Tuesday, 31 October 2023

گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں

گیارہویں شریف اکابرین امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں
محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں کا قدیم طریقہ ہے کہ گیارہ تاریخ کو حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصالِ ثواب کےلیے نیاز و فاتحہ کی جاتی ہے جس کو گیارھویں شریف کہتے ہیں ۔ جس کا مقصد ایصالِ ثواب ہے جبکہ نجدی کے پیروکار اس عمل کو بدعت اور حرام کہتے ہیں ۔ تو آئیے اس عمل کا ثبوت ہم اکابرینِ امت اور منکرین کے گھر سے پیش کرتے ہیں : ⬇

قدوۃُالواصلین ، زبدۃُالعارفین ، سیدی و سندی ، پیرانِ پیر ، غوث اعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالے سے اللہ و رسول اور وِلایت اولیا کا ذِکر کیا جاتا ہے تاکہ اللہ پاک اِن اولیا کی محبت لوگوں کے دِلوں میں پیدا فرمائے ، آپ کے عِلمی و عَملی کارناموں سے اُمت آگاہ ہو ۔ اس سے ایک طرف اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اولیاء اللہ سے بھی اُنس پیدا ہوتا ہے ، ﷲ والوں کی صحبت میسر آتی ہے ، روحانیت ، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے اللہ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورنیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے ۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بزم ہوتی ہے جہاں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوتا ہے ۔ نذرانوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں جو حاضرین ، زائرین ، بھوکے ، مسافر ، بے بسوں کے کام آتی ہیں ۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے ۔ اس صدقے سے زبانوں اور دِلوں سے نکلتی دعاؤں ، تلاوتوں ، اذکار کا ثواب زائرین ، ان کے آباو و امہات ، ان کے اساتذہ ، مشائخ اور تمام مسلمانانِ عالم ، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایاجاتا ہے ، ان دعاؤں کو سننے والا اللہ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول کرتاہے ، مشکلات حل ہوتی ہے ، خالی جھولیاں بھرتی ہے، خشک ہونٹوں پر تری آتی ہے ، پریشاں دِلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملتی ہے ، زخمی دِلوں کو مرہم اور دھتکارے ہُووں کو ٹھکانا مِلتا ہے ۔ ذیل میں گیارہویں شریف کے متعلق اہل علم کے تأ ثرات قلمبند کئے جارہے ہیں ۔

محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

حضرت غوث اعظم رضی ﷲ عنہ کے روضۂ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اِردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذِکر بالجہر (باآوازِ بلندذِکر) کرتے ۔ اسی حالت میں بعض پروجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ۔ اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی ، تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رُخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظات عزیزی فارسی ص۶۲)

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ

میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی (علیہ الرحمہ) ۹ ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کا عرس کرتے تھے ۔ بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہورہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ (ہندو پاک) میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنۃ صفحہ ۱۶۷)

حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی علیہ الرحمۃ المتوفی 997ھ ۱۱ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم کا عرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار اردو ترجم صفحہ ۴۹۸)

مرزا مظہرجانِ جاناں علیہ الرحمہ

میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاے کرام حلقہ باندھ کر مراقبے میں ہیں ۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ بہاوالدین نقشبند دوزانو اور حضرت جنید بغدادی تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ اِستغنیٰ ماسواء ﷲ اور کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں ۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی رضی ﷲ عنہ کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں ۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم ﷲ وجہہ الکریم تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ ایک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاوں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں ۔ حضرت علی المرتضٰی کرم ﷲ وجہہ الکریم ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جواب ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی ﷲ تعالی عنہ ہیں پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے ، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی کا عُرس ہے ۔ ہم سب عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں ۔ (کلمات طیبات فارسی صفحہ ۷۷،۷۸،چشتی)

علامہ فیض عالم بن مُلّا جیون صاحب علیہ الرحمہ

عاشورہ کے روز امامین شہیدین سیدنا شباب اہل الجنۃ ابو محمد حسن اور ابو عبد ﷲ حسین رضی ﷲ تعالی عنہما کے لیے کھانا (نیاز) تیار کرتے ہیں ۔ خدا ے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس نیاز کا ثواب ان کی روح کو پہنچاتے ہیں اور اِسی قسم سے گیارہویں شریف کا کھانا ہے جو کہ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ العین الحسنین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا و مولانا فردالافراد ابو محمد شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک ہے ۔ دیگر مشائخ کا عرس سال کے بعد ہوتا ہے ۔ حضرت غوث پاک رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک (ہمارے یہاں) ہر ماہ ہوتا ہے ۔ (وجنیر القراط:فارسی صفحہ ۸۲،چشتی)

علامہ برخوردار صاحبِ نبراس علیہ الرحمہ

ممالکِ ہندو سندھ وغیرہ میں آپ کاعرس ۱۱ربیع الثانی کو ہوا کرتا ہے ۔ اس میں انواع و اقسام کے طعام و تحائف کہ حاضرین علما و اہل تصوف ، فقرا درویشاں کو پیش کیے جاتے ہیں ۔ وعظ اور بعض نعتیہ نظمیں بھی بیان ہوتی ہیں ۔ اس عرس شریف میں ارواحِ کاملین کا بھی حضور ہوتاہے خصوصاً آپ کے جد امجد حضرت علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم بھی تشریف لاتے ہیں ۔ کما ثبت عند ارباب المکاشفۃ ۔ (سیرت غوث اعظم صفحہ ۲۷۵)

پیر عبدالرحمٰن نے اس (گیارہویں تاریخ) کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم ہر گیارہویں کو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا عرس کیا کرتے تھے ۔ (کلیات جدولیہ فی احوال اولیاء ﷲ، المعروف بتحفۃ الابرار، بحوالہ تکملہ ذکرالاصفیاء صفحہ ۲۹،چشتی)

غوث اعظم چونکہ گیارہویں کرتے ہیں لہٰذا بطریق (تسبیح فاطمہ) گیارہویں حضرت پیرانِ پیر مشہور ہوئی ۔ (حاشیہ سیرت غوث الاعظم: ص۲۷۶)

اکابرینِ علمائے دیوبند کے مُرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ

پس بہیئت مروجہ ایصال ثواب (ایصال ثواب کا موجودہ طریقہ ) کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں اور گیارہویں حضرت غوث پاک (قدس سرہ) کی ، دسویں ، بیسویں ، چہلم ، ششماہی ، سالانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کااور سہ منی (تین ماہ کی) حضرت شاہ بو علی قلندری (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کی و حلواے شب برات اور دیگر طریق ایصالِ ثواب کے اسی (جواز کے) قاعدے پر مبنی ہیں اور مشرب فقیر (حاجی امداد ﷲ) کا اس مسئلے میں یہ ہے کہ فقیر پابند اس ہیئت (طریقہ، انداز) کا نہیں ہے مگر کرنے والوں کاانکار بھی نہیں کرتا ۔
(کلیاتِ امدادیہ باب فیصلہ ہفت مسئلہ،ص۸۲، مطبوعہ:دیوبند)،(فیصلہ ہفت مسئلہ فاتحہ مروجہ صفحہ 8 ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی)

لو جی گیارھویں کو بدعت کہنے آئے تھے ان کے پیر صاحب نے گیارھویں سمیت پتہ نہیں کیا کیا جائز ثابت کر دیا ۔ ان میں سے بعض ایصالِ ثواب کے ذرائع و نام میں نے بھی پہلے بار سنے ہیں .. تو کیا فرماتے ہیں علماءِ دیوبند کہ گیارھویں کو جائز کہنے والے پر کیا حُکُم ہے اور ایسے کی بیعت کرنا کیسا ؟

مولوی خر م علی بلہوری دیوبندی

حاضری حضرت عباس کی ، صحنک حضرت فاطمہ کی ، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی ، مالیدہ شاہ مدار کا ، سہ منی بوعلی قلندر کی ، تو شہ شاہ عبدا لحق کا ، اگر مَنّت نہیں ہے صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہے تو درست (جائز) ہے ۔ اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔ (نصیحۃ المسلمین چند شرکیہ رسمیں صفحہ ۴۱)

اسمعٰیل دہلوی امامُ الوہابیہ و دیابنہ

رسوم میں فاتحہ پڑھنے ، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر و نیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵)

طالب کو چاہیے کہ پہلے وہ با وضو دو زانوں بطور نماز (التحیات) میں بیٹھ کر اس طریقے کے بزرگوں حضرت معین الدین سجزی اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی (علیہما الرحمۃ) وغیرہ حضرات کے نام کا فاتحہ پڑھ کر بارگاہِ خداوندی میں ان بزرگوں کے توسط (واسطے) اوروسیلہ سے التجا کرے ۔ (صراطِ مستقیم فارسی صفحہ ۵۵،چشتی)

پس امورِ مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں اور عرسوں اور نذر ونیاز سے اس قدر امر کی خوبی میں کچھ شک وشُبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم، صفحہ 110، مطبوعہ اسلامی اکیڈمی اردو بازار لاھور)

وھابیہ جس کو بدعت کہے ان کا امام اس کو خوبی کہے ..... پس پتہ چلا کہ خوبی والی بدعت بھی ہوتی ہے ... نذرو نیاز کے علاوہ مولوی اسماعیل دھلوی نے بزرگانِ دین اولیاء کے عرس کو بھی خوبی والے کاموں میں شامل کیا ..... جی آلِ نجد جواب دے کہ بدعات کو خوبی والے امور کہنے والے پر کیا حُکُمِ شرعی ہے ؟

قطب العالم دیوبند جناب رشیداحمد گنگوہی صاحب

ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ (نیاز) کرنا درست ہے مگر تعیّن یوم و تعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجبِ ضلالت ہوتا ہے لہٰذا تبدیل یوم و طعام (نیاز) کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم ،صفحہ 171، مطبوعہ عالمی مجلس تحفظِ اسلام کراچی)

گنگوھی نے آگے جو لکھا کہ دن اور کھانا مقرر کرنا بدعت ہے تو اس کا جواب ہم انہی کے پیر ومُرشد کی زبانی دیتے ہیں ۔

چنانچہ حضرتِ حاجی امداد الله مہاجر مکی علیہ الرحمہ جنکو اکابرینِ علماء دیوبند اپنا پیر و مُرشد مانتے ہیں وہ گیارھوں دسواں سوئم چالیسوں کا دن مقرر کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : رہا تعینِ تاریخ (یعنی گیارھویں کی تاریخ مقرر کرنا) یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ (امر کام) یاد آ جاتا ہے اور ضرور ہوتا رہتا ہے اور (دن وتاریخ مقرر) نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی خیال نہیں ہوتا اسی قِسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جنکی تفصیل طویل ہے محض بطورِ نمونہ تھوڑا سا بیان گیا گیا (ہے) زہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی،چشتی)

جی جس تاریخ کو مقرر کرنا گنگوھی جی بدعت کہہ رہے ہیں اسی تاریخ کو مقرر کرنے کے فوائد و مصلحتیں گنگوھی جی کے پیر صاحب بیان فرما رہے ہیں ... پیر صاحب کا یہ جملہ نہایت ہی قابلِ غور ہے کہ ” کوئی بھی ذہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے“ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گنگوھی جی اور جو دیوبندی تاریخ مقرر کرنے کو بدعت کہتے ہیں وہ بقول پیر صاحب کُند ذہن ونالائق ہیں کیو نکہ اگر ذہین ہوتے تو پیر صاحب کے بقول سمجھ جاتے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب

بوقت مجلس جب مثنوی مولانا روم ختم ہوگئی ۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کا حکم دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت) پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ (حاجی امداد ﷲ صاحب نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں ، ایک عجز و بندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے ، دوسری خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا ۔ یہ جائز ہے لوگ انکار کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ۔ (شمائم امدادیہ ملفوظات حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی ص:۶۸)

ہر شخص کو اختیار ہے کہ (نیک) عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے ۔ جس طرح مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ (التذکیر: ج۳، ص۵)،(امداد المشتاق، صفحہ 86، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاھور،چشتی)،(شمائم امدادیہ، صفحہ 68، کتب خانہ اشرف الرشید شاہ کوٹ)

گنگوھی جی اور ان کے ماننے والے یہاں بھی دیکھ لیں کہ نیاز کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے شربت کا تعین کیا جبکہ گنگوھی جی اس کو بدعت کہہ رہے ہیں تو پھر بتائیں کہ آپ کے پیر صاحب پر کیا فتویٰ لگے گا ؟

اگر مولانا روم کے ایصالِ ثواب کےلیے نیاز جائز ہے تو سیدی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے بھی نیاز جائز ہے جسکو گیارھویں کا نام دیا گیا ہے ۔

ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد

نذر و نیاز غیراللہ کےلیے جائز نہیں ہے ۔ نذر اللہ کی اور ثواب میں دوسرے کو پہنچانا جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ: باب : عقائد ،ج ۱،ص۱۰۸)

گیارھویں بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے دُرُست ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور)

یقین جان لے اے آلِ نجد کہ ہم غوثِ پاک کی گیارھویں اور حضور سیّدِ عالَم علیہ السلام کی بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ۔ تو تمہارے امام ثناء الله امرتسری کے فتویٰ کی رُو سے یہ جائز و دُرُست ٹھری لہذا اگر اب اس کو بدعت کہو گے تو آپ کے مناظرِ اعظم رگڑے جائیں گے کیونکہ ان کا ایک بدعت کو جائز کہنا لازم آئے گا لہذا تم بھی اپنے امام کے قول کو چُپ چاپ مان لو ۔

غیرمقلدین وھابیہ کا عظیم محدث مولوی وحید الزمان حیدر آبادی لکھتا ہے : ولایجوز الانکار علي امور مختلفة فیھا بین العلماء....کاالفاتحة المرسومة ۔
یعنی وہ کام جو علماء میں مختلَف فیہ ہوں ان کا انکار جائز نہیں جیسے مروجہ ایصالِ ثواب ۔ (ھدیة المھدی (عربی) الجزُالاول، صفحہ 118، در مطبع میور پریس دھلی ۱۳۲۵ھ،چشتی)

اگر ہمیں خواتین کے پڑھنے کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم آگے بھی عبارت نقل کرتے اور بتاتے کہ آگے وھابی مولوی نے کیا گُل کھلایا ہے ۔ بے شرمی کی انتہا کر دی ..... لہذا وھابیہ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے کیونکہ ان کے محدث کی جو کتاب ہے تو وھابیہ نے ضرور پڑھی ہو گی ۔ بہر کیف ہماری دلیل ایصالِ ثواب کی تھی سو دے دی ۔ اب ذرا اس کو بدعت کہنے والے بتائیں کہ وحید الزماں پر کیا حُکمِ شرعی ہے ؟

غیرمقلدین وھابیہ کے مولوی عبد الجبار غزنوی نے کہا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی ایسے محدث تھے جن کو الله اے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا ۔ (استادِ پنجاب صفحہ 122مسلم پبلیکیشنز گوجرانوالہ)

اب وہابیہ کے یہی کلیم الله نواب صدیق حسن خان بھوپالوی غوثِ پاک کے ختم کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص گیارہ بار پھر بعد سلام کے یہ درود ایک سو گیارہ بار پڑھے " اللھم صل علي معدن الجود والکرم و علي آله محمد وبارك وسلم " پھر شیرنی پر فاتحہ شیخِ جیلانی رضی اللہ عنہ پڑھ کر تقسیم کر دے ۔ (کتاب الدعاء والدواء صفحہ 153 نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازاد لاہور)

نجدیو : دیکھ لو تمہارا کلیم اللہ ختمِ غوثیہ کا کیا طریقہ بتا رہا ہے ۔ کیا یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟

کیا اس کو بھی بدعتی کہو گے ؟

الحمد للہ ہم نے کافی شافی دلائل غوثِ پاک علیہ الرحمہ کی گیارھویں کے آَلِ نجد کے جید اکابرین علماء کی کتب سے پیش کر دیے ہیں اگر اب بھی آلِ نجد میں نہ مانو کی گردان دھرائیں تو ان کو چاہیئے کہ مذکورہ اپنے اکابرین پر بدعتی اور جہنمی ہونے کا فتویٰ صادر کریں یا پھر گیارھویں پہ بھوکنا چھوڑ دیں ۔

وہ قصّے اور ہونگے جنہیں سُن کر نیند آتی ہے
تڑپ اُٹھو گے کانپ جاؤ گے سُن کر داستاں اپنی

اللہ تعالیٰ ان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ تا حیات بزرگوں کے دامن سے وابستہ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 29 October 2023

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کی نظر میں

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کی نظر میں
محترم قارٸینِ کرام : حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘ کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے ۔ عِلمِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں مگر اس موقع پر میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا کہ آئمہ علم حدیث و فقہ نے ان کے بارے کیا فرمایا ہے، تاکہ کوئی رد نہ کر سکے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ کیا صرف عقیدت مندوں نے ہی آپ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم ، آئمہ تفسیر ، آئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے یہ سب بیان کیا ہے ؟

یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے ۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے ۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ ، علم الفقہ ، تصوف ، معرفت ، فنی علوم ، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے ۔ حضور غوث الاعظم ص ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیتِ مبارکہ (الکہف:18) میں بیان کردہ علم لدنی کا اظہار آپ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا ۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ میں آج آپ کے متعلقہ وہ باتیں اور میادین بیان کروں گا جو آپ نے پہلے نہیں سنے اور جو بیان بھی نہیں کئے جاتے ۔

بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکر (Army) کے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف متہجد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے ۔

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض تھا ۔

امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔
امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی) حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لئے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 90 برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔

امام الذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں : حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے ۔

علامہ ابن تیمیہ بارے ایک غلط فہمی کا ازالہ : امام ابن قدامہ المقدسی ایک واسطہ سے علامہ ابن تیمیہ کے دادا شیح ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ کے عقائد کے بعض معاملات میں بعد میں انتہاء پسندی آگئی۔ مجموعی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ منکرِ تصوف تھے، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ ان کے بعض معاملات میں، تشریحات و توضیحات میں انتہاء پسندی تھی، جن سے ہمیں اختلاف ہے مگر مجموعی طور پہ وہ منکرِ تصوف نہیں تھے، وہ تصوف کے قائل تھے، تصوف پر ان کا عقیدہ تھا، اولیاء، صوفیاء کے عقیدتمند تھے اور طریقہ قادریہ میں بیعت تھے ۔

علامہ ابن تیمیہ کے شیح کا نام الشیخ عزالدین عبداللہ بن احمد بن عمر الفاروثی ہے۔ بغداد میں انہوں نے سیدنا شیح شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت کا خرقہ پہنا۔ گویا ایک طریق سے ان کا سلسلۂ طریقت سہروردیہ ہو گیا۔ شیخ عزالدین الفاروثی، امام موفق الدین ابی محمد بن قدامہ المقدسی کے خلیفہ اور مرید بھی ہیں اور ابن قدامہ المقدسی، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور شاگرد ہیں۔ جنہوں نے طریقہ قادریہ میں خود غوث الاعظم سے خرقہ پہنا ۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ علامہ ابن تیمیہ کو ان کی وصیت کے مطابق دمشق میں صوفیاء کے لئے وقف قبرستان مقابرالصوفیہ میں دفنایا گیا۔ اس کو امام ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘، امام ابن حجر عسقلانی نے ’’الدرر الکاملہ‘‘، امام ذہبی نے ’’العبر‘‘ اور کل محدثین جنہوں نے علامہ ابن تیمیہ کے احوال لکھے، تمام نے بلا اختلاف اس کو بیان کیا ہے۔ یہ قبرستان صرف صوفیائے کرام کے لئے وقف تھا، وہاں دیگر علماء کی تدفین نہیں ہوتی تھی۔ آج کے دن تک علامہ ابن تیمیہ کی قبر مقابر صوفیا میں ہے۔ بعد ازاں ان کے بیٹے کی وفات ہوئی تو وہ بھی مقابر صوفیا میں دفن ہوئے ۔

علامہ ابن تیمیہ کا حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے اظہار عقیدت : علامہ ابن تیمیہ کے شیح، امام ابن قدامہ کے شاگرد تھے اور امام ابن قدامہ، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ علامہ ابن تیمیہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم عقیدت مندوں میں سے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ کی کتاب الاستقامۃ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اولیاء و صوفیاء میں سے سب سے زیادہ محبت و عقیدت سے جس شخصیت کا نام علامہ ابن تیمیہ نے لیا وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ غوث، قطب، ابدال کے ٹائٹل ہمارے من گھڑت ہیں اور اکابر علماء، محدثین ان کو مانتے نہیں تھے۔ سن لیں! علامہ ابن تیمیہ، حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا نام اس طرح لکھتے ہیں : قطب العارفين ابا محمد بن عبد القادر بن عبد اﷲ الجيلی .
ترجمہ : قطب العارفین (سارے عارفوں کے اولیاء کے قطب) سیدنا شیح عبد القادر الجیلانی ۔
یعنی وہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کو اس طرح القاب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جبکہ باقی کسی صوفی اور اولیاء میں سے کسی کا نام اس کے ٹائٹل کے ساتھ بیان نہیں کرتے۔ جس کا بھی ذکر کریں گے تو صرف اس صوفی یا ولی کا نام لکھ کر ان کی کسی بات کو نقل کریں گے۔ مثلاً : نقل الشيح شهاب الدين ابو حفص عمر بن محمد السهروردي... نقل ابو القاسم القشيري... نقل ابو عبد الرحمن السلمي... نقل بشر الحافي... قال الحارث المحاسبي... قال الجنيد البغدادي ...
مگرحضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات آئے تو ’’الشیح‘‘ لکھیں گے یا ’’قطب العارفین‘‘ لکھیں گے یعنی ٹائٹیل کے ساتھ نام لکھیں گے۔

حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کشف اور کرامت علامہ ابن تیمیہ الاستقامۃ کے صفحہ 78 پر بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ : شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ اوائل عمر میں ہی علوم کی کتب پڑھ لینے کے بعد میں علم الکلام، فلسفہ، منطق وغیرہ پڑھنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے میں متردد تھا کہ کس کتاب سے آغاز کروں؟ امام الحرمین الجوینی کی کتاب ’’الارشاد‘‘ پڑھوں یا امام شھرستانی کی کتاب ’’نہایۃ الاقدام‘‘ پڑھوں؟ یا اپنے شیخ ابو نجیب سہروردی (اپنے وقت کے کامل اقطاب اور اولیاء میں سے تھے، یہ ان کے چچا بھی تھے اور شیخ بھی تھے) کی کتاب پڑھوں؟ میری یہ متردد صورتِ حال دیکھ کر میرے شیخ امام نجیب الدین سہروردی مجھے شیح عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے۔ میرے شیخ حضرت ابو نجیب سہروردی، حضور غوث پاک کی بارگاہ میں جا کر ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے۔ خیال تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر جب مجلس ہوگی تو ہم حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کریں گے اور رہنمائی لیں گے اور پھر آپ جو فرمائیں گے وہ کتاب میں شروع کروں گا۔ ابھی ہم حاضر ہی ہوئے تھے، نماز بھی نہ ہوئی تھی اور مجلس بھی نہ ہوئی تھی، صرف خیال دل میں تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھے دیکھتے ہی غوث الاعظم میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے فرمایا : يا عمر ما هو من زاد القبر ما هو من زاد القبر .
جو کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو کیا یہ قبر میں بھی کام نہیں آئیں گی۔ یعنی جو علم الکلام، منطق، فلسفہ، کلام کی کتابیں تم پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہو اور تم پوچھنے آئے ہو، یہ قبر میں کام نہیں آئیں گی ۔

شيخ شہاب الدی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہيں : فرجعت عن ذالک. میں سمجھ گیا کہ حضور غوث الاعظم کو کشف ہوگیا ہے اور میرے قلب کا حال جان کر تصحیح کر دی۔ پھر میں نے اس علم کے حصول سے توبہ کرلی ۔

اس واقعہ کو روایت کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ان الشيخ کاشفه بما کان فی قلبه .
ترجمہ : جو ان کے دل میں تھا، شیخ عبد القادر جیلانی کو اس کا کشف ہوگیا‘‘۔

ایک مقام پر علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ : کان شيخ عبد القادر الجيلی أعظم مشائخهم، مشائخ زمانهم أمرا بالالتزام بالشرع والأمر والنهی وتقديمه علی الذوق والقدر ومن أعظم الشيخ من ترک الهواء والارادة النفسه .

امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ : محدثین اور آئمہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، (اس زمانے میں (لاؤڈ سپیکر نہیں تھے) جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی (صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے امام) جیسے ہزارہا محدثین، آئمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے ۔

حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک ’’نہ‘‘ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا : الآن نرجع من القال إلی الحال .
ترجمہ : اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں ۔

جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیئے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے ۔

امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ : امام یافعی (جن کی کتاب کی امام ابن حجر عسقلانی نے التلخیص الخبیر کے نام سے تلخیص کی) فرماتے ہیں : اجتمع عنده من العلماء والفقهاء والصلحا جماعة کثيرون انتفعوا بکلامه وصحبته ومجالسته وخدمته وقاصد إليه من طلب العلم من الآفاق .
ترجمہ : شرق تا غرب پوری دنیا سے علماء، فقہاء، محدثین، صلحا اور اہل علم کی کثیر جماعت اطراف و اکناف سے چل کر آتی اورآپ کی مجلس میں زندگی بھر رہتے، علم حاصل کرتے۔ حدیث لیتے، سماع کرتے اور دور دراز تک علم کا فیض پہنچتا ۔

امام یافعی فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قبول عام اتنا وسیع تھا اور آپ کی کراماتِ ظاہرہ اتنی تھیں کہ اول سے آخر کسی ولی اللہ کی کرامات اس مقام تک نہیں پہنچیں ۔

امام یافعی شعر میں اس انداز میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ :

غوث الوراء، غيث النداء نور الهدی
بدر الدجی شمس الضحی بل الانور

(يافعی، مرأة الجنان، 3: 349،چشتی)

بعض لوگ نادانی میں کہتے ہیں کہ آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم کہتے ہیں، یہ ناجائز ہے۔ غوث، اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔ غور کریں کہ امام، محدث اور امام فقہ ان کو غوث کہتے تھے۔ غوث الوریٰ کا مطلب ہے ساری خلق کے غوث۔ اسی طرح غیث النداء، نور الہدیٰ بدر الدجیٰ، شمس الضحیٰ یہ تمام الفاظ ان آئمہ کی حضور غوث الاعظم سے عقیدت کا مظہر ہیں ۔

علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد، حافظ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 12 ص 252 پر کہتے ہیں کہ حضور غوث اعظم سے خلقِ خدا نے اتنا کثیر نفع پایا جو ذکر سے باہر ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ آپ کے احوال صالحہ تھے اور مکاشفات و کرامات کثیرہ تھیں ۔

امام ابن قدامہ اور ابن رجب حنبلی وہ علماء ہیں جو علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے اساتذہ ہیں اور ان کو سلفی شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سلفی نہیں بلکہ غوث پاک کے مرید ہیں۔ لوگوں کے مطالعہ کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ غلط مباحث جنم لیتی ہیں۔ امام ابن رجب الحنبلی کو بھی پوری سلفیہ لائن کا امام سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے زیل الطبقات الحنابلہ میں سیدنا غوث اعظم کے حوالے سے بیان کیا کہ : کان هو زاهد شيخ العصر وقدوة العارفين وسلطان المشائخ وسيد اهل الطريقه محی الدين ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاحوال المشهوره . (ابن رجب الحنبلي، زيل الطبقات الحنابله، 2: 188،چشتی)

یہ صرف نام کے القاب نہیں بلکہ یہ حضور غوث الاعظم کا مقام ہے جسے امام ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے ۔

امام ذہبی (جلیل القدر محدث) سیر اعلام النبلاء میں بیان کرتے ہیں کہ : ليس في کبائر المشائخ من له احوال وکرامات اکثر من الشيخ عبد القادر الجيلانی .
ترجمہ : کبائر مشائخ اور اولیاء میں اول تا آخر کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جس کی کرامتیں شیخ عبد القادر جیلانی سے بڑھ کر ہوں ۔

شافعی مذہب میں امام العز بن عبد السلام بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا نام حجت مانا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جن کو رد کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام العز بن عبد السلام کا قول امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں : ما نقلت إلينا کرامات أحد بالتواتر إلا شيخ عبد القادر الجيلانی .
ترجمہ : آج تک اولیاء کرام کی پوری صف میں کسی ولی کی کرامتیں تواتر کے ساتھ اتنی منقول نہیں ہوئیں جتنی حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں اور اس پر اتفاق ہے ۔

امام یحییٰ بن نجاح الادیب رحمۃ اللہ علیہ : جلیل القدر علماء آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تائب ہوتے۔ ابو البقا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نحو، شعر، بلاغت اور ادب میں اپنے وقت کے امام یحییٰ بن نجاح الادیب سے سنا کہ میں حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں گیا، ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق جاتا تھا، میں گیا اور میں نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ غوث الاعظم اپنی گفتگو میں کتنے شعر سناتے ہیں۔ وہ چونکہ خود ادیب تھے لہذا اپنے ذوق کے مطابق انہوں نے اس امر کا ارادہ کیا۔ صاف ظاہر ہے حضور غوث الاعظم اپنے درس کے دوران جو اشعار پڑھتے تھے وہ اپنے بیان کردہ علم کی کسی نہ کسی شق کی تائید میں پڑھتے تھے۔ درس کے دوران اکابر، اجلاء، ادبا اور شعراء کو پڑھنے سے مقصود بطور اتھارٹی ان کو بیان کرنا تھا تاکہ نحو دین، فقہ، بلاغت، لغت، معانی کا مسئلہ دور جاہلیت کے شعراء کے شعر سے ثابت ہو، یہ بہت بڑا کام ہے ۔

امام النحو والادب یحییٰ بن نجاح الادیب بیان کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں گیا اور سوچا کہ آج ان کے بیان کردہ اشعار کو گنتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں دھاگہ ساتھ لے گیا کہ ہاتھ پر گنتے گنتے بھول جاؤں گا۔ جب آپ ایک شعر پڑھتے تو میں دھاگہ پر ایک گانٹھ دے دیتا تاکہ آخر پر گنتی کر لوں۔ جب آپ اگلا شعر پڑھتے تو پھر دھاگہ پر گانٹھ دے لیتا۔ اس طرح میں آپ کے شعروں پر دھاگہ پر گانٹھ دیتا رہا۔ اپنے کپڑوں کے نیچے میں نے دھاگہ چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے دھاگہ پر کافی گانٹھیں دے دیں تو سیدنا غوث اعظمص ستر ہزار کے اجتماع میں میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر فرمایا : انا احل و انت تاکد .
ترجمہ : میں گانٹھیں کھولتا ہوں اور تم گانٹھیں باندھتے ہو ۔
(ذهبی، سير اعلام النبلاء، 20: 448،چشتی)

یعنی میں الجھے ہوئے مسائل سلجھا رہا ہوں اور تم گانٹھیں باندھنے کے لیے بیٹھے ہو۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر توبہ کر لی۔ اندازہ لگائیں یہ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں آئمہ کا حال تھا ۔

امام الحافظ عبد الغنی المقدسی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دور کے بغداد کے نحو کے امام ابو محمد خشاب نحوی سے کہتے ہوئے سنا کہ میں نحو کا امام تھا، غوث اعظم کی بڑی تعریف سنتا تھا مگر کبھی ان کی مجلس میں نہیں گیا تھا۔ یہ نحوی لوگ تھے، اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ ضرب یضرب میں لگے رہتے ہیں، انہیں ایک ہی ضرب آتی ہے، دوسری ضرب یعنی ضرب قلب سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن خیال آیا آج جاؤں اور سنوں تو سہی شیخ عبد القادر جیلانی کیا کہتے ہیں؟میں گیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر انہیں سننے لگا ۔

میں نحوی تھا، اپنے گھمنڈ میں تھا لہذا مجھے ان کا کلام کوئی بہت زیادہ شاندار نہ لگا ۔ میں نے دل میں کہا : ’’آج کا دن میں نے ضائع کر دیا‘‘۔

بس اتنا خیال دل میں آنا تھا کہ منبر پر دوران خطاب سیدنا غوث الاعظم ص مجھے مخاطب ہو کر بولے : اے محمد بن خشاب نحوی! تم اپنی نحو کو خدا کے ذکر کی مجلسوں پر ترجیح دیتے ہو۔ یعنی جس سیبویہ (امام النحو، نحو کے موضوع پر ’’الکتاب‘‘ کے مصنف) کے پیچھے تم پھرتے ہو، ہم نے وہ سارے گزارے ہوئے ہیں۔ آؤ ہمارے قدموں میں بیٹھو تمہیں نحو بھی سکھا دیں گے۔ امام محمد بن خشاب نحوی کہتے ہیں کہ میں اسی وقت تائب ہو گیا۔ آپ کی مجلس میں گیا اور سالہا سال گزارے۔ خدا کی قسم ان کی صحبت اور مجلس سے اکتساب کے بعد نحو میں وہ ملکہ نصیب ہوا جو بڑے بڑے آئمہ نحو کی کتابوں سے نہ مل سکا تھا ۔

آئمہ حدیث و فقہ علیہم الرّحمہ نے حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام و مرتبہ کو نہ صرف بیان کیا بلکہ آپ کو علم میں اتھارٹی تسلیم کیا ہے۔ مذکورہ جملہ بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کل امام کرامتوں کو ماننے والے تھے، اولیاء کو ماننے والے تھے اور حضرت سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدت مند تھے۔ یہ کہنا کہ حضور غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ اور ان کے القابات کو اعلیٰ حضرت نے یا ہم نے گڑھ لیا ہے، نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حدیث، فقہ، تفسیر اور عقیدہ کے کل آئمہ نو سو سال سے ان کی شان اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد تھے یا مقلد

حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مجتہد تھے یا مقلد
محترم قارٸینِ کرام : آج کل غير مقلدين سادہ لوح عوام مسلمین كو گمراه كرنے كے ليے یہ دريافت كرتے ہيں كہ سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كس كے مقلد تھے ؟ وه كس مذهب پر تھے ؟ پھر وه یہ ذهن ديتے ہيں كہ وه مقلد نہيں تھے تا كہ عوام كو يہ باور كرا سكيں كہ جيسے وه مقلد نہيں تھے ويسے یہ بھی مقلد نہيں ہيں ، اس ليئے ہم سب سے پہلے اپنے قارئين كرام پر مختصراً یہ واضح كر ديں كہ سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كبھی بھی غير مقلد نہيں تھے ، بلکہ سلف سے خلف تک كبھی یہ بلا نہيں پائی گئی ۔ وه حضرات اگر علوم ميں رسوخ و كمال و عنايت خداوندی سے درجہ اجتہاد تك پہنچ جاتے تو مجتہد ہوتے اور اگر اس درجہ عليا تك رسائی نہ ہو پاتی تو مقلد ہوتے ، تاريخ فقہ و اجتہاد ميں ايسی نظير نہيں ملتی كہ جو لوگ اجتہاد كي نعمت سے محروم ہوں وه راسخين فی العلم سے بے نياز ہو كر تقليد سے آزادی كے دعوے دار ہو جائيں ۔

واضح ہو كه غير مقلد اسے نہيں كہتے جو تقليد نه كرے بلكه اسے كهتے هيں جو مجتهد نه هو اور تقليد نه كرے ۔ آج كے زمانے ميں جنھيں غير مقلد كها جاتا هے وه يا تو جاهلِ مطلق هوتے هيں يا كچھ پڑھے لكھے ، اجتهاد كي صلاحيت ان ميں قطعاً نهيں پائي جاتي پھر بھي وه تقليدِ ائمه كے دشمن بنے هوئے هيں كيوں كه نه صرف يه كه وه تقليد نهيں كرتے بلكه تقليد ائمه مجتهدين كو شرك كهتے هيں ۔
سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كي حيات طيبه ميں تقليد اور اجتهاد دونوں كے نمونے پائے جاتے هيں ، پهلے آپ مقلد تھے پھر الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبري كي نعمت سے سرفراز فرما كر اجتهاد مطلق كے منصب پر فائز فرما ديا، اور ايسا كبھي نهيں رها كه آپ مجتهد بھي نه هوں اور مقلد بھي نه هوں جيسا كه آج كل كے غير مقلدين كا يهي حال هے۔ هم اپني بات كو واضح كرنے كے ليے كچھ شواهد پيش كرتے هيں : غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے جيسا كه آپ نے فرمایا : هو مذهبُ مامِنا حمدَ بنِ محمّد بنِ حنبل رحمه اللّٰه تعاليٰ ۔ (غنیۃ الطالبین 45 2 غیر مقلدین کی پسندیدہ کتاب۔چشتی)

اور يہی ہمارے امام احمد بن محمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مذهب هے ۔ عند مامنا حمد رحمه الله تعاليٰ ﴿45 2﴾ يه همارے امام احمد بن حنبل رحمه الله تعاليٰ كا مسلك هے ۔ وَقَد نَصَّ ال مامُ حمدُ رحمه اللّٰه۔ ﴿43 1﴾ امام احمد رحمه الله تعاليٰ نے يه صراحت فرمائي هے ۔ لانَّ الا مام حمدَ بنَ حَنبل قال ﴿47 1﴾ اس ليے كه امام احمد نے فرمايا ۔ لا نّه رُوي نّ الامام حمدَ بنَ حنبل قال ۔ اس ليے كه امام احمد بن حنبل سے يه روايت هے كه آپ نے فرمايا ۔

اس طرح كي عبارات غنيۃ الطالبين غیر مقلدین کی پسدیدہ کتاب ميں بے شمار مقامات پر ہيں جن سے عياں هوتا هے كه آپ سيدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ الله عليه كے مقلد تھے، كيوں كه اپنے بيان كرده مسائل كو ان كي طرف منسوب كرنا، ان كے مذهب كو نقل كركے اسے بر قرار ركھنا، اسے اختيار كرنا اور ان سے استناد فرمانا شان تقليد هے۔ مقلد كا كام هے نقل مذهب، اور اس كي دليل هے قول امام، اس كے مظاهر غنيۃ الطالبين ميں كھلي آنكھوں سے جا بجا مشاهده كيے جا سكتے هيں، يهاں تك كه آپ نے ايك مقام پر امام ممدوح عليه الرحمه كے مذهب پر هي وصال پانے كي دعا فرمائي هے۔ الفاظ يه هيں :قال ال مام بو عبدِ اللّٰه حمدُ بنُ محمّدِ بنِ حنبل الشّيباني رحمه اللّٰه و مَاتَنَا علي مذهبه صلًا و فرعًا وحَشَرَنا في زُم رَتِه يه قول امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل شيباني كا هے الله عز و جل ان پر رحم فرمائے اور هميں ان كے مذهب كے اصول و فروع پر وفات دے، اور قيامت كے دن هميں ان كے زمرے ميں اٹھائے۔﴿105 2غنيۃ﴾
يه هے مكمل تقليد ۔ مزيد اطمينان كے ليے درج ذيل شواهد بھي ملاحظه فرمائيں۔ شذرات الذهب ميں هے : ثم تفقه في مذهب الامام احمد بن حنبل علي ابي الوفائ بن عقيل و بي الخطاب و بي الحسين محمد بن القاضي بي يعلي والمبارك المخرمي ۔ وقال ابن السمعاني ھو امام الحنابلۃ وشيخھم في عصره فقيه صالح ۔

آپ نے ابو الوفا بن عقيل اور ابو الخطاب اور ابو الحسين محمد بن قاضي ابو يعلي اور مبارك مخرمي سے مذهب امام احمد بن حنبل كي فقه حاصل كي اور سمعاني فرماتے هيں كه آپ اپنے زمانے ميں حنابله كے امام اور شيخ تھے۔﴿ شذرات الذهب في اخبار من ذهب للمو رخ الفقيه عبد الحئي الحنبلي،ص:199 200۔چشتی﴾

اور سير النبلا ميں آپ كو حنبلي اور عبر ميں مدرس حنابله لكھا هے۔ قاضي القضاۃ محب الدين عليمي نے اپني تاريخ ميں آپ كو حنابله كا امام اور شيخ لكھا هے۔ ايسا هي قلائد الجواهر مشموله سر الاسرار،ص:192 193ميں هے۔ ان تصريحات سے بخوبي واضح هو جاتا هے كه حضور غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه مقلد تھے، غير مقلد نه تھے ۔
فقها كے تين طبقات هيں : ﴿١﴾ مجتهدِ مطلق ﴿٢﴾ مجتهدِ مذهب ﴿٣﴾ مقلد پھر مقلد كے بھي اعليٰ، اوسط، ادنيٰ مختلف مدارج هيں ۔
جس فقيه كو الله تبارك و تعاليٰ نے يه كمالِ علمي عطا فرمايا هے كه وه كتاب و سنت سے مسائل شرعيه كے استنباط كے ليے جامع اصول وضع فرمائيں، اور تمام دلائل پر گهري نظر ركھتے هوئے استنباط احكام فرمائيں، وه ٫٫مجتهد مطلق٬٬ كے نام سے موسوم هوتے هيں جيسے امام اعظم ابو حنيفه ، امام مالك، امام شافعي، امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنهم ۔
اور جس فقيه كو الله عز وجل نے اس حد تک وسعتِ علمي عطا فرمائي هے كه وه مجتهد مطلق كے بيان كرده اصولوں كے پيش نظر فروعي احكام كا استنباط فرمائيں، مگر انھيں اصول وضع كرنے كي استطاعت نه هو وه ٫٫مجتهدِ مذهب٬٬ كهلاتے هيں۔ جيسے امام اعظم كے اصحاب امام ابو يوسف و امام محمدبن حسن، امام زفر وغيره رضي الله تعاليٰ عنهم ۔
اور جس فقيه كو دونوں پر قدرت نه هو وه مقلد هوتے هيں جيسے امام قاضي خاں، صاحب هدايه وغيرهما رحمهم الله تعاليٰ ۔
مذهب حنبلي كے اصول و فروع پر وفات پانے ٬٬كا لفظ اس بات كي شهادت ديتا هے كه يه جمله تحرير فرماتے وقت حضرت سيدي غوث پاك رضي الله تعاليٰ عنه اجتهاد كے منصب پر فائز نه تھے اس ليے آپ اصول و فروع دونوں ميں سيدنا امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كے مقلد تھے ۔
محقق علي الاطلاق شيخ عبد الحق محدث دهلوي رحمۃ الله عليه زبدۃ الآثار ميں رقم طراز هيں : آپ كي خدمت ميں دنياے اسلام كے هر شهر سے استفتا آيا كرتے تھے، جس پر آپ كي آخري راے طلب كي جاتي تھي۔ آپ فقهي مسائل ميں امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديا كرتے تھے ۔ صاحب بهجۃ الاسرار فرماتے هيں كه آپ مجتهد في المذهب تھے، آپ اجتهاد كرتے تھے، آپ كا اجتهاد كبھي مسلك شافعي پر هوتا اور كبھي مسلك حنبلي پر۔ يه مشهور هے كه آپ مذهب حنبلي پر تھے اور بغداد ميں اكثريت علماے حنابله كي هي تھي، چوں كه امام احمد بن حنبل بھي بغداد ميں رهے اس ليے ان كي تعليمات كا اثر زياده تھا۔ آپ كا مقبره بغداد ميں هي هے۔ پهلے امام شافعي رضي الله تعاليٰ عنه بھي بغداد ميں رهے پھر حضرت امام احمد بن حنبل كو بغداد چھوڑ كر خود مصر چلے گئے۔ آپ ﴿حضور غوث اعظم ﴾ حضرت امام احمد بن حنبل كے بڑے مداح تھے ۔ ﴿زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص36 37﴾
اس عبارت سے چند باتيں معلوم هوئيں
﴿1﴾ آپ حنبلي مذهب پر تھے ۔
﴿2﴾ امام شافعي اور امام احمد بن حنبل كے مسلك پر فتوي ديتے تھے، اس كي وجه يه تھي كه سوال كرنے والے كبھي شافعي مذهب كے هوتے، كبھي حنبلي مذهب كے۔ شافعي مذهب كے مقلد كا سوال آتا تو شافعي مذهب پر جواب ديتے اور حنبلي مذهب كے سوال كا جواب حنبلي مذهب پر ديتے، جيسا سوال ويسا جواب ۔
﴿3﴾ مجتهد في المذهب تھے يه درجه ولايت پر فائز هونے كے بعد كا حال هے جيسا كه هم عن قريب واضح كريں گے۔ ان شائ الله تعاليٰ ۔
رئيس المحدّثين حضرت مُلّا علي قاري عليه رحمۃ الباري نے بھي يه تصريح كي هے كه ٫٫سركار غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه حنبلي مذهب ركھتے تھے ۔ (زبدۃ الآثار تلخيص بهجۃ الاسرار، مترجم ص22۔چشتی)
غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مجتهد مطلق تھے: يه آپ كے عنفوان شباب كا حال هے ۔ بعد ميں جب آپ كو بارگاه احديت كي طرف سے قطبيت كبري اور غوثيت عظمي سے نواز ا گيا اور معرفت الٰهي كے ساتھ آپ كو كشف كامل عطا كيا گيا جس سے آپ پر كتاب و سنت كے علوم و معارف ، اور اهل حقائق و ارباب اجتهاد كے اسرار اور مدارك كھل گئے تو آپ خود منصب اجتهاد پر فائز هو گئے ۔
كيوں كه وليِ كامل ، جيسا كه اكابرِ امت نے تصريح فرمائي هے، مذهب معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا۔ وه اپنے كشف كي وجه سے مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي و برابر هوتا هے، بلكه بسا اوقات اس كا يقين بعض اهل اجتهاد سے زياده هوتا هے، وه اپنا علم شريعت كے سر چشمه كتابِ الٰهي سے اخذ كرتا هے جهاں سے اربابِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور اسے قرآن مقدس كے ان تمام مواقع كي معرفت حاصل هوتي هے جو احاديث نبويه كے مآخذ هوتے هيں، اس ليے وه علماے امت كي تقليد كے بجاے صرف صاحبِ شريعت كي تقليد كرتا هے ۔
عارف صمداني، قطب رباني سيدي امام عبد الوهاب شعراني رضي الله تعاليٰ عنه اپني كتاب مستطاب ٫٫ميزان الشريعۃ الكبري٬٬ ميں اس امر كي وضاحت كرتے هوئے رقم طراز هيں : فمن اطلع علي ذلك من طريق كشفه ر يٰ جميع المذاهب و قوالَ علمائها متّصلۃً بِعَينِ الشريعۃ، و شارعۃً ليها كاتّصالِ الكفّ بال صابع والظلّ بالشّاخِص ومثل هذا لا يومر بالتعبّد بمذهب معين لشهوده بتساوي المذاهب في ال خذ من عينِ الشريعۃ و نّه ليس مذهب ولي بالشّريعۃ من مذهب ل ن كل مذهب عنده متفرع من عين الشريعۃ وصاحبُ هذا الكشف قد ساوي المجتهدين في مقام اليقين، وربّما زاد علي بعضهم لاغتراف علمه من عين الشريعۃ ولا يحتاج لي تحصيل آلات الاجتهاد الّتي شرطوها في حق المجتهد ﴿ص14، ج1﴾

جو ولي اپنے كشف كے ذريعه شريعت كي اس ميزان پر مطلع هو جائے وه يه مشاهده كرتا هے كه تمام مذاهب اور علما كے اقوال شريعت كے چشمے سے جُڑے هوئے هيں اور سب كے سب اسي كي طرف به رهے هيں، اس چشمے كے ساتھ مذاهب كا اتصال ايسا هي هے جسے انگليوں كے ساتھ هتھيلي اور جسم كے ساتھ سائے كا اتصال هوتا هے۔ ايسا صاحب كشف ولي كسي مذهبِ معين كي تقليد پر مامور نهيں هوتا، كيوں كه وه ديكھ رها هوتاهے كه سارے مذاهب ، شريعت كے سر چشمه قرآن سے ماخوذ و مستند هونے ميں هم رتبه هيں، اور اس حيثيت سے كوئي بھي مذهب دوسرے مذهب سے افضل نهيں هے، كيوں كه اس كي نگاه ميں هر مذهب شريعت هي كے چشمے سے پھوٹا هوا ايك سوتا هے يه صاحب كشف ولي مقام يقين ميں مجتهد كے مساوي هوتا هے، بلكه بسا اوقات يقين ميں بعض مجتهدين سے زياده هوتا هے كيوں كه يه اپنے علم كا اكتساب شريعت كے منبع سے كرتا هے اور اجتهاد كے ان آلات كے حاصل كرنے كا محتاج نهيں هوتا جو مجتهد كے ليے شرط اور ضروري هيں ۔

نيز اسي مفهوم كو انھوں نے ايك دوسرے مقام پر اپنے مخصوص انداز بيان ميں اس طرح واضح كيا هے : اگر تم كهو كه جو شخص شريعت كے سر چشمه ﴿قرآن كے علوم و معارف ﴾ پر مطلع هو جائے وه منبعِ شريعت سے اكتساب علم كرنے ميں مجتهد كا شريك هوتا هے اور اسے تقليد كا حكم نهيں هوتا، تو جواب يه هے كه واقعه ايسا هي هے، كيوں كه جس كے ليے بھي ولايتِ محمدي ثابت هو جائے وه احكام شرع كو وهيں سے اخذ كرتا هے جهاں سے اهلِ اجتهاد اخذ كرتے هيں، اور وه علما كي تقليد كے بجاے رسول الله صلي الله تعاليٰ عليه وسلّم كي تقليد كرتا هے ۔ ﴿ص26، ج 1﴾
اسي كتاب ميں ايك دوسرے مقام پر وليِ كامل كي پهچان اس طرح كرائي گئي هے : لا يبلغ الوليُّ مقامَ الكمال لّا ن صار يعرف جميع منازعِ ال حاديث الواردۃ عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه تعاليٰ عليه وسلّم، ويعرف من ين خَذَها الشّارِعُ من القرآن العظيم ف نّ اللّٰه تعاليٰ قال: ٫٫مَا فَرَّط نَا فِي ال كِتَابِ مِن شَي ئ ٬٬ فجميع ما بَ ےَّ نَ ت ه الشريعۃُ من ال حكام هو ظاهر الم خذ للولي الكامل من القرآن كما كان عليه ال ئمّۃ المجتهدون ولولا معرفتهم بذلك ما قدروا علي استنباط ال حكام الّتي لم تُصرِّح بها السُّنّۃ ۔

وليِ كامل مقام كمال كو اس وقت پهنچتا هے جب وه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي ساري احاديث كے ايك ايك ماخذ كا عارف هو جائے، اور يه جان لے كه شارع عليه الصلاۃ والسلام نے قرآن عظيم سے ان احاديث كو كهاں سے اخذ فرمايا هے۔ كيوں كه الله عز وجل كا ارشاد هے كه ٫٫هم نے قرآن ميں كوئي بھي چيز اٹھا نه ركھي٬٬ ۔ وليِ كامل كے ليے تمام احكام شرع كا ظاهرِ ماخذ قرآن مقدس هے جيسا كه ائمه مجتهدين كے ليے احكام شرع كا ماخذ قرآن مقدس هے۔ اگر انھيں اس ماخذ پر آگاهي نه هوتي تو سنت نبويه ميں جن احكام كي تصريح نهيں هے، ان كے استنباط پر قادر نه هوتے ۔

اس تفصيل سے يه امر بخوبي واضح و روشن هو گيا كه وليِ كامل كي شان تقليد سے بالا تر هے كيوں كه يه خود مجتهد هوتا هے، اور شريعت كے سر چشمه قرآن سے احكام اخذ كرتا هے ۔
اور يه بھي ايک مسلم الثبوت حقيقت هے كه غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، الله تعاليٰ كے بڑے جليل القدر كامل و اكمل ولي تھے، آپ كي شان مرتبه كمال ميں تمام اولياے كاملين سے بالا تھي، اسي ليے آپ نے ارشاد فرمايا: ٫٫قَدَمي هٰذِه عَلَيٰ رَق بَۃِ كُلِّ وَلِيِّ اللّٰه٬٬ ميرا يه قدم تمام اوليائ الله كي گردن پر هے۔ اور يهي وجه هے كه جب اس اعلان كي شهرت كائنات ارضي كے مشايخِ وقت تك پهنچي تو متقدمين نے اس اعلان كے سامنے سر تسليم خم كر ديا، معاصرين كي گردنيں، جھك گئيں، اور دنيا كے تمام مشائخ خواه حاضر تھے يا غائب، چھوٹے تھے يا بڑے، مشرق ميں تھے يا مغرب ميں، هر ايك نے تصديق اور تائيد كي۔ اس ليے آپ بلا شبهه مجتهد تھے اور فقهي مسائل ميں اپنے اجتهاد پر عمل كرتے تھے۔ البته آپ كا اجتهاد كبھي حنفي مذهب كے مطابق هوتا اور كبھي مالكي، شافعي يا حنبلي كے موافق هوتا، اس ليے آپ چاروں مذاهب پر فتوي ديتے تھے ۔
اور حضرت ملا علي قاري ، نيز غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ كے دوسرے تذكره نگاروں نے جو يه انكشاف كيا هے كه : آپ حنبلي المذهب تھے، ليكن اپنے زمانه ميں چاروں مذاهب ﴿حنفي، شافعي، مالكي و حنبلي﴾ پر فتوي ديا كرتے تھے ۔ ﴿نزهۃ الخاطر الفاتر ص22﴾
اس كا مطلب يه هے كه سائل جس مذهب كا مُقلِّد هوتا اسي كے مطابق آپ فتوي صادر كرتے۔ يه مطلب نهيں هے كه آپ هر امام كے مذهب پر عمل كرتے تھے جيسا كه غير مقلدين زمانه نے سمجھا۔اور منصبِ اجتهاد پر فائز هونے كے بعد آپ كا اجتهاد انھيں چاروں مذاهب ميں سے كسي كے موافق هوتا تو آپ فتوي اپنے اجتهاد كے مطابق صادر كرتے مگر اسي كے ساتھ ائمه اربعه ميں سے كسي امام كي موافقت بھي هو جاتي۔ آپ كا اجتهاد كبھي چاروں مذاهب سے باهر نه هوتا ۔
بسا اوقات ايسا بھي هوتا هے كه ولي كامل اجتهاد كے منصب پر پهنچ جاتا هے اور اپنے هي اجتهاد پر عمل بھي كرتا هے ليكن جس امام كي وه پهلے تقليد كر چكا هے اس كے ادب ميں وه اپنے آپ كو مقلد ظاهر كرتا هے يا اس كا اجتهاد امام مجتهد كے موافق هوتا هے امام شعراني فرماتے هيں : اگر تم يه كهو كه وليِ كامل بلا شبهه كسي امام كا مقلد نهيں هوتا وه اپنا علم اسي چشمے سے اخذ كرتا هے جهاں سے مجتهدين كے مذاهب كے سوتے به رهے هيں حالاں كه هم ديكھتے هيں كه كچھ اوليا بعض ائمه كي تقليد كرتے هيں۔ تو جواب يه هے كه بعض اوليا كي يه تقليد اس كے مقام كمال تك پهنچنے سے پهلے هوتي هے يا وه اس منصب پر پهنچ چكا هوتا هے ليكن اس مسئله ميں اپنے آپ كو بعض ائمه كے ادب ميں ان كے مذهب كا مقلد هونا ظاهر كرتا هے حالاں كه اس ولي كا عمل اس مجتهد كے قول پر اس ليے هوتا هے كه اس كي دليل پر مطلع هوتا هے اس كے قول پر از راه تقليد عمل كرنے كے ليے ايسا نهيں كرتا، بلكه اس وجه سے ايسا كرتا هے كه مجتهد كا قول اس ولي كے كشف و اجتهاد كے موافق اترتا هے تو حاصلِ كلام يهي هوا كه يه ولي صرف شارع عليه السلام كي تقليد كرتا هے بلكه اس مقام پر هر ولي صاحب شريعت حضور انور صلي الله تعاليٰ عليه وسلم هي سے علم اخذ كرتا هے اور جس مسئلے ميں وه اپنے سامنے اپنے نبي كے قدم كا مشاهده نه كرے اس پر ايك قدم چلنا بھي حرام سمجھتا هے۔ ﴿ص28 29﴾
اور خاص سركار غوث اعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق امام شعراني فرماتے هيں كه : وقد قلتُ مرّۃً لِسےّدي علي الخوّاص رضي اللّٰه تعاليٰ عنه : كيف صحّ تقليدُ سےّدي الشيخ عبدِ القادر الجيليّ لل مام حمد بن حبنل و سےّدي محمد الحنفي الشاذلي لل مام بي حنيفۃ مع اشتهارهما بالقطبيۃ الكبريٰ وصاحبُ هذا المقام لا يكون مقلّدًا لّا للشارع وحده۔؟ فقال رضي اللّٰه عنه: وقد يكون ذلك منهما قبل بلوغهما لي مقام الكمال ثم لمّا بلغا ليه استصحب الناسُ ذلك اللقب في حقهما مع خروجهما عن التقليد انتهي فاعلم ذلك ﴿مقدمۃ ميزان الشريعۃ ص29۔چشتی﴾

ميں نے اپنے شيخ سيدي علي خوّاص رضي الله تعاليٰ عنه سے ايك مرتبه دريافت كيا كه سيدي شيخ عبد القادر جيلي كا امام احمد بن حنبل كي اور سيدي شيخ محمد حنفي شاذلي كا امام ابو حنيفه كي تقليد كرنا كيو ں كر درست هے جب كه يه حضرات قطبيت كبريٰ كے ليے مشهور هيں اور ايسے مرتبه كے ولي صرف شارع كي تقليد كرتے هيں؟ تو انھوں نے فرمايا كه يه دونوں بزرگ مقام كمال تك رسائي حاصل كرنے سے پهلے تقليد كرتے تھے پھر جب يه حضرات اس مقام رفيع پر فائز هو گئے تو لوگوں نے ان كے حق ميں اسي لقب كو باقي ركھا حالاں كه يه تقليد كے حكم سے بالا تر هو كر مجتهد هو چكے تھے ۔

اعلي حضرت امام احمد رضا عليه الرحمۃ والرضوان نے ايك دوسري توجيه فرمائي هے جو بجاے خود بهت نفيس هے۔ رقم طراز هيں : حضور ﴿غوث پاك﴾هميشه سے حنبلي تھے اور بعد كو جب عينُ الشريعۃ الكُبري تك پهنچ كر منصب اجتهاد مطلق حاصل هوا، مذهب حنبلي كو كمزور هوتا هوا ديكھ كر اس كے مطابق فتوي ديا كه حضور محي الدين هيں اور دين متين كے يه چاروں مذاهب ﴿مذهب حنبلي و مذهب حنفي وغيرهما﴾ ستون هيں۔ لوگوں كي طرف سے جس ستون ميں ضعف آتا ديكھا اس كي تقويت فرمائي۔ ﴿فتاوي رضويه دوازدهم ص227﴾

نيز فرماتے هيں : حضرت سيدنا غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه محي الدين هيں، اِحياے دين كے ليے قائم كيے گئے﴿﴿١﴾زبدۃ ا لآثار ميں هے: وجه تسميه مشايخ قادريه بيان كرتے هيں كه لوگوں نے آپ سے ٫٫محي الدين٬٬ لقب كي وجه دريافت كي تو آپ نے فرمايا: ٫٫ميں ايك دفعه ايك لمبے سفر سے بغداد كي طرف لوٹ رها تھا، ميرے پاو ں ننگے تھے۔ مجھے اس نے سلام كيا ميں نے ٫٫وعليكم السلام٬٬ كها تو مجھے كهنے لگا كه ميرے قريب هو جاو ۔ ميں نزديك هوا تو مجھے كهنے لگا: مجھے اٹھاو ۔ ميں نے اُسے اٹھا كر بٹھاياتو اس كا جسم اچھا توانا نظر آنے لگا اور اس اس كے چهرے پر رونق نظر آنے لگي مجھے اُس نے پوچھا كيا تم مجھے پهچانتے هو؟ ميں نے نفي ميں جواب ديا تو كهنے لگا: مَيں تمھارا دين هوں جو اس قدرنحيف و نزار هو گيا تھا چنانچه آپ نے ديكھ ليا هے كه آپ كي وجه سے مجھے الله تعاليٰ نے از سر نو زندگي بخشي هے۔ آج سے تمھارانام ٫٫محي الدين ٬٬ هوگا ۔

جب ميںجامع مسجد كي طرف واپس آيا تو مجھے ايك شخص ملا اور مجھے كهنے لگا: يا سےّد محي الدين۔ ميں نے نماز ادا كي تو لوگ ميرے سامنے ادبًا كھڑے هو گئے اور هاتھوں كي بوسه دينے لگے اور زبان سے ٫٫يا سےّد محي الدين٬٬ پكارتے جاتے تھے حالاں كه اس سے پهلے كوئي بھي مجھے اس لقب سے نهيں پكارتا تھا۔ ﴿ص38﴾ايسا هي نفحات الانس من حضرات القدس ميں بھي هے۔﴾

اور مذهب حنبلي اسلام كا رُبع ﴿چوتھائي حصه﴾ هے حضور سيد المرسلين صلي الله تعاليٰ عليه وسلم نے سيدنا امام احمد بن حبنل رضي الله تعاليٰ عنه سے فرمايا: جَعَل تُك رُبُعَ ال سلام هم نے تمھيں اسلام كا چهارم بنايا۔يه مذهب ختم هونے كے قريب تھا لهذا اس كے احيا كے ليے اس پر افتا فرماتے ۔ ﴿فتاوي رضويه ص33، ج11﴾

اس وضاحت سے امام احمد رضا عليه الرحمه نے يه اشاره بھي فرما ديا كه مذهب حنبلي كي موافقت اس كے احيا كے ليے فرمائي، اس ليے نهيں كه مذهب حنفي ضعيف هے بلكه يه تو دلائل كے لحاظ سے قوي هے اور حضرت امام اعظم رضي الله تعاليٰ عنه كو ائمه ثلثه پر شرف تابعيت بھي هے جس كي وجه سے اسے يه خاص شرف بھي حاصل هے ۔
خلاصه كلام يه كه : حضور سيدي غوث اعظم رضي الله تعاليٰ عنه ابتدائً مقلد تھے، حضرت امام احمد بن حنبل رضي الله تعاليٰ عنه كي تقليد كرتے تھے بعد ميں جب الله تعاليٰ نے آپ كو قطبيت كبريٰ كے منصب پر فائز فرما كر اجتهاد مطلق كي نعمت سے شرف ياب فرمايا تو آپ كتاب الله و سنت رسول الله سے خود استنباطِ احكام فرماتے اور اس كے مطابق فتاوي صادر فرماتے كه مجتهد مطلق اسي كا مكلف هے اس كے ليے تقليد روا نهيں ۔
هاں آپ كا اجتهاد ائمه اربعه رضي الله تعاليٰ عنهم ميں سے هي كسي كے اجتهاد كے موافق هوتا كبھي امام اعظم ابو حنيفه كے، كبھي امام مالك كے ، كبھي امام شافعي كے، اور زياده تر امام احمد بن حنبل كے ۔
مگر ايسا كبھي نه هوا كه آپ كا كوئي اجتهاد ان چاروں مذاهب سے خارج هو تو حق آج انھيں چاروں مذاهب ميں منحصر هے اور جو اس سے باهر هے وه سواد اعظم اهل سنت و جماعت سے باهر اور ٫٫مَن شَذَّ شُذَّ في النّار٬٬ كا مصداق هے جيسا كه علمائے امت نے اس كي صراحت فرمائي ۔ (طالبِ دعا ودعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday, 27 October 2023

تعلیماتِ حضرت سیدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ

تعلیماتِ حضرت سیدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
محترم قارئینِ کرام : جب بھی امت مسلمہ علمی ، عملی ، روحانی اور سیاسی زوال کا شکار ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے مسلم امہ کو کسی ایسے فرد سے نوازا جس کے وجود نے صحرائوں کو گلشن بنادیا اور مسلمانوں کو سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ۔ اس بات کی نشاندہی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماگئے ہیں : إِنَّ ﷲَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم جلد 4 صفحہ 109، الرقم : 4291)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس امت کی (سربلندی کےلیے) ہر صدی کے آغاز میں ایسی شخصیت کو پیدا فرماتا ہے جس کے ذریعے تجدید و احیائے دین کا فریضہ سرانجام پاتا ہے ۔

قطب ربانی سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایسی ہی حیات آفرین شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔ جن کی کتاب زیست کا ایک ایک ورق خزاں رسیدہ چمن کےلیے باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ۔ آپ کی تعلیمات نے عالم اسلام کے مرکز بغداد میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو حیات نو کا مژدہ سنا کر مسلم امہ کے نحیف و ناتواں بدن میں نئی روح پھونک دی ۔ تب سے اب تک آپ کی تعلیمات امت مسلمہ کو روح کی غذا فراہم کررہی ہیں ۔ عصر حاضر میں آپ کی نورانی تعلیمات ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہو گئی ہیں کیونکہ مادیت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ قوت کے ساتھ انسانیت اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ ایسے حالات میں سکون نا آشنا دلوں سے خود غرضی ، لالچ اور مال کی محبت کو نکال کر محبت، ایثار اور سکون سے ہمکنار وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دل و دماغ قرآن و حدیث کی روح سے آشنا ہوں ۔ آج بھی اگر مسلم امہ حضرت غوث الاعظم  رحمۃ اللہ علیہ کی ان حیات آفرین تعلیمات کو اپنالے جو قرآن و حدیث کے صحیح فہم پر مبنی ہیں تو آج بھی عالم اسلام اپنی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے تقریباً چونتیس سال بعد چھٹی صدی کے آغاز میں رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کےلیے میدان کارزار میں اتر چکے تھے ۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز ، مذہبی کشمکش ، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا ۔ ان حالات میں آپ نے علم کی ترویج اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب بپا کر دیا ۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا ۔ تجدید و احیائے دین کےلیے آپ کی کوششوں کی وجہ سے ہی آپ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا گیا ۔

ملک شام کے ایک سکالر ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی اپنی کتاب الشیخ عبدالقادر الجیلانی الامام الزاہد القدوۃ کے صفحہ 102 پر لکھتے ہیں : ہم بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں : پہلا حصہ 488ھ میں آپ کی بغداد آمد سے 521ھ میں مسند تدریس پر فائز ہونے تک ہے ۔ دوسرا حصہ 521ھ سے لے کر 562ھ میں آپ کے وصال تک ہے اور یہ علم کے چراغ جلانے، تعلیم دینے اور وعظ و ارشاد کا مرحلہ ہے ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کے اخلاقی زوال پر بہت دلگیر ہوتے اور مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے بہت خوبصورت اور بلیغ انداز میں دین کے دامن سے وابستہ ہونے کی تلقین فرماتے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے : فاجروں ، فاسقوں ، ریا کاروں ، بدعات میں مبتلا گمراہوں اور خوبیوں سے محروم مدعیوں کے باعث اسلام گریہ کناں ہے اور مدد کو پکار رہا ہے ۔ کتا اپنے مالک کو اس کی حفاظت ، شکار، زراعت اور جانوروں کے معاملے میں نفع دیتا ہے ۔ حالانکہ اس کتے کا مالک اسے رات کے وقت ایک لقمہ یا چند چھوٹے چھوٹے لقمے کھلاتا ہے اور اے انسان تو اپنے رب کی نعمتیں پیٹ بھر کر کھاتا ہے اور ان نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پورا نہیں کرتا اور ان نعمتوں کا حق ادا نہیں کرتا ، اس کے احکام کو بجا نہیں لاتا اور اس کی حدود کا خیال نہیں رکھتا ۔ (الفتح الربانی صفحه31،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں اسلامی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپ اپنے وابستگان کے دل میں بھی یہی غیرت و حمیت دیکھنا چاہتے تھے ۔ آپ کے یہ جذبات اور احساسات الفتح الربانی میں منقول درج قول سے عیاں ہیں : تیرا برا ہو ، تیرے اسلام کی قمیض تار تار ہے ، تیرے ایمان کا کپڑا ناپاک ہے ، تو برہنہ ہے ، تیرا دل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ، تیرا باطن مکدر ہے ، تیرا سینہ اسلام کےلیے کشادہ نہیں ۔ تیرا ظاہر آراستہ اور باطن خراب ہے ، تیرے صحیفے سیاہ ہو چکے ہیں اور تیری دنیا جو تجھے بہت عزیز ہے تیرے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے ، قبر اور آخرت تیرے سامنے ہیں ۔ اپنے حال کی آگہی رکھ ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ میں کچھ ایسی تاثیر رکھ دی تھی جس کی مثال بہت کم ملے گی ۔ غنیۃ الطالبین کی چودہ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ جب بولنے والے کی زبان کے پیچھے احوال بھی موجود ہوں تو ایک ایک بات دلوں میں اترتی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر عبدالرزاق الگیلانی حضرت غوث صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی تاثیر کے بارے میں لکھتے ہیں : وعظ و ارشاد کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت ہی کم بیان کی وہ قوت عطا ہوئی ہو گی جو حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرحمت ہوئی ۔ آپ حضرت کے مواعظ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر ورق اور ہر صفحہ پر گفتار کی تاثیر اور قوت واضح طور پر محسوس کریں گے بلکہ آپ اس بات کو بلا تخصیص کسی مجلس کی چند سطور پر پڑھ کر بھی محسوس کرسکتے ہیں ۔ (الشيخ عبدالقادر الجيلانی صفحہ 46)

شہباز لامکانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی اہمیت اور وسیع افادیت کا ذکر کرتے ہوئے ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں : الشیخ عبدالقادر 520ھ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد لوگوں کے سامنے (معلم و مربی کی حیثیت سے) ظاہر ہوئے تو آپ کو لوگوں میں عظیم مقبولیت حاصل ہوئی ۔ آپ کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں نے اپنے عقائد کو درست کیا اور آپ سے عظیم نفع حاصل کیا۔ آپ کے دم قدم سے (معتزلی اور اسماعیلی مذہب کے مقابلے میں) مذہب اہل سنت کو تقویت ملی ۔ (قلائد الجواهر علامه الشيخ محمد بن يحيیٰ صفحه 33،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ آپ ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے والد ہفتے میں تین دن وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ جمعہ اور منگل کی صبح کو اپنے مدرسہ میں جبکہ اتوار کی صبح کو اپنی خانقاہ میں وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ (شذرات الذهب فی اخبار من ذهب امام عبدالحی بن احمد الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ جلد 6 صفحہ 332)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ حسنہ نے جہاں معصیت کا شکار مسلمانوں کو شریعت کی پیروی پر ابھارا وہیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد کو بھی متاثر کرکے ایمان کی چاشنی سے آشنا کیا ۔ آپ کے ہاتھ پر اہل بغداد کی بڑی تعداد تائب ہوئی اور بغداد کے اکثر یہودی اور عیسائی آپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے ۔ (الفتح الربانی صفحہ 220)

آج جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ، اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے ۔ سائنسی انکشافات ، برقی ذرائع علم (انفارمیشن ٹیکنالوجی) نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے ۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے ۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے ۔ علم کے مدعی ! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے ۔۔۔ ؟ تیرا ڈر اور وہشت کہاں ہے ۔۔۔ ؟ گناہوں کا اقرار کہاں ۔۔۔ ؟ رات اور دن عبادت میں ایک کر دینا کہاں ۔۔۔ ؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب للہ والبغض للہ کہاں ۔۔۔ ؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار ، کھانا ، نکاح ، دکان ، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے ، اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر ۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 82،چشتی)

دین اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے وہ اخلاص کے ساتھ کرے ۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل بارگاہ الہٰی میں درجہ قبولیت پانے سے محروم رہتا ہے ، اگر وہ ریاکاری اور دنیا والوں کے دکھاوے کےلیے کیا جائے ۔ جبکہ اخلاص سے کیا گیا کم تر عمل بھی حضورِ حق میں بڑی قدرو منزلت کا حامل ہوتا ہے ۔ صوفیاء کرام کی حیاتِ طیبہ کا اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عمل خالص اللہ کی رضا کےلیے کرتے ہیں اور اپنے مریدین اور مخلصین کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔ اخلاصِ عمل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجھ پر افسوس ! تو مشرک ، منافق ، بے دین ، مرتد ہے ۔ تجھ پر افسوس ! ملمع کس کو دکھاتا ہے ، جو آنکھوں کی خیانت اور سینے کے رازوں سے واقف ہے ۔ تجھ پر افسوس ! نماز میں کھڑا ہوکر اللہ اکبر کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے ۔ تیرے دل میں مخلوق ، اللہ سے بڑی ہے ۔ اللہ کے سامنے توبہ کر ۔ نیک عمل غیر کےلیے نہ کر اور نہ دنیا اور نہ آخرت کےلیے کر بلکہ خاص اللہ کی ذات کا ارادہ رکھ ۔ ربانی پرورش کا حق ادا کر ۔ تعریف اور صفتِ عطا اور بے عطا کےلیے عمل نہ کر ۔ تجھ پر افسوس ! تیرا رزق کم زیادہ نہ ہوگا ، نیکی اور بدی کا تجھ پر حکم لگ چکا ہے ، وہ ضرور آئے گی ۔ جس چیز میں فراغت ہے ، اس میں مشغول نہ ہو ۔ اس کی عبادت میں لگا رہ ، حرص کم ، امید کو تاہ اور موت آنکھوں کے سامنے رکھ ، ضرور نجات حاصل کرے گا ۔ تمام احوال میں شریعت کی پابندی کر ۔ (فتح الربانی صفحه 167)

نفاق ، ریاکاری ، غرور و تکبر ، حسد بغض ، کینہ ایسے باطنی امراض ہیں کہ جو بڑے سے بڑے عمل کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں لیکن یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان ان سے نجات نہیں پاتا ، اس وقت تک نہ وہ روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے اور نہ اس میں ترقی و کمال حاصل کر سکتا ہے ۔ اگرچہ یہ باطنی بیماریاں ہیں مگر ان کے تباہ کن اثرات انسان کی ظاہری شخصیت پر بھی پڑتے ہیں اور یوں وہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے ایک قابلِ رحم مریض کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے ۔ مگر حکیمِ حاذق جو ان روحانی امراض کا ماہر معالج ہو اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ وہ شیخِ کامل اور مردِ خدا ہوتا ہے جو اپنی نگاہِ کیمیا ساز سے باطن کی بیماریوں کا علاج کر کے مریض کو روحانی حیاتِ نو سے بہرہ یاب کر دیتا ہے ۔ وہ معالج کون اور کہاں سے دستیاب ہوتے ہیں ؟ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ریا کار ! تجھ پر افسوس ، اللہ کو دھوکہ نہ دے ، عمل کرکے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کےلیے ہے حالانکہ مخلوق کےلیے ہے ۔ ان کو دکھاتا ہے اور ان سے نفاق کرکے چاپلوسی کرتا ہے اور اپنے رب کو بھلا دیتا ہے ۔ تو عنقریب دنیا سے مفلس ہو کر نکلے گا ۔ باطن کے بیمار ! اس مرض کا علاج کر ، اس کی دوا اللہ کے بندوں ، صالحین کے سوا اور کہیں نہ ملے گی ۔ ان سے دوا لے کر استعمال کرے گا تو ہمیشہ کےلیے تندرستی اور صحتِ ابدی حاصل ہو گی ۔ تیرا دل ، باطن اور خلوت اللہ کے ساتھ ہو جائے گی ۔ تیرے دل کی آنکھیں کھلیں گی اور تو اپنے رب کو دیکھے گا ۔ تیرا شمار محبین میں ہو گا جو اس کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اللہ کے سوا غیر کو نہیں دیکھتے ہیں ۔ تیرا دل تو بدعت سے پُر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کس طرح کر سکتا ہے ؟ ۔ (فتح الربانی صفحه 253،چشتی)

آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں ، جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر ، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں ، دوسرے نے نہیں ۔ (فتح الربانی صفحه 839)

آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : غیر اللہ کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو ۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو ۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا ۔ (فتح الربانی صفحه 66،چشتی)

آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : خلقت کی شکایت کرنے سے اپنی زبان کو روک ۔ رضائے الہٰی کے لیے اپنے نفس اور مخلوق کا دشمن بن جا ۔ اس کی تابع فرمانی کا حکم کر اور گناہ سے روک ۔ ان کو گمراہی و بدعت ، حرص اور موافقتِ نفس سے باز رکھ ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابع فرمانی کا حکم کر ۔ (فتوح الغیب صفحه 133)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ تربیت یہ تھا کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں نہ صرف روحانی امراض کی نشاندہی کی بلکہ ان بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے نسخہ بھی تجویز کیا اور علاج بھی بتایا کہ کس طرح ان سے خلاصی پاکر قربِ الہٰی حاصل کیا جاسکتا ہے ؟

روحانی مقامات کی ترقی و کمال میں رزقِ حلال کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام کے مال سے ہوئی ہو گی ۔ پس جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے  ، اس کے منہ سے نکلنے والی دعا کب قبول ہوسکتی ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی آداب و اخلاق کے اندر کسبِ حلال پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مواعظِ حسنہ میں کسبِ حلال کی اہمیت کو نہ صرف واضح کیا ہے بلکہ اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ بارگاہِ الہٰی کے قرب کے لیے پیٹ میں جانے والے ہر لقمے کا حلال اور پاکیزہ ہونا بھی شرط ہے ۔ بصورتِ دیگر اس راہ کا مسافر منزلِ مراد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس سلسلہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نیک کمائی اور سبب سے تعلق لازم کرو یہاں تک کہ ایمان قوی ہو جائے ، پھر سبب کو چھوڑ کر مسبب کی طرف چلا آ ۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنے ابتدائی احوال میں کسب کرتے ، قرض لیتے اور پابندِ اسباب رہتے ہیں اور آخر میں توکل کرتے ہیں ۔ کسب اور توکل کو شروع اور اخیر میں شریعۃً اور حقیقۃً جمع کر لیتے ہیں ۔ بیٹا ! نفس کو خواہشوں اور لذتوں سے روکو ، اس کو پاک روزی کھلاٶ ، نجس نہ بنو ، پاک حلال ہے اور حرام نجس ہے ۔ نفس کو غذائے حلال دو تاکہ اترائے نہیں اور ناک منہ چڑھا کر گستاخ نہ بنے ۔ (فتح الربانی صفحه 165،چشتی)

دل کی زندگی اور موت کی وضاحت میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بیٹا ! حرام کی روزی سے تیرا دل مرتا ہے اور حلال کی روزی سے زندہ ہوتا ہے ۔ ایک لقمہ تیرے دل کو منور کرتا ہے اور ایک لقمہ سیاہ کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دنیا میں اور ایک لقمہ آخرت میں مشغول کرتا ہے ۔ ایک لقمہ دونوں سے بے رغبت کرتا ہے اور ایک لقمہ خالق میں مشغول کرتا ہے۔ حرام کی روزی دنیا میں مشغول کراتی ہے اور گناہوں سے پیار کراتی ہے ۔ حلال طعام آخرت میں لگاتا ہے ، اطاعتِ الہٰی سے محبت کراتا ہے اور دل کو مولیٰ سے قریب کرتا ہے ۔ کیا تو نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا : من لم یبال من این مطعمه ومشربه لم یبال اللہ من ای باب من ابواب النار ادخله ۔
ترجمہ : جو شخص اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا کھانا پینا کہاں سے ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ دوزخ کے دروازوں میں سے اس کو کس دروازے میں سے داخل کرے ۔ (فتح الربانی صفحه 232،چشتی)

آج عدمِ برداشت کے کلچر نے پوری دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے انسانی کا امن خاک میں ملا دیا ہے ۔ دہشت گردی کا فروغ اسی کا ایک لازمی نتیجہ ہے ۔ اسلام اخوت و محبت ، تحمل و بردباری کا علمبردار دین ہے مگر آج کچھ نادان دوستوں کی غلط کاریوں اور خود تراشیدہ تصورات کی وجہ سے ادیانِ عالم میں محبتوں کے امین اس دین کو دہشتگرد اور امن دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔ صوفیائے کرام علیہم الرحمہ کی تعلیمات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں مذہب کے نام پر انسانوں میں دوریاں پیدا نہیں کیں بلکہ مخلوقِ خدا ہونے کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا ۔ چنانچہ ان کے اس طرزِ عمل سے گلشنِ اسلام میں بہار آئی اور لوگ ایسے مخلص مبلغینِ اسلام کے طرزِ عمل ، سیرت و کردار سے متاثر ہو کر دامنِ اسلام میں پناہ لینے لگے اور اس طرح اسلام انسانیت کے خیر خواہ ہونے کے باعث ایک آفاقی دین بن گیا اور چہار دانگِ عالم میں دینِ محمدی کا پھریرا لہرانے لگا ۔ برداشت کا درس دیتے ہوئے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیٹا ! برداشت کو اپنے اوپر لازم پکڑ اور شر کو دور کر ۔ کلموں کے بہت سے ساتھی ہیں ۔ جب تم سے کسی نے ایک کلمہ شرارت کا کہا اور تم نے اس کا جواب دیا تو اس کلمۂ بد کے اور شریر ساتھی آجائیں گے حتی کہ تم دونوں کلام کرنے والوں کے درمیان شرارت قائم ہوجائے گی ۔ (فتح الربانی صفحه 109،چشتی)

قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ عزیمت کی راہ پر چلنے والوں میں ایک نمایاں شخصیت تھے ۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کے محببین بھی رخصت کے متلاشی نہ بنیں بلکہ عزیمت کی اسی راہ پر چلیں جس پر چلنے والے پچھتائے نہیں بلکہ خوش ہی رہے ۔ الفتح الربانی صفحہ 142 میں درج ہے کہ : پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں مخلوق کو نصیحت کرنے کا جذبہ ڈال دیا اور اسے میری زندگی کا مقصد بنا دیا ۔ اے لوگو ! رخصت کی تلاش سے گریز کرو اور عزیمت کی راہ کو اپناٶ جس نے رخصت کو اپنا کر عزیمت کو چھوڑ دیا اس کا ایمان خطرے میں ہے ۔ عزیمت کی راہ مَردوں کےلیے ہے کیونکہ وہ انتہائی کٹھن اور تلخ ہے اور رخصت عورتوں اور بچوں کے لیے ہے کیونکہ وہ انتہائی آسان ہے ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین اور شاگردوں کو فقہ و تصوف کی تلقین فرمایا کرتے اور خصوصی طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتے تھے کہ جو تصوف ، فقہ کے تابع نہیں وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا نہیں ۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : شریعت جس حقیقت کی گواہی نہ دے وہ زندیقیت ہے۔ اپنے رب کی بارگاہ کی طرف کتاب و سنت کے دو پروں کے ساتھ پرواز کرو ۔ اپنا ہاتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں دے کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دو ۔ فرض عبادتوں کا ترک زندیقیت اور گناہوں کا ارتکاب معصیت ہے ۔

حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہمہ جہت تعلیمات ہر دور میں مسلمانوں کےلیے مشعل راہ رہی ہیں اور یہ تعلیمات آج بھی اہل اسلام کےلیے نشان راہ ہیں اور آنے والے کل میں بھی اپنی اہمیت کو منواتی رہیں گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : حقوق سے مراد : حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری ۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں : (1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد ۔

حقوق اللہ : اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتادیے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا ۔

حقوق العباد : عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کےلیے ضروری یعنی حقوق ۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر ذات و نسل ، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں ۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ۔ والدین اگر اولاد کےلیے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کےلیے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں دراز گوش پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا : اے معاذ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کرے وہ اس کو عذاب نہ دے ‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دوں ؟ آپ نے فرمایا ان کو خوش خبری نہ دو ورنہ وہ اسی پر توکل کرکے بیٹھ جائیں گے (عمل نہیں کریں گے) ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٢٨٥٦‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ سنن ترمذی : ٢٦٥٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٣٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٢٩٦‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٢١٠‘ مسند ابوعوانہ : ج ١ ص ١٧)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اللہ پر بندوں کے حق کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل اور کرم سے شرک نہ کرنے والوں کےلیے مغفرت کا وعدہ فرمایا ہے ورنہ عمل کی وجہ سے کسی بندہ کا اللہ پر کوئی حق نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ حدیث بیان کرنے سے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بشارت دے دی تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے موت سے پہلے اس حدیث کو بیان فرمادیا تاکہ علم کو چھپانے پر جو وعید ہے اس میں داخل نہ ہوں ۔

امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی ٢٧٣ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اس نے کہا اے اللہ کے نبی مجھ کو وصیت کیجیے آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خواہ تمہیں کاٹ دیا جائے یا جلا دیا جائے اور کسی وقت کی نماز ترک نہ کرو اور شراب نہ پیو کیونکہ وہ برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٤٠٣٤‘ الترغیب والترہیب ج ١ ص ١٩٥‘ مجمع الزوائد : ج ٤ ص ٢١٧۔ ٢١٦)

(آیت) ” ووصیناالانسان بوالدیہ، حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصالہ فی عامین ان ش کرلی ولوالدیک الی المصیر “۔ (لقمان : ١٤) 
ترجمہ : ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے (اور ہم نے یہ حکم دیا کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو میری طرف لوٹنا ہے ۔

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کون لوگ میرے اچھے سلوک کے مستحق ہیں ؟ آپ نے فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں ‘ کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا پھر تمہاری ماں ‘ کہا پھر فرمایا تمہارا باپ ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٥٤٨‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٩‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٤‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٧٠٦‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٤١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ٥٩٧١‘ سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ٢ شرح السنۃ ‘ رقم الحدیث : ٣٤١٦،چشتی)

قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے شکر کے بعد ماں باپ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ انسان کے حق میں سب سے بڑی نعمت اس کا وجود اور اس کی تربیتت اور پرورش ہے اور اس کے وجود کا سبب حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں ‘ اسی طرح اس کی تربیت اور پرورش میں حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہری سبب اس کے والدین ہیں۔ نیز جس طرح اللہ بندے کو نعمتیں دے کر اس سے اس کا عوض نہیں چاہتا اسی طرح ماں باپ بھی اولاد کو بلاعوض نعمتیں دے دیتے ہیں ‘ اور جس طرح اللہ بندہ کو نعمتیں دینے سے تھکتا اور اکتاتا نہیں والدین بھی اولاد کو نعمتیں دینے سے تھکتے اور اکتاتے نہیں ‘ اور جس طرح بندے گنہ گار ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کرتا ‘ اسی طرح اگر اولاد نالائق ہو پھر بھی ماں باپ اس کو اپنی شفقت سے محروم نہیں کرتے ‘ اور جس طرح اللہ اپنے بندوں کو دائمی ضرر اور عذاب سے بچانے کے لئے ہدایت فراہم کرتا ہے ماں باپ بھی اپنی اولاد کو ضرر سے بچانے کے لئے نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ 
ماں باپ کے ساتھ اہم نیکیاں یہ ہیں کہ انسان ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہے ‘ ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے ‘ ان کے ساتھ سختی سے بات نہ کرے ‘ ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوشش کرے ‘ اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق ان پر اپنا مال خرچ کرے ‘ ان کے ساتھ عاجزی اور تواضع کے ساتھ رہے ‘ ان کی اطاعت کرے اور ان کو راضی رکھنے کی کوشش کرے خواہ اس کے خیال میں وہ اس پر ظلم کر رہے ہوں ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے ‘ ماں کے بلانے پر نفل نماز توڑ دے البتہ فرض نماز کسی کے بلانے پر نہ توڑے اگر اس کا باپ یہ کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو اس کو طلاق دے دے ۔

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے انہوں نے مجھ سے کہا اس کو طلاق دے دو ۔ میں نے انکار کیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو طلاق دے دو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٣٨‘ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣، سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢٠٨٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٥٣‘ ٤٢‘ ٢٠)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص نے کہ میری ایک بیوی ہے اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ والد جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے ‘ تم چاہو تو اس کو ضائع کردو اور تم چاہو تو اس کی حفاظت کرو ‘ سفیان کی ایک روایت میں ماں کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں باپ کا ذکر ہے ‘ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٠٦)

حافظ عبدالعظیم بن عبد القوی لکھتے ہیں : سب سے پہلے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا اور بیٹے کی باپ کے ساتھ نیکی یہی ہے کہ جس کو باپ ناپسند کرے اس کو بیٹا بھی ناپسند کرے اور جس سے اس کا باپ محبت کرتا ہو اس سے محبت کرے خواہ اس کو وہ ناپسند ہو ‘ یہ اس وقت واجب ہے جب اس کا باپ مسلمان ہو ‘ ورنہ مستحب ہے ۔ (مختصر سنن ابو داؤد جلد ٨ صفحہ ٣٥)

نیز باپ کے ساتھ یہ بھی نیکی ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ نیکی کرے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اور ان کو تحائف بھیجتے تھے ‘ جب بیویوں کی سہیلیوں کا یہ درجہ ہے تو باپ کے دوستوں کا مقام اس سے زیادہ بلند ہے ‘ نیز ماں باپ کی وفات کے بعد ان کےلیے استغفار کرنا بھی ان کے ساتھ نیکی ہے ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا ماں باپ کے فوت ہونیکے بعد میں ان کے ساتھ کس طرح نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی نماز جنازہ پڑھو ‘ ان کےلیے مغفرت کی دعا کرو ‘ انہوں نے لوگوں سے جو وعدے کیے تھے ان کو پورا کرو ‘ ان کے دوستوں کی عزت کرو اور جن کے ساتھ وہ صلہ رحم کرتے تھے ان کے ساتھ صلہ رحم کرو ۔ (عارضۃ الاحوذی جلد ٨ صفحہ ٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)

پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : جو پڑوسی رشتہ دار ہو اس کا ایک حق اسلام ہے اور ایک رشتہ داری کا حق ہے اور ایک پڑوسی کا حق ہے ‘ اور جو پڑوسی اجنبی ہو اس کے ساتھ اسلام اور پڑوسی کا حق ہے ۔

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : مجاہد علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر ایک بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے دوبارہ پوچھا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کےلیے ہدیہ بھیجا یا نہیں ‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ میں نے یہ گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو میرا وارث کر دے گا ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٤٩‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠١٤‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٦٢٤‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥١‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٧٣،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے دوستوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ‘ اور جو شخص اپنے پڑوسیوں کے نزدیک اچھا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥١‘ الادب المفرد ‘ رقم الحدیث : ١١٥‘ سنن دارمی ‘ جلد ٢ صفحہ ٢١٥)

امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں ‘ میں ان میں سے کس کے ساتھ ابتداء کروں ‘ فرمایا جس کا دروازہ تمہارے دروازہ کے زیادہ قریب ہو۔ اس حدیث کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ (الوسیط ج ٤ ص ٥٠‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٠٢٠)

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو ‘ اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ‘ اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ‘ اگر وہ بدحال ہو تو اس پر ستر کرو ‘ اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو ‘ اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو ‘ اپنے گھر کی عمارت اس کی عمارت سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔ (المعجم الکبیر : ج ١٩ ص ٤١٩،چشتی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سالن پکائے تو اس میں شوربا زیادہ کرے۔ پھر اپنے پڑوسی کو بھی اس میں سے دے ۔ (المعجم الاوسط ‘ رقم الحدیث : ٣٦١٥‘ کشف الاستار عن زوائد ‘ رقم الحدیث : ١٩٠١‘ مسند احمد ‘ رقم الحدیث : ١٣٦٨)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص پیٹ بھر کر رات گذارے اور اس کو علم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے اس کا مجھ پر ایمان نہیں ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ٧٥١‘ کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١١٩،چشتی)

علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے ‘ بعض علماء نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے ۔ (اکمال اکمال المعلم)

غلاموں اور خادموں کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (یہ) تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کردیا ہے ۔ سو جو تم کھاتے ہو وہ ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنتے ہو وہ ان کو پہناؤ اور ان کے ذمہ ایسا کام نہ لگاؤ جو ان پر بھاری ہو اور اگر تم ان کے ذمہ ایسا کام لگاؤ تو تم ان کی مدد کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٣٠‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٤٣٨٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٧‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٢‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٣٦٩٠)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم نبی التوبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے غلام کو تہمت لگائی حالانکہ وہ اس تہمت سے بری تھا ‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر حد قائم کرے گا ‘ سوا اس کے کہ وہ بات صحیح ہو ‘ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٤‘ صحیح بخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٨٥٨‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٦٠‘ سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٥،چشتی)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے سنا کوئی شخص میرے پیچھے کھڑا یہ کہہ رہا تھا ابو مسعود تحمل کرو ‘ ابو مسعود تحمل کرو ‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ‘ آپ نے فرمایا جتنا تم اس پر قادر ہو اللہ تم پر اس سے زیادہ قادر ہے ۔ سنن ابوداؤد میں یہ اضافہ ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اللہ کےلیے آزاد ہے ‘ آپ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ میں جاتے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٦٥٩‘ سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٥٩)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے خادم کو دن میں کتنی بار معاف کروں ‘ آپ نے فرمایا ہر دن میں ستر بار ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٥٦)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے خادم کو مارے اور اس کو خدا یاد آجائے تو اس کو مارنا چھوڑ دے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٩٥٧،چشتی)

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا وہ ایک تنکے سے زمین کرید رہے تھے انہوں نے کہا اس عمل میں ایک تنکے کے برابر بھی اجر نہیں ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے غلام کو طمانچہ مارا یا پیٹا اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس کو آزاد کردے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٥١٦٨)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غلام آزاد کیا اللہ اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کو عضو دوزخ سے آزاد کر دے گا حتی کہ اس کی فرج کے بدلہ میں اس کی فرج آزاد کردے گا ۔

اسلام میں غلامی کو ختم کرنے کےلیے بہت سے طریقے مقرر کیے گئے قتل خطا کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ‘ قسم توڑنے کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے ظہار کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے ‘ عمدا روزہ توڑنے کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے اور جس کے پاس غلام نہ ہوں تو وہ کفارہ قسم میں تین دن روزے رکھے گا ‘ اور باقی صورتوں میں دو ماہ کے روزے رکھے گا ۔

تمام انسانوں کےلیے حقوق

جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے ۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے ۔

مسلمان اس لیے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں ۔ میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا ۔

والدین کے حقوق

قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ : ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے ۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی ۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے ۔

اولاد کے حقوق

ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش ، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے ۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے ۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے ۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔

عزیزوں اور قرابت داروں کے حقوق

ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے ۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں : جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردیے اور فرمایا : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔

اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادیے ہیں ۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا ، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں ۔

ہمسایوں کے حقوق

ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں ۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہیں ۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے ۔

اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے ۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے ۔ لہٰذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے ۔

استادوں کے حقوق

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔

اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا ۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہر شخص یعنی مرد و عورت ، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے ۔

جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہو سکتی ۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں ۔ معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا اور جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کر دیتی ہے وہ بنجر ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہو جاتا ہے ۔ اور اس کا استاد اس کو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے ۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرد استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے ۔

غلاموں ، ناداروں ، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے ، مقرر کیے اور ادا کیے ۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر فرمائے ۔

بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے ، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاء کےلیے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کےلیے سب کی رہبری کرتا رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحمتِ عالم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ اور حسنِ سلوک سے محروم نہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے ۔

اسلام میں ہمسایوں کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں ہمسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ گئے جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کےلیے لازم اور ضروری قرار پایا ۔

قرآن حکیم میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا : وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا ۔
ترجمہ : اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 36)

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور بندوں کے آپس میں حقوق یہ ہیں : ⬇

بندوں کے باہمی حقوق

والدین کے ساتھ احسان کرنا

ان کے ساتھ احسان یہ ہے کہ والدین کا ادب اور اطاعت کرے ، نافرمانی سے بچے ، ہر وقت ان کی خدمت کےلیے تیار رہے اور ان پر خرچ کرنے میں بقدرِ توفیق و استطاعت کمی نہ کرے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا : اُس کی ناک خاک آلود ہو ۔ کسی نے پوچھا : یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ ارشاد فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر ۔ الخ ، صفحہ ۱۳۸۱، الحدیث: ۹(۲۵۵۱)،چشتی)

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا

ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع، باب من احبّ البسط فی الرزق، ۲ / ۱۰، الحدیث: ۲۰۶۷)

حضرت جُبَیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتہا، صفحہ ۱۳۸۳، الحدیث: ۱۸(۲۵۵۶))

صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے ، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا ، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم  واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے ۔ (بہارِ شریعت، حصہ شانزدہم، سلوک کرنے کا بیان، ۳ / ۵۵۸،چشتی)

ہمسایہ کے حقوق

قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو ، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ سورہ النساء الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی  اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے ، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔(صحیح بخاری، کتاب الآدب، باب الوصاۃ بالجار، ۴ / ۱۰۴، الحدیث: ۶۰۱۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں ، خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کون ؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من لا يؤمن جاه بَوَايِقَه، 5 : 2240، رقم : 5670)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : الوصاة بالجار، 5 : 2239، رقم : 5669،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا حکم فرمایا ۔ ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ ہمسایہ کون ہے اور کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے ۔

صحیح بخاری میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں ۔ پس میں ان میں سے کس کےلیے تحفہ بھیجا کروں ؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب : الأدب، باب : حق الجوار فی قرب الأبواب، 5 : 2241، رقم : 5674،چشتی)

یتیموں اور محتاجوں سے حسنِ سلوک کرنا

یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے ، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے ۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کیا ۔ (بخاری کتاب الطلاق، باب اللعان، ۳ / ۴۹۷، الحدیث: ۵۳۰۴)

اور مسکین سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی امداد کرے اور انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے ۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ (بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل، ۳ / ۵۱۱، الحدیث: ۵۳۵۳)

پاس بیٹھنے والوں سے حسنِ سلوک کرنا

اس سے مراد بیوی ہے یا وہ جو صحبت میں رہے جیسے رفیق ِسفر ، ساتھ پڑھنے والایا مجلس و مسجد میں برابر بیٹھے حتّٰی کہ لمحہ بھر کےلیے بھی جو پاس بیٹھے اس کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم ہے ۔

مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا

اس میں مہمان بھی داخل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اِکرام کرے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان والنذور، باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔ الخ، ص۴۳، الحدیث: ۷۴(۴۷)،چشتی)

لونڈی غلام کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا

ان سے حسنِ سلوک یہ ہے کہ انہیں اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ، سخت کلامی نہ کرے اور کھانا کپڑا وغیرہ بقدرِ ضرورت دے ۔ حدیث میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے ، تو جو تم کھاتے ہو اس میں سے انہیں کھلاؤ ، جو لباس تم پہنتے ہو ، ویسا ہی انہیں پہناؤ ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسا ہو تو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو ۔ (صحیح مسلم کتاب، باب اطعام المملوک مما یاکل۔۔۔ الخ، صفحہ ۹۰۶، الحدیث: ۳۸(۱۶۶۱))

کسی کو خود سے حقیر سمجھنا اور حق بات قبول نہ کرنا تکبر ہے ، یہ انتہائی مذموم وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، حدیث میں ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہرجانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی ، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ  انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَالْ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۴۷-باب، ۴ / ۲۲۱، الحدیث: ۲۵۰۰) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 26 October 2023

جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو

جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُكُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ۔ (سورہ النسا آیت نمبر 58)
ترجمہ : بیشک اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو ان کی امانتیں ادا کرو ‘ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیسی اچھی نصیحت فرماتا ہے بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔

اس آیت میں دو حکم بیان کیے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔

یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے ۔

امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے ۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیا جس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶،چشتی)

نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے ۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے ۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہیے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے ۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے ، دوسرے کو بھی دے ۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے ۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے ۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے ۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الٰہی میں نورکے منبر عطا کیے جائیں گے ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل ۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))

قاضی شریح رضی اللہ عنہ کا عادلانہ فیصلہ : مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے : جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زِرَہ گم ہو گئی ، بعد میں جب آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کے پاس پائی ، اسے فرمایا : یہ زِرَہ میری ہے ، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ یہودی نے کہا : یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ فرمایا : ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا : اے امیرُ المؤمنین ! ارشاد فرمائیے ۔ فرمایا : اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے ، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے یہودی سے فرمایا : اے یہودی ! تم کیا کہتے ہو ؟ یہودی بولا : یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا : ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے کہا : (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں ۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ، وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا ۔ (تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی ۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بعض احوال بیان فرمائے اور وعید اور وعد کا ذکر فرمایا ‘ اس کے بعد پھر احکام تکلیفیہ کا ذکر شروع فرمایا ‘ نیز اس سے پہلے یہود کی خیانت کا ذکر فرمایا تھا کہ ان کی کتاب میں سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر جو دلائل ہیں وہ ان کو چھپالیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے اور اس میں خیانت کرتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو امانت داری کا حکم دیا ۔ امانت ادا کرنے کا حکم عام ہے خواہ مذاہب میں ہو ‘ عقائد میں ہو معاملات میں ہو یا عبادات میں ہو ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کے متعلق نازل ہوئی ہے فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اس سے کعبہ کی چابیاں لے لیں پھر آپ بیت اللہ کے باہر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے آئے ‘ پھر آپ نے عثمان کو بلایا اور انہیں چابیاں دے دیں ۔ (جامع البیان ج ٥ ص ٩٢)

فان امن بعضکم بعض فلیؤد الذی اؤتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ ۔ (سورہ البقرہ : ٢٨٣) 
ترجمہ : پس اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کی امانت ادا کردے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے ۔

یایھا الذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا امانتکم وانتم تعلمون ۔ (سورہ الانفال : ٢٧) 
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرودرآں حالیکہ تم کو علم ہے ۔

والذین ھم لامنتھم وعھدھم راعون ۔ (سورہ المؤمنون : ٨) 
ترجمہ : اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ‘ سائل نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٥٩،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٣٥)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٢٦٨،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٥٩٧)(مسند احمد ج ٣ ص ١٤١٤)(المستدرک ج ٢ ص ٤٦)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجالس کی گفتگو امانت ہوتی ہے ماسوا اس کے کہ کسی کا ناجائز خون بہانا ہو ‘ یا کسی کی آبرو ریزی کرنی ہو یا کسی کا مال ناحق طریقہ سے حاصل کرنا ہو (یعنی اگر ایسی بات ہو تو اس کی صاحب حق کو اطلاع دے کر خبردار کرنا چاہیے) ۔ (سنن ابودادؤ‘ رقم الحدیث : ٤٨٦٩)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو شخص امانت دار نہ وہ اس کا ایمان نہیں اور جو وضو نہ کرے اس کا ایمان نہیں ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٤،چشتی)

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ‘ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو ‘ جب تم عہد کرو تو اس کو پورا کرو ‘ جب تم بات کرو سچ بولو ‘ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو ‘ اپنی نظریں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٦)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اس امت میں سے جو چیزیں سب سے پہلے اٹھائی جائیں گی وہ حیا اور امانت ہیں ‘ سو تم اللہ عزوجل سے اس کا سوال کرو ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٦)
 
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کسی شخص کی نماز اور روزے سے تم دھوکے میں نہ آنا ‘ جو چاہے نماز پڑھے اور جو چاہے روزے رکھے لیکن جو امانت دار نہیں ہے وہ دین دار نہیں ہے ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٩،چشتی)

انسان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ متعلق ہوتا ہے یا مخلوق کے ساتھ اور ہر معاملہ کے ساتھ اس پر لازم ہے کہ وہ اس معاملہ کو امانت داری کے ساتھ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام بجالائے اور جن چیزوں سے اللہ نے اس کو منع کیا ہے ان سے رک جائے ‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہر چیز میں امانت داری لازم ہے ‘۔ وضو میں جنابت میں ‘ نماز میں ‘ زکوۃ میں اور روزے میں ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان میں شرم گاہ پیدا کی اور فرمایا میں اس امانت کو تمہارے پاس چھپا کر رکھ رہا ہوں ‘ اس کی حفاظت کرنا ‘ ہاں اگر اس کا حق ادا کرنا ہو ‘ یہ بہت وسیع معاملہ ہے ‘ زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ ‘ چغلی ‘ غیبت ‘ کفر ‘ بدعت اور بےحیائی کی باتوں میں نہ استعمال کرے ‘ آنکھ کی امانت یہ ہے کہ اس سے حرام چیز کی طرف نہ دیکھے ۔ کان کی امانت یہ ہے کہ اس سے موسیقی ‘ فحش باتیں ‘ جھوٹ اور کسی کی بدگوئی نہ سنے ‘ نہ دین اور خدا اور رسول کے خلاف باتیں سنے ‘ ہاتھوں کی امانت یہ ہے کہ ان سے چوری ‘ ڈاکہ ‘ قتل ‘ ظلم اور کوئی ناجائز کام نہ کرے ‘ منہ میں لقمہ حرام نہ ڈالے ‘ اور پیروں کی امانت یہ ہے کہ جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے وہاں نہ جائے اور تمام اعضاء سے وہی کام لے جن کاموں کے کرنے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘ انہ کان ظلوما جھولا ۔ (الاحزاب ‘ ٧٢) 
ترجمہ : ہم نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت کو پیش کیا انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے ‘ اور انسان نے اس میں خیانت کی بیشک وہ ظالم اور جاہل ہے ۔ 

تمام مخلوق کی امانت کو ادا کرنا ‘ اس میں یہ امور داخل ہیں : اگر کسی شخص نے کوئی امانت رکھوائی ہے تو اس کو واپس کرنا ‘ ناپ تول میں کمی نہ کرنا ‘ لوگوں کے عیوب بیان نہ کرنا ‘ حکام کا عوام کے ساتھ عدل کرنا ‘ علماء کا عوام کے ساتھ عدل کرنا بایں طور پر کہ انکی صحیح رہنمائی کرنا ‘ تعصب کے بغیر اعتقادی مسائل کو بیان کرنا ‘ اس میں یہود کیلیے بھی یہ ہدایت ہے کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے جو دلائل تورات میں مذکور ہیں ان کو نہ چھپائیں ‘ اور بیوی کےلیے ہدایت ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور اس کے مال کی حفاظت کرے اور جس شخص کا گھر میں آنا اسے ناپسند ہو اس کو نہ آنے دے ‘ تاجر ذخیرہ اندوزی نہ کریں ‘ بلیک مارکیٹ نہ کریں ‘ نقلی دوائیں بنا کر لوگوں کی جان سے نہ کھیلیں ‘ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کریں ‘ ٹیکس نہ بچائیں ‘ اسمگلنگ کر کے کسٹم ڈیوٹی نہ بچائیں ۔ سودی کاروبار نہ کریں ‘ ہیروئن ‘ چرس اور دیگر نشہ آور اور مضر صحت اشیاء کو فروخت نہ کریں ‘ بیروکریٹس رشوت نہ لیں ‘ سرکاری افسران اپنے محکمہ سے ناجائز مراعات حاصل نہ کریں ‘ ڈیوٹی پر پورا وقت دیں ‘ دفتری اوقات میں غیر سرکاری کام نہ کریں ۔ آج کل شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ مختلف اقسام کے لائسنس اور ٹھیکہ داروں کے بل غرض کوئی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا جب ان کاموں کا کرنا ان کی سرکاری ڈیوٹی ہے تو بغیر رشوت کے یہ کام نہ کرنا سرکاری امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح ایک پارٹی کے ممبر کو عوام میں اس پارٹی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ممبربننے کے بعد وہ رشوت لے کر لوٹا کریسی کی بنیاد پر پارٹی بدل لیتا ہے تو وہ بھی عوام کے انتخاب اور ان کی امانت میں خیانت کرتا ہے ‘ حکومت کے ارکان اور وزراء جو قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں سے بلاوجہ غیر ملکی دوروں پر غیر ضروری افراد کو اپنے ساتھ لے جا کر اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں وہ بھی عوام کی امانت میں خیانت کرتے ہیں ‘ اسکول اور کالجز میں اساتذہ اور پروفیسر حضرات پڑھانے کی بجائے گپ شب کر کے وقت گزار دیتے ہیں ۔ یہ بھی امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح تمام سرکاری اداروں میں کام نہ کرنا اور بےجا مراعات حاصل کرنا اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو نوازنا ‘ کسی اسامی پر رشوت یا سفارش کی وجہ سے نااہل کا تقرر کرنا یہ بھی امانت میں خیانت ہے ، کسی دنیاوی منفعت کی وجہ سے نااہل کو ووٹ دینا یہ بھی خیانت ہے ۔ اگر ہم گہری نظر سے جائزہ لیں تو ہمارے پورے معاشرے میں خیانت کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور ہر شخص اس نیٹ ورک میں جکڑا ہوا ہے ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال ہوگا ‘ حاکم نگہبان ہے اور اس سے اپنے عوام کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اپنے اہل کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے امور خانہ کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی چیز کا) نگہبان ہے اور اس سے اس چیز کے متعلق جواب طلبی ہوگی ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٨٩٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٩)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٩٢٨)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٧١١،چشتی)(مسند احمد ج ٢ ص ٥)

امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا حالانکہ اس کی جامعت میں اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ تھا تو بنانے والے نے اللہ ‘ اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ لیکن امام بخاری اور مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا ۔ (المستدرک ج ٤ ص ٩٣۔ ٩٢)

علامہ علی متقی بن حسام الدین ہندی متوفی ٩٧٥ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا حالانکہ وہ شخص جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ۔ (کنز العمال ج ٦ ص ٧٩)

ان دونوں حدیثوں کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : ⬇

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا ‘ اور جس شخص نے اپنے بھائی کی رہنمائی کسی چیز کی طرف کی حالانکہ اس کو علم تھا کہ اہلیت اور صلاحیت اس کے غیر میں ہے تو اس نے اپنے بھائی کی ساتھ خیانت کی ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٦٥٧)

انسان کا اپنے نفس کے ساتھ امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کےلیے اس چیز کو پسند کرے جو دین اور دنیا میں اس کے لیے زیادہ مفید اور نفع آور ہو ‘ اور غلبہ غضب اور غلبہ شہوت کی وجہ سے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے مآل کار دنیا میں اس کی عزت وناموس جاتی رہے اور آخرت میں وہ عذاب کا مستحق ہو ‘ انسان کی زندگی اور صحت اس کے پاس اللہ کی امانت ہے وہ اس کو ضائع کرنے کا مجاز نہیں ہے ‘ اس لیے سگریٹ پینا ‘ چرس ‘ ہیروئن اور کسی طرح تمباکو نوشی کرنا ‘ افیون کھانا ‘ یہ تمام کام صحت اور انسانی زندگی کے لیے مضر ہیں ‘ اسی طرح شراب پینا یا کوئی نشہ آور مشروب کھانا اور پینا ‘ نشہ آور دوائیں استعمال کرنا یہ بھی انسان کی صحت کےلیے مضر ہیں اور آخرت میں عذاب کا باعث ہیں ‘ اور یہ تمام کام اپنے نفس کے ساتھ خیانت کے زمرہ میں آتے ہیں ‘ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا ‘ لوگوں پر ظلم کرنا یہ بھی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ خیانت کرنا ہے ‘ فرائض اور واجبات کو ترک کرکے اور حرام کاموں کا ارتکاب کرکے خود کو عذاب کا مستحق بنانا یہ بھی اپنی ذات کے ساتھ خیانت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ خود بھی نیک بنے اور اپنے گھر والوں کو بھی نیک بنائے : یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا ۔ (سورہ التحریم : ٦) 
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔

اگر کوئی شخص خود نیک ہے اور پابند صوم وصلوۃ ہے لیکن اس کے گھر والے اور اس کے ماتحت لوگ بدکار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور وہ ان کو برے کام ترک کرنے اور نیک کام کرنے کا حکم نہیں دیتا تب بھی وہ بری الذمہ نہیں ہے اور اخروی عذاب کا مستحق ہے اور اپنے نفس کے ساتھ خیانت کر رہا ہے کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا نگہبان ہے اور ہر شخص ان کے متعلق جواب دہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ (سورہ النساء : ٥٨)

اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو حاکم بنایا جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے ‘ ہم اس جگہ قضاء کے متعلق احادیث بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو کہ اسلام میں قضاء کے متعلق کیا ہدایات ہیں ۔ قضاء کے آداب اور قاضی کے ظلم اور عدل کے متعلق احادیث : ⬇

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا ‘ آپ نے پوچھا تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ انہوں نے کہا میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں (مطلوبہ حکم) نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے پوچھا اگر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت میں مطلوبہ حکم نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرستادہ کو توفیق دی ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٢)سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٩٢)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے سجستان میں اپنے بیٹے کی طرف خط لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا ‘ کیونکہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کوئی شخص غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١٧٥٨،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١٧)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٩)(سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨٩)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تمہارے پاس دو شخص مقدمہ پیش کریں تو جب تک تم دوسرے شخص کا موقف نہ سن لو پہلے کے لیے فیصلہ نہ کرو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٦)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٨٢)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٠)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہوگا اور دو دوزخ میں ہوں گے ‘ جنت میں وہ قاضی ہوگا جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے ‘ اور جو حق کو پہچاننے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخ میں ہوگا ‘ اور جو شخص جہالت سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے وہ بھی دوزخ میں ہوں گا ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٣،چشتی)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے دو اجر ہیں اور جب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور غلط نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے ایک اجر ہے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٤)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور اس کے نزدیک سب سے مقرب شخص امام عادل ہوگا اور سب سے زیادہ مبغوض اور سب سے دورامام ظالم ہوگا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٤)
 
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ١٣٣٥)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کو پاک نہیں کرتا جس میں اس کے کمزور کا حق اس کے طاقت ور سے نہ لیا جائے ۔ (اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے ‘ اس کی سند میں المثنی بن صباح ہے یہ ضعیف راوی ہے ‘ ایک روایت میں ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور ایک روایت میں کہا ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس کو ترک نہیں کیا جائے گا ‘ اور دوسرے کے نزدیک یہ متروک ہے) ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١٣٥٢)
 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعنت کی ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدی ١٣٤١)

امام طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ٢٣ ص ٣٩٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس دن کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے ۔ عدل کرنے والا حاکم ‘ وہ شخص جو اللہ کی عبادت میں جوان ہوا ‘ جس کا دل مسجدوں میں معلق رہا ‘ وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں ملیں اور اللہ کی محبت میں جدا ہوں ‘ وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھ سے آنسو بہیں ‘ وہ شخص جس کو خوب صورت اور بااختیار عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا دیا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٦٠،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣١)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٣٩١)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣٥٨)(مسند الطیالسی رقم الحدیث : ٢٤٦٢)(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٤٤٦٩)(سنن کبری للبیہقی : ج ٣ ص ٦٥)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٥٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : چار آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے : جو بہت قسمیں کھا کر سودا بیچے ‘ متکبر فقیر ‘ بوڑھا زانی ‘ اور ظالم حاکم ۔ (صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٥٥٣٢‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٦٥)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : عدل کرنے والے حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور زمین میں حد کو قائم کرنا اس زمین پر چالیس روز کی بارش سے زیادہ نفع آور ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣٢)(سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ١٦٢)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٧٩) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...