علمائے اہلسنت کا اجماع اور مسلہ افضلیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
علمائے اہلسنت کا اس امر پر اجماع اور اتفاق ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اسکے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد عشرہ مبشرہ کے دیگر حضرات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر اصحابِ بدر رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر باقی اصحابِ اُحد رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین انکے بعد بیعتِ رضوان والے اصحاب رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور انکے بعد دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 45 مطبوعہ ممتاز اکیڈمی لاہور)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں فرامین مولاء کاینات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روشنی میں پڑھیئے
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں۔امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت عمرو رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اﷲ عنہم اجمعین ہیں (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107،چشتی)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73،چشتی)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر، میں نے عرض کی، پھر کون؟ فرمایا حضرت عمر رضی اﷲ عنہما (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671، جلد 2، ص 522،چشتی)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں، پھر عمر (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا۔ میں نے عرض کی اے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص! تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں، پھر حضرت عمر، اے ابو حجیفہ! تجھ پر افسوس ہے، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79،چشتی)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر عرض کی کہ اے اﷲ کے رسول! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے۔ارشاد فرمایا کہ نہیں! اﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر اﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289،چشتی)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر، ان کے بعد عمر، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔(ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔(فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں
جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں) ( الحمد للہ یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے ،چشتی)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف حاصل ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح کے مختلف اقوال میں یوں تطبیق کی ہے کہ مردوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز حاصل ہے۔
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قبولِ اسلام کے بعد سے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک ہمیشہ سفر وحضر میں آپ کے رفیق رہے بجز اس کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم یا اجازت سے آپ کے ساتھ نہ رہ سکے ہوں۔
آپ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے۔آپ نے کثیر مال خرچ کر کے کئی مسلمان غلام آزاد کرائے۔ ایک موقع پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے روتے ہوئے عرض کی، ''میرے آقا! میں اور میرا مال سب آپ ہی کا ہے''۔
تمام صحابہ کرام میں آپ ہی سب سے زیادہ عالم تھے۔ آپ سے ایک سوبیالیس احادیث مروی ہیں حالانکہ آپ کو بکثرت احادیث یاد تھیں۔ قلتِ روایت کا سبب یہ ہے کہ احتیاط کے پیشِ نظر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل یا اس سے حاصل شدہ مسئلہ بیان فرمایا کرتے۔ آپ سب سے زیادہ قرآن اوردینی احکام جاننے والے تھے،اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نمازوں کا امام بنایا تھا۔آپ اُن خاص صحابہ میں سے تھے جنہوں نے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجروثواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ملے گا کیونکہ سب سے پہلے قرآن کریم کتاب کی صورت میں آپ ہی نے جمع کیا۔
حضرت ابن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیرِ خاص تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے تمام امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، یومِ بدر میں سائبان میں ثانی اور مدفن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثانی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ پر کسی کو فضیلت نہیں دی۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مرتدوں سے جہاد اور ان کے فتنے کا مکمل انسداد ہے۔ یمامہ، بحرین اور عمان وغیرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے بعد اسلامی افواج نے ایلہ، مدائن اور اجنادین کے معرکوں میں فتح حاصل کی۔آپ کی خلافت کی مدت دو سال سات ماہ ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وصال کے وقت اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں ہم کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں، ان تین چیزوں کے سوا میرے پاس بیتُ المال کی کوئی چیزنہیں۔ ان چیزوں سے ہم اسوقت تک نفع لے سکتے تھے جب تک میں امورِ خلافت انجام دیتا تھا۔ میرے انتقال کے بعد تم ان چیزوں کو حضرت عمر کے پاس بھیج دینا۔ آپ کے وصال کے بعد جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو واپس کی گئیں تو انہوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے۔ انہوں نے اپنے جانشین کو مشقت میں ڈال دیا۔
امام شعبی رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اﷲ تعالیٰ نے چار ایسی خصوصیات سے متصف فرمایا جن سے کسی اور کو سرفراز نہیں فرمایا۔
اوّل: آپ کا نام صدیق رکھا۔
دوم : آپ غار ثور میں محبوبِ خدا اکے ساتھی رہے۔
سوم: آپ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیقِ سفر رہے۔
چہارم: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو صحابہ کی نمازوں کا امام بنا دیا۔
No comments:
Post a Comment