گئے ، کچھ دیر بعد رحمت اللعالمین آقائے دوجہاں ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف فرما ہوئے اور میرے چہرہ کو دیکھتے ہی پہچان گئے اور دلربا مسکراہٹ کے ساتھ شگفتہ دہن ہوئے '' اے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)'' میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہوں ۔ ارشاد ہوا میرے ساتھ چلیں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ہولیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گھر تشریف فرما ہوئے تو ایک پیالہ دودھ رکھا دیکھا ، دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ' گھر والوں نے کہا فلاں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہدیہ بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) اصحاب صفہ کو بلالاؤ ۔
سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں : واھل الصفۃ اضیاف السلام ۔
ترجمہ : اور اصحاب صفہ اسلام کے مہمان تھے ۔
رحمت کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جب کہیں سے صدقہ آتا تو اصحاب صفہ کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں لیتے تھے (اس لیئے آپ پر صدقہ حرام تھا) اور اگر ہدیہ آتا تو خود بھی اس میں سے تناول فرماتے تھے اور اصحاب صفہ کو بھی اس میں شریک کرتے ۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ حکم کہ اصحاب صفہ کو بلا لاؤ، میرے نفس کو کچھ شاق گزرا اور اپنے دل سے کہہ رہا تھا کہ یہ اتنا سا دودھ اصحاب صفہ کے لیئے کیسے کافی ہوگا ؟؟؟ اس دودھ کا تو سب سے زیادہ حقدار میں تھا کہ کچھ پی کر طاقت اور توانائی حاصل کرتا، پھر یہ کہ اصحاب صفہ کے آنے کے بعد مجھ ہی کو اس کی تقسیم کا حکم دیں گے اور تقسیم کے بعد یہ امید نہیں کہ میرے لیئے اس میں سے کچھ بچ جائے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت کے سوا چارہ نہ تھا ، چنانچہ اصحاب صفہ کو بلا لایا اور پھر آپ کے ارشاد کے مطابق ایک ایک کو پلانا شروع کیا ، جب سب نے سیراب ہوکر پی لیا ، تو میری طرف دیکھ کر آپ مسکرائے اور فرمایا: کہ اب صرف میں اور تم باقی رہ گئے ہیں ، میں نے عرض کیا بالکل درست ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پینا شروع کرو میں نے پینا شروع کیا اور آپ برابر یہ فرماتے رہے '' اور پیو اور پیو '' یہاں تک میں بول اٹھا قسم اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حق دے کر بھیجا۔ اب بالکل گنجائش نہیں ۔ اس پر آپ نے میرے ہاتھ سے پیالہ لے لیا اور اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور بسم اللہ شریف پڑھ کر باقی ماندہ سب نوش فرما لیا ۔ (صحیح البخاری عربی کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و اصحابہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 955- 956) ۔ (صحیح بخاری جلد سوم مترجم اردو صفحہ نمبر 820 ، 821 ، 822 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


Monday, 26 November 2018

خصائص مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مختصر تذکرہ


خصائص مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مختصر تذکرہ

(۱) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا پیدائش کے اعتبار سے”اول الانبیاء” ہونا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ کَانَ نَبِيًّا وَّ اٰدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت شرف نبوت سے سرفراز ہو چکے تھے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام جسم و روح کی منزلوں سے گزر رہے تھے ۔ (زرقانی علی المواهب جلد۵ ص ۲۴۲)

(۲) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خاتم النبیین ہونا ۔

(۳) تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے پیدا ہوئی ۔

(۴) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا ۔

(۵) تمام آسمانی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشارت دی گئی ۔

(۶) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے وقت تمام بت اوندھے ہو کر گر پڑے ۔

(۷) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شق صدر ہوا ۔

(۸) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لئے براق پیدا کیا گیا ۔

(۹) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نازل ہونے والی کتاب تبدیل و تحریف سے محفوظ کر دی گئی اور قیامت تک اس کی بقاء و حفاظت کی ذمہ داری اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی ۔

(۱۰) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آیۃ الکرسی عطا کی گئی ۔

(۱۱) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام خزائن الارض کی کنجیاں عطا کر دی گئیں ۔

(۱۲) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جوامع الکلم کے معجزہ سے سرفراز کیا گیا۔

(۱۳) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رسالت عامہ کے شرف سے ممتاز کیا گیا۔

(۱۴) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تصدیق کے لئے معجزہ شق القمر ظہور میں آیا۔

(۱۵) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے اموال غنیمت کو اﷲ تعالیٰ نے حلال فرمایا۔

(۱۶) تمام روئے زمین کو اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے مسجد اور پا کی حاصل کرنے (تیمم) کا سامان بنا دیا ۔،چشتی)

(۱۷) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعض معجزات (قرآن مجید) قیامت تک باقی رہیں گے ۔

(۱۸) اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو ان کا نام لے کر پکارا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اچھے اچھے القاب سے پکارا ۔

(۱۹) اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ” حبیب اﷲ ” کے معزز لقب سے سر بلند فرمایا ۔

(۲۰) اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رسالت، آپ کی حیات،آپ کے شہر،آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی ۔

(۲۱)آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام اولاد آدم کے سردار ہیں ۔

(۲۲) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اﷲ تعالیٰ کے دربار میں “اکرم الخلق” ہیں ۔

(۲۳) قبر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات کے بار ے میں منکر و نکیر سوال کریں گے ۔

(۲۴) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ٹھہرایا گیا ۔

(۲۵) ہر نمازی پر واجب کر دیا گیا کہ بحالت نماز اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سلام کرے ۔،چشتی)

(۲۶) اگر کسی نمازی کو بحالت نماز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پکاریں تو وہ نماز چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پکار پر دوڑ پڑے یہ اس پر واجب ہے اورایسا کرنے سے اس کی نماز فاسد بھی نہیں ہو گی ۔

(۲۷) اﷲ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مختار بنا دیا ہے، آپ جس کے لئے جو چاہیں حلال فرما دیں اور جس کے لئے جو چاہیں حرام فرما دیں ۔

(۲۸) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منبر اور قبر انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔

(۲۹) صور پھونکنے پر سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی قبر انور سے باہر تشریف لائیں گے ۔

(۳۰) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مقام محمود عطا کیا گیا ۔

(۳۱) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شفاعت کبریٰ کے اعزاز سے نوازا گیا ۔

(۳۲) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قیامت کے دن ” لواءالحمد ” عطا کیا گیا ۔

(۳۳) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔

(۳۴) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حوض کوثر عطا کیا گیا ۔

(۳۵) قیامت کے دن ہر شخص کا نسب و تعلق منقطع ہو جائے گا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نسب و تعلق منقطع نہیں ہو گا ۔

(۳۶) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سوا کسی نبی کے پاس حضرت اسرافیل علیہ السلام نہیں اترے ۔

(۳۷) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دربار میں بلند آواز سے بولنے والے کے اعمال صالحہ برباد کردیئے جاتے ہیں ۔

(۳۸) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حجروں کے باہر سے پکارنا حرام کر دیا گیا۔

(۳۹) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے ۔

(۴۰) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ معجزات عطا کئے گئے ۔ (زرقانی علی المواهب جلد۵)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 25 November 2018

جنہیں ہو یقین و اعتماد وہ ہمارا ساتھ دیں


جنہیں ہو یقین و اعتماد وہ ہمارا ساتھ دیں

السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ : بعد از سلام میرے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غلامو یہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی پُر خُلوص طریقہ سے سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سے ھٹ کر خدمتِ دین کر رہا ہے دینی کاموں میں مستحق و نادار بچوں بچیوں کو تعلیم دلانہ اور تبلیغِ دین کے سلسلے میں ہر طرح کوشش کرنا ، دینی کتب عربی اردو کی خریداری اور ادارے کےلیئے مزید جگہ و تعمیرات کےلیئے کوششیں یہ وہ شعبہ جات ہیں جن میں الحمد للہ ہم مخلصانہ خدمت کر رہے ہیں بغیر کسی شعبدہ بازی و دکھلاوے کے اس سلسلہ میں صاحب استطاعت اہلِ ایمان سے تعاون کی اپیل بھی ہم کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب آپ سوشل میڈیا پر اپیل نہ کیا کریں یہ مشورہ پڑھ کرمیں حیران رہ گیا کہ کیا سوشل میڈیا پر مخلص اور دین کا درد رکھنے والے دوست نہیں ہیں یا للعجب خیر صاحب استطاعت مخیر حضرات سے حسبِ توفیق مالی تعاون کی اپیل ہے تعاون فرما کر عند اللہ ماجور ہوں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔ طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر pk14habb0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔ موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز 03009576666 ، 03215555970 ، ایزی پیسہ اکاؤنٹ نمبر : 03458018584 ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلہ سے دعاء کرنا اور آپ سے مدد چاہنا حصول مغفرت و مقصد براری کا قوی ذریعہ ہے ۔ جیساکہ شفاء السقام میں ہے : ویحسن التوسل والاستغاثۃ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ربہ ۔ (شفاء السقام صفحہ 37﴾

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا توسل آپ کی ولادت شریفہ سے قبل اور آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اور آپ کے وصال شریف کے بعد نصوص سے ثابت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین ائمہ و محدثین علیہم الرّحمہ کے واقعات اس کے شاہد عدل ہیں ۔ جیساکہ فتاوی رملی میں ہے : ’’ویجوز التوسل الی اللّٰہ تعالیٰ والاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والعلماء والصالحین فی حیاتھم وبعد مماتھم ۔ (فتاویٰ علامہ رملی صفحہ 382، بحوالہ فتاویٰ نظامیہ صفحہ 447،چشتی)

اہل کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت شریفہ سے پیشتر آپ کے وسیلہ سے دعائیں کرتے اور دشمنوں پر فتح پاتے تھے ’’وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا‘‘(سورۃالبقرۃ : 89) ترجمہ ؛؛ اور اس سے پہلے وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے کافروں پر فتح یابی کی دعائیں مانگا کرتے تھے،

سیدنا آدم علیہ السلام نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ- ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 هـ) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ"میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد- ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں – اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - ﴿مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194-)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-)(معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989 )(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243)(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917،چشتی)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457)(كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37،چشتی)(تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 هـ) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)0شرح المواهب للزرقاني,ج,1, ص,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23-٭ الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف ، موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل)

اس سلسلہ میں واقعات اور روایات بکثرت وارد ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کو جو دعاء تعلیم فرمائی تھی اس میں خود توسل کی صراحت موجود ہے :
’’اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی‘‘ ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوا ہوں ۔ اے پیکر حمد و ثنا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو ۔ اے اللہ میرے حق میں آپ کی سفارش قبول فرما ۔ یہ حدیث شریف تھوڑے سے اختلاف الفاظ کے ساتھ سنن ابن ماجہ ‘ ترمذی ‘مسند امام احمد ‘مستدرک للحاکم ‘بیہقی‘ التاریخ الکبیر للبخاری میں موجود ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث شریف کو حسن صحیح کہا ہے ۔ وصال مبارک کے بعد بھی صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا توسل لیا کرتے تھے چنانچہ خلافت فاروقی میں جب لوگ قحط میں مبتلاء ہوگئے تو حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک پر حاضر ہوکر عرض کئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیے کہ امت ہلاک ہورہی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ارشاد فرمایا کہ تم عمر رضی اللہ عنہ کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور کہوکہ بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ جب یہ صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ تفصیل بیان فرمائی تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ روپڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کوتاہی نہیں کروں گا سوائے اس کام کے جس سے میں عاجز ہوجاؤں ۔ ( سنن بیہقی، ابن ابی شیبہ وفاء الوفاء ، انجاح الحاجہ ، ابن عبدالبر ،فتح الباری ۔ج2۔ص 451﴾۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...