نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور
محترم قارئین : ہمارے ایک محترم قاری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائے نور کے متعلق حکم فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب اس کا حوالہ چاہیئے دے دیں بہت زیادہ مصروفیات کی وجہ سے تاخیر پر معذرت جیسے وقت ملا مختصرا اس حدیث پاک کے مکمل حوالہ جات پیش خدمت ہیں اور ساتھ اہل لغت کے اقوال بھی ۔
حدیث مبارکہ َ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي صَـلَاتِهِ أَوْ فِي سُجُوْدِهِ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا وَفِي سَمْعِي نُوْرًا وَفِي بَصَرِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ شِمَالِي نُوْرًا وَأَمَامِي نُوْرًا وَخَلْفِي نُوْرًا وَفَوْقِي نُوْرًا وَتَحْتِي نُوْرًا وَاجْعَلْ لِي نُوْرًا أَوْ قَالَ : وَاجْعَلْنِي نُوْرًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ ۔
وفي رواية : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا وَفِي لِسَانِي نُوْرًا وَفِي سَمْعِي نُوْرًا وَفِي بَصَرِي نُوْرًا وَمِنْ فَوْقِي نُوْرًا وَمِنْ تَحْتِي نُوْرًا وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا وَعَنْ شِمَالِي نُوْرًا وَمِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُوْرًا وَمِنْ خَلْفِي نُوْرًا وَاجْعَلْ فِي نَفْسِي نُوْرًا وَأَعْظِمْ لِي نُوْرًا ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائيُّ.
وفي رواية عنه : قَالَ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ لِي نُوْرًا فِي قَلْبِي وَنُوْرًا فِي قَبْرِي وَنُوْرًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَنُوْرًا مِنْ خَلْفِي وَنُوْرًا عَنْ يَمِيْنِي وَنُوْرًا عَنْ شِمَالِي وَنُوْرًا مِنْ فَوْقِي وَنُوْرًا مِنْ تَحْتِي وَنُوْرًا فِي سَمْعِي وَنُوْرًا فِي بَصَرِي وَنُوْرًا فِي شَعْرِي وَنُوْرًا فِي بَشَرِي وَنُوْرًا فِي لَحْمِي وَنُوْرًا فِي دَمِي وَنُوْرًا فِي عِظَامِي. اَللَّهُمَّ، أَعْظِمْ لِي نُوْرًا وَأَعْطِنِي نُوْرًا وَاجْعَلْ لِي نُوْرًا… رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز اور سجدہ میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میرے کانوں میں نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے لئے نور کر دے یا فرمایا مجھے (سر تا پا) نور بنا دے ۔ یہ حديث متفق علیہ ہے ، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میری آنکھوں میں نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے سامنے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے اور میرے اندر نور کر دے اور میرے لئے نور کو عظیم کر دے ۔ اسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔
اے اللہ! میرے دل میں نور کر دے، میری قبر میں، میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے، نور ہی نور پھیلا دے۔ اے اللہ! میرے کانوں، میری آنکھوں، میرے بالوں، میرے چہرے، میرے گوشت، میرے خون اور میری ہڈیوں میں نور ہی نور بھر دے۔ اے اللہ ! میرے لئے نور کو عظیم فرما۔ مجھے نور عطا فرما اور میرے لئے نور بنا دے ۔ اس حديث کو امام بخاری ، مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور الفاظ بھی انہی کے ہیں ۔
( حوالہ جات : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الدعوات، باب : الدعاء إذا انتبه بالليل، 5 / 2327، الرقم : 5957، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة المسافرين وقصرها، باب : الدعاء في صلاة الليل وقيامه، 1 / 525، 528.529، الرقم : 763، والترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (30) منه، 5 / 482، الرقم : 3419، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : الدعاء في السجود، 2 / 218، الرقم : 1121، وفي السنن الکبری، 1 / 161، 237، الرقم : 397، 708، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 284، 343، الرقم : 2567، 3194، وابن حبان في الصحيح، 6 / 362، الرقم : 2636، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 403، الرقم : 3862، وأبو يعلی في المسند، 4 / 420، الرقم : 2545، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 420، الرقم : 12191، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم : 38، وفي کتاب الدعاء، 1 / 243، الرقم : 761، وابن أبي الدنيا في التهجد وقيام الليل، إسناده صحيح، 1 / 421، الرقم : 385، وابن إسحاق في شعار أصحاب الحديث، 1 / 60، الرقم : 79، وابن همام في سلاح المؤمن في الدعاء 1 / 346، الرقم : 642،چشتی)
محترم قارئین : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعاء مقبول بارگاہ ہے ۔ لازم ہے کہ یہ دعائے نور بھی مقبول ہو ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں نور ثابت ہوگئے تو اس دعاء کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی دعاء اس لئے ہوتی ہے کہ جو بندے کے پاس نہیں وہ مل جائے اور کبھی اس لئے کہ جو ہے اس میں برکت ہو ۔ اضافہ ہو ۔ دوام ہو ۔ ہم سورہ فاتحہ میں ہمیشہ ہدایت کی اور سیدھی راہ چلنے کی دعاء مانگتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ مانگتے تھے اور ہر مسلمان ہمیشہ یہ دعاء مانگ رہا ہے اور مانگتا رہے گا ۔ اس کا یہی مفہوم ہے :
تو ہے سایہ نور کاہر عضو ٹکڑا نور
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے ، نہ سایہ نور کا
نور اہل لغت کی زبانی
النور ههنا هو سيدنا محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم ای جاء کم نبی وکتاب.
ترجمہ : اس جگہ نور ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یعنی تمھارے پاس نبی تشریف لائے اور کتاب آئی ۔ (لسان العرب لابن منظور افريقی ص 322 ج 14 طبع بيروت،چشتی)
ابن الاثیر نے کہا نور وہ ہے جس کی روشنی سے اندھا دیکھنے لگتا ہے اور گمراہ راہ پر آجاتا ہے ۔ الظاهر فی نفسه المظهر لغيره ۔
ترجمہ : جو خود ظاہر اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو ۔
فی صفته صلی الله عليه وسلم انور المتجرد ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم پاک خالص نور تھا ۔
(النهاية لابن الاثير الخدری ص 125 ج 5 طبع ايران،چشتی)
امام قاضی ایاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انه کان لا ظل لشخصه فی شمس ولا قمر لانه کان نورا. وان الذباب کان لا يقع علی جسده ولا ثيابه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دھوپ یا چاندنی میں سایہ نہیں تھا، کیونکہ آپ نور تھے اور مکھی آپ کے جسم اقدس اور کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھی ۔
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفی ص 243 ج 1 طبع مصر،چشتی)
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان النبی صلی الله عليه وسلم کان اذا مثی لم يکن له ظل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا ۔ (مفردات راغب ص 315 طبع کراچی)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment