Tuesday, 16 June 2015

منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں 1


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو یہودیوں سے سابقہ پڑا یثرب کے اصلی باشندے گو انصار تھے۔ لیکن عملا اس علاقے کے اقتدار پر یہود کا قبضہ تھا۔ تجارت و زراعت پر انہی کا تسلط تھا۔ تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے بھی یہ زیادہ مستحکم تھے۔ الغرض مذہب، معیشت اور سیاست کے میدان میں یہود کا سکہ رواں تھا۔ یہ بنیادی طور پر کافر نہ تھے بلکہ اہل کتاب میں سے تھے۔ لیکن موسی علیہ السلام کے زمانہ کو اس وقت تقریبا 19 سو سال گزر چکے تھے۔ تورات لفظاً و معناً ہر طرح محرف ہو چکی تھی بلکہ اس سے پہلے اور بعد کی آسمانی کتابیں اور صحیفے بھی تحریف کا شکار ہو چکے تھے۔ سب کے عقائد مسخ ہو گئے تھے۔ ان میں غیر الہامی، باطل خیالات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ دینِ حق اور نبوت کو انہوں نے نسل اسرائیل کی وراثت سمجھ رکھا تھا۔ یہودیت پر انہیں بہت ناز تھا۔ اور اسی نسلی تفاخر اور متعصبانہ زعم نے انہیں گمراہی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ جو تعلیمات الہیہ جس قدر بھی صحیح صورت میں موجود تھیں ان کا اخفاء اور خود تراشیدہ تاویلات کے ذریعے ان کی معنوی تحریف ان کا شیوہ تھا۔ مزید برآں ان کے علماء اور سردار بھی اعتقادی گمراہی کے علاوہ عملی تباہی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ حق پوشی، خود پسندی اور مفاد پرستی کے باعث نہ وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار تھے اور نہ ہی کسی ہادی و رہنما کی بات سننے کو، بلکہ راہِ حق کی طرف بلانے والوں کا تمسخر، ان کی مخالفت و مزاحمت اور ان کے خلاف سازش و کینہ پروری ان کی سیرت کا جزو لا ینفک بن چکی تھی۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسی بگڑی ہوئی اُمت تھی جس کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی کوئی صورت ظاہراً نظر نہیں آتی تھی۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی تمام علمی، اعتقادی، عملی اور اخلاقی خیانتوں کے باوجود خود کو سب سے بڑا دین دار، دانش مند، ہدایت یافتہ اور بخشش کا مستحق طبقہ تصور کرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے خدا کے انعام کو ٹھکرا کر اس کے غضب کو دعوت دی تھی اور نتیجۃً تمام نعمتوں سے محروم ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سب سے پہلے ان کی اصلاح اور انکے اعتقادی اور عملی بگاڑ کے اثرات کو زائل کرنا تھا۔ کیونکہ مدینہ میں سب سے زیادہ ذی اثر اور ذی حیثیت لوگ یہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تعلیمات کا بیشتر حصہ یہود ہی سے متعلق ہے۔ عامۃ الناس اور ملت اسلامیہ کے لئے بھی ان مخصوص تعلیمات کی اہمیت کچھ کم نہیں کیونکہ یہودیت صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل ذہنیت بن چکی ہے جس کا مشاہدہ ہم آج بھی مختلف کرداروں کے روپ میں کر سکتے ہیں۔

مدنی دور میں منافقین کا طبقہ بھی نمایاں طور پر معرضِ وجود میں آ گیا تھا۔ اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے پناہ مصائب و شدائد برداشت کرتے چلے آئے تھے۔ لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی بڑے زور و شور سے شروع ہو گئی اور یہ تھی ‘‘منافقت’’ کچھ لوگوں نے زبان سے اقرار کر لیا، ظاہراً اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے اور مسلمانوں کے ہمراہ اسلامی تحریک میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے لگے لیکن یہ لوگ فی الحقیقت ‘‘منافق’’ تھے اور منافقین بھی کئی اقسام کے تھے:

منافقین کی اَقسام

پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔

دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔

تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔

چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔

پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔

چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...