Tuesday, 16 June 2015

منافقت اور اس کی علامات قرآن و سنت کی روشنی میں ( 7 ) اے اہل ایمان یہ پیغام و محنت اور کوشش آپ کےلیئے ھے ھوسکے سلسلہ وار ان سب حصوں کو پڑھیں یہ آخری حصّہ ھے اس سلسلے کا دعاؤں میں یاد رکھیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منافقت سراسر گھاٹے کا سودا ہے

انہوں نے منافقت کا وطیرہ اس لیے اپنایا تھا کہ دونوں طرف سے مفادات حاصل کر سکیں گے۔ وہ کفر سے اپنا دیرینہ تعلق قائم رکھنے کی بناء پر ادھر سے حاصل ہونے والے مفادات کو بھی ملحوظ رکھتے چاہتے تھے اور مسلمانوں سے ایمان کا تعلق ظاہر کر کے ادھر سے دنیوی منافع، اموال غنیمت اور دیگر مفادات کے حق دار بننا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ چونکہ ان کی منافقت خدا اور رسول سے مخفی نہ تھی۔ اس لیے وہ ہر ایک کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ یوں دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی ان کے حصے میں آئی اور آخرت میں اذیت ناک عذاب کے مستحق قرار دیے گئے۔ ان کی یہ تجارت کسی لحاظ سے بھی سودمند اور نفع بخش ثابت نہ ہوئی۔ یہ سودا بجائے منفعت کے خود انہی کے حق میں مضرت اور نقصان کا باعث ہو گیا جو ‘‘راس المال’’ فطری ہدایت کی صورت میں ان کے پاس موجود تھا، وہ بھی گمراہی کے بدلے ضائع کر بیٹھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہدایت کے باعث جو فائدہ انہیں آخرت کی زندگی میں پہنچتا، وہ اس سے بھی محروم ہو گئے اور دین کی زندگی میں بھی مزعومہ مفادات پورے نہ ہو سکے۔ قرآن حکیم نے یہ دونوں امور اس طرح بیان کئے ہیں : فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ کہ ان کی تجارت نے نہ انہیں دنیا کا نفع پہنچایا، وَمَا کَانُوْا مُهْتَدِيْنَ اور نہ ہدایت یعنی آخرت کا نفع نصیب ہو سکا۔ اس آیت کریمہ نے منافقت کو صریح نقصان اور گھاٹے کا سودا قرار دیا ہے اور تنبیہہ کی ہے کہ کردار کا دوہرا پن کبھی بھی مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کا نتیجہ بہر صورت ذلت و رسوائی ہے خواہ جلد ہو یا بدیر۔ یہاں وَمَا کَانُوْا مُهْتَدِيْنَ کا معنی یہ بھی ہے کہ جنہوں نے حصول منفعت کی خاطر ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی وہ فی الحقیقت تجارت کی صحیح راہ نہیں جانتے۔ اگر انہیں صحیح سوجھ بوجھ اور نفع و نقصان کی تمیز ہوتی تو کبھی نقصان کا سودا نہ کرتے۔
ایک گروہِ منافقین کی مثال

مجموعی طور پر منافق دو قسم کے تھے: ایک وہ جو دل سے کفر ہی پر قائم تھے اور صرف زبان کی حد تک دعویٰ ایمان کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے تعصب اور عناد کی بنا پر اسلام کو سرے سے قبول ہی نہ کیا تھا۔ گویا یہ قطعی منکر تھے۔ دوسرے جو ایمان تو قبول کرتے تھے لیکن اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرا کر اور اپنے مزعومہ مفادات کو معرض خطر میں دیکھ کر پھر اسلام سے دستبردار ہو جاتے۔ ان کا دل ایمان لانے کے لیے تیار ہوتا مگر ہمیشہ مفادات اور خطرات آڑے آ جاتے۔ گویا یہ تذبذب اور شک کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ اس آیت میں پہلے گروہ کی تمثیل بیان کی گئی ہے اور دوسرے گروہ کی تمثیل آگے آیت نمبر 19 میں آ رہی ہے۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے حق کی آگ روشن کی اور اس کے نور سے سارا گرد و نواح منور ہو گیا۔ ہمارے خیال میں اس سے مراد جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مثلی (ومثل الناس) کمثل رجل استوقد نارا.

بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی ووهبنا لداود سليمان نعم العبد، 2: 1260، رقم: 3244

‘‘میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے آگ جلائی۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے پیغام اور نور تبلیغ سے زندگی کے تمام ماحول کو روشن کر دیا۔ حق کو باطل سے، خیر کو شر سے اور نیکی کو بدی سے نمایاں کر دیا۔ وہ ماحول حیات جو شب تاریک کی مانند ظلمتوں اور گمراہیوں کا گہوارہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہیا کردہ نور ہدایت سے چمک اٹھا اور ہر طرف پیغام حق کا اجالا ہو گیا جو اہل نظر اور ارباب دانش تھے، ان پر ساری حقیقتیں آشکار ہو گئیں۔ لیکن منافق جو ہوا و ہوس کی پرستش میں سب سے آگے جا چکے تھے، باوجود روشنی کے حقیقت کو نہ پا سکے۔ انہوں نے اس نور ہدایت کو ٹھکرا دیا اور تعصب و عناد کے پردے اٹھا کر حق و صداقت کا روشن چہرہ دیکھنے سے انکار کر دیا۔ جب انہوں نے از خود گمراہی کو ہدایت پر ور ظلمت کو روشنی پر ترجیح دی اور نور حق سے منہ پھیر کر کفر و ضلالت کی تاریکیوں کو پسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا۔ یعنی انہیں حسب خواہش گمراہیوں اور ظلمتوں میں بھٹکتے رہنے کی توفیق دے دی۔ جنہوں نے اس نور سے اکتساب فیض کیا تھا، وہ منزل مراد کو پا گئے۔ اور جو اس کے منکر ہوئے تھے، وہ کفر کی ظلمات میں بھٹکتے رہے۔

صُمٌّ اصم کی جمع ہے، (1) بُکْمٌ اَبْکَم کی جمع ہے، (2) اور عمیٌ اَعْمٰی کی جمع ہے۔ (3) ان کے معانی بالترتیب گونگا، بہرا اور اندھا کے ہیں۔ ان کی گمراہی اور قبول حق سے انکار کا یہ عالم ہے کہ ان کے کان حق کی بات سننے سے قاصر ہیں۔ ان کی زبانیں حق کہنے سے عاری ہیں اور ان کی آنکھیں حق کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ یہاں مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے مذکورہ تمثیل کی وضاحت میں خوب نکتہ بیان کیا ہے:

(1) ابن منظور، لسان العرب، 12: 342

(2) ابن منظور، لسان العرب، 12: 53

(3) ابن منظور، لسان العرب، 15: 95

‘‘جنہوں نے اِظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اِقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق واضح کر دیا مگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی۔ اور جب حق سننے، ماننے، کہنے اور راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان، زبان، آنکھ سب بے کار ہیں۔’’

نعيم الدين مراد آبادی، خزائن العرفان: 798
دوسرے گروہِ منافقین کی مثال

اس جگہ منافقین کی دوسری قسم کی تمثیل بیان کی گئی ہے۔ یہاں بطور تمثیل کچھ الفاظ کا ذکر آیا ہے۔ ان کے مرادی معنی سمجھنے سے پہلے لغوی معنی پر توجہ کر لیں۔

صیب صوب سے مشتق ہے۔ صواب فی نفسہ پسندیدہ امر کو کہتے ہیں۔ چنانچہ صوب یا صیب ایسی بارش کو کہا جاتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ صیب خود ایسے بادل کو بھی کہتے ہیں۔

ابن منظور، لسان االعرب، 1: 537

السماء ہر چیز کے اوپر کے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ یہ لفظ محض بلندی پر بھی بولا جاتا ہے۔ سماء کے لفظ کا اطلاق زمین پر پڑنے سے پہلے بارش پر بھی ہوتا ہے اور سماء کے معنی خود ‘‘سحاب’’ یعنی بادل کے بھی ہیں۔

زبيدی، تاج العروس، 1: 242

الصواعق صاعقہ کی جمع ہے اور صعق سے مشتق ہے۔ صاعقہ اس ہولناک آواز کو کہا جاتا ہے جو گرج اور کڑک سے پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بعض اوقات آگ، موت اور عذاب بھی مراد لیے جاتے ہیں۔ (3) لیکن امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

(3) ابن منظور، لسان العرب، 10: 198

فهو أشياء حاصلة من الصاعقه هی الصوت الشديد من الجو، وهی فی ذاتها شئ واحد، وهذه لاشياء تاثيرات مِنْهَا.

اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 281

‘‘یہ سب چیزیں فی الحقیقت صاعقہ کے نتائج اور تاثیرات ہیں۔ صاعقہ محض ہولناک آواز ہی کا نام ہے جو گرج سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے زلزلے اور آندھی میں جو ہولناک آواز آتی ہے۔ اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔’’

اس تمثیل میں آسمان سے برسنے والی بارش سے مراد وحی الٰہی کا نزول یا اسلام ہے۔ جو عالم انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا اندھیروں سے مراد وہ مصائب و مشکلات ہیں جنہوں نے ہر طرف سے اسلام کو گھیر رکھا تھا۔ گرج اور کڑک سے مراد اسلام کی پے در پے فتوحات اور کامیابیاں ہیں جو باوجود مشکلات اور نامساعد حالات کے مطلع کو روشن کر رہی تھیں اور ان کے باعث اہل اسلام کے دلوں کو تقویت پہنچ رہی تھی۔

اسلام بلاشک و شبہ رحمت حق کی بارش بن کر مردہ دلوں کو تازہ زندگی عطا کرتا ہے۔ جس طرح زور دار بارش کے وقت بسا اوقات تیز آندھیاں اور گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور بادل کی ہولناک کڑک سے دل ہلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اسلام کی آمد کے ساتھ ہی باطل اور کفر و طاغوت کی طرف سے کھلی عداوتوں اور پوشیدہ سازشوں کا لامحدود سلسلہ جاری ہو گیا۔ اہل ہق کی راہ میں طرح طرح کی مخالفتیں اور مزاحمتیں کھڑی ہو گئیں۔ مصائب و آلام کے بادل گرجنے لگے۔

ان تمام ہولناکیوں نے مل کر عجیب وحشت کا سماں پیدا کر دیا جنہوں نے صدق دل سے نور ہدایت کو قبول کر لیا تھا۔ وہ ظاہراً ان ناسازگار حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ کوئی مصیبت اور مخالفت بھی ان کے پائے استقلال کو متزلزل نہ کر سکی۔ لیکن جو لوگ نیم دلی اور بزدلی کا شکار تھے۔ جن کی کیفیت تذبذب اور تحریص کی تھی، وہ اسلام کی حیات بخشی اور نفع مندی سے بھی متمتع ہونا چاہتے تھے لیکن دردمنانہ جرات و ہمت کے فقدان کے باعث مصائب و آلام کی تاریک گھٹاؤں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتے اور شدید مخالفت و مزاحمت کی ہولناک آوازوں کو سن کر ان کے دل ہل جاتے تھے۔ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر گویا وہ ان پریشان کن کیفیات سے لاتعلقی ظاہر کرتے تھے۔ یوں اسلام سے وابستگی منقطع کرنے میں وہ اپنی عافیت تصور کرتے تھے۔

یہاں ان کے حسد کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا تمام مشکلات کے باوجود اسلام کو روز بروز ترقی اور فتح و کامرانی نصیب ہو رہی تھی۔ جنگوں میں فتوحات ہوتیں۔ اہل حق کے ہاتھ اموال غنیمت آتے۔ ان کی مالی حیثیت بھی مستحکم ہوتی اور سیاسی و معاشرتی بھی اور اس طرح لمحہ بہ لمحہ اسلام ایک عالمگیر قوت بنتا جا رہا تھا۔ جب کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی تو وہ حیران و ششدر رہ جاتے۔ اور اسلام کی فتح و کامرانی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل اٹھتے۔ ان کی اسی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی فتوحات کی چمک اور دمک کہیں ان حاسدوں کی آنکھوں کی بینائی ہی سلب نہ کر لے۔ ان کامیابیوں کی روشنی کو دیکھ کر انہیں اسلام کا راستہ آسان نظر آنے لگتا تو وہ مفاد پرستی اور دنیوی منفعت کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ ہو جاتے اور ان کے ہمراہ اسلام کی منزل کی طرف بڑھنے لگتے۔ لیکن اسی اثنا میں جنگ و قتال اور ایثار و قربانی کا کوئی مرحلہ آ جاتا تو مشکلات کی تاریکیوں میں وہی رک جاتے اور خطرات دیکھ کر مسلمانوں کو پھر چھوڑ جاتے۔ یہ تھا ان کا مفاد پرستانہ طرز عمل، کہ ظاہری منافع و مفادات کے حصول کی امید لگتی تو فائدہ اٹھانے کے لیے اہل حق کے ساتھ ہو جاتے خطرات و مصائب کے لمحات میں قربانی کا وقت آتا تو فوراً لاتعلق ہو جاتے۔

لَوْ حرف شرط ہے۔ جیسے ارشاد فرمایا گیا:

لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ.

الأنبياء، 21: 17

‘‘اگر ہم کوئی کھیل تماشا اختیار کرنا چاہتے تو اسے اپنی ہی طرف سے اختیار کر لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتےo’’

یہ انداز کسی خلاف مشیت امر کے بیان کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ اس بیان کا مقصود مذکورہ امر کی نفی ہوتا ہے۔ شَاءَ مَشِيْئَةٌ کسی چیز کو وجود میں لانے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی شے کی ایجاد ہے۔ جب کہ انسان کی مشیت ‘‘اصابۃ الشیی’’ یعنی کسی شے کے ارادے کا نام ہے۔ ‘‘شی’’ اصل میں ‘‘شَائَ’’ کا مصدر ہے جو بمعنی مفعول استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں ‘‘جو چیز چاہی گئی‘‘ یعنی جس چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک شی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو جانی جائے اور جس چیز کی خبر دی جائے۔

ما يصح إن يعلم و يخبرعنه.

زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 352

یہاں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما رہے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو پہلے گروہ کی طرح ان کی بصارت اور سماعت بھی سلب کر لیتا۔ اور اسلام کی طرف وقتی طور پر راغب ہونے کی بھی توفیق نہ ملتی۔ لیکن یہ مشیت الٰہی کے خلاف ہے۔ جو شخص جس قدر سننے اور دیکھنے کے لیے تیار ہو، اسے اسی قدر توفیق مرحمت فرمائی جاتی ہے۔ اس پر ذات حق اپنے فیصلے سے کسی قسم کا جبر وارد نہیں کرتی۔ پہلے گروہ نے نور ہدایت قبول کرنے سے کھلا انکار کر دیا تھا۔ اور انہوں نے تعصب کا پردہ اٹھا کر اسلام کی حقانیت کو دیکھنا ہی گوارا نہیں کیا تھا۔ اس لیے ہم نے بھی انہی کے حسب خواہش اور حسب عمل انہیں نور بصارت سے محروم کر دیا۔ یعنی انہیں توفیق ہدایت سے دور کر دیا لیکن دوسرا گروہ کبھی مفادات کی خاطر اور کبھی عظمت اسلام سے مرعوب ہو کر، الغرض کچھ نہ کچھ اور کبھی نہ کبھی تو اسلام کے قریب آتا ہی ہے۔ ہر چند کہ پھر خطرات سے گھبرا کر دور چلا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے اسلام کی خاطر جس حد تک اپنے دیدہ و گوش کھول رکھے ہیں۔ ہماری مشیت و حکمت کا یہ تقاضا نہیں کہ انہیں ان سے بھی محروم کر دیا جائے۔ یہ بیان باری تعالیٰ کے عدل و انصاف اور انسانی اعمال میں اس کی آزادی اور اختیار پر کھلی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے مزید برآں اس میں حق کی دعوت دینے والوں کو یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جو لو گ جس حد تک اور جس حال میں بھی حق کے قریب آنا چاہیں، انہیں اس سے روکا نہ جائے۔ ممکن ہے اسلام اور حق سے قرب کے باعث ان کی مفاد پرستی رفتہ رفتہ حق پرستی میں بدل جائے اور وہ منافقت سے تائب ہو کر بالاخر سچے مسلمان بن جائیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ یہ لوگ مفادات کے پیش نظر حق کے قریب آ رہے ہیں انہیں دور کر دینا، درحقیقت ان کے لیے حق کو صدق دل سے قبول کرنے کے امکانات کو معدوم کرنے کے مترادف ہے۔
قدیر کا مفہوم

قدرت سے ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر قسم کے عجز یا کمزوری کی نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قَدِیْر کے معنی اصطلاح شرع میں یوں بیان کیے گئے ہیں:

الفاعل لما يشاء علی قدر ما تقتضِی الحکمة لا زائداً عليه ولا ناقصا عنه.

اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 1164

‘‘اس کام کا کرنے والا جسے وہ چاہے اسی قدر حکمت کا تقاضا ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔’’

لہٰذا خدا کے قادر مطلق ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ایسے کام اس کی قدرت کی طرف منسوب کئے جائیں جو اس کی حکمت اور مشیت کے خلاف ہوں کیونکہ قدرتِ الٰہی کے تصور میں اس کی ‘‘حکمت اور مشیت’’ بھی شامل ہیں۔ پس شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر ہونے کا یہ مفہوم ہے کہ ‘‘وہ ذات ہر وہ کام کر سکتی ہے جو وہ چاہے یعنی جو اس کی مشیت کو مطلوب ہو اور اس حد تک کر سکتی ہے جس حد تک اس کی حکمت کا تقاضا ہو۔ اس معاملے میں وہ نہ محتاج ہے اور نہ عاجز و کمزور لیکن جو امور اور افعال اس کی شان الوہیت اور مشیت و حکمت کے منافی ہوں، ان کا کرنا نہ وہ چاہتی ہے اور نہ اس کی حکمت کا مقتضی ہوتا ہے اس لیے ان کے حوالے سے اس کی قدرت مطلقہ کا بیان کرنا قطعاً نامناسب بلکہ اس کے قدیر ہونے کے خلاف ہے۔
خلاصہ بحث

سورۃ البقرۃ کی آیات 8 تا 20 میں منافقین کی علامات کا مسلسل بیان کیا گیا ہے جن کا تفصیلی ذکر ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ یہاں ان کا خلاصہ دوبارہ بیان کیا جاتا ہے:

    دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
    محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
    دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات
    یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
    یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
    قلب و باطن کا بیمار ہونا
    جھوٹ بولنا
    نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا
    دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
    امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا
    اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا
    کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد
    اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا
    اہل حق کے استہزاء کی نفسیات
    مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا
    باطل کو حق پر ترجیح دینا
    سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا
    تنگ نظری، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان، حق سن نہ سکیں، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں، حق دیکھ نہ سکیں۔
    اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا
    اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا
    مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا
    حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔

یہ قرآن مجید کا وہ پہلا چارٹ ہے، جہاں منافقت کی علامات کو واضح طور پر گنوایا گیاہے ہم نے انہیں تفصیل اور نظم و ضبط کے ساتھ اس لیے قلمبند کر دیا ہے کہ ان کے مطالعہ سے باقاعدہ طور پر ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے۔ اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور اسلام میں کامل اخلاص عطا فرمائے۔

(آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

No comments:

Post a Comment

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت

ماہِ رجبُ المرجب کی فضیلت و اہمیت محترم قارئینِ کرام : اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طر...