Tuesday, 16 June 2015

منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 2


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَo يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَo فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَo وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَo أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَo وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَo وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَo اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَo أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَo مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَo صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَo أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَo يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo

البقرة، 2: 8.20

‘‘اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیںo وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہےo ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھےo اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیںo آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیںo اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیںo اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیںo اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیںo یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھےo ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتےo یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گےo یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہےo یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہےo’’

سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں دو گرہوں کا بیان تھا۔ ایک مومنین و متقین کا اور دوسرا کفار و منکرین کا۔ پہلا گروہ دل و دماغ اور قول و عمل ہر طرح سے ایمان لانے والوں پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ ظاہراً و باطناً ہر طرح سے اسلام کا انکار کرنیوالوں پر۔

یہاں سے تیسرے گروہ کا بیان شروع ہو رہا ہے جو گروہ منافقین ہے۔ مدینہ میں موجود منافقین کی مختلف اقسام کا ذکر ہم اس کتابچہ کی ابتدا میں پہلے ہی کر چکے ہیں۔
مختصر تاریخی پس منظر

یہاں منافقین کے وجود کا مختصر تاریخی پس منظر واضح کرنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اہلِ ایمان اور اہل کفر کے علاوہ اہلِ نفاق کا تیسرا گروہ کیوں معرض وجود میں آ گیا تھا۔

اہلِ مدینہ کے قبیلہ خزرج کا ایک بہت بڑا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا۔ اُسے اس کے اثر و رسوخ کے باعث مدینہ کا حکمران بنایا جا رہا تھا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے صورتِ حال میں زبردست تبدیلی آ گئی۔ یہودیوں سمیت تمام اقوام نے متفقہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کا حاکم تسلیم کر لیا۔ جس سے عبداللہ بن اُبی اور اُس کے محض ساتھیوں کے مزعومہ مفادات کو سخت نقصان پہنچا۔ چنانچہ وہ اس دن سے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مخفی کاروائیوں اور پس پردہ سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ یہ طبقہ اسلام کے خلاف کھلی مخالفت و مزاحمت کی جرات نہ کر سکا۔ لہٰذا ظاہرًا اسلام سے وابستگی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف قسم کی فتنہ انگیزیوں کاجال بچھانے لگا۔ قرآن مجید نے اس طبقے کی نشاندہی اس قدر جامع اور ہمہ گیر انداز میں کی ہے کہ نہ صرف عہد رسالت کے منافقین کی واضح تصویر سامنے آ جاتی ہے بلکہ ہر دور میں منافقت کے مختلف روپ بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

یہاں منافقوں کی علامات اور ان کی نفسیات کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہی خرابی اہلِ اسلام کی ذلت و رسوائی کا باعث بنی ہے۔ اگر اس کی صحیح قرآنی پہچان سامنے رہے اور اس کا علاج بھی قرآن و سنت کے مطابق جرات مندی کے ساتھ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان زوال و انحطاط کی حالت سے نجات نہ پا سکیں۔

آیت نمبر 8، 9 میں منافقت کی دو علامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...