Monday, 15 June 2015
سوال: آج کل لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے بلند آواز سے سلام کرتے ہیں، جس سے نماز و اذکار میں مشغول نمازیوں کا خیال بٹ جاتا ہے اور بعض نمازی بیٹھے ہوئے نمازیوں سے ہاتھ ملاتے ہیں اور بعض نمازی آپس میں گفتگو کرتے ہیں، بعض دفعہ وہ گفتگو تفریح و مذاق کا رخ اختیار کرجاتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ اس طرح کے معمولات مسجد میں جائز ہیں یا نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جواب: (1) عن عبداﷲ بن عمرو ان رجلا سال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ای الاسلام خیر؟ قال: تطعم الطعام و تقریٔ السلام علی من عَرفْتَ و من لم تعرف۔(مشکوٰۃ، باب السلام ص397)
’’حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اسلام کی کون سی خصلت سب سے اچھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم (مساکین کو) کھانا کھلائو اور (ہر مسلمان کو) سلام کرو، خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں۔‘‘
(2) عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: للمؤمن علی المؤمن ستُّ خصال یعودہ اذا مرض ویشھَدہ اذامات و یجیبہ اذا دعاہ و یُسَلّم علیہ اذا لقیہ و یشمتہُ اذا عطس و ینصح لہ اذا غاب او شھد لم اجدہ۔(مشکوٰۃ، باب السلام، صفحہ 397)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مومن کے دوسرے مومن پرچھ( عمومی )حقوق ہیں، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، جب وہ وفات پائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے، جب اس سے ملاقات ہوتو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے تو (اس کی الحمد للہ کے جواب میں) ’’یَرْ حَمُکَ اللہ‘‘ کہے اور وہ موجود ہو یا نہ ہو (ہر حال میں)اس کی خیرخواہی کرے۔‘‘
(3) عن ابی اُمامۃ قال: قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم: ان اولی الناس باللّٰہ من بدأ بالسلام۔ (مشکوٰۃ باب السلام صفحہ 398)
’’حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عام لوگوں کے بہ نسبت اللہ تعالیٰ (کی رحمت و مغفرت) کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے۔‘‘
(4)عن ابی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یسلم الراکب علی ا لماشی والماشی علی القاعد والقلیل علی الکثیر ۔
’’حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور جو تعداد میں کم ہوں وہ اپنے بہ نسبت زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔‘‘
(5)عن ابی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسلم الصغیر علی الکبیر والمار علی القاعد والقلیل علی الکثیر ۔ (مشکوٰۃ باب السلام)
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (راستے پر) چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں۔‘‘
(6)عن ابی ہریرۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اذا اتی احد کم الی مجلس فلیسلم فان بدالہ ان یجلس فلیجلس ثم اذا قام فلیسلم فلیست الاولیٰ باحق من الاٰخرۃ ۔(مشکوٰۃ باب السلام)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، اگر وہ بیٹھنا مناسب سمجھے تو بیٹھ جائے، پھر جب مجلس سے (روانہ ہونے کے لیے) اُٹھے تو تب بھی سلام کرے کیونکہ پہلا دوسرے سے کوئی زیادہ اہم نہیں ہے،(یعنی اسلامی شعار ہونے کے اعتبار سے دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔)‘‘۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ’’سلام‘‘ اسلام کا شعار ہے، سنت متوارثہ ہے، اسلامی اخلاقیات کا اعلیٰ نمونہ ہے ،دنیا کی ہر قوم میں باہمی ملاقات کے موقع پر تحیت کے کچھ خاص کلمات رائج ہیں، جیسے انگریزوں کے ہاں گڈ مارننگ، گڈ نائٹ وغیرہ، فارسی میں صبح بہ بخیر، شب بخیر وغیرہ۔ لیکن اسلام کا شعارِ ملاقات والوداع سب سے منفرد ہے، یہ ایک جامع کلمۂ دعاء وخیرخواہی ہے، اللہ کی سلامتی و رحمت و برکت کی دعا ہے اور اپنی جانب سے بھی پیغامِ سلامتی ہے۔ ایک حدیث مبارک میں آپ نے پڑھ لیا کہ آدمی باہر سے آکر مجلس میں شریک ہو تو سلام کرے، اُٹھ کر جانے لگے تو سلام کرے، اگرچہ اہلِ مجلس میں سے ہر ایک پر اس کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے ایک یا چند افراد نے جواب دے دیا تو جواب کی ’’سنتِ کفایہ‘‘ ادا ہوگئی۔
لیکن اگر مسجد میں لوگ نماز میں مشغول ہیں، تلاوتِ قرآن کریم، تسبیح، اوراد ووظائف اور درود شریف پڑھنے میں مشغول ہیں یا وعظ و تذکیر اور درس و تدریس کی مجلس میں مشغول ہیں تو پھر آنے والا اونچی آواز سے سلام نہ کرے (اور اگر اس نے اونچی آواز سے سلام کر بھی دیا تو ان لوگوں پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے) بلکہ وہ خاموشی سے آئے اور اپنی عبادت میں مشغول ہوجائے، ہاں اگر کوئی شخص یا چند اشخاص کسی عبادت، تلاوت، اور اد و اذکار وغیرہ میں مشغول نہیں ہیں تو ان کے قریب جاکر انہیں سلام کرے، تاکہ جو لوگ مصروفِ عبادت ہیںان کی توجہ اور یکسوئی میں خلل واقع نہ ہو۔ یہ مسئلہ مسجد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خارجِ مسجد بھی کوئی مجلسِ وعظ، تلاوت، درود خوانی یا ذکر و فکر کی مجلس برپا ہو تو جاکر خاموشی سے بیٹھ جائے۔ جہاں سلام کی اجازت ہے وہاں مصافحہ بھی کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی کھانا کھانے میں مشغول ہو تو بھی اسے سلام نہ کرے۔ لیکن اگر اسے کسی نے سلام کردیا تو وہ جواب دے دے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے دوران بات چیت کا جواز ثابت ہے۔البتہ اگر بھوک ہو اور کھانے کی طلب ہو تو سلام عرض کردیں ، شاید وہ پیش کش کرے۔
مسجد میں شور وغوغا کرنا، دنیوی باتیں کرنا، گپ شپ کرنا،ہنسی مذاق کی باتیں کرنا، کاروباری لین دین کی باتیں کرنا سخت منع ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
(1) عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من سمع رجلاً ینشد ضالۃ فی المسجد فلیقل لاردھا اللہ علیک فان المساجد لم تُبْنَ لٰہذا۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: جو کسی شخص کو مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو کہے کہ اللہ کرے تجھے یہ چیز نہ ملے کیونکہ مساجد اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘
(2) عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال نھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عن تناشد الاشعار فی المسجد و عن البیع والاشتراء فیہ وان یتحلق الناس یوم الجمعۃ قبل الصلوۃ فی المسجد۔
’’عمر و بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں (فحش) اشعار پڑھنے، خریدوفروخت کرنے اور جمعہ کے دن مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے حلقے بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔‘‘
(3) عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہصلی اللہ علیہ وسلم: اذا رایتم من یبیع او یبتاعُ فی المسجد فقولوا لا اربح اللّٰہ تجارتک و اذا رایتم من ینشد فیہ ضالۃ فقولوا لارداللّٰہ علیک۔(مشکوٰۃ، باب المساجد)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب تم دیکھو کہ کوئی شخص مسجد میں لین دین کررہا ہے تو کہو کہ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے اور جب تم دیکھو کہ کوئی گمشدہ چیز کا اعلان کررہا ہے تو کہو کہ اللہ تعالیٰ یہ گمشدہ چیز تمہیں نہ لوٹائے۔‘‘ـ
(4)عن الحسن مرسلا قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم: یا تی علی الناس زمان یکون حدیثھم فی مساجد فی امردنیاہم فلا تجالسوہم فلیس للّٰہ فیھم حاجۃ۔(مشکوٰۃ باب المساجد)
’’حضرت حسن سے ایک حدیث مرسل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں دنیوی باتیں کریں گے ان کے ساتھ نہ بیٹھو، اللہ کو ان (کی عبادت) سے کوئی غرض نہیں۔‘‘
علامہ ابن عابدین شامی مسجد میں باتیں کرنے کی ممانعت کو منکرات یا ’’لہوالحدیث‘‘ (بیہودہ یا بے مقصد باتوں) پر محمول کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’المصفّٰی میں ہے مسجد میں بات چیت کے لیے بیٹھنا شرعاً جائز ہے کیونکہ اھل صفّہ کا رہن سہن مسجد ہی میں ہوتا تھا وہ وہاں پر سوتے بھی تھے اور بات چیت بھی کرتے تھے ، لہٰذا کسی کے لیے اس سے منع کرنا جائز نہیں ہے۔ ’’الجامع البرہانی‘‘ میں بھی اسی طرح ہے، (فتاویٰ شامی 2/378 طبع جدید بیروت)‘‘۔
لیکن ظاہر ہے کہ اہل صفہ زیادہ تر دین ہی کی باتیں کرتے تھے، احادیث کا بیان کرتے تھے یا یہ اس طرح کی ضروری باتوں پر محمول ہے جیسے کسی مسجد کی انتظامیہ کے لوگ مسجد میں بیٹھ کر مسجد کے انتظامی معاملات پر بات کرتے ہیں یا کچھ لوگ کسی دینی، ملی اور فلاحی مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت نفلی اعتکاف کی نیت کرلینی چاہئے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment