نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی پسند حلوے کا مذاق اڑانے والوں کی غذا خنزیر ہے
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺧﻮﺭ ﻗﻮﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ غیر مقلد وہابی حضرات ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻧﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﺩﯾﺎ تاکہ اپنے آقا انگریز کو خوش کر سکیں ۔
علامہ صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں ۔ (بدور الاہلہ صفحہ نمبر 16)
غیر مقلدین کے نزدیک انسان کے بال ، مردار اور خنزیر پاک ہیں اور خنزیر کی ہڈی ، کھُر ، پٹھے ، سینگ تھوتھنی سب پاک ہیں ۔(کنز الحائق صفحہ 13 غیر مقلد نواب وحید)
علامہ نور الحسن بن نواب صدیق حسن غیر مقلد وہابی لکھتا ہے خنزیر کے ناپاک ہونے کا دعویٰ ناتمام ہے ۔ (یعنی خنزیر ناپاک نہیں)۔(عرف الجادی صفحہ 10 غیر مقلد عالم )
نواب صدیق حسن خان ، نواب نور الحسن خان اور نواب ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻟﺰﻣﺎﮞ دونوں غیر مقلد وہابی علماء ﻧﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻝ ﺟﯿﺴﺎ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻋﺰﺕ ﺩﯼ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﺎ تیسرے نے کہا خنزیر کے ناپاک ہونے کا دعویٰ غلط ناتمام ہے ۔
ہمارا ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ حلوے کا مذاق اڑانے والوں سے تھا اور ہے : ہمارا مطالبہ یہ ہے ﮐﮧ ﺁپ لوگوں کا ﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ آپ لوگ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺮ ﮨﺮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﺎﺭﺽ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﺎﺭﺽ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﯾﺴﯽ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ( ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ( ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﺳﮑﮯ ، ﺍﺩﮬﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﺍﮨﻞ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻣﻠﮑﮧ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﭘﻠﻮﺳﯽ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﺗﮏ ﮐﻮ ﭘﺎﮎ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ۔
چاہیئے تو یہ تھا کہغیر مقلدین حضرات ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻼﺅﮞ ﺳﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺣﻨﻔﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ “میں ایسا ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ۔ یہ کوئی جواب نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پسند حلوہ کا مذاق اڑانے والو اب یہی تو تمہارا نصیب ہونا تھا کہ خنزیر تمہاری ماؤں کی طرح ہے یاد رہے یہ تمہارے علماء نے لکھا تو خنزیر جیسی مائیں تمہارے جیسے گستاخ بچے ہی پیدا کریں گی نا ہم نہیں کہہ رہے آپ کے علماء نے لکھا ہے ۔ علمی جواب کا منتظر ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment