Tuesday, 16 June 2015
منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد
یہاں منافقین کی ایک اور علامت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے، کردار کا دوغلا پن اسی کو ظاہر و باطن کا تضاد کہتے ہیں۔ منافقین کا رویہ بزدلانہ تھا۔ وہ اپنے اندر کے کفر کو مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث ظاہر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی اپنا تعلق اپنے وڈیروں اور سرمایہ داروں سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔ ان کا وطیرہ اس دوغلے کردار کی غمازی کرتا تھا۔ یعنی:
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
اپنی طرف سے ان کا یہ طریقِ کار نہایت مخفی اور راز دانہ تھا۔ لیکن قرآن ان کا منافقانہ نفسیات اور بزدلانہ روشِ زندگی کو بے نقاب کر رہا ہے کہ جب غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے ہیں۔ تو انہیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی ہم مسلمان ہیں اور سابقہ حالتِ کفر سے تائب ہو چکے ہیں۔ اور جب اپنے کفر کے رؤسا و قائدین کے پاس علیحدگی میں جاتے ہیں تو انہیں اپنی وفاداری اور کفر سے وابستگی کا یقین دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے راہ و رسم اور ملنا جلنا انہیں بے وقوف بنانے کے لیے ہے اور ان سے ہم جو اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کرتے ہیں، وہ محض تمسخر اور استہزا ہے۔ یہ تھا ان کے کردار کا دوغلا پن جسے قرآن نے نمایاں طور پر انہی کے الفاظ میں واضح کر دیا۔
خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْنِھِمْ کا مفہوم
اس آیت میں منافقین کے دو اقوال کا ذکر ہے ایک قولِ ایمان، جو وہ مسلمانوں سے کرتے تھے اور دوسرا قولِ کفر، جو وہ کفر کے سرغنوں سے کرتے تھے۔ پہلے قول کے لیے
وَاِذَا لَقُوْا الَّذِيْنَ اٰمِنُوْا قَالُوْا اٰمَنَّا.
البقره، 2: 14
‘‘اور جب وہ (منافق) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں۔’’
کے الفاظ آتے ہیں، لیکن کفر کے قول کے لیے:
اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ.
البقره، 2: 16
‘‘جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں۔’’
کے الفاظ آئے ہیں۔ خَلاَ فَلاَنٌ بفلانٍ کے معنٰی ہیں: وہ اس سے علیحدگی میں ملا، یا اس کے ساتھ خلوت میں ہوا۔ (3) یہاں اس امر کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے کہ منافقین کا قولِ کفر، خلوت میں ہوتا تھا۔ یعنی یہ ان کا باطن تھا۔ اور قولِ ایمان وہ ظاہر میں کرتے تھے۔ گویا ان کے ظاہر اور باطن میں تضاد تو تھا ہی لیکن اس کی یہ تھی کہ وہ ظاہراً ایمان، اسلام، نیکی اور اچھائی کی بات کرتے تھے لیکن ان کا باطن کفر اور بدی سے لبریز تھا۔ اسی نوعیت کے تضاد کو قرآن نے منافقت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایسا دائمی معیار ہے کہ ہر شخص اپنے ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت کے تضاد کو پرکھ کر یہ متعین کر سکتا ہے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔
(3) ابن منظور، لسان العرب، 14: 237
سازشی منصوبہ بندی منافقت کا بڑا گھناؤنا روپ ہے
اس آیت میں خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ کے دونوں الفاظ قابلِ توجہ ہیں۔ خَلَوْا کے لفظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اہلِ حق کے خلاف ساری سازشیں اور ریشہ دوانیاں خلوت میں مخفی اور سازشی انداز میں ہوتی تھیں۔ لوگ اہلِ حق کی مخالفت کھلے انداز میں نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے ان سے خوشامدانہ رویے سے پیش آتے تھے۔ ان کے سامنے ایسے کلمات بھی کہتے جن سے انہیں ظاہراً خوش کرنا مقصود ہوتا۔ ان کی تائید کرتے اور اپنے آپ کو ان کا ہمنوا ظاہر کرتے لیکن ان کے خلاف چھپ کر اپنی مخصوص مجلسوں میں سازشیں اور گھناؤنے منصوبے تیار کرتے رہتے تھے۔ منافقت کا یہ بیان اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ مخفی اور سازشی انداز کی کاروائیاں اور بند کمروں کے منصوبے سب اپنی اصل کے لحاظ سے منافقت ہوتے ہیں۔ اہلِ حق، سچائی کی بات کو ہر جگہ یکساں طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اگر دینی تقاضے کے تحت کسی کی مخالفت میں بھی مخفی سازش کا عنصر کار فرما ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کے خلاف سازش کرنا اور مخفی طریقوں سے ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ایک عمومی رویہ بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ مذہب کے کئی نام نہاد داعی بھی دوسروں کے خلاف سازش اور مخفی منصوبہ بندی (conspiracy, intrigue) میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ کسی کی مخالفت بھی کرتے ہیں تو چھپے انداز میں یہ منافقت بعض طبیعتوں میں اتنی عام ہوتی جا رہی ہے کہ ان کا پورا کردار اسی عمل سے عبادت ہو کر رہ گیا ہے۔ طریقِ کار کے اعتبار سے یہ حق و باطل کے درمیان امتیاز ہے۔ آپ کسی بھی فرد، طبقے، گروہ یا جماعت کے طور طریقوں سے اس امر کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد حق ہے یا منافقت کیونکہ قرآن کی یہ تعلیمات محض واقعات پر نہیں بلکہ ابدی اصولوں کے بیان پر مشتمل ہیں۔ اگر ہم اپنے خود تراشیدہ معیارات کے بجائے قرآنی معیارات پر جانچ کر حق و باطل کا تعین کریں تو بہت سی حقیقتیں بے نقاب ہو سکتی ہیں۔
سازشی سرغنے قرآنی اصطلاح میں شیطان ہیں
شیطان کا لفظ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں۔ اس لحاظ سے شیطان رحمت الہٰی سے دور اور محروم ہونے والے کو کہتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک شیطان، شاط یشیط سے فعلان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی غضب میں جلنے کے ہیں۔ جہ جلد باز، مشتعل مزاج، متمرو مزاج شریر و سرکش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ کی مزید لغوی تحقیق اور معنوی تفصیلات و اطلاعات ہماری کتاب ‘‘تسمیۃ القرآن’’ کے حصے اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اگر اس جگہ قرآنِ مجید نے گروہِ منافقین کو دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک منافقین اور دوسرے شیاطین۔
عام منافقین سے مراد وہ تمام لوگ تھے، جو زبان پر کلمہ اسلام اور دل میں کلمہ کفر رکھتے تھے۔ جن کا ذکر اس آیت کے سیاق و سباق میں چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیثیت محض کارکنوں کی تھی۔ کفر کے اصل سرغنے تو وہ سردار اور لیڈر تھے، جو محض مجلسیں سجا کر بیٹھتے اور مسلمانوں کے خلاف محض سازشیں کرتے تھے ان کو قرآنِ مجید نے ان کے گھناؤنے کردار کی بنا پر شیاطین قرار دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کا عمل عام منافقوں سے کہیں زیادہ قبیح تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں شیطان کہا گیا ہے۔ یہ الفاظ منافقانہ اور سازشی کاروائیوں کی سرپرستی کرنے والے لیڈروں اور سرغنوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
تمسخر اور استہزاء کی نفسیات
مسلمانوں سے تمسخر اور استہزاء کی نفسیات بذاتِ خود منافقت ہے۔ غلط بیانی اور طعنہ زنی کا انداز بھی اسی میں شامل ہے۔ علامہ زمخشری نے استہزاء کا معنی إنزل الهوان والحقارة یعنی ذلت و حقارت کا وارد کرنا کیا ہے۔ کیونکہ استہزاء کی اصل ‘‘ہزا’’ ہے جس کے معنی کسی کا مذاق اڑانا کے ہیں۔ لہٰذا استہزاء کی اصل غرض دوسرے کی تحقیر ہے۔ ہنسنا محض ایک ذریعہ ہے جس سے تحقیر کی جاتی ہے۔ تحقیر کے بغیر ہنسنا استہزاء نہیں کہلاتا۔ یہاں منافقین کی مخصوص ذہنیت اور عادت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر تھی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے تھے۔ استہزاء ان کی اسی سوچ کا مظہر تھا۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ وہ اہل حق کو حقیر اور خود کو اعلیٰ وفائق تصور کرتے تھے۔ اسی لیے تو ان کے نزدیک مسلمانوں کے استہزاء کا جواز نکلتا تھا۔ یہی سوچ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں حاوی ہوتی جا رہی ہے بہت سے لوگ عامۃ المسلمین کو حقیر، بے وقعت اور ناسمجھ جان کر انہیں قابل التفات نہیں سمجھتے بلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا تمسخر اور استہزاء کرتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ کسی بھی معاشرے کے عوام کو اسی سوچ کے تحت حقیر جان کر نظر انداز کرنا از روئے قرآن مذموم اور علامات منافقت میں سے ہے۔ اس بیان سے یہ تعلیم بھی حاصل ہوتی ہے کہ طنز، تمسخر اور استہزاء کا انداز عام گفتگو میں بھی ہرگز روا نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ بات اسلام کے آداب گفتگو کے صریح خلاف ہے۔ آداب گفتگو کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات بھی کہی جائے، اس کا منشاء و مراد اپنے ظاہر و باطن کے لحاظ سے متضاد نہیں ہونا چاہیے۔
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 104
اللہ کا استہزاء منافقوں کو ذلت و رسوائی کی سزا دینا ہے
اﷲُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ کے دو معنی ہیں اور یہاں فی الحقیقت دونوں ہی مراد ہیں۔ استہزاء کا لفظ اس آیت میں دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ پہلے منافقین کے فعل کے طور پر اور اب باری تعالیٰ کے فعل کے طور پر۔ اس حکمت کو سمجھنے کے لیے ایک اصول ذہن نشین کر لیجئے کہ جب بھی کسی فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا درکار ہوتا ہے تو ظاہراً وہی فعل بولا جاتا ہے، جو انسانوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر دونوں استعمالات میں یہ فرق ہوتا ہے کہ چونکہ انسان ہر فعل میں ذرائع اور وسائط کا محتاج ہے۔ یعنی اس کا ہر فعل کسی نہ کسی ذریعے اور واسطے کی صورت میں اپنی غرض و غایت اور اصل مقصود کو پہنچتا ہے۔ جو اس فعل کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن باری تعالیٰ اپنے فعل میں کسی ذریعے کا محتاج نہیں ہے۔ اس لیے جب کوئی لفظ انسانی فعل کے بیان کے لیے بولا جائے گا تو اس میں ذریعہ اور مقصود دونوں شامل ہوں گے۔ مگر وہی لفظ باری تعالیٰ کے فعل کے بیان کے لیے بولا جائے گا تو اس سے مراد فعل کی صرف غرض یعنی نتیجہ مقصود ہوگا۔ ذریعہ نہ ہو گا مثلاً انسان دیکھتا ہے تو دیکھنے میں آنکھ اور روشنی کا محتاج ہے۔ اس لیے اس کے فعل میں یہ ذرائع بھی شامل ہوں گے۔ مگر جب یہ کہا جائے کہ اللہ دیکھتا ہے تو یہاں آنکھ، روشنی جیسے ذرائع نہیں بلکہ صرف جو غرض دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے، وہی مراد ہوگی۔ اسی طرح انسان سننے میں کان اور ہوا کا محتاج ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے سننے میں یہ ذریعہ مفقود ہو گا اور اصل مقصود جو سننے سے حاصل ہوتا ہے، مراد ہو گا۔ ایسے ہی انسان کا رحم یا غضب اس کے دل پر خاص حالت کے وارد ہونے کے ذریعے سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا رحم اور غضب، دل کی کیفیات کا نہیں، بلکہ صرف نتیجے کا نام ہے۔ یعنی معنی ‘‘اللہ کے استہزائ’’ کا ہے۔ جیسے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ استہزاء میں اصل غرض دوسرے کی ذلت و رسوائی ہے اور ہنسنا محض ذریعہ ہے۔ لہٰذا اللہ کے استہزاء میں دراصل غرض، مقصود اور نتیجہ باقی رہ گیا۔ اور ہنسنا جو ذریعہ تھا، وہ مفقود ہو گیا۔ کیونکہ اللہ اس سے پاک ہے۔ چنانچہ اَﷲُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ کا معنی یہ ہو گا کہ ‘‘اللہ تعالیٰ ان منافقین کو ذلیل و رسوا کرے گا ان کے استہزاء کے بدلے میں جو وہ اہل ایمان سے کرتے ہیں۔’’
سزائے فعل کا ذکر اسی فعل سے کرنا اسلوبِ قرآن ہے
عربی زبان بلکہ خود قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ بعض اوقات کسی فعل پر دی جانے والی سزا کا ذکر بھی اسی فعل کے انداز میں کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ وہ لفظ فعل کے مفہوم پر امام ابن جریر کہتے ہیں کہ جب ایک ہی فقرہ جواب کے طور پر ہو تو اس سے مراد فی الواقع وہ فعل نہیں ہوتا بلکہ اس فعل کی سزا ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ.
الشوریٰ، 42: 40
‘‘اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتاo’’
حالانکہ سزا تو عدل و انصاف کا عین تقاضا ہوتی ہے بری نہیں ہوتی، اسی طرح ارشاد فرمایا گیا ہے:
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ.
البقرة، 2: 194
‘‘حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈر نے والوں کے ساتھ ہےo’’
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.
البقره، 2: 190
‘‘اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo’’
اسی طرح باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.
الحشر، 59: 19
‘‘اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا (کہ وہ اپنی جانوں کے لیے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، وہی لوگ نافرمان ہیںo’’
ایک مقام پر منافقین کا نام لے کر یہی بات یوں کہی گئی ہے:
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.
التوبة، 9: 67
‘‘منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بے شک منافقین ہی نافرمان ہیںo’’
حالانکہ خدا کی ذات بھولنے بھلانے سے پاک ہے۔ لیکن منافقین کے بھلانے پر جو سزا دی گئی ہے اس کو بھلانے سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ استہزاء سے پاک ہے۔ لیکن منافقین کے استہزاء پر جو سزا دی گئی اس کو بھی استہزاء سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘مفردات الفاظ القرآن (ص: 543)’’ میں اور ابن منظور نے ‘‘لسان العرب (1: 283)’’ میں اسی معنی کی تائید کی ہے۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ (1) صاحبِ جلالین اسی کا معنی یُجَازیہم باستہزائہم (اللہ تعالیٰ ان کے مذاق پر انہیں سزا دیتا ہے) کرتے ہیں۔ (2) محاورہ عرب کا استعمال بھی اسی معنی کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے کفار و مشرکین اس آیت کے نازل ہونے پر کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ اہل علم پر نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے الفاظ کے استعمالات پر تحقیق کر کے صحیح ترجمہ اور مفہوم بیان کیا کریں تاکہ عربی زبان سے نا آشنا لوگ ان کے تساہل کی بنا پر کسی غلط خیالی یا بد اعتمادی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(1) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 253
(2) سيوطی، تفسير الجلالين: 5
بعض منصوبوں کا کچھ دیر تک قائم رہنا ان کے حق ہونے کی دلیل نہیں
مَدَّ یَمُدُّ کے اصل معنی کھینچنا اور پھیلانا کے ہیں۔ (1) اس میں ‘‘اِمْہَال’’ یعنی مہلت اور ڈھیل کا مفہوم پایا جاتا ہے جب کوئی شخص خدا کے خلاف بغاوت اور سرکشی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا اسے ڈھیل اور مہلت دیتے ہیں کہ چاہے تو کسی وقت بھی تائب ہو کر اپنی اصلاح کر لے یا پھر اپنی گمراہی اور سرکشی کی انتہا کو پہنچ جائے تاکہ اس کی رسی دراز کیے رکھنے کے بعد اس کی گرفت ہو تو اتنی ہی شدید ہو جتنی شدید اس کی سرکشی اور بغاوت تھی۔ اس آیت سے لوگوں کے اپنے اعمال اور گمراہی و سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی نسبت اللہ کی طرف سے عطا کردہ آزادی اور اختیار بھی ثابت ہوتا ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کسی کو غلط راہ پڑنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اور نہ غلط کاری کے بعد مہلت دیے بغیر کسی کی گرفت کرتے ہیں۔ چنانچہ منافقین کو بھی عہد رسالت میں ڈھیل دی گئی حتی کہ غزوہ تبوک کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کے آخری ایام میں انہیں سزا دی گئی۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 3: 396
یہاں تعلیم و تربیت کا یہ پہلو مضمر ہے کہ اگر اس دنیا میں کسی شریر و سرکش کو اپنی منفی اور تخریبی کاروائیاں جاری رکھنے کا کچھ موقعہ ملا رہے اور اس کے منصوبے کچھ عرصے تک قائم رہیں تو اس سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ وہ حق ہے کیونکہ باطل ہوتا تو نیست و نابود ہو جاتا۔ اور نہ یہ مراد لیا جائے کہ وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ اسے زوال نہیں آ سکتا۔ یہ سب انسان کی ناقص عقل کی بھول ہے۔ حقیقت میں یہ مہلت نہ اس کی حقانیت کی علامت ہے اور نہ اس کے ہمیشہ باقی رہنے کی دلیل۔ اس میں اس کی کوئی کامیابی نہیں اسے اس مہلت پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ باری تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے تاکہ وہ اپنی گمراہی کے نقطہ عروج پر پہنچ جائے تو اس تصور کو يَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْن (انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں) کے الفاظ میں واضح کیا گیا ہے۔
طغان کا مفہوم
طغی سے مشتق ہے۔ اس کے معانی نافرمانی میں حد سے گزر جانے کے آتے ہیں۔ (1) اسی لیے اس کا ترجمہ سرکشی اور بغاوت کیا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 15: 7
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى.
طه، 20: 24
‘‘تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہےo’’
یعمھون کا مفہوم
عَمَّہُ کے معنی ہیں:
التردد فی الأمر من التحير.
اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 1013
‘‘تحیر کی وجہ سے کسی معاملے میں متردد ہونا۔’’
علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ یہ لفظ عمی کی مانند ہے مگر فرق یہ ہے کہ عمی، اندھا پن، ظاہری نابینائی اور عقل و فکر یا رائے کی نابینائی دونوں پر استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عمہ صرف عقل و فکر کی یعنی باطنی نابینائی پر استعمال ہوتا ہے۔ (1) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی نافرمانی کے باعث ایسے لوگ باطنی روشنی اور صحیح فکری رہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ اپنی گمراہی و سرکشی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ تاوقتیکہ اپنے تمرد اور بغاوت سے تائب ہو جائیں یا بدبختی میں اس انتہا کو پہنچ جائیں کہ پھر ان پر عذاب الٰہی کی گرفت اتنی سخت ہو کہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے۔
(1) زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 107
اشتراء، اشتروا کا مفہوم
شری سے ہے۔ شراء کے معنی عموماً خریدنے اور بیع کے معنی بیچنے کے آتے ہیں۔ مگر کسی چیز کے عوض چیز لی جا رہی ہو تو بیع و شریٰ دونوں ایک دوسرے کے مترادف بن جاتے ہیں۔ (1) ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کفار و منافقین نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی۔ یعنی انہوں نے ایمان کے بجائے کفر کو پسند کیا۔ اس لحاظ سے یہاں اِشتَروا بمعنی اِسْتَحبُّوْا استعمال ہوا ہے۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی معنی کی تائید کی ہے۔ (2) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اپنی سابقہ کفر کی حالت کی بنا پر پہلے ہی دولت ایمان اور متاع ہدایت سے محروم تھے۔ وہ ہدایت دے کر گمراہی خریدنے کے قابل تو تب ہوتے اگر ان کے پاس پہلے متاع ہدایت موجود ہوتی۔ انہیں تو اب ہدایت کی راہ بتائی جا رہی تھی۔ اب ان کے سامنے دو راستے تھے: ایک ہدایت کا، دوسرا گمراہی کا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 14: 427
(2) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 225
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ.
البلد، 90: 10
‘‘اور ہم نے انہیں دو راستے دکھا دیے (یا وہ ہدایت قبول کر کے راہِ سنت پر آ جاتے یا اپنی گمراہی و ضلالت پر قائم رہتے)o’’
چنانچہ انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دی اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کیا۔ ان کے اس فیصلے کو باری تعالیٰ نے اِشْتَرَوُ الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔
اِشْتَرَوُ الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰی کا دوسرا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس فطری ہدایت کو۔ جو اس نے ہر انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے ودیعت کر دی ہے، دے کر۔ اس کے بدلے کفر اور گمراہی حاصل کر لی۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى.
طهٰ، 20: 50
‘‘(موسیٰ علیہ السلام نے) فرمایا: ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اس کے لائق) وجود بخشا پھر (اس کے حسبِ حال) اس کی رہنمائی کیo’’
چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کی بنا پر اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے کیوں نہیں؟) (1) کے ابدی وعدہ کا شرف بھی حاصل کر چکا ہے۔ لہٰذا اسے فطری ہدایت کا وہ بلند درجہ نصیب ہوا ہے جو کسی اور ارضی مخلوق کو میسر نہیں آ سکا۔ اس لیے ان کے پاس نسل بنی آدم ہونے کے باعث فطری ہدایت کی قیمتی متاع تو موجود تھی۔ جس کا تقاضا یہ تھا کہ اب وہ ہدایت ربانی پر بھی ایمان لے آتے۔ لیکن انہوں نے فطری ہدایت کی یہ بیش بہا متاع دے کر اس کے بدلے گمراہی و ضلالت کا سودا کر لیا۔ فطری ہدایت کو کسبی گمراہی سے بدل لینے کے اس فعل کو قرآن حکیم نے إشتراء یعنی إستبدال الضلالة بالهدیٰ (ہدایت کے بدلے گمراہی کو اپنایا) (2) قرار دیا ہے۔ علامہ زمخشری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ اُنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کس طرح خریدی، حالانکہ وہ تو پہلے بھی ہدایت پر نہ تھے لکھا ہے:
(1) الأعراف، 7: 172
(2) شوکانی، فتح القدير، 1: 715
لأن الدين القيّم هو فطرة اﷲ التی فطر الناس عليها، فکل من ضل فهو مستبدل خلاف الفطرة.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غدامض التنزيل، 1: 107
‘‘کیونکہ دین حق ہی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تخلیق کیا ہے۔ پس ہر گمراہ شخص فی الحقیقت فطرت کی ہدایت کو ضلالت و گمراہی سے بدلنے والا ہے۔’’
اس تصور کی بنا پر گمراہی کو ہدایت کے بدلے خریدنے کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ جمہور مفسرین نے اسی معنی کو اپنایا ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment