مادیت کے اس دور میں کم فہموں کی طرف سے ہر اس نیک کام پر جس میں عشق رسول اور احترام مصطفی کا رنگ ہو محض اپنی جہالت اور بغض باطن کی وجہ سے شرک و بدعت کا فتوی لگایا جا رہا ہے اور امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ایسے لوگ ہر وقت ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے کے درپے ہیں انکی بد عقیدگی کی انتہا ہے کہ ان کے ناپاک کان آقائے نامدار کا اسم مبارک سننے سے بھی عاری ہو چکے ہیں چانچہ وہ نعرہ رسالت پر شرک و بدعت کا فتوی لگا کر اسے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہین
حالانکہ اگر بنظر غور دیکھا جائے اور کتب احدیث و تواریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر نعرہ رسالت لگانا بدعت ہے تو بہیے کذا نعرہ تکبیر لگانا بھی بدعت ہے کیونکہ زمانہ نبوی میں تو کجا بلکہ حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ کے صدیوں بعد تک اس نعرہ کا کہیں پتہ تک نہیں چلتا کہ کسی مقرر کی تقریر معزز شخص کی آمد یا دوسرے معاملات کے وقت ایک شخص زور سے نعرہ تکبیر پکارے اور دوسرے اس کے جواب میں اللہ اکبر کہیں
البتہ حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اور آپ کی ظاہری حیات کے بعد کے زمانہ میں صرف اتنا فرق ہوتا تھا کہ کسی خوش کن امر یا حیران کن بات یا عظمت الہی پر دال فعل دیکھ کر یا سن کر حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی صحابی رضی اللہ عنہ اللہ اکبر فرماتے ۔ اکثر تو سامعین میں سے کوئی بھی اللہ اکبر نہ کہتا ہاں شاذونادر ہی ایک دو صحابی اللہ اکبر کہہ دیتے لیکن وہ بھی زور دار آواز سے نہیں بلکہ عام آواز سے تو نعرہ تکبیر میں درج ذیل بدعات ثابت ہوئیں۔
1:اسے نعرہ تکبیر سے تعبیر کرنا 2: جب کوئی نعرہ تکبیر کہے تو اس کے جواب میں اللہ اکبر کہنا 3:نعرہ تکبیر کہنے والے کا چلا کر نعرہ تکبیر کہنا 4: جواب دینے والوں کا چلا کر جواب دینا 4: تقاریر کے درمیانی وقفوں میں یہ نعہ لگانا 5: معٓززین کے استقبال میں یہ نعرہ بلند کرنا
جب اتنی بدعات کے بعد بھی نعرہ تکبیر بدعت نہین تو نعرہ رسالت یا دوسرے نعروں پر شرک کا فتوی کیوں ؟
جس طریقے سے نعرہ تکبیر عہد رسالت میں رائج تھا اسی طریقے سے نعرہ رسالت بھی رائج ہے ۔
مسلم شریف جلد دوئم باب حدیث الہجرت حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ داخل ہوئے
فصعد الرجال والنساء فوق البیوت وتفرق الغلمان والخدم فی الظرق ینادون یا محمد یا رسول اللہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ترجمہ:تو عورتیں اور مرد گھروں کی چھت پر چڑھ گئے بچے اور غلام گلی کوچوں میں متفرق ہو گئے یا محمد یا رسول اللہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے۔
اس سے نعرہ رسالت کا صراحت سے ثبوت مل گیا اسی حدیث ہجرت سے صحابہ کا جلوس بھی ثابت ہے مختلف جنگوں میں صحابہ کرام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یا رسول اللہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا متعدد روایات سے ثابت ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فتوح الشام مطبوعہ مصر ص 172 کہ میدان جہاد میں حضرت کعب بن حمزہ عین لڑائی کے وقت پکار رہے تھے یا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قنع نظر از ہیت کذائیہ (اصل شکل) جس طرح نعرٓہ تکبیر سنت ہے اسی طرح نعرہ رسالت بھی سنت ہے اگر ہیت کذائیہ (اصل شکل ) کو مد نظر رکھا جائے تو نعرہ رسالت کی طرح تکبیر بھی بدعت ہے ۔
البدایہ والنھایہ جلد ششم ص324 تاریخ ابن اثیر جلد دوم ص152 تاریخ طبری جلد سوم ص 250: حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ جب مسلیمہ کذاب سے ہوا تو اسی وقت مسلیمہ کذآاب کے پاس ساٹھ ہزار فوج تھے ۔ اور مسلمان بہت کم تعداد میں تھے اسی جنگ میں مسلمانوں نے ایسی سختیان اور مصائب دیکھے کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے جب حضرت خاکد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا نے ایسی حالت نازک دیکھی تو ثم نادی بشعار المسلمین وکان شعارھم یومئذ یا محمداہ چناچہ ہر صحابی کی زبان پر یا محمداہ یا محمداہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جاری تھا جس کا یہ اثر ہوا کہ مسلمہ کذاب ہلاک ہو گیا اور اس کی فوج کو شکست ہوئی
دیکھئے اس جنگ میں صحابہ کرام ہی تھے اور جنگ بھی حضور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری حیات کے بعد ہوئی ثابت ہوا کہ جنگ یا کسی بھی مشکل میں یا محمداہ پکارنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔
نواسخ التوایخ اور تاریخ واقدی:جنگ یرموک میں کفار کی فوج پانچ لاکھ اور مسلمانوں کی تعداد صرف سات ہزار تھی ان میں ایک سو بدری صحابہ بھی شامل تھے چونکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے سخت مشکلات کا سامنا ہوا آخر کار ایک طرف حضرت خالد بن ولید اور دوسری طرف ابو سفیان رضی اللہ عنہما نے یکبارگی حملہ کیا اس وقت سب کی زان پر یا محمد یا منصور امتک (اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اے فتح مند اپنی امت کی خبر لیجئے ) تھا ۔
مقام غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مشکل وقت میں حضور اکرم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور استمداد کی اس سے معلوم ہوا کہ وہ ندا کو عین ثواب سمجھتے تھے۔
قارئین کرام ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نعرہ یا رسول اللہ کا نعرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت ہے اور اگر نعرہ رسالت بدعت ہے تو اسی طرح نعرہ تکبیر بھی بدعت ہے ۔
ہمارا چیلنج ہے کہ کوئی بھی نعرہ رسالت کا منکر قرآن سے یا صحیح حدیث سے نعرہ تکبیر کو ثابت کرے اگر نہیں کر سکتا تو مان لے کہ نعرہ تکبیر بھی جائز ہے اور نعرہ رسالت بھی ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment