Tuesday, 16 June 2015
منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 3
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اُس کی تصدیق سے خالی ہونا
ان آیات کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کا قول ایمان زبان کے اقرار کی حد تک ہے مگر دل کی تصدیق سے محروم ہے۔ اس بیان سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بات محض زبان سے کہی جائے دل اس کی تصدیق و تائید نہ کر رہا ہو تو یہ منافقت کی سب سے پہلی پہچان ہے۔ خواہ کہی ہوئی بات خدا و آخرت پر ایمان لانے کی ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایسی پاکیزہ بات کا، جو اسلام اور ایمان کا اصل الاصول ہے صرف زبان سے ادا ہونا خدا کے ہاں منافقت ہے تو زندگی کے عام معاملات میں باہمی گفتگو اور تعلقات کا یہ انداز منافقت کیوں نہ قرار پائے گا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے شب و روز کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم جس کسی سے جو کچھ بھی کہتے ہیں کیا دل سے کہتے ہیں یا محض زبان سے۔ اگر دل کی کیفیت ہماری زبان کی ہمنوا نہ ہو تو زبان میں تاثیر کہاں سے آئے اور اس منافقانہ رویہ زندگی میں برکت و نتیجہ خیزی کہاں سے پیدا ہو؟
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا
دوسری علامت جس کا اشارہ ان آیات کے ظاہر عبارت سے ملتا ہے وہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سوء ظن ہے کیونکہ منافقین کے دعوی ایمان کی طرف جو الفاظ منسوب ہوئے ہیں ان میں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے۔ ایمان بالرسالت کا نہیں کیونکہ منافقین کو اصل عداوت اور بغض و عناد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے تھا جس کے باعث ان کے مفاد پرستانہ عزائم خاک میں مل گئے تھے۔ اس لئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا ظاہری اعلان بھی کرتے تو اس انداز سے کہ گویا خدا اور آخرت پر ایمان ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان غیر ضروری تصور کرتے تھے۔ اس لئے یہاں قرآن مجید میں ان کے دعوی ایمان کے مذکورہ الفاظ ایمان بالرسالت کے ذکر سے خال ہیں جب کبھی یہ منافقین حضور علیہ السلام کی رسالت کا ظاہراً اقرار بھی کرتے تو یہ اقرار بھي سچا نہ ہوتا بلکہ دل کے انکار اور تعصب و عناد کے باعث سراسر جھوٹ ہوتا۔ جس کا ذکر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں یوں آیا ہے:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ.
المنافقون، 63: 1
‘‘(اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا منافق لوگ جھوٹے ہیںo’’
اس اعلان خداوندی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منافق فی الواقع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے اور جو کوئی ثبوت ان کے اقرار رسالت کی نسبت ملتا ہے وہ قرآنی وضاحت کے مطابق محض جھوٹ اور مکر و فریب تھا۔ اس جگہ بھی رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو گھٹاتے بلکہ نظر انداز کرتے ہوئے وہ اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعوی کر رہے ہیں جس کا جواب قرآن نے وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ میں دیا ہے کہ جو لوگ پیکر رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صحیح ایمان کے بغیر خدا و آخرت پر ایمان لانے کی بات کرتے ہیں، ان کا دعوی ایمان باطل اور مردود ہے اور وہ منافق ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر کامل ایمان کے بغیر وہ کس خدا اور کس یوم آخرت کو مانتے ہیں جب کہ خدا اور آخرت کی معرفت و شناسائی بھی انسانیت کو نبی اور رسول کی ذات ہی کے توسط سے ہوتی ہے جب اُس ذات پر ایمان نہ رہا تو باقی عقائد کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟ اس لئے ایمان بالرسالت کے بغیر باقی دعوی ایمان کو منافقت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں منافقت کی یہ صورت ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کے فقدان یا کمی کی شکل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کے انکار کی شکل میں بھی۔
دھوکہ دہی کی نفسیات
یہ منافقین کی تیسری علامت ہے جسے مخادعت سے تعبیر کیا گیا ہے یُخٰدِعُوْنَ، خدع سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی چھپانا اور اصطلاحی معنی دھوکہ دینا ہے۔ (1) خادع کسی کو دھوکہ دینے کے ارادے میں بھی بولا جاتا ہے اور یہی معنی یہاں مراد ہے۔ منافقین زبانی اقرار اور قلبی انکار کے ذریعے یہ خیال کئے ہوئے تھے کہ ہم خدا اور اہل ایمان سے اپنی حقیقی فکر اور باطنی حالت چھپا کر انہیں فریب اور غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ ان کی خود فریبی اور نا سمجھی تھی۔ یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ منافقین کی مخادعت بزعم خویش ذات خداوندی سے نہ تھی۔ بلکہ یہ تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہم اپنی باطنی حالت خدا سے چھپا سکتے ہیں۔ ان کی دھوکہ دہی کی کوشش درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تھی جن کے بارے میں وہ علیحدگی میں کہتے بھی تھے کہ کیسا رسول ہے، ہم دل سے اس کے ساتھ نہیں ہیں، اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود اسے ہماری حالت کی خبر نہیں اور ہمیں بدستور مسلمان سمجھتا ہے۔ حضرت سدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 8: 63
عرضت علی اُمتی فی صورها فی الطين، کما عرضت علی آدم واعلمت من يؤمن بی و من يکفر بی، فبلغ ذالک المنافقين، فقالوا: استهزاء زعم محمد انه يعلم من يؤمن به و من يکفر ممن لم يخلق بعد ونحن معه و ما يعرفنا. فبلغ ذالک رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فقام علی المنبر، فحمد اﷲ تعالی و اثنی عليه، ثم قال: ما بال اقوام طعنوا فی علمی، لا تسئلونی عن شیء فيما بينکم و بين الساعة إلا نبأتکم به.
بغوی، معالم التنزيل، 1: 140
‘‘مجھ پر میری تمام اُمت اپنی حالت خمیر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اشیاء پیش کی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے ہر ایک کو جان لیا ہے کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد منافقین تک پہنچا تو انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ گمان کرتا ہے کہ جو لوگ ابھی پیدا نہیں ہوئے میں ان سے بھی مومن و کافر کو پہچانتا ہوں۔ حالانکہ ہم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہماری منافقت سے باخبر نہیں ہے۔ منافقین کا یہ طعنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں آ گیا۔ آپ اسی وقت منبر پر تشریف فرما ہوئے اور باری تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمانے لگے۔ ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہو گا جو میرے علم کی وسعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ میں تمہیں اس کی خبر دیتاہوں۔’’
اس موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض مخفی نوعیت کے سوالات بھی ہوئے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برجستہ جواب دیا۔ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے:
فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنo
‘‘کیا تم (ان شر انگیز باتوں سے) باز آؤ گے۔’’(2)
(1) المائدة، 5: 91
(2) ابن ابی حاتم رازی، تفسير القرآن العظيم، 2: 389
مذکورہ بالا حدیث سے یہ امر واضح ہو گیا کہ منافقین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حالتِ نفاق سے بے خبر سمجھ کر دھوکہ دینا چاہتے تھے اور ان کا یہی خیال اہل ایمان کی نسبت بھی تھا۔ جس حقیقت کو قرآن نے یوں واشگاف طور پر بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخادعت، حقیقت میں خدا سے مخادعت ہے جس طرح خود قرآن مجید نے کئی اور مقامات پر یہ اعلان کیا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا خدا کو اذیت دینا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و غلامی خدا کی اطاعت و غلامی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا گیا : ‘‘يُخٰدِعُوْنَ اﷲَ’’ (وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں)، جس سے یہ صاف طور پر واضح ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں معمولی سا سوء ظن اور ادنیٰ سی گستاخی یا بے ادبی بھی خود شان اُلوہیت میں بے ادبی و گستاخی ہے منافقین کی اس نفسیات کو بیان کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا کہ تم خدا اور رسول اور اہل ایمان کو کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہیں کر سکتے۔ بلکہ تم اس غلط خیال سے خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہو اور تمہاری نا سمجھی و نادانی کا یہ عالم ہے کہ تم اپنی اس خود فریبی سے بھی آگاہ نہیں۔ اس آیت کریمہ نے یہ عمومی اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ دوسروں سے دھوکہ دہی کی نفسیات حقیقت میں منافقت بھی ہے اور نادانی بھی جو لوگ چرب زبانی اور چالاکی و عیاری سے اپنے ظاہر و باطن کے تضاد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کو بے وقوف بنا لیا ہے وہ منافق تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ خود ناسمجھ اور نادان بھی ہیں۔ کیونکہ ملمع پرستی، تصنع، بناوٹ اور منافقت کچھ عرصہ کے لئے تو مخفی رہ سکتی ہے، ہمیشہ کے لئے نہیں یہ حقیقت بالآخر بے نقاب ہو کر رہتی ہے۔ اسلئے ان مصنوعی طریقوں سے دوسروں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا بھی دیا نتدارانہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس نوعیت کی عملی منافقت کس حد تک ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی اور تعلقات کا بیشتر حصہ اسی قسم کی عملی منافقت سے عبارت ہے۔ ہر شخص دوسرے کو دھوکہ دینے میں مگن ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس عمل کے نتیجے میں فی الواقع وہ خود دھوکہ کھا رہا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
المکر والخديعة والخيانة فی النار.
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4: 650، رقم: 8795
‘‘دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور بددیانتی سب جہنم کا باعث ہیں۔’’
اس حدیث نبوی کے مطابق کیا ہم معاشرتی سطح پر جہنمی زندگی بسر نہیں کر رہے؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment