Monday, 15 June 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو ’’اے حبیب!‘ کہنے کا جواز؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوال: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہاں اور کس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے لفظ سے مخاطب کیا ہے، جس کے معنی ہیں اے حبیب ، اور کیا اے نبی کا ترجمہ اے حبیب! معنی میں تصرف نہیں ہے اور کیا معنی کا تصرف یا تاویل جائز ہے؟
=========================================
جواب: مشکوٰۃ المصابیح میں باب فضائل سید المرسلین میں سنن دارمی اور جامع ترمذی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک طویل حدیث نقل کی گئی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ’’(ترجمہ) رسول اللہ علیہ وسلم کے کچھ احباب بیٹھے ہوئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، باہر تشریف لائے یہاں تک کہ ان کے قریب ہوگئے۔ آپ نے سنا کہ صحابہ آپس میں مذاکرہ کررہے تھے، ان میں سے کسی نے کہا بیشک اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل (دوست) بنایا ہے، دوسرے نے کہا:موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا ہے ، ایک اور نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی (جانب سے مقدس) روح ہیں۔ ایک اور نے کہا: آدم کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا: میں نے تم سب کی گفتگو سن لی ہے اور (اس امر پر) تمہاری حیرت کو بھی نوٹ کیا کہ ابراہیم خلیل اللہ ہیں، ہاں ہاں وہ اسی شان کے( مالک) ہیں اور موسیٰ اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز کی باتیں کرنے والے ہیں ان کی بھی یہی شان ہے، عیسیٰ اللہ کی جانب سے روح اور اس کا کلمہ ہیں اور بلاشبہ ان کی یہی شان ہے، اور آدم اللہ کے برگزیدہ و چنیدہ (Selected) ہیں اور ان کی یہی شان ہے، مگر سنو! میں اللہ کا حبیب ہوں۔‘‘ تو اس حدیث مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں، واضح رہے کہ ’’حبیب‘‘ اور ’’محبوب‘‘ ہم معنی ہیں۔ اسی طرح قرآن نے متعدد مقامات پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ متقین، متوکلین، صابرین، مقسطین، توابین، محسنین، مطہرین سے محبت فرماتا ہے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو ان سب کے سردار و امام ہیں بلکہ ان سب کو یہ شرف حضور کی نسبتِ غلامی سے ملا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب درجے میںمحبوب ہیں۔ اس لیے حضور کو اللہ تعالیٰ کا حبیب یا محبوب کہنا درست ہے۔ کیونکہ جس سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کے حبیب یا محبوب کا اطلاق بالکل درست ہے۔

باقی ’’یٰٓاَ یُّھاالنّبِیُّ!‘‘ کا معنیٰ کسی نے ’’اے حبیب!‘‘ یا ’’اے محبوب!‘‘ نہیں کیا، بلکہ اُس کا ترجمہ سب نے ’’اے نبی!‘‘ کیا ہے، بعض مفسرین و مترجمین کرام نے اس کا ترجمہ ’’اے (غیب بتانے والے) نبی! کیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ لفظ ’’نبی‘‘ کے ایک معنی ہیں ’’غیب کی خبر دینے والا۔‘‘ البتہ جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قُل‘‘ کے کلمے کے ساتھ مخاطب فرمایاجس کے معنی ہیں کہو، کہہ دو،کہئے، کہہ دیجئے، اس میں ضمیر مخاطب مستتر (پوشیدہ) ہے، یعنی ’’اَنْتَ‘‘ (تو، تم) اور ظاہر ہے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو اس کا ترجمہ کہہ دیجئے ’’اے نبی!‘‘ ’’اے رسول!‘‘، ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!‘‘ یا ’’اے حبیب!‘‘ یا ’’اے محبوب!‘‘ کرنا درست ہے اور صرف کہو یا کہہ دو یا کہہ دیجئے کردیں تو تب بھی درست ہے۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...