Monday, 15 June 2015

خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر اعتراضات کی حقیقت


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل تشیع حضرات کے طرف سے موبائل ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلایا گیا ایک مغالطہ جو کافی عرصے سے ہمارے ہاں گردش کر رہا ہے۔

جو کئی بار احباب کے طرف سے جواب کے لیے آچکا ہے اور راقم نے بارھا اسکا رد کیا ہے اور ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ان باتوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں یہ صرف مغالطات ہیں جن کے ذریعے عوام کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 لیکن اس کے باوجود آئے دن وہی '' ایس ایم ایس'' پھر بھیجا جا تا ہے کہ اس کا رد کریں۔

لہٰذا  اس کا مستقل رد لکھنے کا ارادہ کیا تاکہ تمام  احباب اس شر سے محفوظ رہیں۔

 اور حقائق کھل کر سامنے آجائیں۔

 آئیے پہلے اس ایس ایم ایس کو نقل کر تے ہیں پھر اس کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

'' تاریخ اسلام کے تین اہم ترین سوالات اور ان کے جوابات''

 باغ فدک میں دختر رسول بی بی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا حصہ دینے سے کس نے انکار کیا؟

جواب ابو بکر نے ( صحیح بخاری ٢/ ١٨٥)

 جب رسول پاک نے آخری وقت میں قلم و دوات مانگے تو کس نے دینے سے انکار کیا؟

جواب عمر نے ( صحیح بخاری ٢/٧٦٠)

 قرآن پاک کو جمع کر کے جلانے کا حکم کس نے دیا؟

 جواب عثمان نے (صحیح بخاری ٣/١٠٩١)

 قارئین کرام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے متعلق خبیث ذھن کے حامل افراد نے یہ ایس ایم  ایس باالترتیب خلفاء ثلاثہ پر جرح کی نیت سے اہل سنت کی ایک معتبر کتاب سے نقل کیا ہے۔

 مگر حقائق کو دیکھا جائے تو ان حوالوں میں زبر دست خیانت کی گئی ہے یہود و نصاریٰ کی طرح اپنی مقصد کی باتوں کو اخذ کیا گیا ہے اور حقیقت پر پردہ پوشی کی گئی ہے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ان روایات کو من و عن صحیح بخاری سے نقل کئے جائیں  جس سے معزز قارئین کے سامنے بات واضح ہو کہ حقائق کیا ہیں؟

 اور یہ لوگ کس طرح حدیث رسول میں تحریف کر کے عوام کو مغالطات میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

 امام بخاری اپنی صحیح میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے نقل کر تے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے وفات کے بعد سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ سیدنا ابو بکر صدیق   کے پاس آئے اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی میراث کا تقاضا کرنے لگے جو فدک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملی تھی اور خیبر میں جو حصہ تھا۔

 سیدنا ابو بکر صدیق نے جواب دیا کہ سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول لا نورث ماتر کنا صدقة کہ ہم نبیوں کا کوئی وارث نہیں ہو تا جو مال ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔

البتہ یہ ہے کہ انما یأکل آل محمد من ھذا  آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آل اس سے کھا تت پیتے رہیں گے اﷲ کی قسم جو کام نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیا کر تے تھے میں بھی ویسا ہی کروں گا اور آپ کا طریقہ چھوڑنے والا نہیں (بخاری ١٦٣٤)

 قارئین کرام یہ ہے وہ اصل روایت جس کا مخصوص حصہ لے کر عوام کو مغالطہ دیا جا رہا ہے کہ ابو بکر صدیق  نے فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی میراث دینے سے انکار کیا۔

جب کہ اس ہی روایت میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لا نورث ہمارا کوئی وارث نہیں بن سکتا

توشیعہ حضرات حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی میراث پر کیوں مصر ہیں؟

 کیا یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت نہیں؟

 اور پھر یہ بھی واضح ہو گیا کہ سیدنا ابو بکر نے باغ فدک دینے سے کیوں انکار کیا؟

 اور ورثہ نہ ہونے کے باوجود جو سیدنا ابو بکر نے کہا کہ آل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے کھا تے رہیں گے۔

کی اچھائی کیوں نظر نہیں آتی؟

اس سے معلوم ہوا کہ یہ محض بغض ہے جو ایسے عجیب و غریب اعتراض تراشنے پر مجبور کر تا ہے ورنہ سیدنا ابو بکر صدیق اس الزام سے بری ہیں۔

بالفرض تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ابو بکر صدیق باغ فدک خود کھا گئے تو سیدنا علی۔ حسن حسین و دیگر اہل بیت کے افراد ابو بکر سے لڑے کیوں نہیں ؟

بیوی کی میراث کھائی جا رہی ہے خاوند خاموش ہے؟

اور اگر اس قدر آپ کو اہل بیت کی میراث کی فکر ہے تو ازواج مطہرات کو بھی تو میراث نہیں ملی تھی ان کے متعلق کیوں چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے؟ جب کہ وہ خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سن کر اپنا حصہ لینے سے دستبر دار ہو گئیں تھیں۔

 امام بخاری سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کر تے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ازواج مطہرات نے چاہا کہ سیدنا عثمان کو ابو بکر صدیق کی خدمت میں بھیج کر اپنے ترکے کا مطالبہ کریں تو انھیں میں نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا

ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہو تاجو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے (بخاری ١٦٣٧)

 اور اگر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہو تی تو سیدنا ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کو دیتے سیدنا عمر اپنی بیٹی حفصہ کو دیتے ۔

 ان دونوں خلفاء نے تو سیدہ فاطمہ کو اپنے والد کا میراث نہیں دی مگر کیا اپنی بیٹیوں کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وراثت سے حصہ دیا؟ کیا بعد میں جب سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت آئی تو انہوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی میراث کو تقسیم کیا؟

امام خطابی معالم السنن شرح ابو دائود ١٠ ٣ میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ کر تے ہیں کہ خلیفہ ابو العباس سفاح (عباسیہ) نامی کسی گاؤں میں خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں اپنی گردن پر قرآن مجید لٹکائے ایک شخص داخل ہوئے اور خلیفہ سے کہا کہ تجھے اﷲ کی قسم ہے اس کتاب کے ذریعے میرے اور میرے دشمن کے درمیان فیصلہ کر ۔

خلیفہ نے کہا تجھ پر کس نے ظلم کیا ہے؟

کہا ابو بکر نے ۔ جس نے فاطمہ کو باغ فدک نہیں دیا

 خلیفہ  نے کہا اس کے بعد کون خلیفہ بنے؟

کہا عمر

خلیفہ نے کہا اس نے بھی نہیں دیا

کہا ہاں

خلیفہ نے کہا اس کے بعد کون خلیفہ بنے؟

کہا عثمان

خلیفہ نے کہا اس نے بھی نہیں دیا؟

 کہا ہاں

خلیفہ نے کہا اس کے بعد کون خلیفہ بنے؟

 کہا امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ

 خلیفہ نے کہا اس نے بھی نہیں دیا؟

 تو اب وہ معترض خاموش ہو گیااور اِدھر اُدھر جھانکنے لگا کہ باھر نکلنے کا موقعہ ملے

جس پر خلیفہ نے کہا اس رب کی قسم جس کا کوئی شریک نہیں ہے

 اگر میرا یہ پہلا خطبہ نہ ہو تا تو میں آج تیری گردن اڑا دیتا

 اور پھر خلیفہ نے خطبہ جاری رکھا ( بحوالہ بدیع التفاسیر ٦/٨٤)

اور اسی طرح سیدنا عمر پر اعتراض کہ انہوں نے آخری وقت میں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو قلم ودوات نہیں دیا تھا بھی محض کینہ و بغض پر مبنی تھا۔

 امام بخاری سیدنا عبد اﷲ بن عباس سے روایت نقل کر تے ہیں کہ جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے جن میں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ بھی موجود تھے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہلم اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ قال عمران النبی صلی اﷲ علیہ وسلم غلبہ الوجع وعند کم القرآن فحسبنا آؤ آئو تمہارے لیے ایک ایسا مکتب لکھ دوں کے اس کے بعد تم کبھی بھی گمراہ نہ نہیں ہو گے۔

عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا آپ تکلیف میں مبتلا ہیں ہمارے پاس اﷲ کی کتاب موجود ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے گھر کے لوگوںمیں بھی اختلاف ہو گیا اور آپس میں بحث کرنے لگے ان میں سے بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ( لکھنے کا سامان) کر دو وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔

 اور بعض نے وہی بات کی جو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کہہ چکے تھے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے اختلاف و بحث زیادہ ہونے لگی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے ہٹ جاؤ ۔ ( بخاری ٧٣٦٨)


آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس جھگڑے اور شور اور اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کیتحت ہوا۔

بعد میں بھی آپ کافی وقت تک باہوش رہے مگر یہ خیال مکرر ظاہر نہیں فرمایا۔ بعد میں امر خلافت میں جو کچھ ہوا اور عین اﷲ و رسول کی منشاء کے مطابق ہوا۔

 اگر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی بات معاذ اﷲ بد نیتی پر مبنی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ رضی اﷲ عنہ کی تردید کیوں نہیں کی؟

 اس طرح تو آپ کا اعتراض خود سیدنا علی رضی اﷲ عنہ اور دیگر اہل بیت کے افراد پر بھی عائد ہو تا ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے قلم و ددوات دینے سے انکا رکیا تو سیدنا علی اور دیگر اہل بیت کے افراد موجود تھے انہوں نے نبی صلی اﷲ عیہ وسلم کو قلم و دوات کیوں نہیں دیا؟

 اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ ہی اکثر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاہدے لکھا کر تے تھے۔

 جیسے صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی آپ رضی اﷲ عنہ نے ہی لکھا تھا

 اور اب اس وقت بھی آپ موجود تھے مگر معاہدہ کیوں نہیں لکھا

 جب کہ سیدنا عباس بن عبد المطلب نے کہا بھی تھا

 اسی ہی صحیح بخاری میں سیدنا عبد اﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ سیدنا عباس بن عبد المطلب نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ تم اﷲ کی قسم تین دن کے بعد تم زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائو گے۔

 اﷲ کی قسم مجھے تو ایسے آثار نظر آرہے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس مرض سے صحت یاب نہیں ہو سکتے۔

موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور آپ سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسرا مستحق ہو گا تو وہ بھی معلوم ہو جائے گا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے کہا اﷲ کی قسم اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپنے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کر دیں گے میں تو ہر گز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھو ں گا (بخاری ٤٤٤٧)

 اور پھر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے معاہدہ لکھنے کے لیے قلم و دوات دینے سے انکار کیا تو کس بنا پر کیا؟

 کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں آپ کو زیادہ تکلیف دینا مناسب نہیں۔

 کیا یہ صحابہ کی نیک نیتی تھی یا بد نیتی؟

 اور پھر کیا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لکھنا چاہتے تھے وہ خلیفہ کا تعین تھا؟

 کہ آپ اس قدرشور مچا رہے ہیں

اوراب ہم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ سیدنا علی نے بھی وہی چاہا جو دیگر صحابہ نے چاہا۔

اب دیکھیں کہ یہ حضرات ان پر کیا فتویٰ صادر کر تے ہیں؟

 اور یہاں یہ وضاحت بھی انتہائی ضروری ہے کہ اگر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خلافت کی وصیت لکھتے تب بھی تو شیعہ حضرات کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔

یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ابو بکر صدیق کے لیے ہی لکھتے جیسا کہ آپ کا ارادہ تھا۔

امام مسلم اپنی صحیح میں سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت نقل کر تے ہیں کہ ''مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے وقت کہا میرے پاس اپنے باپ ابو بکر اور اپنے بھائی کو بلائو تاکہ میں لکھ دوں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی خواہش کرنے والا خواہش نہ کرے کہ میں خلافت کا حقدار ہوں سن لو۔ اﷲ بھی انکار کر تا ہے اورمومن بھی انکار کر تے ہیں کہ ابو بکر کے علاوہ اور کوئی خلیفہ بنے''۔ ( مسلم ٣٣٨٧)

 اس لیے آپ کو خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔

اگر اس موقع پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم لکھ لیتے تب بھی آپ کو اعتراض ہو تا۔

 اور سیدنا عثمان نے قرآن مجید کیوں جلایا پہلے وہ روایت ملا حظہ فرمائیں۔ امام بخاری اپنی صحیح میں نقل کر تے ہیں کہ جنگ یمامہ میں صحابہ کی بڑی تعداد میں شہادت ہوئی جس کی وجہ سے سیدنا عمر سیدنا عثمان کے ہاں آکر کہنے لگے کہ یمامہ کی جنگ میں بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہوئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اس طرح کفار کے ساتھ جنگوں میں قرآن کے قاری شہید ہوجائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والے بہت بڑی تعداد میں قتل ہوجائیں گے آپ مجھے قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دیں۔ (بخاری ٤٩٨٦)

 دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہ نے آکر سیدنا عثمان سے کہا کہ اے امیر المومنین اس سے پہلے کہ یہ امت بھی یہود و انصاری کی طرح کتاب اﷲ میں اختلاف کرنے لگے آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمان نے حفصہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں کہلا بھیجا کہ وہ صحیفہ جسے زید نے ابو بکر کے حکم پر جمع کیا تھا اور جس پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروائیں پھر اصل نسخہ آپ کو لوٹا دیں گے حفصہ رضی اﷲ عنہا نے وہ صحیفے سیدنا عثمان کے ہاں بھیج دیے۔

اور آپ نے زید بن ثابت عبد اﷲ بن زبیر سعد بن العاص اور عبد الرحمان بن حارث کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کریں۔

عثماں رضی اﷲ عنہ نے ان تینوں قریشی صحابیوں سے کہا اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں سیدنا زید سے اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھو کیونکہ قرآن مجید قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور

وارسل الی کل افق بمصحف مما نسخو۔ اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن مجید کی طرف منصوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔ ( بخاری ٤٩٨٧)

 قارئین کرام مذکورہ روایت آپ نے ملاحظہ فرمائی اس میں کہا ںہے کہ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے قرآن مجید کو جمع کر کے جلانے کا حکم دیا۔

یہاں تو یہ بات واضح لکھی ہوئی ہے کہ آپ نے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھوا کر اپنی سلطنت میں ارسال کیے۔

اگر آپ کو قرآن مجید سے نفرت تھی تو آپ کو کیا ضرورت پڑی تھی قرآن مجید کو جمع کرنے کی؟

قرآن مجید تو ویسے ہی قراء کی شہادت سے ضائع ہو رہا تھا۔

 یہ آپ کا امت مسلمہ پر احسان ہے کہ آپ نے امت مسلمہ کو ایک قرأت پر جمع کیا ورنہ یہ امت قرآن مجید میں بھی اختلاف کا شکار ہو تی۔

 اور ماہر صحابہ کے نگرانی میں جمع شدہ اس نسخے کے علاوہ جو اس سے متصادم تھا جلانے کا حکم دیا۔

 جس پر کسی بھی صحابی نے اعتراض و اختلاف نہیں کیا اگر آپ کا یہ عمل مکروہ ہو تا تو صحابہ کرام آپ رضی اﷲ عنہ سے اختلاف کرتے۔

قرآن مجید کو جلتا دیکھ کر سیدنا علی حسن، حسین، عباس، عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھم کیوں خاموش رہے؟ انہوں نے قرآن مجید کو جلنے سے کیوں نہیں بچا لیا۔

 اگر اہل بیت کے گھرانے کو سید نا عثمان کے اس فیصلے سے اختلاف ہو تا تو کیا قرآن مجید کو جلتا دیکھ کر وہ خاموش بیٹھے رہتے؟

قارئین کرام یہ وہ حقائق تھے جن پر پردہ پوشی کر کے عوام الناس کو مغالطوں میں ڈالکر صحابہ کے متعلق بد ظن کیا جا تا ہے۔

ا س لیے ضروری ہے کہ ہم بجائے ایسی ہوائی باتوں پر کان دھرنے کے قرآن و حدیث آئمہ اسلاف علیہم الرّحمہ سے رجوع کر کے رہنمائی حاصل کریں اور اپنے عقائد و نظریات میں بغض صحابہ جیسی قبیح چیز شامل کرنے سے بچیں۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...