Thursday 3 May 2018

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دیں حق کی شرط اوّل ہے

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دیں حق کی شرط اوّل ہے

ہروہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عقل و فہم کی دولت عطا فرمائی ہے وہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ حب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کی روح ہے ۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

شریعت مطہرہ نے ہر مسلمان پر حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے تمام خویش و اقارب، اعزہ و احباب سے زیادہ لازم کی ہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْ ھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتیّٰ یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَO (التوبہ:24) ۔ میرے حبیب! فرما دیجئے کہ اے لوگو تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری عورتیں ، تمہارا کنبہ، تمہاری کمائی کے مال اور وہ تجارت جس کے نقصان کا تمہیں ڈر رہتا ہے اور تمہاری پسند کے مکان، ان میں سے کوئی چیز بھی اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے تو انتظار کرو کہ اللہ اپنا عذاب اتارے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَاکَان لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ (التوبہ:120)
مدینہ والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پیچھے بیٹھےرہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں۔
حضرت انس بن مالک انصاری فرماتے ہیں کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتیّٰ اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری ص7)
تم میں کوئی مومن نہ ہوگا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ و اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
اور انہی سے روایت ہے کہ فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے:ثَلاَثٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلاَ وَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَا ھُمَا وَاَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لاَ یُحِبُّہٗ اِلاَّ لِلّٰہِ وَاَنْ یَّکْرَہَ اَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُّقْذَفَ فِی النَّارِ (بخاری ص7،چشتی)
جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت و حلاوت پالے گا۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس کو تمام ماسوا سے زیادہ پیارے ہوں، دوسری یہ کہ وہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے لئے محبت کرے، تیسری یہ کہ وہ کفر میں لوٹ جانا ایسا بُرا سمجھے جیسا کہ آگ میں پھینکے جانے کو بُرا سمجھتا ہے۔
حضرت سہل بن عبداللہ التستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مَنْ لَّمْ یَرَوَ لاَ یَۃَ الرَّسُوْلِا فِی جَمِیْعِ اَحْوَالِہٖ وَلَمْ یَرَنَفْسَہٗ فِیْ مِلْکِہٖ لَمْ یَذُقْ حَلاَوَۃَ سُنَّۃٍ لِاَنَّہٗا قَالَ لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتیّٰ اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَّفْسِہ۔
جوہر حالت میں میں رسول اللہ ا کو اپنا مالک نہ جانے اور اپنی ذات کو ان کی ملکیت میں نہ سمجھے وہ حلاوت سنت سے محروم ہے کیونکہ آپ ا کا فرمان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی جان سے زیادہ اس کو محبوب نہ ہو جاؤں۔ (زرقانی علی المواہب ص6 /313، شرح شفا للقاری ص 2 /25، 2 /6،چشتی)
ان دو آیتوں اور تین حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، ماں باپ و اولاد، عزیز و اقارب، دوست و احباب، مال و دولت، مسکن و وطن اور اپنی جان غرض کہ ہر چیزکی محبت سے زیادہ ضروری و لازم ہے اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت نہ رکھے یا ان کی مخالفت کرے تو خواہ وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو اس سے دوستی اور محبت رکھنا جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ لاَ تَتَّخِذُوْآ اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوَلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلیَ الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَO (التوبہ: 23)
اے ایمان والو اپنے باپ اور بھائیوں کو بھی دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو پسند کریں اور جو تم میں سے ان سے دوستی کرے گا وہی ظالموں میں ہے۔
نیز فرمایا:لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّاللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْکَانُوْآ اٰبَآئَ ھُمْ اَوْاَبْنَآئَ ھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَھُمْط اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ ط وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِینَ فیْھَاط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَO (المجادلہ:22)
تم نہ پاؤ گے انہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر کہ محبت کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اگر چہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا عزیز ہی کیوں نہ ہوں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف روح سے ان کی امداد فرمائی اور ان کو داخل کرے گا باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ راضی ہوگیا اللہ ان سے اور وہ راضی ہوگئے اللہ سے، یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں آگاہ ہو جاؤ بے شک اللہ ہی کی جماعت فلاح پانے والی ہے۔
ان آیتوں سے صراحتہً ثابت ہوا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی مخالفت کریں اور ایمان پر کفر کو پسند کریں اگر چہ وہ بہت ہی زیادہ قریبی ہوں ان سے دوستی و محبت رکھنا جائز نہیں بلکہ ظلم ہے اور بے دینی ہے۔ اس مضمون کی متعدد آیتیں اور حدیثیں موجود ہیں جب یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و نجات کا دارومدار حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ہے تو جس مومن کے دل میں آپ کی محبت کامل ہوگی اس کا ایمان بھی کامل ہوگا ورنہ ناقص اور اگر آپ کی محبت مطلقاً نہیں تو وہ قطعاً ایمان سے محروم ہے۔
اس مقام پر یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ اسلام کے دعوے دار تمام فرقے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مدعی ہیں۔ محبت ایسی چیز نہیں جو ظاہر ہو، اس کا تعلق دل سے ہے، اور ظاہر ہے کہ دلوں کا حال ہمیں معلوم نہیں۔ ایسی صورت میں ہم کس گروہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محب قرار دے کر مومن سمجھیں اور کس فرقہ کے دعویٔ محبت کو غلط جان کر اسے ناری قرار دیں؟
اس الجھن کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دین متین اور عقل سلیم کی روشنی میں محبت کا ایسا معیار تلاش کریں جس کے ذریعے حقیقت واقعیہ منکشف ہوجائے اور ہم بخوبی جان لیں کہ اصلی محبت کا حامل کون ہے۔

اس سلسلہ میں بعض حضرات کا مسلک تویہ ہے کہ محبت کا معیار محبوب کی اتباع اور اس کی پیروی ہے کیونکہ محب، محبوب کا مطیع اور متبع ہوتا ہے۔ اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعٌ
قرآن کریم میں بھی فرمایا : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران : 31)
میرے حبیب آپ فرمادیجئے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو
میری اتباع کرو (پھر) اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔
آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ محبت کی شرط اتباع و اطاعت ہے، لہٰذا جو گروہ متبع سنت اور پابند شریعت ہے، وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محب اور صحیح معنی میں مومن ہے۔
اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اتباع و اطاعت جسے معیار محبت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارکہ و اعمال مقدسہ کے مطابق مطلقاً عمل کرنے کا نام اتباع و اطاعت ہے یا اس میں کوئی قید بھی ملحوظ ہے؟ اگر ''مطلق عمل'' یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعمال مقدسہ کی صرف نقل کو اتباع و اطاعت قرار دیا جائے جن کی موافقت شرعاً مطلوب ہے تو وہ منافقین اور دشمنان دین بھی حضور کے متبع اور اللہ تعالیٰ کے محبوب قرار پائیں گے جو باوجود منافق ہونے اور اپنے دل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت رکھنے کے نماز روزہ اور دیگر اعمال حسنہ کرتے تھے بلکہ صحیح احادیث میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ ایک بے دین و گمرہ قوم آخر زمانہ میں پیدا ہوگی وہ قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، سچے اور خالص مسلمان ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانیں گے، ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی اور دل بھیڑیوں کے مثل ہوں گے، ان کے پاجامے ٹخنوں سے اونچے اور سر منڈے ہوئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔
ایسی صورت میں اس ظاہری اتباع و سنت اور سنن کریمہ کے نقل کو کیونکر معیار محبت اور دلیل ایمان قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ تو نری نقالی ہے جو کسی حال میں محمود و مستحسن نہیں ہوسکتی، اس لئے ضروری ہے کہ اتباع و اطاعت کے معنی پر غور کیا جائے اور صحیح معیار محبت تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فَاتَّبِعُوْنِیْ یُجْبِبْکُمُ اللّٰہُ فرما کر ہمیں بتا دیا کہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نتیجہ اللہ کی محبوبیت ہے۔ محبوب کا دشمن کبھی محبوب نہیں ہوسکتا پھر اللہ تعالیٰ کے محبوب کا دشمن اللہ تعالیٰ کا محبوب کیونکر ہوسکتا ہے، ثابت ہوا کہ اس آیۂ مبارکہ میں اتباع کے معنی محبت رسول کے بغیر صرف ان کے سنن کریمہ کی نقل کرنا نہیں بلکہ فَاتَّبِعُوْنِیْ کے معنی یہ ہیں کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نشے میں مخمور اور ان کی الفت کے جذبات سے معمور ہو کر بتقاضائے الفت و محبت ان کی اداؤں کے سانچے میں ڈھل جاؤ گے، تو تم بھی محبوب و پیارے ہوجاؤ گے۔ یہ اتباع قطعاً حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی دلیل ہے۔
مگر بات جہاں تھی وہیں رہی، سوال یہ ہے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ فلاں گروہ یا فلاں شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت و محبت کے ساتھ ان کے سنن کریمہ پر عمل کررہا ہے، اور فلاں آدمی بغیر محبت کے محض نقالی میں مصروف ہے۔ آئیے اس سوال کا حل اور معیارِ محبت تلاش کریں۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم: حُبُّکَ الَّشْیَٔ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ (مسند امام احمد، ابوداؤد 334ج2،چشتی)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (کہ انسان کو جب کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو) وہ محبت اس کو (محبوب کا عیب دیکھنے سے) اندھا اور (محبوب کا عیب سننے سے) بہرہ کردیتی ہے۔
اس مبارک حدیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ محبت کی ناقابل تردید دلیل اور صحیح معیار یہ ہے کہ مدعی محبت کی آنکھ اور کان محبوب کا عیب دیکھنے اور سننے سے پاک ہو، عقل سلیم کے نزدیک بھی محبت کا صحیح معیار یہی ہے کیونکہ محبت کا مرکز حسن و جمال ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ محبت والی آنکھ محبوب کی ذات میں کوئی عیب نظر آئے اوراگر کسی کو محبوب میں عیوب و نقائص نظر آتے ہیں تو وہ اپنے دعوی محبت میں جھوٹا ہے۔ محبت والی آنکھ کو واقعی عیب نظر نہیں آتا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو بے عیب ہیں۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عرض کرتے ہیں:
وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآئٗ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآئٗ
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری آنکھ نے آپ سا حسین و جمیل اور کوئی نہیں دیکھا کیونکہ آپ سا حسین و جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ تو ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا کہ آپ ایسے پیدا کئے گئے ہیں جیسا کہ آپ خود چاہتے تھے۔
ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے عیب ہیں اور جسے بے عیب میں عیب نظر آئے اس کا دعویٔ محبت کیوں کر درست ہوگا۔ اسی معیار پر موجود فرقوں کو پرکھ لیجئے۔
کوئی گروہ خلفائے راشدین اور محبوبین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر منافق کہہ کر ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کفر و نفاق کی محبت کا عیب لگا رہا ہے۔
کوئی آلِ اطہار کی شان میں گستاخیاں کر کے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچا رہا ہے۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال خاتمیت کا انکار کرکے تنقیص شانِ نبوت پر کمر باندھی ہوئی ہے۔
کوئی گرو ہ، تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس احادیث کا انکار کرکے سرکار کی توہین و تکذیب میں مصروف ہے۔
کسی نے آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات علمیہ وعملیہ کا انکار کرکے تنقیصِ رسالت کی۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ مر کر مٹی میں مل گئے، وہ ہمارے ہی جیسے بشر تھے، وہ ہمارے بڑے بھائی کے برابرتھے اور ان کی تعظیم فقط بڑے بھائی کی سی کرنی چاہیئے۔
اور کوئی کہہ رہا ہے کہ جیسا علم ان کو ہے ایسا تو ایرا غیرا نتھو خیرا، اور ہر پاگل، اور ہر نابالغ، اور ہر حیوان اور ہر چار پائے کو بھی ہے۔
اور کوئی کہہ رہا ہے کہ حضور کا علم تو شیطان لعین اور ملک الموت کے علم سے بھی کم ہے۔
اور کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کا میلاد شریف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہنود کنھیا کا جنم دن مناتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے نماز میں ان کی طرف خیال لے جانا، زنا کے وسوسے اپنی بی بی کی مجامعت کے خیال اور بیل اور گدھے کے خیال میں ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے۔
اور کوئی علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ ان سے بے شمار غلطیاں ہوئیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا۔
کسی نے کہا کہ جس طرح ہم بھول جاتے ہیں اسی طرح وہ بھی بھولا کرتے تھے (معاذاللہ)
غرض کہ کیا کیا لکھا جائے۔ معمولی سمجھ رکھنے والا انسان اس حقیقت کو نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ عقل و شرع سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اہل محبت کو محبوب میں کوئی عیب نظر نہیں آتا اور نہ ان کا کان محبوب کا عیب سن سکتا ہے، تو جس قوم کا شب و روز یہی وتیرہ ہو کہ قرآن و حدیث اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں عیوب و نقائص ثابت کرنے کے درپے ہو وہ کیونکر سرکار کی محبت کے دعوے میں صادق ہوسکتی ہے؟
خدا کی قسم! حضور تو محمد ہیں اور محمد کے معنی ہی بے عیب ہیں، تو جس نے محمد کے اندر عیب مانا، اس نے محمد کو محمد ہی نہیں مانا۔ حضور کو محمد وہی مانتا ہے جو حضور کو بے عیب مانتا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) پس ثابت ہوا کہ تمام فرقوں میں وہ فرقہ اپنے دعویٔ محبت میں سچا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عیوب و نقائص سے منزہ اور پاک مانتا ہے۔

اوپر ہم نے عرض کیا کہ ایمان کا دار و مدار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ہے اور محبت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ کہ جس کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے۔ (زرقانی علی المواہب ص314 ج6،چشتی)
پس جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی زیادہ محبت ہوگئی وہ اتنا ہی کثرت سے آپ کا ذکر کرے گا۔ معلوم ہوا آپ کا کثرت سے ذکر کرنا تقاضائے محبت و ایمان ہے۔
علامہ محاسبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عَلاَمَۃُ الْمُحِبِّیْنَ کَثْرَۃُ الذِّکْرِ لِلْمَحْبُوْبِ عَلیٰ طَرِیْقِ الدَّوَامِ لَاَیَنْقَطِعُوْنَ وَلاَ یَمْلُوْنَ وَلاَ یَفْتَرُوْنَ وَقَدْ اَجْمَعَ الْحُکَمَآئُ عَلیٰٓ اَنْ مَّنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ مِنْ ذِکْرِہٖ فِذِکْرُ الْمَحْبُوْبِ ھُوَالْغَالِبُ عَلیٰ قُلُوْبِ الْمُحِبِّیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ بِہٖ بَدَلاً وَّلاَ یَبْغُوْنَ عَنْہُ حَوْلاً وَلَوْ قَطَعُوْا عَنْ ذِکْرِ مَحْبُوْبِھِمْ لَفَسَدَ عَیْشُھُمْ وَمَا تَلَذَّ ذُالْمُتَلَذِّذُوْنَ بِشْئٍی اِلَّا مِنْ ذِکْرِ الْمَحْبُوْبِ (زرقانی علی المواہب ص314 ج6)
محبوں کی علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کا ذکر کثرت سے دائمی طور پر اس طرح کرتے ہیں کہ نہ تو کبھی ذکر سے جدا ہوتے ہیں اور نہ کبھی چھوڑتے اور نہ کبھی کوتاہی کرتے ہیں اور حکماء کا اس پر اجماع ہے کہ محب محبوب کا ذکر کثرت سے کرتا ہے اور محبوب کا ذکر محبوں کے دلوں پر ایسا غالب ہوتا ہے کہ نہ تو وہ اس کا بدل چاہتے ہیں اور نہ ہی اس سے پھرنا۔ اور اگر ان کے محبوب کا ذکر ان سے جدا ہوجائے تو ان کی زندگی تباہ ہوجائے اور وہ کسی چیز میں لذت و حلاوت نہیں پاتے جو ذکر محبوب میں پاتے ہیں۔
وَمِنْ عَلاَمَاتِ مَحَبَّتِہٖ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ تَعْظِیْمُہٗ عِنْدَ ذِکْرِہٖ وَاِظْہَارُ الْخُشُوْعِ وَالْخُضُوْعِ وَالاِنْکِسَارِ مَعَ سِمَاعِ اسْمِہٖ صلی اللہ علیہ وسلم (زرقانی علی المواہب ص315 ج6،چشتی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ آپ کے ذکر شریف کے وقت آپ کی تعظیم کی جائے اور خصوصاً آپ کے نام مبارک کے سننے کے وقت خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کا اظہار کیا جائے۔
امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وَمِنْ عِلاَمَاتِ مَحَبَّتِہ صلی اللہ علیہ وسلم کَثْرَۃُ الشَّوْقِ اِلیٰ لِقَآئِہٖ اِذْ کُلُّ حَبِیْبٍ یُّحِبُّ لِقَآئَ حَبِیْبِہٖ۔ (زرقانی علی المواہب ص317 ج6)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی علامتوںمیں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی زیارت اقدس کا بہت زیادہ شوق ہو کیونکہ ہر محب اپنے محبوب کی ملاقات کو محبوب رکھتا ہے۔وَمِنْ عِلاَمَاتِ مَحَبَّتِہ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یَّلْتَذَّ مُحِبُّہٗ بِذِکْرِہِ الشَّرِیْفِ وَیَطْرَبُ عِنْدَ سِمَاعِ اسْمِہِ الْمُنِیْفِ۔ (زرقانی علی المواہب ص322 ج6)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی علامتوںمیں سے یہ بھی ہے کہ آپ کا محب آپ کے ذکر شریف سے روحانی لذت و سرور پائے اور آپ کے نام مبارک کے سننے کے وقت خوش ہو۔
اب ان لوگوں کی حالت کا اندزہ کیجئے جو آپ کے ذکر پاک، فضائل و کمالات صورت و سیرت کے بیان سے مسرور و شاداں نہیں، بلکہ دل تنگ ہوتے ہیں، کیا ان کا آپ کے ذکر پاک سے دل تنگ ہونا ایمان و محبت سے محروم ہونے کی کھلی ہوئی دلیل نہیں؟
آپ کا ذکر ذکرخدا ہے
حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جَعَلْتُ تَمَامَ الْاِیْمَانِ بِذِکْرِکَ مَعِیَ وَقَالَ اَیْضًا جَعَلْتُکَ ذِکْرًا مِّنْ ذِکْرِیْ فَمَنْ ذَکَرَکَ ذَکَرَنِیْ۔ (شفا شریف ص12 ج1،چشتی)
میں نے ایمان کا مکمل ہونا اس بات پر موقوف کردیا کہ (اے محبوب) میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہو اور میں نے تمہارے ذکر کو اپنا ذکر ٹھہرا دیا ہے، پس جس نے تمہارا ذکر کیا، اس نے میرا ذکر کیا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَقَالَ اِنَّ رَبَّکَ یَقُوْلُ أَتَدْرِیْ کَیْفَ رَفْعَتُ ذِکْرَکَ قُلْتُ اللّٰہُ اَعْلَمُ قَالَ اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیَ۔(زرقانی علی المواہب و درمنشور ص264 ج6،چشتی)
میرے پاس جبریل آئے اور کہا بے شک آپ کا رب فرماتا ہے کہ (اے حبیب) تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہارا ذکر کیسا بلند کیا ہے۔ میں نے کہا اللہ خوب جانتا ہے۔ فرمایا کہ جب میرا ذکر ہوگا تو میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہوگا۔
چنانچہ قرآن پاک میں اللہ جل شانہ کے ذکر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے دیکھئے۔لِتُؤُمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (فتح:9) اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (حجرات:15) وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (نور:62) اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (نور:62) اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (مائدہ:92) اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (انفال:20) وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (نساء:13) وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (توبہ:71) وَاِنْ یُّطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (حجرات:14) اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ (انفال:24) وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (نسائ:14) اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (احزاب:57) بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (توبہ:ا) وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (توبہ:3) مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ(توبہ:16) اِنَّہٗ مَنْ یُّحَادِدِاللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ(توبہ:63) اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (مجادلہ:5) اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (مائدہ:33) وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:29) قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ (انفال:13) فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (النساء) وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (انفال:13) ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَاقُّوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (حشر:4) مَااٰتَاھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:59) سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:59) اِنَّھُمْ کَفَرُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (توبہ:54) اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:74) فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ (انفال:41) اَلَّذِیْنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (توبہ:90) وَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:94) وَاِذَا دُعُوْآ اِلیَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (نور:48) اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ وَرَسُوْلُہٗ (نور:50) وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (احزاب:31) اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (احزاب:29) وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (احزاب:31) اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (احزاب:36) لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (حجرات:12) وَیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (حشر:8) وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ (منافقون:8) مَاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ (احزاب:22) وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ (احزاب:36) اَطَعْنَااللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلاَ (احزاب:66)
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:اَقْبَلَ اٰدَمُ عَلیٰٓ ابْنِہٖ شِیْثَ فَقَالَ اَیْ بُنَیَّ اَنْتَ خَلِیْفَتِیْ مِنْم بَعْدِیْ فَخُذْھَا بِعَمَارَۃِ التَّقْوٰی وَالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللّٰہَ فَاذْکُرْ اِلیٰ جَنْبِہٖ اسْمَ مُحَمَّدٍ فَاِنِّیْ رَاَیْتُ اسْمَہٗ مَکْتُوْبًا عَلیٰ سَاقِ الْعَرْشِ وَاَنَا بَیْنَ الرُّوْحِ وَالطِّیْنِ ثُمَّ اِنِّیْ طُفْتُ السَّمٰوٰتِ فَلَمْ اَرَفِی السَّمٰوٰتِ مَوْضِعًا اِلاَّ رَاَیْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ مَکْتُوْبًا عَلَیْہِ وَاَنَّ رَبِّی اَسْکَنَنِی الْجَنَّۃَ فَلَمْ اَرَفِی الْجَنَّۃِ قَصْرًا وَّلاَ غُرْفَۃً اِلاَّ وَجَدْتُّ اِسْمَ مُحَمَّدٍ مَکْتُوْبًا عَلَیْہِ وَلَقَدْ رَاَیْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ مَکْتُوْبًا عَلیٰ نُحُوْرِ الْحُوْرِ الْعِیْنِ وَعَلیٰ وَرْقِ قَصْبِ لِجَامِ الْجَنَّۃِ وَعَلیٰ وَرَقِ شَجَرَۃِ طُوْبیٰ وَعَلیٰ وَرَقِ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی وَعَلیٰٓ اَطْرَافِ الْحُجُبِ وَبَیْنَ اَعْیُنِ الْمَلٰٓئِکَۃِ فَاَکْثِرْ ذِکْرَہٗ فَاِنَّ الْمَلَآئِکَۃَ مِنْ قَبْلٍ تَذْکُرُ فِیْ کُلِّ سَاعَاتِھَا (زرقانی علی المواہب،چشتی)
آدم علیہ السلام اپنے بیٹے شیث علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو۔ پس خلافت کو تقوی کے تاج اور محکم یقین کے ساتھ پکڑے رہو اور جب تم اللہ کا ذکر کرو تو اس کے متصل نام محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر کرو کیونکہ میں نے ان کا نام عرش کے ستونوں پر لکھا ہوا دیکھا ہے جب کہ میں روح و مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے تمام آسمانوں پر نظر کی تو مجھے کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آئی جہاں نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لکھا ہوا نہ ہو۔ اور میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت کے ہر محل اور ہر بالا خانے اور برآمدے پر اور تمام حوروں کے سینوں پر اور جنت کے تمام درختوں کے پتوں پر اور شجر طوبیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر اور پردوں کے کناروں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) لکھا ہوا دیکھا ہے، لہٰذا تو کثرت سے ان کا ذکر کیا کر۔ کیونکہ فرشتے ہر وقت ان کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔
آپ کی تعظیم فرض عین ہے
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر فرض عین ہے بلکہ تمام فرائض کی اصل ہے اور آپ کی ادنیٰ توہین یا تکذیب کفر ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاصِیْلاً (الفتح: 9)
(اے نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا شاہد و مبشر و نذیر بنا کر تاکہ (اے لوگو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔ اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔
اس آیۂ کریمہ میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ اوّل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ دوم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرنا۔ سوم تسبیح یعنی اللہ کی عبادت کرنا۔ ایمان کو پہلے اس لئے رکھا کہ بغیر ایمان، تعظیم کچھ مفید نہیں اور تعظیم حبیب کو عبادت پر مقدم اس لئے فرمایا کہ بغیر تعظیم کے عمر بھر کی عبادت بے کار و مردود ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیّٓ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الاعراف:157)
پس جو اس (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی اتباع کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اس آیۂ کریمہ میں بھی وہی ترتیب جمیل ہے۔ اوّل ان پر ایمان، دوم ان کی تعظیم اور سوم ان کے دین کی نصرت اور قرآن کریم کی اتباع، ثابت ہوا کہ ایک مومن پر ایمان لاتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر فرض ہوجاتی ہے۔ اور اگر اس تعظیم میں فرق آجائے تو سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ فرمایا:
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَتَشْعُرُوْنَ o اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ o (الحجرات:2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان کی حضوری میں بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ بیشک وہ جو اپنی آوازیں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور پست کرتے ہیں وہ ہیں جن کا دل اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاری کے لئے رکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر و ثواب ہے۔
اس آیۂ کریمہ میں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام اور اجلال و اکرام تعلیم فرمایا گیا ہے کہ ادب و احترام کا پورا لحاظ رکھیں ورنہ نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر جب صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر پورا پورا عمل کیا، اور خدمت اقدس میں بہت ہی پست آواز سے عرض معروض کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کو عظیم الشان مژدے سنائے اور جنہوں نے ترک ادب کیا ان کو بے عقل بتایا چنانچہ فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لاَیَعْقِلُوْنَo وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْاحَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الحجرات:5)
بے شک وہ جو (اے حبیب) تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ آیت وفد بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی جب کہ وہ دوپہر کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ اس وقت آرام فرمارہے تھے، انہوں نے آپ کا نام لے کر پکارنا شروع کیا، آپ باہر تشریف لائے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اس طرح آپ کو پکارنا ادب کے خلاف اور جہالت و بے عقلی ہے بلکہ بہتر یہ تھا کہ یہ لوگ اتنا صبر کرتے کہ آپ ان کے پاس خود تشریف لاتے۔ فرمایا:
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلیْمٌ (البقرہ:104)
اے ایمان والوں (ہمارے حبیب کو) راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور سن لو! کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کرتے رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی حضور ہمارے حال کی رعایت فرمائیے اور کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہی لفظ ''رَاعِنَا'' یہود کی زبان میں گستاخی و بے ادبی کا لفظ تھا۔ انہوں نے یہی لفظ گستاخی و بے ادبی کی نیت سے بولنا شروع کردیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ اے ایمان والو ایسا کلمہ ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مت کہو جس سے دشمن کو گستاخی و بدگوئی کا موقع مل جائے۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...