قطع تعلقی۔۔۔ بڑھتا ہوا ایک معاشرتی ناسور
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اونٹ کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی‘‘ بلاتشبیہ و بلامثال یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے۔ طرح طرح کی معاشرتی برائیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ ظلم، تشدد، جبر، استحصال، زیادتی (الاماشاءاللہ) اس معاشرے کی پہچان بن چکی ہے۔ معاشرے میں بڑھتے جرائم کی شرح پر نظر دوڑائیں تو ہوش اڑجاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی، بدکاری، فحش کلامی، قتل و غارت گری، ناجائز قبضہ وغیرہ وغیرہ ایسے جرائم ہیں جن سے اخبارات بھرے ہوتے ہیں مگر ایک ایسا معاشرتی ناسور جس پر شاید ہمارے میڈیا اور احباب حل و عقد کی توجہ نہیں ہے وہ قطع تعلقی ہے۔ بات بات پر ناراضگی ہوئی اور پھر بول چال ختم اور رفتہ رفتہ تعلق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔ خونی رشتے ختم ہورہے ہیں بھائی بھائی سے رشتہ ختم کررہا ہے۔ ہمسائے ہمسائے سے نہیں بولتے۔ بالائی منزل میں رہنے والے زیریں منزل کے رہائشیوں سے تعلق ختم کردیتے ہیں۔
اس معاشرتی بگاڑ کی بہت وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک اہم وجہ دین سے دوری ہے۔ شرعی احکام سے لاعلمی ہے۔ یہ ذمہ داری تو احباب محراب و منبر کی ہے مگر شاید وہاں سے بھی موثر، منظم اور مربوط آواز نہیں اٹھائی جارہی حالانکہ دین اسلام نے اس کے متعلق واضح اور زریں اصول اور احکامات صادر فرمائے ہیں۔ قطع تعلقی کا متضاد صلہ رحمی ہے۔ قرآن و حدیث میں قطع تعلقی کی مذمت کی گئی ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 میں ارشاد ہوا:
انما المومنون اخوة فاصلحوا بين اخويکم
’’بات یہی ہے کہ (سب) اہل ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو‘‘۔
مذکورہ آیت میں اللہ رب العزت نے اہل ایمان کے درمیان باہمی محبت و پیار کے جذبات کو پیدا کرنے کے لئے فرمایا کہ اہل ایمان تو سگے بھائی ہیں۔ جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان بھی کبھی کبھار رنجش ہوجاتی ہے۔ وہ رنجش اور ناراضگی عارضی اور وقتی ہوتی ہے اس وقت دوسرے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ مداخلت کرکے ان کے درمیان صلح کروادیں۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا میں تمہیں ایسے عمل پر آگاہ نہ کروں جس کا درجہ روزے، نماز اور صدقہ سے افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور مہربانی فرمایئے! فرمایا: ’’دو آدمیوں کے درمیان صلح کرا دینا‘‘۔ ساتھ ہی بتایا کہ ’’دو آدمیوں کے درمیان فساد کرانا ایمان کو مونڈ کر رکھ دیتا ہے‘‘۔
(سنن ابوداؤد، حديث نمبر: 1488)
اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن مجید میں اسلامی نظام حیات کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے جو ہر مسلمان کے لے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنالیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔
(المائدة، 5: 2)
زیر بحث آیت مقدسہ میں خالق کائنات جل شانہ نے اسلامی دستور حیات کا ایک اور زریں اصول سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہارے آپس کے تعلقات کی بنیاد اور اساس یہ ہونی چاہئے کہ ہر نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کی اعانت اور تعاون کرو اور ہر برائی اور گناہ کی تحریک میں الگ رہو۔ کاش ہم اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اگر کہیں تعلقات بگڑتے دیکھیں تو ان افراد یا خاندان کی آپس میں صلح کروادیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment