Tuesday, 16 June 2015

منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 4


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قلب و باطن کا بیمار ہونا

یہاں منافقت کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر منافقت جیسی بیماری قلب و باطن کو لگ جائے تو اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ منافق کا ہر قول و فعل سراسر جھوٹ بن جاتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتا ہے، اس کا محرک اس کے دل کا خبث اور بدنیتی ہوتی ہے۔ بالآخر اس کی ساری زندگی جھوٹ جیسے گناہ کبیرہ سے آلودہ ہو جاتی ہے۔ اور وہ دردناک عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ آیت مندرجہ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ جس طرح انسانی جسم مختلف امراض کا شکار ہوتا ہے۔ اور جسمانی بیماری یا معدے کی خرابی کے باعث اچھی غذا بھی جسم پر بہتر نتائج مرتب نہیں کر سکتی، اسی طرح انسانی قلب و باطن اور روح بھی مختلف امراض سے دوچار ہوتی ہے۔ اگر دل بیمار پڑ جائے تو بہتر سے بہتر نصیحت بھی اثر نہیں کرتی۔ یہ باطنی بیماریاں جو منافقت سے جڑ پکڑتی ہیں، بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ان کا علاج وعظ و نصیحت اور مطالعہ کتب سے نہیں بلکہ اہل نظر کی نظر سے ہوتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

اِقبال، کلیات (بال جبریل): 54

جو لوگ اپنے باطنی امراض کی اصلاح کے لیے بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے تھے، ان کے قلب و باطن کو وہ صحت و تندرستی اور صفائی و نورانیت میسر آتی تھی کہ وہ آگے بھی ہزاروں بیماروں کو تندرست زندگی بخش سکتے تھے۔ کیونکہ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهِ وَ يُزَکِّيْهِمْ کے مطابق انہیں تزکیہ و تصفیہ خود نگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے عطا ہوتا تھا کچھ لوگ بغض و عناد اور حسد و عداوت رکھتے تھے بلکہ جب بھی انہیں ان کی بہتری کے لیے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نیاز مندی کے ساتھ آنے کی دعوت دی جاتی تھی تو وہ غرور و تکبر کے ساتھ اپنا سر جھٹک دیتے جیسا کہ خود قرآن ان الفاظ میں شہادت مہیا کر رہا ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ.

المنافقون 63: 5

‘‘اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے لیے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیںo’’

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسد و عداوت اور منافقت کا یہ عالم ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اپنی بہتری بھی پسند نہ کرتے ہوں تو ان کی بیماریوں کی اصلاح کیونکہ ممکن ہو سکتی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:

فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌلا فَزَادَهُمُ اﷲُ مَرَضاًج وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌم بِمَا کَانُوْا يَکْذِبُوْنَo

البقرة، 2: 10

‘‘ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھےo’’

یہاں تک کہ وہ اپنے جھوٹ کی پاداش میں دردناک عذاب کو جا پہنچتے ہیں۔ ان منافقین کی زندگی کو جھوٹ کے معمول سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ جب ان کے دل میں ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی نسبت اس قدر بغض اور حسد و عداوت کار فرما ہے تو ان کا نام لینا، اسلام سے وفاداری کا دم بھرنا، نمازیں پڑھنا اور دیگر فرائض دینی کی ظاہری ادائیگی کا اہتمام کرنا سب جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔
جھوٹ علامت نفاق ہے

اسی آیت نمبر 10 میں جھوٹ کو علامتِ نفاق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر منافق کی چار علامتیں بیان فرمائیں جن میں سے ایک جھوٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إذا حدث کذب.

بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب علامة المنافق، 1: 21، رقم: 33

‘‘منافق جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔’’

یہاں جھوٹ کو درد ناک عذاب کا باعث بھی کہا گیا ہے۔
لفظ عذاب کی لغوی تحقیق

اس لفظ کا مادہ عَذْب ہے۔ شیریں اور عمدہ پانی کو مائٌ عَذْبٌ کہتے ہیں۔ (1) قرآن حکیم میں ہے:

ابن منظور، لسان العرب، 1: 583

هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ.

الفرقان، 25: 53

‘‘یہ (ایک) نہایت میٹھا شیریں ہے۔ ‘‘

عذب کا دوسرا معنی سخت دکھ ہے۔ اس مفہوم کی بنیاد یہ ہے کہ عَذَبَ الرَّجُلُ کے معنی آتے ہیں کہ ‘‘اس نے کھانا پینا ترک کردیا۔’’(3) لہٰذا تعذیب اصل میں کھانے پینے اور آرام و سکون یعنی زندگی کی راحتوں اور آسائشوں سے محروم کر دینے کا نام ہے۔ گویا تعذیب ازالہ عذب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تمریض، ازالہ مرض کے معنی میں۔ چنانچہ وہ کیفیت جس میں لذاتِ حیات اور آرام و سکون سے محروم کر دیا جائے اور اسی وجہ سے انسان کو دکھ اور اذیت کا احساس ہو ‘‘عذاب’’ کہلاتی ہے۔ اسی وجہ سے عذاب دنیوی بھی ہوتا ہے اور اخروی بھی۔ اگر عذاب مقدار (quantity) کے اعتبار سے زیادہ ہو تو اسے عَذَابٌ عَظِيْمٌ کہا جاتا ہے، اور اگر کیفیت و ماہیت (quality & nature) کے اعتبار سے زیادہ درد ناک اور اذیت ناک ہو تو اسے عَذَابٌ اَلَيْمٌ کہتے ہیں۔ اب آپ غور فرمائیں آیت 7 میں کفار کے لیے عذاب عظیم کی وعید ہے۔ جب کہ یہاں منافقین کے لیے عذاب الیم کی۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ منافقت کفر سے بھی زیادہ تباہ کن اور اذیت ناک عذاب کا باعث ہوتی ہے۔

(3) ابن منظور، لسان العرب، 1: 583
نام نہاد اِصلاح کے پردے میں فساد انگیزی

ان آیات میں منافقت کی ایک اور علامت اور منافقت کا ایک نیا روپ بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ ہے نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی۔ اِمام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

الفساد: خروج الشئ عن الإعتدال.

اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن، 1: 1114

‘‘فساد کسی چیز کے اعتدال کی حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔’’

خواہ افراط کی صورت میں ہو یا تفریط کی۔ لہٰذا کسی شخص کا ہر وہ عمل جو خلافِ عدل ہو فساد سے تعبیر کیا جائے گا۔ جب کہ عدل کی تعریف ہے:

وضع الشی فيْ موضعهِ.

جرجانی، التعريفات: 130

‘‘کسی شے کو اپنے صحیح مقام پر رکھنا۔’’

اگر کوئی شے اپنے اس مقام سے ہٹا دی جائے جس کی وہ مستحق تھی یا کسی شے کو ایسے مقام پر رکھ دیا جائے جس کی وہ مستحق نہ تھی تو ان دونوں حالتوں کا نام فساد اور ظلم ہے۔ ایسے ہی ہر عمل کو خلافِ عدل یا بے اعتدالی کہتے ہیں۔ چنانچہ فساد فی الارض ایسی جامع اصطلاح ہے کہ اس میں ہر ظلم و زیادتی، بے اصولی، نا انصافی، حق تلفی و استحصال، اثم وعدوان، گمراہی و ضلالت، شر انگیزی و فتنہ پروری، منافقت و منافرت، تخریبی و سازشی کارروائیاں اور منفی انداز فکر و عمل شامل ہیں۔ عقائد و نظریات اور اعمال و افعال کے جس نظام سے ارضی زندگی اور انسانی سوسائٹی میں عدل و انصاف اور صداقت و شرافت کی اقدار قائم رہیں بلکہ فروغ پاتی رہیں اور ہر حقدار کو اس کا صحیح حق ملتا رہے وہ نظام حق پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اسی حالت کو صلاح و فلاح کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی عمل سے اس نظام حق عدل کے فروغ میں تعطل پیدا ہو یا حصول فلاح کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر کیا جائے گا۔ قرآن حکیم جملہ منافقین کی نسبت یہ واضح اعلان کر رہا ہے کہ ان کا اندازِ فکر و عمل ہمیشہ مفسدانہ، منفی، تخریبی اور استحصالی ہوتا ہے، جو انسانی سوسائٹی کے لیے ضرور کسی نہ کسی طور پر نقصان دہ ہوتا ہے۔ طُرّہ یہ کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد کرنے والے نہ بنو تو وہ اپنے آپ کو کبھی مفسد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، وہ خود کو پورے معاشرے میں نہ صرف سب سے بڑا صالح بلکہ واحد مصلح تصور کرتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، یہی حق ہے اور اسی سے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ چنانچہ اس نام نہاد صالحیت اور مصلیحت کے زعم میں مبتلا ہو کر فساد انگیزی جاری رکھتے ہیں۔ قرآن حکیم انکے زعم باطل کو رد کرتے ہوئے برملا اعلان کر رہا ہے کہ ان کی مصلحانہ نعرہ بازی اور نیی کی ظاہری دعوت دیکھ کر کہیں انہیں مخلص رہنما اور قومی مصلح تصور ہی نہ کر لیا جائے بلکہ آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ حقیقت میں فساد برپا کرنے والے ہیں، یہی لوگ فتنہ و شر کا منبع و سرچشمہ ہیں۔ ان کی تمام نام نہاد اصلاحی کاروائیاں منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ان کی بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ یا تو انہیں اپنے مفسدانہ عمل کا علم و شعور ہی نہیں ہوتا اور اصلاح کی خوش فہمی میں ہی فساد بپا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یا وہ اپنے منافقانہ مفادات میں اس قدر حریص ہو چکے ہوتے ہیں کہ جانتے ہوئے بھی اپنے عمل کو فساد انگیزی تصور نہیں کر سکتے۔ گویا یہ احساس ان کی لوح قلب و دماغ سے مٹ چکا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی فساد کا باعث ہو سکتے ہیں؟ قرآن مجید نے منافقت کی یہ ایسی اہم علامت بیان کی ہے کہ جس کا صدور و ظہور ہر دور میں یکساں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ فرما لیجئے۔ مسلمانوں میں جس قدر باطل فرقے، الحادی تحریکیں، متشدد سازشی جماعتیں اور متکبر قیادتیں معرض وجود میں آئی ہیں ان کا ہمیشہ یہی دعویٰ اور نعرہ رہا ہے کہ ہم مسلمانوں کی اصلاح چاہتی ہیں۔ مسلمان اپنے عقائد و اعمال کے لحاظ سے تباہ ہو چکے ہیں اس لیے ہماری کاوش انہیں اعتقادی اور عملی گمراہیوں سے نجات دلا کر صحیح اسلامی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ کسی نے بھی خود سے بڑھ کر کسی اور کو مصلح تصور نہیں کیا۔ نتیجتاً ایسی تحریکیں کئی مسلمانوں کو اصلاح احوال کے دلکش اور دلفریب نعروں کی جاذبیت کے باعث اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور دین حق کی صحیح راہ سے بہکانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی عمومی اعتقادی اور عملی حالت اصلاح طلب ہے اور اصلاح طلب رہتی ہے۔ چنانچہ ان کی اصلاح کا فریضہ بھی اہل علم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ اہل اقتدار بھی جنہیں فی الواقع مصلح کا کردار ادا کرنا چاہیے اکثر اوقات خود اصلاح کے ضرورت مند ہوتے ہیں اور یہ کام بھی معاشرے کے زعماء و علماء کے ذمے ہوتا ہے۔ لہٰذا کئی سمتوں سے اصلاح احوال کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ یہاں وہ نازک منزل آتی ہے جہاں اہل اسلام کو حق پرستانہ اور منافقانہ نعروں میں امتیاز کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس امتیاز کو پیش نظر رکھے بغیر اگر ہر قیادت اور ہر دعوت کی پیروی شروع کر دی جائے تو احوال سنورنے کی بجائے اور بگڑتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کوئی ظاہراً دعوت اصلاح دے رہا ہو تو حق و باطل میں امتیاز کا معیار کیا ہو گا؟ قرآن حکیم کی یہ آیات اسی معیار امتیاز کو واضح کر رہی ہیں۔ قرآن منافقت کے مختلف روپ چن چن کر بے نقاب کر رہا ہے۔ اگر سب علامات کو سامنے رکھ کر اسی قرآنی معیار پر حق پرستی اور منافقت کی پرکھ کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دھوکہ و فریب کی گنجائش باقی رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآنی معیار حق کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملاً اس معیار پر کھوٹے اور کھرے کی پرکھ نہیں کرتے پرکھ کے لیے ہم نے اپنے ذہنی معیارات اور مفاد پرستانہ پیمانے قائم کر رکھے ہیں اگر قرآن ان پر پورا اترے تو اسے مانتے ہیں ورنہ اس کی بھی تاویل کر لیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...