Friday 11 May 2018

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرواتے کا جواب

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کرواتے کا جواب

رافضی شیعوں اور سنیت کے لبادے میں چھپے تفضیلی رافضیوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے تھے۔
سب و شتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے اور اس میں تنقید بھی شامل ہے۔ یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی۔
باغی راویوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت عائد کی ہے کہ ان کے زمانے میں وہ اور ان کے مقرر کردہ گورنر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے خطبہ کے دوران معاذ اللہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ اس تہمت کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بنو امیہ کے خلاف نفرت پیدا کر کے اپنی پارٹی کے نوجوانوں کو مشتعل کیا جائے۔ اس تہمت کا جھوٹ صرف اتنی سی بات سے واضح ہو سکتا ہے کہ اگر آج کے دور میں کوئی خطیب کسی بھی صحابی کے بارے میں یہ حرکت کرے تو کیا سننے والے اسے چھوڑ دیں گے؟ ہمارے ہاں تو اس مسئلے پر بارہا کشت و خون کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس دور میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد موجود تھی اور ان کے زمانے میں یہ حرکت کی گئی تو کیا یہ حضرات معاذ اللہ ایسے غیرت مند تھے کہ انہوں نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس وقت ان کی غیرت کہاں چلی گئی تھی؟
کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ آزادی اظہار کے اس دور میں اگر کوئی حکمران یہ رسم جاری کرے کہ جمعہ کے خطبوں میں منبر پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کے فوت شدہ راہنماؤں کو گالیاں دی جائیں؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا اس طرح وہ حکمران بغیر کسی مقصد کے اپنے خلاف مزاحمتی تحریک پیدا نہ کرے گا؟ ہم کسی بھی ایسے حکمران کے بارے میں یہ تصور نہیں کر سکتے جس میں عقل کا ذرا سا بھی شائبہ ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر معمولی تدبر، حلم اور سیاست کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا ان سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ کی جس آگ کو انہوں نے اپنے حلم اور تدبر سے ٹھنڈا کیا تھا، وہ اسے ایک لایعنی اور فضول حرکت سے دوبارہ بھڑکا دیں۔ پھر یہ حرکت پورے عالم اسلام کی مساجد میں عین جمعہ کے خطبے میں انجام دی جائے اور اس کے رد عمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کی غیرت جوش نہ مارے اور کوئی مزاحمتی تحریک تو کجا یا کم از کم تنقید ہی ان حضرات کی جانب سے سامنے نہ آئے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب و شتم محض باغی راویوں کے ذہنوں میں تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانے کے باغیوں کو بھڑکانے کے لیے روایات کی شکل میں بیان کیا۔
ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ عربی میں لفظ ’’سبّ‘‘ کا مطلب صرف گالی دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص ، دوسرے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر تنقید کرے اور اپنے دلائل پیش کرے، تو اسے بھی ’سبّ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا ’سبّ‘ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں اور کوئی برا نہیں مانتا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران لوگوں کو ایک تالاب کا پانی پینے سے منع فرمایا۔ دو افراد نے اس حکم کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر ’سبّ‘ فرمایا۔( مسلم، کتاب الفضائل، حدیث 706) ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شخص یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ آپ نے انہیں معاذ اللہ گالیاں دی ہوں گی۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے ان پر تنقید فرمائی ہو گی اور انہیں اپنی اصلاح کا کہا ہو گا۔
ممکن ہے کہ کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پالیسی پر تنقید کی ہو، تو ان راویوں نے ا س پر یہ بہتان گھڑ لیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت علی کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہم حضرت حسن، حسین اور حضرت علی کے دیگر بیٹوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے رہتے۔یہاں ہم وہ روایات بیان کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان راویوں نے بات کا بتنگڑ بنا کر اسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے دو گورنر ہیں، جن کے بارے میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف منبر پر سب و شتم کرتے تھے۔ ایک مروان بن حکم اور دوسرے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ۔ ان دونوں سے متعلق روایات کا ہم جائزہ لیتے ہیں۔
سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے ۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ)۔
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت: ۔ حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے،ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں : عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294)
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی ۔ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164)
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے ۔
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
راوی ابو معاویہ : علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)یعنی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویوں پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے ان روایات کی مناسب تعویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر مروان بن حکم نے اپنے خطبے میں "ابو تراب" کہہ کر کیا تو اسے ان باغیوں نے "سب و شتم" قرار دے دیا۔صحیح بخاری کی روایت ہے:عبداللہ بن مسلمہ نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اور ان سے ان کے والد نے کہ : ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: " امیر مدینہ (مروان بن حکم کے خاندان کا کوئی شخص) منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سبّ کر رہے ہیں۔ " انہوں نے پوچھا : "وہ کیا کہتے ہیں؟" بولا: "وہ انہیں ابو تراب کہہ رہے ہیں۔" سہل یہ سن کر ہنس پڑے اور بولے: "واللہ! یہ نام تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور انہیں اس نام سے زیادہ کوئی اور نام پسند نہ تھا۔ " میں (ابو حازم) نے ان سے پوچھا: "ابو عباس، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ بولے: علی، فاطمہ کے گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور مسجد میں سو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدہ فاطمہ) سے پوچھا: "آپ کے چچا زاد کہاں گئے؟" وہ بولیں: "مسجد میں۔" آپ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان (حضرت علی) کی چادر ان کی پیٹھ سے الگ ہوئی ہے اور مٹی سے ان کی کمر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے ان کی کمر سے مٹی جھاڑ کر دو مرتبہ فرمایا: "ابو تراب (مٹی والے!) اب اٹھ بھی جاؤ۔(بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3500)
صحیح مسلم میں اس روایت کا ایک مختلف ورژن بیان ہوا ہے:قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میں کسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409)۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔ یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔ مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ ( طبری۔ 4/1-263)
اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ (ابن حزم، جمہرۃ الانساب العرب۔ 38, 87) اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔
غالی راوی ابو مخنف نے تاریخ طبری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں دعوی کیا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب و شتم کرتے تھے لیکن ساتھ خود ہی ان کے الفاظ نقل کر کے اپنا بھانڈہ خود ہی پھوڑ دیا ہےروایت یہ ہے:ابو مخنف نے صقعب بن زہیر سے روایت کی اور انہوں نے شعبی کو کہتے ہوئے سنا: مغیرہ کے بعد ایسا کوئی حاکم ہمارا نہیں ہوا، اگرچہ ان حکام کی نسبت جو پہلے گزرے تھے، یہ نیک شخص تھے۔ مغیرہ نے سات برس چند ماہ معاویہ کے گورنر کے طور پر کوفہ میں حکومت کی ہے اور بڑے نیک سیرت، امن و عافیت کے خواہش مند تھے۔ مگر علی کو برا کہنا اور ان کی مذمت کرنا، قاتلان عثمان پر لعنت اور ان کی عیب جوئی کرنا، اور عثمان کے لیے دعائے رحمت و مغفرت اور ان کے ساتھیوں کی تعریف کو انہوں نے کبھی ترک نہیں کیا۔
اس کی چند سطروں بعد ابو مخنف ہی نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ بیان کر دیا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر مشتمل تھا۔ خطبے کے الفاظ خود ابو مخنف کے الفاظ میں ہم یہاں درج کر رہے ہیں، اسے دیکھ کر عربی جاننے والے تمام حضرات خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا سب و شتم کیا گیا ہے:كان في آخر إمارته قام المغيرة فقال في علي وعثمان كما كان يقول، وكانت مقالته: اللهم ارحم عثمان بن عفان وتجاوز عنه، وأجزه بأحسن عمله، فإنه عمل بكتابك، واتبع سنة نبيك صلى الله عليه وسلم، وجمع كلمتنا، وحقن دماءنا، وقتل مظلوما؛ اللهم فارحم أنصاره وأولياءه ومحبيه والطالبين بدمه! ويدعو على قتلته. فقام حجر بن عدي فنعر نعرة بالمغيرة سمعها كل من كان في المسجد وخارجا منه.
مغیرہ نے اپنی امارت کے آخری زمانے میں خطبہ پڑھا اور علی و عثمان کے بارے میں وہ جو بات ہمیشہ کہتے تھے، وہ اس انداز میں کہی: "اے اللہ! عثمان بن عفان پر رحمت فرمائیے ۔ ان سے درگزر فرمائیے اور نیک اعمال کی انہیں جزا دیجیے۔ انہوں نے آپ کی کتاب پر عمل کیا اور تیرے نبی کی سنت کا اتباع کیا۔ انہوں نے ہم لوگوں میں اتفاق رکھا اور خونریزی نہ ہونے دی اور وہ ناحق شہید کیے گئے۔ اے اللہ! ان کے مدد گاروں، دوستوں، محبوں اور ان کے خون کا قصاص لینے والوں پر رحم فرمائیے ۔ " اس کے بعد آپ نے قاتلین عثمان کے لیے بددعا کی۔ یہ سن کر حجر بن عدی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مغیرہ کی جانب دیکھ کر ایک نعرہ لگایا۔ جو لوگ بھی مسجد میں اور اس کے باہر تھے، انہوں نے اس نعرے کو سنا۔ (طبری۔ 4/1-83)
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو ان باغی راویوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم قرار دیا ہے، وہ دراصل قاتلین عثمان کے لیے بددعا تھی۔ ان باغیوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ کھینچ تان کر حضرت علی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت میں ملوث کر دیا جائے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے پر ہونے والی لعنت و ملامت کا رخ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف پھیرنے کی کوشش کی ہے اور یہ مشہور کر دیا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا کرتے تھے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخی کتب میں جہاں جہاں ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کا ذکر ہے، وہ سب کی سب ابو مخنف یا ان کی پارٹی کے لوگوں کی روایت کردہ ہیں۔ ایسی ہر روایت کی سند کو دیکھ کر اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبروں پر برا بھلا کہتے تو یہ ایسی بات تھی کہ جسے ہزاروں آدمی سنتے۔ ان ہزاروں میں سے کم از کم پچاس سو آدمی تو اسے آگے بیان کرتے۔ پھر ان پچاس سو افراد سے سن کر آگے بیان کرنے والے بھی سینکڑوں ہوتے جو کہ سو سال بعد ہزاروں ہو جاتے۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سوائے اس ایک ابو مخنف اور ان کی پارٹی کے چند لوگوں کے، کوئی بھی شخص یہ روایات بیان نہیں کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب انہی لوگوں کی گھڑی ہوئی داستان ہے۔
ہاں یہ بات قرین قیاس ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے ان کے گورنر خطبات میں قاتلین عثمان کی باغی پارٹی کے مکر و فریب اور برائی کو بیان کرتے ہوں گے تاکہ لوگ ان سے محتاط رہیں اور ان کے پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں۔ اس گروہ کی مذمت میں وہ سخت باتیں بھی کہتے ہوں گے، انہیں لعنت ملامت بھی کرتے ہوں گے اور ان کے لیے بددعا بھی کرتے ہوں گے۔ اس سب کا مقصد یہی رہا ہو گا کہ باغی پارٹی کے پراپیگنڈا کا توڑ کیا جائے۔ ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے خود پر کی گئی تنقید کا ملبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ڈال دیا تاکہ خلفاء اور ان کے گورنروں سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جائیں اور ان کے خلاف مزید باغی تحریکیں منظم کی جائیں۔
صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم کیا ہے؟
باغیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر بعض لوگ اس ضمن میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کرتے ہیں:حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو امیر بنایا تو ان سے پوچھا: "آپ کو کس چیز نے منع کیا کہ آپ ابو تراب پر تنقید نہ کریں؟" انہوں نے کہا: "تین ایسی باتیں ہیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں، ان کے سبب میں انہیں برا نہیں کہتا۔ میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی سرخ اونٹوں سے زیادہ پیاری ہے۔
1۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت فرماتے سنا جب آپ نے کسی غزوے پر جاتے ہوئے علی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ علی نے کہا: 'یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور خواتین کے پاس چھوڑے جا رہے ہیں؟' آپ نے فرمایا: ’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد نبوت ختم ہو گئی؟‘
2۔ میں نے یوم خیبر، آپ کو یہ فرماتے سنا: 'کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔' ہم لوگ یہ سن کر انتظار میں رہے (کہ وہ کون ہو گا۔) پھر آپ نے فرمایا: 'علی کو بلاؤ۔' انہیں بلایا گیا تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور جھنڈا انہیں عطا فرما دیا۔ اللہ تعالی نے علی کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔
3۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: "(اے پیغمبر!) آپ فرمائیے کہ آؤ، ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلا لائیں اور تم اپنوں کو۔۔۔" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے اہل و عیال ہیں۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2404)
اس روایت سے باغیوں کے پراپیگنڈا سے متاثر بعض لوگ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ حضرت معاویہ، حضرت سعد رضی اللہ عنہما کو ترغیب دلا رہے تھے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کریں۔ یہ مطلب وہی نکال سکتا ہے جو ان حضرات کے کردار سے واقف نہ ہو۔ روایت کے ایک ایک لفظ سے حضرت سعد کی حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لیے محبت ٹپک رہی ہے۔ اگر حضرت معاویہ کا مقصد انہیں ترغیب دلانا ہوتا تو وہ انہیں کوئی سخت جواب دیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کا مقصد حضرت علی پر تنقید کی ترغیب نہ تھا بلکہ آپ یہ استفسار فرما رہے تھے کہ جب حضرت سعد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ نہیں دیا، تو پھر آپ کی حضرت علی کی پالیسی کے بارے میں رائے کیا تھی، کیا آپ اس پر تنقید کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے وضاحت کی کہ میری رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی تاہم ساتھ نہ دینے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
ابو مخنف نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ لعنت بھیجنے کے اس سلسلے کا آغاز معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے ہوا تھا۔ واقعہ تحکیم کی اطلاع جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت معاویہ، عمرو بن عاص، ابو الاعور اسلمی، حبیب بن مسلمہ، عبدالرحمن بن خالد، ضحاک بن قیس اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔ جب حضرت معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے نمازوں میں حضرت علی، ابن عباس، اشتر، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم پر لعنت بھیجنا شروع کر دی۔( طبری۔ 3/2-267)ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ابو مخنف کا جھوٹ ہے اور اس نے ایسا کر کے ان تمام حضرات کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے بارے میں اپنے بغض کا اظہار کیا ہے۔ نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حالت نماز میں لعنت بھیجنے کے عمل کا آغاز فرمایا ہو گا اور نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جوابی کاروائی کے طور پر ایسا کیا ہو گا۔ یہ سب ابو مخنف جیسے باغی راویوں کی اپنی ایجاد ہے اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ رہا ہو گا کہ ان بزرگوں سے اپنی نسل کے لوگوں کو بدظن کر کے اپنی باغی تحریک کو تقویت دی جائے۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

2 comments:

  1. (جلاء العیون جلد دوم ص 421,422 bhai sahab apne ye jo hawala dia hay wo book may hay nahi is k agay pechay k pages khud pareh hay app bhi parh len scan pages hay

    ReplyDelete
  2. دل بہلانے کے لیے غالب خیال اچھا ہے
    محترم الفاظ سے اچھا کھیلا ہے پر کیا آپ کو معلوم ہے امام نسائی کیوں مارے گئیے اور کہاں مارے گئیے اور کن کے ہاتھوں مارے گئیے کیا آپ بتانا پسند کرینگے کہ پیغمبر اسلام نے عمار کے قتل باغیوں کے ہاتھوں ہونے کی نوید سنائی تھی جو صفین میں شھید کر دئیے گئیے دھوب سے بچنے کے لیے چھتری لے کے تم لوگوں کو رات ہونے کی خبر دیتے ہو بہت برا عمل ہے یوں کہو معاویہ نے بعد میں توبہ کیا ہو گا

    ReplyDelete

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...