Friday, 31 May 2019

مومنِ اوّل نے اپنے باپ سے گستاخی کا کلمہ سنا تو تھپڑ مارا

مومنِ اوّل نے اپنے باپ سے گستاخی کا کلمہ سنا تو تھپڑ مارا

محترم قارئین کرام : ﷲ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں ﷲ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنھوں نے ﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں ...الخ ۔ (سورۃ المجادلۃ، آیت22)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لباب النقول میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں نازل ہوئی ، جب انہوں نے اپنے باپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی کا کلمہ سنا تو تھپڑ مارا ۔

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر نے ایسا زوردار تھپڑ مارا کہ وہ زمین پر گر پڑے ۔ (تفسیر روح البیان، تحت سورۃ المجادلۃ، آیت22)

بعض مفسرین نے یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جنگ احد میں اپنے باپ کو قتل کیا ۔ اسی طرح ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ جنگ بدر میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے کو مقابلے کے لیے طلب کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی اجازت نہیں دی ۔ مزید آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بھائی کو قتل کیا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ماموں کو قتل کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے رشتے داروں کو قتل کیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً ثابت کر دکھایا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نہیں وہ ہمارا نہیں اور گستاخ رسول کی بس ایک ہی سزا ، سر تن سے جدا ، تن سر سے جدا ۔ ﷲ تعالٰی ہمیں محبانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے رہے

مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے رہے

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد والے ہر زمانے کے ایمان والوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ ﷲ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مخالفوں کے ساتھ بائیکاٹ کرتے رہے حالانکہ ان ایمان داروں کو دنیاوی طور پر مخالفوں کی احتیاج بھی ہوتی تھی لیکن وہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس پر ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے رہے ۔ (مرقاۃ المفاتيح شرح مشکوٰۃ المصابیح)

آج کل کے صلح کلیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی موجودہ حالات اور مختلف مجبوریوں کو دلیل بنا کر اتحاد اتحاد کی رٹ لگاتے رہتے ہیں اہل ایمان کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخوں سے اتحاد نہیں کر سکتے ۔ ﷲ تعالٰی ہمیں غیرت ایمانی سے نوازے اور گستاخوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کسی بھی مصنف کی ہو

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کسی بھی مصنف کی ہو

محترم قارئین کرام : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کسی بھی مصنف کی ہو ، بیان کسی بھی مقرر کا ہو ، نصیحت کوئی بھی کرے اسے لے لینا چاہیے اور پھر ان میں جو چیزیں اچھی ہوں اسے نکال کر بری باتوں کو چھوڑ دینا چاہیے ، یعنی "سنو سب کی کرو من کی" ۔

یہ بالکل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ کو یہودیوں کی بات سننے ، لکھنے اور تورات پڑھنے سے روک دیا ۔ (شرح السنۃ، جلد1، صفحہ نمبر219 ) (سنن دارمی، جلد1، صفحہ نمبر126)

معلوم ہوا کہ"سب کی نہیں سننی" اور ہر طرح کی کتابیں نہیں پڑھنی ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہ جیسی ہستی کو منع کر دیا تو پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں ، لہذا ہر سنی مسلمان پر لازم ہے کہ ہر اعتبار سے بدمذہبوں سے دور رہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بدمذہب پڑھتے تو قرآن ہی ہیں لیکن

بدمذہب پڑھتے تو قرآن ہی ہیں لیکن

مشہور تابعی حضرت امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں دو بدمذہب شخص حاضر ہوئے اور بولے : (اے امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ) ہم آپ کو ایک حدیث سناتے ہیں آپ نے فرمایا : نہیں ، پھر وہ دونوں بولے : (ٹھیک ہے تو) ہم آپ کے سامنے قرآن کی ایک آیت تلاوت کر دیتے ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں ، تم دونوں اٹھ کے چلے جاؤ پس وہ دونوں چلے گئے تو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ (اے امام رضی اللہ عنہ) اگر وہ آپ کے سامنے قرآن پڑھ دیتے تو کیا ہرج تھا ؟ آپ نے فرمایا : (یہ بدمذہب پڑھتے تو قرآن ہی ہیں لیکن) مجھے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کوئی آیت پڑھ کر اس کی ایسی (غلط اور من مانی) تفسیر (بیان) کرتے جو میرے دل میں بیٹھ جاتی (یعنی مجھے اس کا آئندہ خیال آتا) ۔ (سنن دارمی مترجم، جلد1، صفحہ نمبر173، حدیث نمبر412، شبیر برادرز لاہور)

محترم قارئین کرام : جب اتنے جلیل القدر تابعی رضی اللہ عنہ بھی بدمذہبوں سے قرآن کی آیات کو سننے سے پرہیز کر رہے ہیں تو پھر ہم کس گنتی میں آتے ہیں ۔ ہمارے بیچ بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا ۔ یہ لوگ آیات کی من مانی تفسیر بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ، لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ بدمذہبوں کی کتابیں ، تقاریر اور جملہ اجلاس وغیرہ سے بچیں ۔ ہم اہل محبت ہیں اور ہمارا مسلک یہ سیکھاتا ہے کہ قرآن و سنت کا حکم سر آنکھوں پر لیکن بتانے والے محبوب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہوں ، یعنی قرآن سننا قبول لیکن زبان محبوب کی ہو ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی کی بکریاں چرائیں ؟

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی کی بکریاں چرائیں ؟

محترم قارئین کرام : اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر ایسا عمل جو مخلوق کے لیے باعثِ نفرت ہو ، جیسے کہ خیانت ، جہل وغیرہ ، اور ہر ایسا مرض جو سببِ نفرت ہو ، جیسے کہ جذام ، برص وغیرہ ، اور ہر ایسا ذلیل پیشہ جسے لوگ عیب و نقص سمجھتے ہوں ، جیسے کہ حجامت اور اجرت پر ذلیل پیشہ ، تو انبیائے کرام علیہم السّلام ان سب سے منزہ اور پاک ہیں ۔

عقائد کی بہت مشہور و معتبر شرح مسامرہ میں ہے : وشرط النبوۃ السلامۃ من دنائۃ الآباء ومن غمز الامھات ومن القسوۃ والسلامۃ من العیوب المنفرۃ کالبرص والجذام ومن قلۃ المروۃ کا لا کل علی الطریق ومن دناءۃ الصناعۃ کالحجامۃ لان النبوۃ اشرف مناصب الخلق مقتضیۃ غایت الا جلال اللائق بالمخلوق فیعتبر لھا ما ینا فی ذلک ۔
ترجمہ : نبوت کی شرط پستی نسب اور اتہام امہات اور سخت دلی سے سلامتی ہے اور باعثِ نفرت عیبوں ، جیسے برص و جذام سے اور قلت مروت جیسے راستے میں کھانا کھانے سے اور پیشہ کی ذلت وپستی جیسے حجامت سے پاک ہونا ہے ؛ اس لیے کہ نبوت مخلوق کے منصبوں کا بہتر شرف اور اس کے لیے عزت کا انتہائی طالب ہے ، تو نبوت کے لیے اس کے منافی امور کا نہ ہونا اعتبار کیا گیا ۔ (شرح مسامرہ صفحہ نمبر 93)

حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قد اختلف فی عصمتھم (ای الانبیاء) من المعاصی قبل النبوۃ فمنعھما قوم وجوزھا اخرون والصحیح تنزیھھم من کل عیب وعصمتھم من کل یوجب الریب ۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم السّلا کے قبل نبوت معاصی سے پاک ہونے میں اختلاف ہوا تو اس کو ایک قوم نے منع کیا اور دوسروں نے جائز رکھا اور صحیح مذہب یہ ہے کہ انبیاے کرام ہر عیب سے پاک ہیں اور ہر اس چیز سے جو شک پیدا کرے ، معصوم ہیں ۔ (شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر264،چشتی)

اور یہ ظاہر ہے کہ اجرت پر (کسی کی) بکریاں چرانا ایسا ذلیل پیشہ ہے جو باعثِ ننگ و عار اور سبب عیب و نقص ہے ؛ اسی بنا پر شارح مشکوٰۃ شریف ، حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شفا شریف میں خاص اسی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والمحققون علی انہ علیہ الصلاۃ والسلام لم یرع لا حد بالا جرۃ وانمار عی غنم نفسہ وھم لم یکن عیبا فی قومہ .
ترجمہ : اور محققین فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں ۔ آپ نے تو صرف اپنی بکریاں چرائیں اور اپنی بکریاں چرانا آپ کی قوم میں عیب نہیں تھا ۔ (شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر448)
اس عبارت نے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اجرت پر کسی کی بکریاں نہیں چرائیں ۔

بخاری ، مسلم و ابن ماجہ وغیرہ کتب حدیث میں ایک روایت ہے جس سے بعض لوگوں کو اشتباہ ہو گیا ؛ بخاری شریف میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے : کنت ارعاھا علی قراریط لا ھل مکہ ۔ ان کلمات میں نہ تو کہیں اجرت کی تصریح ہے اور نہ اجرت پر دلالت کرنے والا کوئی کلمہ ہے ؛ اس حدیث میں لفظ "قراریط" آیا ہے جسے بعض نے چاندی اور سونے کے سِکوں کے کسی جز کو سمجھ لیا ہے حالانکہ اس لفظ سے یہ معنی مراد لینا غلط ہے ۔ چنانچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ محمد ابن ناصر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : حضرت سوید نے قراریط کی تفسیر سونے چاندی کے ساتھ کر کے خطا کی ، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کبھی کسی کی بکریاں اجرت پر نہیں چرائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تو اپنی بکریاں چراتے تھے ، اور قراریط کی صحیح تفسیر وہ ہے جو حدیث و لغت وغیرہ کے امام حضرت ابراہیم اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائی ، اور وہ یہ ہے کہ قراریط تو اسی مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے ۔ (شرح شفا مصری، جلد2، صفحہ نمبر460،چشتی)

اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ جب حدیث شریف کے لفظ قراریط سے سونے چاندی کے کوئی سکے مراد نہیں ہے بلکہ قراریط مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے تو اب بخاری شریف کی اس حدیث کا ترجمہ یہ ہوا کہ میں تو اسی مکہ کے مقام قراریط میں (اپنی) بکریاں چراتا تھا ۔ اب بھی اگر کوئی اس حدیث کو دلیل بنا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو چرواہا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ عدم محبت اور بغض کی نشانی ہے ۔

انبیائے کرام علیہم السّلام کے لیے کوئی ایسی بات کرنا بھی درست نہیں جس میں ادنیٰ توہین کا شائبہ بھی ہو اور سلف و خلف بھی اس کو ناجائز فرماتے ہیں ، چنانچہ عقائد کی کتاب شرحِ مواقف میں ہے کہ اجماع و نص سے یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نجاستوں کا خالق ہے اور بندروں اور سوروں کا خالق ہے اگرچہ یہ اللہ تعالٰی کی ہی مخلوق ہیں ۔ (شرحِ موافق، صفحہ نمبر640،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اجرت پر بکریاں چرانے والا ثابت کرنے کی وہی کوشش کرے گا تو تحقیر شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا عادی ہو ؛ ایسے لوگوں کا حکم یہ ہے : وکذالک اقول حکم من غمصہ اوغیرہ برعایۃ الغنم ای یرعیھا بالاجرۃ اوالسھو والنسیان مع انھما ثابتان عنہ الا انہ انما یکفر لا حل التعبیر سبب التحقیر ۔ (شرح شفا، جلد2، صفحہ نمبر402)
ترجمہ : اسی طرح میں اس شخص کا حکم بیان کرتا ہوں جس نے حضور علیہ السلام کو عیب لگایا یا اجرت پر بکریاں چرانے کے ساتھ تحقیر کی یا سہو ونسیان کے ساتھ حقارت کی، تو وہ کافر ہے تحقیر و تعبیر کے سبب سے ۔ (فتاوی اجملیہ جلد نمبر1 صفحہ نمبر44 شبیر برادرز لاہور) ، ایک دوسرے مقام پر علامہ مفتی محمد اجمل قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : عرفی اعتبار سے وہ پیشہ وکسب ذلیل اور قابل عار ہوتا ہے جو دوسرے کے لیے کسی اجرت و نفع کے عوض کیا جائے اور جو کام اپنے لیے کیا جائے وہ اس کا پیشہ کہلاتا ہے نہ اسے اہل عرف ذلیل سمجھتے ہیں ۔ مثلاً کوئی شخص دوسرے کی بکریاں اجرت پر چرائے تو یہ پیشہ عیب و عار ہے اور جو شخص خود اپنی بکریاں چرائے وہ عیب نہیں ، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی بکریاں چرائیں ۔ (فتاویٰ اجملیہ، جلد4، صفحہ نمبر57، شبیر برادرز لاہور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 30 May 2019

گستاخ سے گدھا زیادہ خوشبودار

گستاخ سے گدھا زیادہ خوشبودار

محترم قارئین : صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور عمدۃ القاری کی عبارت کا خلاصہ ہے کہ ایک مرتبہ منافقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سواری کے بارے میں کہا کہ اس گدھے کو دور کرو کیوں کہ اس سے بدبو آتی ہے ۔ اس پر ایک انصاری مرد (صحابی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : بخدا ہمارے نزدیک یہ گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ منافقوں کو اس جواب سے بڑی تکلیف ہوئی اور ان کی پارٹی کا ایک شخص (زیادہ) ناراض ہوا تو ان کی آپس میں ہاتھا پائی شروع ہو گئی ...... یہاں تک کہ ایک دوسرے پر پتھر اور جوتے برسائے جا رہے تھے ۔ (صحیح بخاری و عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری)

یہ عشق نہیں تو اور کیا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سواری کے بارے میں اگر کوئی زبان دراز کرے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی زبان کھینچنے کے لیے تیار رہتے تھے اگرچہ وہ سواری ایک جانور ہی کیوں نہ ہو
آج کل کے کچھ صلح کلیوں کا المیہ تو یہ ہے کہ کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف کچھ بھی بول دے لیکن اسے کچھ نہ کہو "اس کا عمل اس کی جگہ اور ہمارا عمل ہماری جگہ" یہ جملہ بہ ظاہر تو کچھ لوگوں کو سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن اس میں بزدلی اور دنیاوی لالچ کی بو آتی ہے ۔ ﷲ تعالٰی ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وفادار بنائے اور غداروں کی آہٹ سے بھی دور رکھے ، آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دانت توڑنا حقائق کے آینے میں

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دانت توڑنا حقائق کے آینے میں

محترم قارئین کرام : عوام میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پتہ چلا کہ جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تمام دانتوں کو شہید کر دیا پھر آپ کو حلوہ بنا کر کھلایا گیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیئے کیلے (ایک مشہور پھل) کو پیدا فرمایا تاکہ آپ کو کھانے میں تکلیف نہ ہو ۔

یہ واقعہ کئی لوگوں کو اس طرح یاد ہے جیسے مانو انہیں پانی میں گھول کر پلا دیا گیا ہو اور شعبان کا مہینہ آتے ہی وہ اسے اگلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت نہیں ہے آیئے حقائق پڑھتے ہیں :

فقیہ اعظم ہند ، خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند ، شارح بخاری ، حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت بالکل جھوٹ ہے کہ جب حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سنا کہ غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں تو انھوں نے اپنا سب دانت توڑ ڈالا اور انھیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ پیش کیا ۔ (فتاوی شارح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر114 دائرۃ البرکات گھوسی ضلع مئو)

حضرت علامہ مفتی محمد یونس رضا اویسی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں کہ یہ روایت نظر سے نہ گزری اور غالباً ایسی روایت ہی نہیں ہے اگرچہ مشہور یہی ہے ۔ (فتاوی بریلی شریف، صفحہ نمبر301، زاویہ پبلشرز، مرکزی دار الافتاء سودگران، بریلی شریف)

کچھ علمائے اہل سنت نے اس واقعے کو تحریر فرمایا ہے لیکن وہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نہ تو اس کی کوئی سند ہے اور نہ کوئی معتبر مآخذ ، چنانچہ فیض ملت ، حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے والے دانت غزوہ احد میں شہید ہوئے اور جب یہ خبر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے سامنے والے چاروں دانت نکال دیئے اور کتب سیرت و تاریخ کی مشہور روایت میں ہے کہ یہ خبر سننے پر حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دانت اپنے آپ جھڑ گئے ۔ (فتاوی اویسیہ، جلد1، صفحہ نمبر288، صدیقی پبلشرز کراچی،چشتی)

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں جو یہ عوام میں مشہور ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عشق رسول میں اپنے دانتوں کو شہید کر دیا ، سراسر جھوٹ اور افترا ہے اور جاہلوں کا گڑھا ہوا ہے ، اگرچہ بعض تذکرہ کی کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے لیکن وہ بے دینوں کی ملاوٹ ہے، اس کا ثبوت کسی مستند اور محفوظ کتاب سے نہیں ملتا بلکہ اس کے بر خلاف "طبقات کبری" میں ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! جس طرح رسول کریم کا سامنے والا دانت شریف کا کچھ حصہ مبارک شہید کیا گیا تھا اسی طرح میرے بھی اسی دانت کا ایک حصہ توڑا گیا تھا اور جیسے سر مبارک کو زخمی کیا گیا تھا میرے سر کو بھی اسی طرح زخمی کیا گیا تھا، جس طرح آپ کی پیٹھ پر کچھ پھینک کر آپ کو تکلیف پہنچائی گئی تھی اسی طرح مجھے بھی پہنچائی گئی تھی، اسی طرح میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے جس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔ (طبقات الکبری لامام شعرانی، ذکر اویس قرنی، صفحہ نمبر43، دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)

جس طرح یہ واقعہ نقلاً ثابت نہیں اسی طرح عقلاً بھی قابل تسلیم نہیں ہے

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کوئی بھی دانت مکمل طور پر شہید نہیں ہوا تھا بلکہ سامنے والے دانت شریف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جدا ہوا تھا جس سے نور کے موتیوں کی لڑی میں ایک عجیب حسن کا اضافہ ہوا تھا، جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : وشکستہ شدن دندان نہ بآں معنی کہ از بیخ افتادہ باشدود ردند انہار خنہ پیدا شدہ باشد بلکہ پارہ ازآں اشد ۔
ترجمہ : یعنی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ جڑ سے اکھڑ گیا ہو اور وہاں رخنہ پیدا ہو گیا ہو بلکہ ایک ٹکڑا شریف جدا ہوا تھا ۔ (اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ، جلد4، صفحہ نمبر515، کتاب الفتن، باب المبعث وبدا الوحی الفصل الثالث، زیر تحت حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ)

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے داہنی کے نیچے کی چوکڑی کے ایک دانت شریف کا ایک ٹکڑا ٹوٹا تھا، یہ دانت (مکمل) شہید نہ ہوا تھا ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد8، صفحہ نمبر105،چشتی)

خیال رہے کہ آج تک اکثر دنیا یہی سمجھتی رہی ہے کہ سامنے کے اوپر کے دانت شریف کو کچھ ہوا حالانکہ حقیقت یہی ہے جو ہم نے بیان کی؛ نیچے کے دانت شریف کا مسئلہ ہے اور یہی بات ہمارے مستند محققین علماء نے لکھی ہے ۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا کوئی دانت مکمل شہید نہیں ہوا تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ بات جوڑنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟ جب بنیاد ہی ثابت نہیں تو اس پر محل کیسے تعمیر ہو سکتا ہے ؟

خیال رہے کہ حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے پر ایک رسالہ لکھا ہے جس میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے تھے یعنی جڑ سے نکل گئے تھے لہذا اس رسالے کی تحقیق درست نہیں ہے ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ کافروں کی طرف سے تھا نہ کہ آپ نے خود کیا تھا تو سوال اٹھتا ہے کہ دانت توڑنا کافروں کی سنت ہے یا نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی ؟ اسی جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انور کو زخمی کیا اور سر مبارک پر بھی زخم لگائے اور اسی طرح مکہ مکرمہ میں نماز کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈالی گئی تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سارے کام اپنے ساتھ کیوں نہ کیئے ؟ اس لیے کہ ایک تو یہ جہالت شمار ہوگا اور دوسرا خلاف شرع بھی ۔

جو لوگ اس واقعے کی تائید کرتے ہیں انہیں ہم دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی اپنے دانتوں کے ساتھ ایسا کرو کیونکہ تمھارے نزدیک یہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سنت ہے اور صرف حضرت اویس قرنی کی تخصیص کیوں ، جتنے بھی انبیاء علیہم السّلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے ویسا ہی انہیں بھی اپنے ساتھ کرنا چاہیئے ۔

یہ واقعہ سب سے پہلے صرف "تذکرۃ الاولیاء" میں ملتا ہے جس کے مصنف شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ رافضیوں کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کی کتب رافضیوں کے ظلم و زیادتی کا شکار رہی ہیں ۔ (سیدنا خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب واقعہ مکذوبہ کی وضاحت پر مشتمل تحقیقی فتوی، غوثیہ کتب خانہ لاہور،چشتی)

یہ بھی جان لیجیئے کہ کئی صوفیائے کرام علیہم الرّحمہ نے اپنی کتابوں میں ایسی ایسی احادیث اور روایات بیان فرما دی ہیں جو کہ کتب احادیث و تراجم میں نہایت درجے کی چھان بین کے باوجود بھی نہیں ملتیں ، ان کی کتابوں میں کچھ روایات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ائمہ فن و محدثین علیہم الرّحمہ کے ہاں وہ حدیث کہلانے کے قابل بھی نہیں ہوتیں ، کچھ باتیں اور روایات ایسی بھی ہوتی ہیں جو حقائق اور صحیح روایات کے خلاف ہوتی ہیں ، اور کئی کہانیاں ایسی بھی بیان کر دی جاتی ہیں کہ اگر انھیں سچ مان لیا جائے تو کئی طرح کے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

صوفیائے کرام علیہم الرّحمہ کی کتب میں روایات کا حوالہ عموماً درج نہیں ہوتا ، ایسے میں ان روایات پر اعتماد کر لینے کے بجائے اہل تحقیق اس کی چھان بین کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ، مثلاً مذکورہ روایت ۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی کا اپنے دانت شہید کرنے کا واقعہ جسے شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الاولیاء میں بغیر کسی سند اور معتبر مآخذ کے درج کیا ہے ، جس سے صرف شیعہ حضرات اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ماتم پر بطور دلیل پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ روایت ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک موضوع روایات کی لمبی فہرست میں شامل ہے اور پھر اس کے متن پر سوالات و شبہات اور تضادات و تنقیدات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ پھر جو کیلے (مشہور پھل) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خاص آپ کے لیئے اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا ، اس سے پہلے دنیا میں اس پھل کا نام و نشان نہ تھا ، بالکل غلط ہے کیونکہ تمام کتابوں میں جہاں حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی غذا کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر لکھا ہے کہ آپ کی غذا روٹی اور کھجور تھی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بغیر دانت کے ان کو کھانا مشکل ہے ۔

اب ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر تشریف لائے تو اپنے ساتھ عجوہ کھجور ، لیموں اور کیلا لائے ۔ (موسوعہ ابن ابی الدنیا، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر346) ۔

محترم قارئین کرام : اب ہم یہ کَہہ سکتے ہیں کہ اگر دلائل کی رو سے دیکھا جائے تو اس واقعے کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے لہٰذا اس واقعے کو بیان کرنے سے احتراز لازم ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

واقعہ اعرابی اور استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب

واقعہ اعرابی اور استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب

محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)
معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جائز ہے ۔

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی۔(تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 ،چشتی)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ: اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ'' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کا بھی وسیلہ ہیں ۔

اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں :

(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔

(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔

اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔(المائده، 5 : 2)

ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے۔

اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔

یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔

دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔

تیسرا نکتہ : تفہیمِمسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔

صحیح اِسلامی عقیدہ

’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔

چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔

جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے ۔

حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے

نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو o ۔ (الانبياء، 21 : 112)

دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا ؟

فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo۔(مريم، 19 : 19،چشتی)

مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ O ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہوo ۔ (آل عمران، 3 : 49،چشتی)

اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے :

1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا

2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج

3۔ سفید داغ (برص) کا علاج

4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)

5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا

یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔

حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔

کیا یہ معجزہ نہیں ؟

اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔

چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا۔

پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔

ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (المائده، 5 : 110)

اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی۔(المائده، 5 : 110) ۔

رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کے لئے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جائیگا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...