٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِس کے بعد ابن تیمیہ نے پانچواں سبب لکھا ہے : ۔
’’(گناہوں کی بخشش کا) پانچواں سبب وہ نیک اعمال ہیں جو میت کے لئے کیے جاتے ہیں. جیسے صدقہ اور اس طرح کے اعمال. پس یہ بات سنت صحیحہ صریحہ کی نصوص سے ثابت ہے کہ میت کو ان اعمال کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے اور اسی طرح (میت کی طرف سے) غلام آزاد کرنے اور حج کرنے کا فائدہ (بھی میت کو پہنچتا) ہے۔بلکہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیحین میں ثابت شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر (ماہِ رمضان کے) روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے ادا کرے۔‘‘ اِسی طرح کا حکم الصحيح میں دیگر قرائن کی بنا پر منت کے روزوں سے بھی ثابت ہے۔ پس (یہ تمام تفاصیل جان لینے کے بعد) یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے قول {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} ’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی‘‘ کے ساتھ کوئی تعارض ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں :
پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ بات نصوص متواترہ اور ائمہ سلف کے اِجماع سے
ثابت ہے کہ مؤمن کو اس عمل سے بھی فائدہ ملتا ہے جس کے لیے اُس نے کوئی
کوشش نہ کی ہو، جیسا کہ ملائکہ کی دعا اور ان کا مومن بندے کے حق میں
استغفار کرنا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے
ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح
کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت
کرتے ہیں.} اور اِسی طرح نبیوں اور مؤمنین کی دعائیں اور ان کا استغفار
کرنا، نماز پڑھنے والوں کا میت کے لیے دعا کرنا، اور قبروں پر جانے والوں
کا صاحبِ قبر کے لیے دعا کرنا (بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے).‘‘
No comments:
Post a Comment