Tuesday, 16 June 2015
اَعراس اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے متعلقہ اُمور میں احتیاط
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
متعلقاتِ اعراس کے بارے میں مخالفین کا طرزِ عمل تو واضح ہے کہ وہ ہر جائز اور مباح کو شرک و بدعت گردانتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے نصوص کے برعکس ہے لیکن ان مبارک امور کو ماننے والے بھی بعض اوقات ان کی انجام دہی میں بڑی بے احتیاطی کرتے ہیں لہٰذا انہیں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِن نازک اُمور کے بارے میں لکھتے ہیں :
این طعن مبنی است بر جہل بہ احوالِ مطعون علیہ زیرا کہ غیر از فرائض شرعیہ مقررہ را ہیچ کس فرض نمی داند۔ آرے زیارت و تبرک بہ قبورِ صالحین و امدادِ ایشاں باہداء ثواب و تلاوتِ قرآن و دعائے خیر و تقسیم طعام و شیرینی امر مستحسن و خوب موجبِ فلاح و نجات است۔ و خلف را لازم است کہ سلف خود را بدیں نوع برّو احسان نماید، چنانچہ در احادیث ثابت است کہ ولد صالح یدعو لہ۔ تلاوتِ قرآن و اہدائے ثواب را عبادت قرار دادن، مبنی برکمالِ بلادت و افراطِ جہل است۔ آرے اگر کسے سجدہ و طواف بہ نحوِ یا فلاں افعل کذا آرد مشابہت بہ عبدۃُ الاوثان کردہ باشد وچوں چنیں نیست پس در محل طعن نباشد۔
’’یہ طعن اور اعتراض حقیقتِ حال سے عدم واقفیت کے باعث کیا گیا ہے اِس لئے کہ شریعت کے مقرر کردہ فرائض کے سوا کوئی آدمی کسی شے کو اپنی طرف سے فرض نہیں سمجھتا۔ ہاں البتہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنا اور اُن سے فیض و برکت حاصل کرنا اور قرآنِ حکیم کی تلاوت کے بعد اُن کی ارواحِ طیبہ کو ثواب کا ہدیہ پیش کر کے اُن کی مدد کرنا، وہاں اچھی دُعائیں کرنا، مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا ایک اچھا عمل ہے اور فلاح و نجات کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ بعد میں آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف پر اس طرح کا احسان کریں چنانچہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ نیک اولاد ماں باپ کے لئے دُعا مانگے۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور اِس کے ایصالِ ثواب کو عبادت کے زُمرے میں داخل کرنا بے وقوفی اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی قبر کے سامنے سجدہ کرے یا اُس کا طواف کرے یا اِن الفاظ میں دُعا کرے کہ اے صاحبِ مزار! میرا فلاں کام یوں کر دے، ایسا کرنا بتوں کے پجاریوں سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ چونکہ اولیاء اللہ کی قبروں پر آنے والے اِس طرح کا کوئی عمل نہیں کرتے اِس لئے اُن پر اِس قسم کا طعن درست نہیں ہے۔‘‘
مهر علی شاه، اعلاء کلمة اﷲ : 66
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مزار پر جا کر براہِ راست اُنہیں حاجت روا سمجھ کر ایسے الفاظ کہنا جائز نہیں۔ اِس سلسلہ میں ہمیں لوگوں کو صحیح اور متوازن طریقہ بتاتے رہنا چاہیے۔ مشکل کشا، داتا گنج بخش، غریب نواز، دستگیر وغیرہ جیسے القابات جو بزرگوں کے ساتھ اِستعمال کیے جاتے ہیں، مجازاً کئے جاتے ہیں۔ اِن الفاظ کو حقیقتاً اور مستقلاً کسی کے ساتھ بھی اِستعمال کرنا جائز نہیں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت
ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...
No comments:
Post a Comment