ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں بھی اِیصالِ ثواب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اِس کی مشروعیت پر بالتفصیل لکھا ہے : ۔
’اور بعض لوگوں کا جو یہ بیان ہے کہ میت کو قرآن حکیم سننے سے فائدہ ہوتا ہے (جب اس کی قبر کے پاس پڑھا جائے) بخلاف اس کے کہ جب کسی دوسری جگہ پر پڑھا جائے۔ اس بات سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ثواب صرف اسی صورت میں پہنچتا ہے جب خاص طور پر قبر کے پاس ہی پڑھا جائے، تو معروف علماء میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں دو آراء ہیں :
پہلا قول : بدنی عبادات کے بارے میں ہے جیساکہ نماز اور تلاوتِ قرآن حکیم
اور اس کی علاوہ دیگر بدنی عبادات کا ثواب بھی میت کو پہنچے گا جس طرح مالی
عبادات کا ثواب پہنچتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور یہ ابو حنیفہ اور احمد
بن حنبل کا مذہب ہے۔ ان دونوں کے علاوہ شافعی اور مالکی فقہاء کے ایک گروہ
کا بھی یہی قول ہے۔ یہی حق ہے۔ اس پر بہت سے دلائل ہیں جنہیں ہم نے اس مقام
کے علاوہ دوسری جگہ بیان کیا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا.‘‘
’’پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے) ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے۔ذکره ابن تيمية في إقتضاء الصراط المستقيم / 378-379.
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا.‘‘
’’پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے) ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے۔ذکره ابن تيمية في إقتضاء الصراط المستقيم / 378-379.
No comments:
Post a Comment