Saturday, 17 October 2015

نبی اکرم نور مجسّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا مقام و مرتبہ

نبی اکرم نور مجسّم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا مقام و مرتبہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم أَبْصَرَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا، فَقَالَ : الَّلهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُمَا، فَأَحِبَّهُمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین علیہما السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب الحسن و الحسين، 5 / 661، الرقم : 3782.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أُسَامَة بْنِ زَيْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : طَرَقْتُ النَّبِيَّ. صلي الله عليه وآله وسلم ذَاتَ لَيْلَة فِي بَعْضِ الْحَاجَة، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَي شَيءٍ لَا أدْرِي مَا هُوَ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ : مَا هَذَا الَّذِي أنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ قَالَ : فَکَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَ حُسَيْنٌ عليهما السلام عَلَي وِرْکَيْهِ فَقَالَ : هَذَانِ ابْنَايَ وَ أبْنَاءُ ابْنَتِي. الَّلهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَ أَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ أبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں ایک رات کسی کام کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ کسی چیز کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تھے جسے میں نہ جان سکا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے کیا چیز چمٹا رکھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑا اٹھایا تو وہ حسن اور حسین تھے۔ فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں۔ اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے بھی محبت کر۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب الحسين والحسين، 5 / 656، الرقم : 3769، وابن حبان في الصحيح، 15 / 423، الرقم : 6967والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 39، الرقم : 2618.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ : سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيُّ أَهْلِ بَيْتِکَ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ. وَ کَانَ يَقُوْلُ لِفَاطِمَة ادْعِي إِبْنَيَّ فَيَشُمُّهُمَا وَ يَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُويَعْلَي.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا : آپ کو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسن اور حسین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ سے کہا کرتے تھے کہ میرے بیٹوں کو بلاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں چومتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب الحسن و الحسين، 5 / 657، الرقم : 3772، و أبويعلي في المسند، 7 / 274، الرقم : 4294.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي بُرَيْدَة رضي الله عنه يَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عليهما السلام، عَلَيْهِمَا قَمِيْصَانِ أَحْمًرَانِ يَمْشِيَانِ وَ يَعْثِرَانِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا وَ وَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : صَدَقَ اﷲُ : (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ) فَنَظَرْتُ إِلَي هَذَيْنِ الصَّبِيَيْنِ يَمْشِيَانِ وَ يَعْثِرَانِ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّي قَطَعْتُ حَدِيْثِي وَ رَفَعْتُهُمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام تشریف لائے، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (کم عمر ہونے کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انہیں دیکھ کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا : اﷲ تعالیٰ کا فرمان کتنا سچ ہے : ’’بیشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں۔‘‘ میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب الحسن و الحسين، 5 / 658، الرقم : 3774، والنسائي في السنن، کتاب : صلاة العيدين، باب : نزول الإمام عن المنبر قبل فراغه من الخطبة، 3 / 192، الرقم : 1585، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 345، وابن حبان في الصحيح، 13 / 403، الرقم : 6039، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 218، الرقم : 5610.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أبِيْهِ قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي إِحْدَي صَلَوَاتِ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أوْ حُسَيْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَهُ ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاة فَصَلَّي، فَسَجَدََبيْنَ ظَهْرَانَي صَلَاتِهِ سَجْدَة أطَالَهَا. قَالَ أبِي : فَرَفَعْتُ رَأسِي وَ إِذَا الصَّبِيُّ عَلَي ظَهْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ اِلَي سُجُوْدِي، فَلَمَّا قَضَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الصَّلَاة، قَالَ النَّاسُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَي صَلَاتِکَ سَجْدَة أطَلْتَهَا حَتَّي ظَنَنَّا أنَّهُ قَدْ حَدَثَ أمْرٌ أوْ أنَّهُ يُوْحَي إِلَيْکَ. قَالَ : ذَلِکَ لَمْ يَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَکَرِهْتُ أنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّي يَقْضِيَ حَاجَتَهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ أَحْمَدُ.

حضرت عبداﷲ بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت شداد بن ہادص سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُنہیں زمین پر بٹھا دیا پھر نماز کے لئے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا : میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ شہزادے سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسی کوئی بات نہ تھی مگر یہ کہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لئے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور امام احمد نے روایت کیا ہے۔

أخرجه النسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : هل يجوزأن تکون سجدة أطول من سجدة، 2 / 229، الرقم : 1141، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 493، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 380، الرقم : 32191، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 270، الرقم : 7107.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ مَعَهُ حَسَنٌ وَ حُسَيْنٌ هَذَا عَلَي عَاتِقِهِ وَ هَذَا عَلَي عَاتِقِهِ وَهُوَ يَلْثِمُ هَذَا مَرَّة وَ يَلْثِمُ هَذَا مَرَّة حَتَّي انْتَهَي إِلَيْنَا فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رُسُولَ اﷲِ، إِنَّکَ تُحِبُّهُمَا فَقَالَ مَنْ أحَبَّهُمَا فَقَدْ أحَبَّنِي وَ مَنْ أبْغَضَهُمَا فَقَدْ أبْغَضَنِي.رَوَاهُ أحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر امام حسن علیہ السلام اور دوسرے کندھے پر امام حسین علیہ السلام سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم رہے تھے یہاں تک کہ آپ ہمارے پاس آ کر رک گئے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ان سے محبت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ان دونوں سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ يَعْلَي بْنِ مُرَّة رضي الله عنه : أَنَّ حَسَنًا وَحُسَيْنًا أَقْبَلَا يَمْشِيَانِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا جَاءَ أَحَدُهُمَا جَعَلَ يَدَهُ فِي عُنُقِهِ، ثُمَّ جَاءَ الْآخَرُ فَجَعَلَ يَدَهُ الْأُخْرَي فِي عُنُقِهِ، فَقَبَّلَ هَذَا ثُمَّ قَبَّلَ هَذَا، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسنین کریمین علیہما السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل کر آئے، پس ان میں سے جب ایک پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا بازو اس کے گلے میں ڈالا، پھر دوسرا پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دوسرا بازو اس کے گلے میں ڈالا، بعد ازاں ایک کو چوما اور پھر دوسرے کو چوما اور فرمایا : اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 32، الرقم : 2587، 22 / 274، الرقم : 703.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ يَحْيَي بْنِ أَبِي کَثِيْرٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم سَمِعَ بُکَاءَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ، فَقَامَ فَزِعًا، فَقَالَ : إِنَّ الْوَلَدَ لَفِتْنَةٌ لَقَدْ قُمْتُ إِلَيْهِمَا وَ مَا أَعْقِلُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَة.

یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین علیہما السلام کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : بے شک اولاد آزمائش ہے، میں ان کے لئے بغیر غور کئے کھڑا ہو گیا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 379، الرقم : 32186.
--------------------------------------------------------------------------
عَنَْيزِيْدَ بْنِ أَبِي زَيَادٍ قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتِ عَائِشَة فَمَرَّ عَلَي فَاطِمَة فَسَمِعَ حُسَيْنًا يَبْکِي، فَقَاَل : أَ لَمْ تَعْلَمِي أَنَّ بُکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت یزید بن ابو زیاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے پاس سے گزرے تو حضرت حسین علیہ السلام کو روتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 116، الرقم : 2847.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه فَقَالَ : أشْهَدُ لَخَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي إِذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيْقِ سَمِعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم صَوْتَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ، وَ هُمَا يَبْکِيَانِ وَ هُمَا مَعَ أُمِّهِمَا، فَأسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّي أتَاهُمَا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ لَهَا : مَا شَأنُ ابْنَيَّ؟ فَقَالَتْ : الْعَطْشُ قَالَ : فَأخْلَفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي شَنَّة يَبْتَغِي فِيْهَا مَاءً. وَ کَانَ الْمَاءُ يَوْمَئِذٍ أغْدَارًا، وَ النَّاسُ يُرِيْدُوْنَ الْمَاءَ. فَنَادَي : هَلْ أحَدٌ مِنْکُمْ مَعَهُ مَاءٌ؟ فَلَمْ يَبْقَ أحَدٌ إِلْا أخْلَفَ بِيَدِهِ اِلَي کَلَابِهِ يَبْتَغِي الْمَاءَ فِي شَنَّة، فَلَمْ يَجِدْ أَحَدٌ مِنْهُمْ قَطْرَة، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : نَاوِلِيْنِي أحَدَهُمَا، فَنَاوَلَتْهُ إِيَاهُ مِنْ تَحْتِ الْخِدْرِ، فَأخَذَهُ فَضَمَّهُ إِلَي صَدْرِهِ وَ هُوَ يَطْغُوْ مَا يَسْکُتُ، فَأدْلَعَ لَهُ لِسَانَهُ فَجَعَلَ يَمُصُّهُ حَتَّي هَدَأ أوْ سَکَنَ، فَلَمْ أسْمَعْ لَهُ بُکَاءً ا، وَ الْآخَرُ يَبْکِي کَمَا هُوْ مَا يَسْکُتُ فَقَالَ : نَاوِلِيْنِي الْآخَرَ، فَنَاوَلَتْهُ إِيَاهُ فَفَعَلَ بِهِ کَذَلِکَ، فَسَکَتَا فَمَا سُمِعَ لَهُمَا صَوْتٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) نکلے، ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السلام کی آواز سنی دونوں رو رہے تھے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا : میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے عرض کیا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے کے لئے مشکیزے کی طرف بڑھے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تھی اور لوگوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی : کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاووں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں پانی دیکھا مگر ان کو قطرہ تک نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرمایا : ایک بچہ مجھے دو اُنہوں نے ایک کو پردے کے نیچے سے پکڑایا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تھا اور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی، جب کہ دوسرا بھی اُسی طرح (مسلسل رو رہا تھا) پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوسرا بھی مجھے دے دو تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا نے دوسرے کو بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی وہی معاملہ کیا (یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 50، الرقم : 2656.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة رضي الله عنه قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي بَيْتِ فَاطِمَة فَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ عليهما السلام، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ارْقَ بِأَبِيْکَ أَنْتَ عَيْنَ بُقَّة. وَ أَخَذَ بِإِصْبَعَيْهِ فَرَقِيَ عَلَي عَاتِقِهِ. ثُمَّ خَرَجَ الْآخَرُ الْحَسَنُ أوِ الْحُسَيْنُ مُرْتَفِعَة إِحْدَي عَيْنَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَرْحَبًا بِکَ ارْقَ بِأَبِيْکَ أَنْتَ عَيْنَ الْبُقَّة وَ أَخَذَ بِإِصْبَعَيْهِ فَاسْتَوَي عَلَي عَاتِقِهِ الآخَرِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے گھر کے سامنے رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمۃ الزہراء کو سلام کیا۔ اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام میں سے ایک شہزادہ گھر سے باہر آ گیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑا پس وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔ پھر دوسرا شہزادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا ہوا باہر آگیا تو اسے بھی فرمایا : خوش آمدید، اپنے باپ کے کندھے پر سوار ہو جا تو (میری) آنکھ کا تارا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی انگلیوں کے ساتھ پکڑا پس وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے دوش مبارک پر سوار ہو گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 49، الرقم : 2652.
--------------------------------------------------------------------------
244 / 33. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَلْعَبَانِ عَلَي بَطْنِهِ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَتُحِبُّهُمَا؟ فَقَالَ : وَ مَالِيَ لَا أُحِبُّهُمَا وَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن اور حسین علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کھیل رہے تھے، تو میں نے عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ وہ دونوں میرے پھول ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔

أخرجه البزار في المسند، 3 / 287، الرقم : 1079.
--------------------------------------------------------------------------
عَنْ فَاطِمَة سلام اﷲ عليها قَالَتْ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أتَاهَا يَوْمًا فَقَالَ : أيْنَ ابْنَايَ؟ فَقَالَتْ : ذَهَبَ بِهِمَا عَلِيٌّ فَتَوَجَّهَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَوَجَدَهُمَا يَلْعَبَانِ فِيْ مَشْرَبَة وَ بَيْنَ أيْدِهِمَا فَضْلٌ مِنْ تَمَرٍ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ ألَا تُقَلِّبُ ابْنَيَّ قَبْلَ الْحَرِّ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا : میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا : حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے گئے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 180، الرقم : 4774.

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...