حضرت عمر دین اور امت کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کو روکنے والے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنی سواری پرسوار تھے اور عرج کے علاقہ میں مقام اثایہ کی وادی میں چل رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سواری نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سواری کو دھکا دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری قافلہ کے آگے چل رہی تھی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے فتنوں کو روکنے والے تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ جب سواریاں رکیں تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریب گئے اور کہا اے ابو سائب! اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے یہ کون سا نام ہے جو تو نے مجھے دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں خدا کی قسم! میں وہ نہیں ہوں جس نے تمہیں یہ نام دیا ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہ نام دیا ہے جو کہ آج اس لشکر کی قیادت فرما رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرے۔ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شخص یعنی عمر (دین اور امت کے خلاف اٹھنے والے) فتنوں کو روکنے والا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ بھی فرمایا اور فرمایا : یہ تمہارے اور فتنوں کے درمیان ایک سختی سے بند کیا ہوا دروازہ ہے جب تک یہ تمہارے درمیان زندہ ہے (فتنہ تمہارے اندر داخل نہیں ہو سکے گا)۔ اس کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 38، الحديث رقم : 8321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 72، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606.
------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ملے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت مضبوط آدمی تھے تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ’’قفل الفتنۃ‘‘ (فتنوں کو روکنے والے دروازے کا تالا) میرا ہاتھ چھوڑئیے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یہ قفل الفتنۃ کیا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد جمع تھے۔ پس میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں اس وقت تک فتنہ نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ (عمر) تم میں موجود ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 268، الحديث رقم : 1945، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 73، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606.
------------------------------------------------------------------------------
حضرت عصمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے اعرابیوں میں سے ایک اعرابی اونٹ لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہ اونٹ خرید لیا، پس اس کے بعد وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تو انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تو کس لئے آیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں ایک اونٹ لے کر آیا تھا جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے خرید لیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا : کیا تو نے نقد رقم کے بدلے میں اس کو فروخت کیا ہے۔؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں نے اسے ادھار رقم پر فروخت کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو میرا مال مجھے کون دے گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو جواب ارشاد فرمائیں وہ واپس آ کرمجھے بتانا۔ وہ شخص واپس گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہو جائے تو میری رقم مجھے کون دے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر، وہ شخص واپس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کچھ ہو جائے تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا پس اس شخص نے واپس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر، وہ شخص واپس آیا اور حضر ت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر پوچھو کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو جائیں تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا، اس نے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا ہو گیا ہے جب عمر فوت ہو جائے تو پھر تم بھی مرنے کی استطاعت رکھتے ہو تو مر جانا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، الحديث رقم : 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 179، و الحسيني في البيان و التعريف، 2 / 264، و المناوي في فيض القدير، 6 / 366.
------------------------------------------------------------------------------
حضرت عمیر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا : اے کعب! تم ہماری تعریف کو کیسے پاتے ہو انہوں نے کہا میں آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف کو لوہے کے ایک سینگ کی طرح پاتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور وہ لوہے کا سینگ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا صائب الرائے امیر، جو اﷲ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا پھر اس کے بعد ایک ایسا خلیفہ ہو گا جس کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا : پھر اس کے بعد آزمائش ہوگی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 84، الحديث رقم : 120، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65 والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 126، الحديث رقم : 133، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 25 ۔
------------------------------------------------------------------------------
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبرائیل علیہ السلام نے بتایا ہے کہ اسلام عمر کی موت پر روئے گا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 67، الحديث رقم : 61، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 175، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 74، و الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 189، الحديث رقم : 4523.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت
گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت محترم قارئینِ کرام : گیارہویں شریف ایک ایسا نیک عمل ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں میں جاری ہے لیکن تح...

-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
-
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے یزید پلید کی بیعت کی کا جواب محترم قارئینِ کرام : اکثر رافضیوں اور نیم رافضیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بعض صحاب...
No comments:
Post a Comment