Tuesday, 16 June 2015
منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 5
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا
یہاں منافقین کی ایک اور توجہ طلب نفسیاتی علامت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کو بے وقوف، کم فہم اور کم عقل سمجھنا۔ بلکہ دوسروں کو اپنی نام نہاد عقل و دانش اور فہم و فراست کے مقابلے میں اس قدر ہلکا تصور کرنا کہ ان کی ڈگر کو بے عقلی اور گمراہی تصور کرنا۔
السفھاء کا معنی
یہ سفیہ کی جمع ہے سفہ کے اصل معنی خفت، کمزوری، ردی پن اور ہلکا پن کے ہیں۔ ہلکے اور کمزور جسم والے کو سفیہ البدن اور گھٹیا کپڑے کو ثَوْبٌ سفیہٌ کہتے ہیں۔ (1) چوں کہ کم عقلی انسان کا سب سے ہلکا پن ہے۔ اس لیے عام استعمال میں سفیہ کا معنی بے وقوف اور کم عقل کیا جاتا ہے۔ اقتصادی نظم و نسق کی سوجھ بوجھ میں کمی کے باعث بعض لوگوں کی نسبت قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
فيروز آبادی، القاموس المحيط، 1: 1609
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا.
النساء، 4: 6
‘‘اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہےo’’
عہد رسالت میں جب منافقوں سے یہ کہا جاتا کہ تم بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل سے ایمان لے آؤ اور اسلام کے خلاف خفیہ فتنہ و سازش بند کر دو تو وہ جواب دیتے کہ دوسرے لوگ تو بیوقوف اور کم عقل ہیں جنہوں نے دل سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کر لی ہے اور اسلام کی خاطر ہر طرح کی جانی و مالی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ کیا ہم بھی ان کی طرح بے وقوف ہو جائیں اور دنیوی منفعتوں کو نظر انداز کر دیں۔ ہمیں کیا پڑی کہ ان بے وقوفوں کی طرح ہر کسی سے مخالفت مول لیتے پھریں۔ اپنی رشتہ دار یا دیرینہ دوستیاں اور سابقہ تعلقات بگاڑ لیں۔ پھر اسلام کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر ہر قسم کی قربانی دیں۔ جنگوں میں حصہ لیں، دن کی مصروفیات اور رات کے آرام و سکوں کو قربان کریں۔ اپنی سرداریاں چھوڑیں اور ایک شخص کے حلقہ غلامی میں آ جائیں۔ دراصل ان منافقین کے سامنے اسلام کا اصلی روپ اور حقیقی روح تھی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیکر تسلیم و رضا بنتے دیکھا تھا۔ ان پر حقیقت ہر وقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
جب اہلِ مدینہ کا ایک وفد بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دے کے قبولِ اسلام کا حلف اٹھا رہا تھا تو اس وقت حضرت عباس بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر برملا یہ اعلان کیا:
اِنَّکُمْ تبايعونهُ علٰی حرب الأحمر والأسود من الناس.
1. طبری، تاريخ الأمم والملوک، 1: 563
2. ابن هشام، السيرة النبوية، 2: 295
تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر فی الحقیقت اس امر کی بیعت کر رہے ہو کہ اسلام کی خاطر دنیا کے ہر سرخ و سیاہ انسان سے جنگ کرو گے۔’’
جس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا یہ تھی وہ بنیادی روح جو ایمان لاتے ہی عالمِ کفر و طاغوت کی بے پناہ مخالفتوں اور عداوتوں کی وجہ سے ہر مسلمان کے لیے لازمہ حیات بن جاتی ہے۔ اس کے بغیر کسی کا مسلمان ہونا ہی نا مکمل رہتا تھا۔ منافقین کی سوچ کیونکہ خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی تھی، وہ ہر چیز کو دنیوی سودوزیاں کے مزعومہ پیمانے پر پرکھتے تھے۔ سابقہ آرام کی زندگی کو چھوڑ کر اس مسلسل انقلابی زندگی کو اپنا لینا انہیں اپنی نظر میں کم عقلی نظر آتا تھا وہ خود کو عقل مند تصور کرتے تھے۔ قرآن ان کی نام نہاد عقلمندی کو بے سمجھی اور کم فہمی سے تعبیر کر رہا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ اس قربانی کی زندگی میں سب سے بڑا نفع مضمر ہے۔ آخرت کا نفع تمام دنیوی منافع سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ وہ خود چار روزہ زندگی کی ظاہری منفعت کو دیکھ کر اُخروی زندگی کی دائمی اور ابدی منفعت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ بے سمجھی اور بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ باری تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی.
النساء، 4: 77
‘‘آپ انہیں فرما دیجئے کہ دنیا کا مفاد بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے اور آخرت بہت اچھی (نعمت) ہے، اس کے لیے جو پرہیز گار بن جائے۔’’
قرآنِ مجید نے منافقت کی یہ علامت ایک مستقل مادہ پرستانہ ذہنیت کے طور پر نمایاں کی ہے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو اس ذہنیت سے کلیہً پاک ہیں؟ اگر کوئی خوش نصیب دینِ حق کی راہ میں معمولی سی قربانی کے لیے بھی تیار ہوتا ہے تو اس کے اعزا و اقرباء اور دوست و احباب کیا اسے اپنے وقت، مال و دولت اور دیگر آسائشوں کے زیاں کا طعنہ نہیں دیتے؟ اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو اندازہ فرمائیے کہ منافقت کس حد تک ہمارے رگ و ریشے میں رچ بس چکی ہے۔ ہم دین کو صرف اسی حد تک اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ جس حد تک جانی و مالی مفادات پر زدنہ پڑتی ہو۔ جہاں دینِ حق کو جان و مال اور وقت کی قربانی مطلوب ہو۔ ہم اس حد میں داخل ہونے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں۔ یہ ہے منافقت کی وہ اصل جو دین کی احیاء کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یاد رکھیئے کہ دین سراسر قربانی کا نام ہے اگر زندگی اس جذبے اور عمل سے خالی ہو تو کوئی بھی شخص جس قدر دین داری کا چاہے ڈھنڈورا پیٹتا رہے قرآن کی نظر میں اس کا نام منافقت ہے۔ ایسی منافقت کے ساتھ ادا کی جانے والی نمازیں بھی ریا کاری تصور ہوتی ہیں، جن پر بجائے ثواب کا مستحق ہونے کے سخت اذیت ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔ سورۃ الماعون اس حقیقت کی واضح عکاسی کرتی ہے۔
اُمتِ مسلمہ کے اکثر افراد کو گمراہ تصور کرنا منافقانہ سوچ ہے
اہل مدینہ میں سے اکثر افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ جب کہ منافقین کی تعداد ان کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ یہاں قرآنِ مجید نے ایک اصولی انداز کو اپنایا ہے۔ منافقین سے کہا جا رہا ہے:
اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ.
البقرة، 2: 13
‘‘(تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں۔’’
قاعدہ یہ ہے:
لِـلْاکْثَرِ حکم الکلّ.
1. سرخسی، المبسوط، 4: 183
2. مقدسی، الفروع، 1: 350
‘‘اکثر کے لیے کُل ہی کا حکم ہوتا ہے۔’’
یہاں بھی الناس سے مراد اکثر الناس ہیں۔ کیونکہ سارے لوگ تو صاف ظاہر ہے کہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے۔ ان میں اکثر افراد نے ہی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ یہاں قرآنی استددلال یہ ہے کہ جب اکثر افراد نے ہی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ یہاں قرآنی استدلال یہ ہے کہ جب اکثر افراد اُمّت دل و جان سے حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کر چکے ہیں تو تم اقلیت میں ہوتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کے مخالفت کیوں کر رہے ہو؟ تم بھی اپنی عقل و دانش کے فیصلے پر ڈٹے رہنے کی بجائے اہلِ اسلام کی اکثریت کی پیروی کر لو اور ایمان لے آؤ۔ اس پر منافقین یہ جواب دیتے تھے کہ وہ تو سب کے سب کم فہم، کم علم بے عقل ہیں۔ وہ تو گمراہ ہو چکے ہیں بھلا ہم ان بے وقوفوں کے پیچھے کیوں لگ جائیں۔ قرآن مجید نے اس اندازِ فکر کو منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے یہ واضحی کیا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ اور بے عقل تصور کرنا خود بے عقلی اور گمراہی کی بات ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی سوسائٹی کے چند افراد یا کوئی ایک آدھ شخص خود کو ہی صاحبِ عقل و فہم اور راست فکر کا حامل تصور کرتے ہوئے اپنی رائے اور تحقیق کو صحیح اور باقی امتِ مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ قرار دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اہلِ اسلام کی اکثریتی جماعت پر خدا کی حفاظت کا ہاتھ رہتا ہے۔ یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور برکت کے توسط سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے خصائص میں سے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَِّ اﷲ لا يجمع امتی علٰی ضلالة، ويد اﷲ علی الجماعة، من شذ شذ فی النار.
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4: 466، رقم: 2167
‘‘اﷲ تعالیٰ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر اکٹھا نہ ہونے دے گا۔ جماعت پر اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہے، جو کوئی اس سے جدا ہو گا، دوزخ میں جائے گا۔’’
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُمّت کے جمع ہونے سے کیا مراد ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس امر کی وضاحت یوں فرمائی ہے:
اثنان خير من واحدٍ وثلاثةٌ خيرٌ من اثنين واربعة خيرٌ من ثلاثةٍ، فعليکم بالجماعة، فإن اﷲ لن يجمع أمتی إلّا علٰی هدًی.
احمد بن حنبل، المسند، 5: 145، رقم: 21331
‘‘کسی مسئلے پر دو کا ایک کے مقابلے میں جمع ہونا بہتر اور محفوظ ہے۔ اسی طرح تین دو کے مقابلے میں بہتر ہیں اور چار، تین کے مقابلے میں تم پر اکثریتی جماعت کی پیروی لازم ہے۔ بیشک اﷲ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہونے دے گا۔’’
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
تشاوروا فی أمرکم، فإن کان اثنان واثنان، فارجعوا فی الشوریٰ، فإن کان أربعة واثنان، فخذوا صنف الأکثر.
1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 3: 61
2. هندی، کنز العمال، 5: 905، رقم:14250
‘‘اپنے امور میں باہمی مشورہ کیا کرو، اگر کسی مسئلے پر رائے دو اور دو افراد میں مساوی تقسیم ہو جائے تو پھر اُسے شوریٰ میں لے جاؤ۔ اگر رائے کی تقسیم چار اور دو میں ہو جائے تو اکثریتی رائے کو اپنا لو۔’’
اُمتِ مسلمہ کی اکثریتی رائے کی تمام اُمت یا کل جماعت مسلمہ کی رائے اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ ہر مسئلے پر فی الواقع سو فی صد اتفاق رائے عقلاً و نقلاً ناممکنات میں سے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین کا عمل بھی یہی تھا کہ مشاورت میں اکثریتی رائے کا احترام فرماتے۔ خلفاء راشدین کے اِستخلاف میں بھی جہاں ضرورت پڑی اسی اصول کو اپنایا گیا بلکہ اکثریتی رائے کے اقلیتی رائے پر فائق ہونے کا اصول پوری دنیا کے مسلمات میں سے ہے جس پر اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ قرآن مجید نے یہاں منافقین کے اقلیتی گروہ کو کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ کہہ کر اکثریتی طبقے کی راہ کو اپنانے کا استدلال اختیار کیا۔ جس پر ان کا جواب تھا کہ ‘‘ہم کیسے ان لوگوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ وہ تو عقل و شعور اور فہم وبصیرت سے عاری ہیں۔’’ باری تعالیٰ نے اس اندازِ فکر کو منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اپنی رائے اور تحقیق کو اکثریتی رائے اور تحقیق پر فائق سمجھنا اور مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا، خود گمراہی، بے عقلی اور بے بصیرتی ہے۔ ‘‘ گویا اس اصول کے بیان سے قرآنِ حکیم نے امتِ مسلمہ کے اندر نام نہاد اصلاح و تجدید کے نام پر آئے دن پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے فکری اور اعتقادی فتنوں اور متجدّدانہ تحریکوں کا سدِّباب کیا ہے جو ہمیشہ اُمتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کو گمراہ، کافر و مشرک، بدعتی اور بے وقوف قرار دیتی ہیں۔ اس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اکثریتی طبقے میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اکثریتی طبقے کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اعظم سے منسلک رہتے ہی اُمت کی اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اہلِ ایمان کے سودِاعظم کو گمراہ قرار دیے کر یا اس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا یہی حقیقت میں گمراہی اور منافقت ہے اور اسی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس مفہوم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
الزموا السواد الاعظم فان يد اﷲ علی الجماعة وايّا کم والفرقة فانّ الشّاذ من الناس للشيطان کما انّ الشّاذ من الغنم للذئب.
نهج البلاغه: 383
‘‘اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بڑے گروہ سے منسلک ہو جاؤ کیونکہ اﷲ کی حفاظت کا ہاتھ اس جماعت پر ہے اور اس اکثریتی طبقے سے الگ ہونے یعنی فرقہ بندی کرنے سے گریز کرو۔ بے شک جو لوگوں کے اکثریتی گروہ سے الگ ہوتا ہے شیطان کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے جیسے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے۔’’
کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ سے اِجماع اُمت کے وجوب پر اِستدلال اور منافقین کا اِس سے گریز
اس آیت کا مبداء استدلال یہ بھی ہے کہ اُمت کی اکثریت کا کسی مسئلے پر متفق ہو جانا خود بھی شرعی دلیل قرار پاتا ہے۔ اس پر عمل ضروری اور اس سے انحراف حرام ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید نے بالعموم اہلِ ایمان کی راہ کی پیروی نہ کرنے کو براہِ راست رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور گمراہی قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا.
النساء، 4: 115
‘‘اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo’’
لہٰذا آیت زیر مطالعہ، آیتِ متذکرہ اور مندرجہ بالا احادیث سب اجماعِ اُمت کے واجب ہونے کی متقاضی ہیں۔ اس لیے اہلِ اسلام کے نزدیک متفقہ طور پر قرآن و سنت کے بعد ‘‘اجماع’’ کو تیسرے ماخذِ شرعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اجماع اُمت یا مسلمانوں کے اکثریتی طبقے کے اتقاقِ رائے سے مراد امت کے جہلاء اور محض عوام ہی کے اکثریت کا بغیر دلیل کے کسی مسئلے پر مجتمع ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کو ازخود مسائل کا صحیح علم بھی نہیں ہوتا جب اُمت کا اکثریتی طبقہ کسی دینی موقف پر متفق ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد علماء راسخین اور مجتہدینِ اُمت کی تحقیق و تصریح یا اہلِ علم کا تعامل و تواتر ہی ہوتا ہے۔ اہلِ علم کے قبولِ عام کی بنا پر اس شرعی مؤقف کو امتِ مسلمہ کی اکثریت بھی قبول کر لیتی ہے۔
لہٰذا اس مسئلے پر ذہن با لکل صاف ہونا چاہیے کہ اُمّتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کا اجماع ازخود واقع نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اجماع ہمیشہ اہلِ علم و اجتہاد کی اکثریت کے نزدیک کسی مسئلے پر ‘‘تلقی بالقبول’’ کی بنا پر واقع ہوتا ہے یہی وجہ ہلے کہ اجماعِ امت یا سوادِ اعظم پر مبنی مذہب کو شریعت نے مذہبِ حق قرار دیا ہے۔
عہدِ صحابہ میں بھی تمام صحابہ معروف بالعلم والاجتہاد نہ تھے۔ رسوخ فی العلم اور اجتہادی بصیرت تو بعض صحابہ کو ہی حاصل تھی۔ جب کہ باقی صحابہ اس دور کے عوام الناس کے زمرے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اجماعِ صحابہ یا صحابہ کے اکثریتی طبقے کا اتفاق رائے اس لیے آج بھی شرعاً حجت ہے کہ اس کی بنیاد بھی اہلِ علم صحابہ کا اجتہاد ہوتا تھا۔ جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں واقع ہوتا۔ جب اسے تمام یا اکثر صحابہ قبولِ عام ہو جاتا تو وہی اجتہاد، اجماع قرار پاتا۔ اور اسی کو سوادِاعظم کا مسلک کہا جاتا تھا تعاملِ صحابہ یا آثارِ تابعین کے متعدد نظائر و شواہد اسی طور واقع ہوئے ہیں۔
لہٰذا اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثریتی طبقے کو قرآن و سنت کے خلاف اور گمراہ تصور کرنا دراصل اپنی آمریت کو قرآن و سنت یا اسلام کا نام دے کر دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش ہے۔ اس لیے اسے قرآن مجید نے منافقت قرار دیا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment