نماز تراویح بیس رکعات ہیں اور اہل سنت و جماعت کی علامت ہیں
تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (20) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت و جماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔
فقہِ شافعی اور بیس (20) رکعت تراویح : وقد قال الشافعي رحمه الله في كتابه الأم:ج1ص142 ما نصه؛"ورأيتهم بالمدينة يقومون بتسع وثلاثين، وأحب إلى عشرين لأنّه روي عن عمر، وكذلك يقومون بمكة، ويوترون بثلاث".
ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعیؒ فرماتے ہیں کہ : میں نے مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) انتالیس (39) رکعت پڑھتے ہیں اور مجھے بیس (20) رکعت (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) پسند ہے بیشک وہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے. اور اسی طرح مکّہ والے بھی قیام کرتے، اور وتر پڑھتے تین (رکعت).(كتاب الأم للإمام الشافعي : كتاب الصلوة ، باب في الوتر ، صفحه # ١٠٥)
محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں : “(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر۔” (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲،چشتی)
ترجمہ:…”رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (امام غزالی (450 - 505 ھ) تراویح کی نماز ٢٠ رکعت سنّت موکدہ فرماتے ہیں. [احیاء العلوم : ١/٣٦٨،چشتی)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (اسنادہ حسن، المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱،چشتی)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے۔ (فتح الباری،چشتی)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کرنہ سکو۔
بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ وعلماء امت کا اجماع ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی۔ (صحیح ابن حبان،چشتی)
حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات پڑھا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی، آثار السنن ۶/۵۵،چشتی)
امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکّہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ (الاُم وسنن ترمذی)
امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے۔ (سنن ترمذی،چشتی)
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)؛
علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه (متوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے۔ (بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور،چشتی)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا۔ (المغني لابن قدامة،چشتی)
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع،چشتی)
بیس (٢٠) رکعت تراویح پر اجماع : علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:تو نماز تراویح سنّت ہے اجماع علماء سے ، اور ہمارا (شافعی) مذھب (بھی) یہ ہے کہ وہ بیس (٢٠) رکعت ہے دس (١٠) سلام سے اور جائز ہے انفرادی طور پر اور جماعت سے بھی. اور ان دونوں میں افضل کیا ہے؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے.[المجموع شرح مہذب : ٣/٥٢٦،چشتی)
علامہ ابن تیمیہ اور مسئلہ تراویح : جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے، تو امام ابن تیمیہ رح نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ : ترجمہ: اگر عمر (رضی اللہ عنہ) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اس کو ختم کردیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے. بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لئے ہماری مسجد کو روشن کردیا.(اسد الغابہ:٤/١٨٣؛ غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ،چشتی)
ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے.(السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦) (منہاج السنّہ : ٢/٢٢٤، اردو ترجمہ پروفیسر غلام علی الحریری)
ترجمہ: تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت"ہے، اس لئے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی.(مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض،چشتی)
بیس (20) ركات تراويح پر اجماع صحابہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات کے گھر کی گواہی (فتاویٰ نذیریہ : 1/634،چشتی)
جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے۔
معترضین کے دلائل کی حیثیت : آٹھ رکعت تراویح سنّت نبوی نہیں
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
١) عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883 ؛ صحيح مسلم » رقم الحديث: ١٢٢٥،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر (رمضان) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔
یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیئے کہ (١) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : 1883 ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔ (۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذااس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ (۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں (جماعت) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟ (٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (٦) اس حدیث میں ((فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ)) کے الفاظ یعنی رمضان اور غیر (رمضان) میں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز تہجد ہے، چونکہ یہ آپ رمضان میں بھی پڑھتے تھے، اسی لئے اس حدیث کو امام بخاری رح ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور (كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ) میں بھی لائیں ہیں، کیونکہ آپ بھی ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے جو آپ کے عمل سے بھی واضح ہوتا ہے.
امام بخاری رحمہ الله بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے : چناچہ امام ابن حجر العسقلاني (773 هـ - 852 هـ) رح [هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥] میں لکھتے ہیں، اور جسے غیرمقلد (اہل_حدیث) علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب [تیسیر الباری شرح بخاری: ١/٤٩] نقل کرتے ہیں کہ : "امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل"بخاری"جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نماز_تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نماز_تہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں قرآن ختم کرتےاور دن کو ایک قرآن ختم کرتے اور وہ افطار کے وقت ختم ہوتا تھا (هدي الساري مقدمة فتح الباري- شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥، ذکر و سيرته و شمائله و زهده و فضائله،چشتی)
ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر (مسلم) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟
تہجد کو محدثین نے کتب حدیث میں ((قیام الیل)) یعنی رات کی نماز، اور تراویح کو ((قیام الیل فی رمضان)) یعنی رمضان میں رات کی نماز، کے الگ الگ ابواب سے ذکر کیا ہے ، اور یہ دونو جدا جدا نمازیں ہیں. چناچہ مشھور غیر-مقلد-اہل_حدیث علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: "وأما قيام اليل فهو غير قيام رمضان" يعني: قیام الیل، قیام رمضان کے علاوہ ہے؛ (نزل الأبرار: ص ٣٠٩)
تراویح اور تہجد کا وقت بھی جدا جدا ہے، چناچہ فتاویٰ علماۓ حدیث (٦:٢٥١) میں ہے کہ: تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد"اول" شب کا ہے اور تہجد کا "آخر" شب کا ہے؛
غیر مقلد ثناء الله امرتسری لکھتے ہیں : تہجد کا وقت صبح سے پہلے کا ہے، اول وقت میں تہجد نہیں ہوتی(فتاویٰ ثناءیہ: ١/٤٣١)؛
محدثین کی طرح فقہاء کرام بھی تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ نماز سمجھتے اور کتب_حدیث کی طرح کتب_فقہ میں بھی الگ الگ ابواب میں ذکر کرتے ہیں؛
تہجد اور تراویح میں فرق کا ثبوت : تراویح سنّت ہے اور تہجد نفل نماز ہے؛
تہجد کی مشروعیت قرآن سے "نفل" ثابت ہے: "اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ نفل (زیادتی/اضافی) ہے تیرے لیے"(١٧:٧٩) جبکہ نماز_تراویح کی :مشروعیت "سنّت" ہونا حدیث سے ثابت ہے، حدیث : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " .
[امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ]
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح) سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تراویح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے۔
فائدہ : یہ سنّت نماز (تراویح) بھی روزہ کی طرح رمضان کی خاص عبادات میں سے ہے .
قرآن : یعنی اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو (٥٩/٧)
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ سَمَّاهُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِؓ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کعبؓ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ، قَالَ : " مَا هُوَ ؟ " ، قَالَ : نِسْوَةٌ مَعِي فِي الدَّارِ قُلْنَ لِي : إِنَّكَ تَقْرَأُ وَلَا نَقْرَأُ ، فَصَلِّ بِنَا ، فَصَلَّيْتُ ثَمَانِيًا وَالْوَتْرَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَرَأَيْنَا أَنَّ سُكُوتَهُ رِضًا بِمَا كَانَ " .(مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 20626،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہؓ سے بحوالہ ابی بن کعبؓ مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا آپ میں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی۔
حقیقت : "قیام اللیل" کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، قمي اور عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضعیف ہیں ؛ اور "مسند احمد" مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ تو نہیں رَجُلٌ سَمَّاهُ ہے یعنی مبہم (نہ معلوم) راوی ہے اور باقی وہی دونوں قمي اور عِيسَى یھاں بھی ہیں، پس اصولِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت ضعیف ہے، اور ہیثمی کا اسے حسن کہنا خلافِ دلیل ہے۔
یہ روایت تین کتابوں میں ہے : "مسند احمد" میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، "ابو یعلیٰ" کی روایت میں ((یعنی رمضان)) کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فہمِ راوی ہے نہ کہ روایتِ راوی ، "قیام اللیل" میں فی رمضان کا لفظ ہے جو کسی راوی تحتانی کا ادراج ہے، جب اس حدیث میں فی رمضان کا لفظ ہی مُدرج ہے تو اس کو تراویح سے کیا تعلق رہا.
"ابو یعلیٰ" اور "قیام اللیل" سےظاہر ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے، مگر "مسند احمد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کا ہے اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس واقعہ کو کماحقہ ضبط نہیں کر سکے.(یعنی ضبط راوی میں بھی ضعف ثابت ہوا)
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑھنے والا (قيام الليل کی روایت میں) کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ اور (مسند احمد کی روایت میں کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا اس سے معلوم ہوا کہ اسی ایک رات اس نے آٹھ پڑھی تھیں پہلے کبھی یہ عادت نہ تھی اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ انوکھا کام میں نے آج رات ہی کیا ہے ورنہ آٹھ میری عادت نہیں اور نہ میں اسے سنّت سمجھتا ہوں. حضورؐ خاموش رہے ورنہ آٹھ رکعت سنّت ہوتی تو آپؐ خاموش کیوں رہتے ، فرماتے تم گھبرا کیوں رہے ہو یہ تو سنّت ہے. معلوم ہوا کہ عہدِ نبویؐ میں کوئی شخص بھی آٹھ رکعت تراویح کو سنّت نہیں سمجھتا تھا، آپؐ نے خاموش رہ کر آٹھ کے سنّت نہ ہونے کی تقریر فرمادی جس سے کسی خاص حالت میں نفس جواز (اس کا صرف جائز ہونا) معلوم ہوا وہ بھی بعد میں اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ختم (منسوخ) ہوگیا.
نوٹ : ہم اس آٹھ (٨) رکعت والی حدیث جابر سے زیادہ بہتر اور مضبوط سند بیس (٢٠) رکعت تراویح کے ثبوت میں حضرت جابر سے ہی دوسری حدیث نبوی بیان کر چکے ہیں، لہذا جب صحیح سند اس کے خلاف وہ بھی ان ہی صحابی سے مروی حدیث ثابت ہے تو آٹھ (٨) رکعت کو سنّت اور بیس (٢٠) رکعت کو بدعت کہنا بلا دلیل ہی نہیں بلکہ خلاف (صحیح) دلیل ہے ۔
بیس (20) رکعت تراویح کا ثبوت کتب شیعہ سے : حضرت سیدنا علی المرتضى، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے الله حضرت عمر کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا.[شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید: ٣/٩٨،چشتی)
حضرت سیدنا امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے. عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوتے، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا. پھر اس طرح حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے.[فروع کافی : ١/٣٩٤ - طبع نولکشور، ٤/١٥٤ - طبع ایران]؛
شیعہ کی کتاب من لایحضر الفقیہ میں بھی بیس (٢٠) رکعت تراویح کا ذکر ہے [من لایحضر الفقیہ : ٢/٨٨،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق بھی رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کردیتے تھے، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے.[الاستبصار ١/٢٣١-طبع نولکشور، ١/٤٦٢-طبع ایران،چشتی)
اسی لیے امام قرطبی (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد . [فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549،چشتی) ترجمہ : "مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا) ؛ مضطرب حدیث : جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے . (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment