شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے مدد مانگنا : اللہ تعالی بالذات و حقیقی مددگار ہے اور اس کے بندے اس کی عطا سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو بندوں کا مدد کرنا غیر حقیقی ہے حقیقت میں مدد اللہ تعالٰی ہی فرماتا ہے یہ بندے تو صرف سبب ہیں کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک سبب مقرر فرمایا ہے جیسے بارش کےلیے بادل ، روشنی کےلیے سورج ، کھیتی باڑی کےلیے اس کے اسباب الغرض ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے جیسے موت دینا یہ اللہ تعالی کی شان مبارک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا تو کیا حقیقۃ پولیس والوں نے انہیں موت دی ہے تو ہر مسلمان یہ ہی کہے گا کہ اللہ تعالی نے ہی حقیقۃ انہیں موت دی ہے یہ تو صرف سبب بنے ہیں اسی طرح موت کا فرشتہ بھی حقیقۃ موت نہیں دیتا بلکہ وہ بھی سبب ہے اور اللہ کے حکم و قدرت سے ہی موت دیتا ہے تو کیا یہ کہنا شرک ہوا کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا اسی طرح کوئی مریض مر رہا ہو اور ڈاکٹر اس کا علاج کر کے بچالے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کو موت کے منہ سے بچا لیا یا ڈاکٹر نے اسے نئی زندگی دی ہے تو کیا یہ کہنا بھی شرک ہوگا ؟ حالانکہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوتا ہے حقیقۃ ڈاکٹر نے بچایا ہے اسی طرح ہم لوگوں کا یوں کہنا ’’ بارش یا سیلاب نے تباہی مچادی ‘‘اور اسی طرح کے مختلف جملے تو ان تما م جملوں میں ہم صرف سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر یہ تمام کام اللہ تعالی کے حکم سے ہیں اسی طرح ہمارا انبیا ء واولیاء کرام سے مدد مانگنا بھی اسی معنی پر ہے کہ حقیقی مدد اللہ ہی کی ہے مگر یہ تو صرف سبب ہیں وسیلہ ہیں اور صفات الہی کا مظہر ہیں لہٰذا یہ بھی شرک نہیں ہے ۔
اہلسنت و جماعت کے نزدیک استمدادِ اولیاء اللہ کا عقیدہ برحق ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت اور اقوالِ آئمہ سے آگے پیش کریں گے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے اہلسنت و جماعت کے نزدیک اولیاء اللہ سے مدد صرف توسل ہے یعنی حقیقی مدد اللہ عزوجل ہی کی جانب سے ہوتی ہے اور چونکہ انبیا و اولیاء اللہ عزوجل کے فیض کے مظہر ہیں اس لیے انہیں فیضِ الہٰی کا واسطہ سمجھ کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر بھکاری بھی جب آپ سے بھیک مانگتا ہے اور جواب میں کچھ نہیں ملتا تو طرح طرح کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے نام پر کچھ دے دو، اپنے اہل وعیال کے نام پر کچھ دے دو ۔
اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے ۔ ہاں غیراللہ سے اس عقیدہ سے مدد مانگنا کہ بغیر عطائے الہٰی اپنی ذات سے مدد کریں تو یہ عقیدہ بیشک باطل ہے اور اس کی تردید علما و فقہا نے واضح الفاظ میں کی ہے۔ لیکن بغیر دلیل مسلمان کی نیت پر شک کرنا بھی غلط ہی ہے، کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا ۔
قرآنِ کریم میں اس ضمن میں اتنی واضح آیات وارد ہیں ۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَاغِبُونَ۔(سورۃ التوبہ آیت 59)
ترجمہ : اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول، ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔
أَغْنَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 74)
انکو اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے غنی کر دیا۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً۔(سورۃ النسا آیت 64)
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِيۤ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ ٱللَّهِ آمَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت 52)
پھر جب عیسٰی نے اُن سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللّٰہ کی طرف حواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں ہم اللّٰہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلإِثْمِ وَٱلْعُدْوَانِ۔(سورۃ المائدہ آیت 2)
اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ۔
يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔(سورۃ محمد آیت 7)
اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے ۔
وَإِن يُرِيدُوۤاْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ هُوَ ٱلَّذِيۤ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ۔(سورۃ الانفال آیت 62)
اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللّٰہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زوردیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔(سورۃ التحریم آیت 4)
تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔
إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاَثَةِ ءَالَٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلاۤئِكَةِ مُنزَلِينَ۔(سورۃ آعمران آیت 124)
جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ۔
قَالَ إِنَّمَآ أَنَاْ رَسُولُ رَبِّكِ لأَهَبَ لَكِ غُلاَماً زَكِيّاً۔(سورۃ المریم آیت 19)۔
اے مریم میں تمہارے رب کا قاصد ہوں۔ آیا ہوں تاکہ تم کو پاک فرزند دوں ۔
قرآن میں منکرینِ استمدادِ اولیا کا احوال بھی بیان فرمادیا گیا ۔
أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً۔(سورۃ النسا آیت 52)
یہ ہیں جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا ۔
بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز ، شیخ ابو العباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں :
انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ
میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں
جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں
اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو
تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا
قصیدہ نعمانیہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں : ⬇
یا اکرم الثقل،ین یا کنز الورٰی
بدلی بجودک وارضنی برضاک
انا طامع بالجود منک لم یکن
لابی حنیفہ فی الانام سواک
اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں ۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہ رہنما
یہ شعر کسی "بریلوی" کا نہیں بلکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ کسی میں دم ہے تو لگائے فتوٰی حضرت خواجہ صاحب پر ۔ تاکہ ہم بھی ان مفتیوں کے فتاوٰی کا معیار دیکھیں ۔
شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے۔(حیات الموات صفحہ 55،چشتی)
یہی شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں : اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم، یا نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم آپ کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا صفحہ 157،چشتی)
مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہیں اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتے ہیں؛حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپکے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔ (صراطِ مستقیم صفحہ 98)
یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتے ہیں : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔(صراط مستقیم صفحہ 242)
اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ : ⬇
کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے
یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں ۔(سفرنامہ لاہور و لکھنؤ صفحہ 50)
ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں ۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں ۔
اور خود پروردگار عزوجل نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا ﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا ﷲ توابا رحیما ۔ اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے ۔ (القرآن الکریم پارہ نمبر 5)
کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا ۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضرہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے ۔ یہی ہمارا مطلب ہے ۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے کہ ﷲ تعالی اپنے حبیب کی شان عظمت ورفعت بتلانا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ تم کبھی بھی ڈائریکٹ مت ہونا بلکہ حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے ہی رب کی بارگاہ عالی میں آنا تو تم رب کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے ۔
قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۔ وَ اشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔
بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ (سورہ العمران ۵۲)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔
کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے ۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ۔
تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔ (سورہ مائدہ ۵۵)
فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَ الْمَلآیِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ۔
ترجمہ کنزالایمان:تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔[سورہ تحریم آیت ۴]
وتعاونوا علی البر والتقوٰی ۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ (القرآن الکریم)
کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ۔
جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘[جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰] اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
اور اگر کوئی بدمذہب پھر اس بات کو نہ ماننے اور کہے کہ جو بھی غیر ﷲ سے مدد مانگے خواہ کسی بھی عقیدے سے مانگے تو اس نے شرک کیا تو اس سے کہیے کہ جناب آپ ان حضرات کے بارے میں بھی مشرک ہونے کے فتوی لیکر آئیں اور انہیں بھی مشرک کہیں جنہوں نے انبیاء واولیاء کرام سے مدد مانگنے کو جائز فرمایا ہے اور خود مدد بھی مانگی ہے ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا : لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بدہد مسؤل ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند و می گویند آنچہ می گویند اھ ملتقطا ۔
ترجمہ : نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیا چاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کا منکر ہے ۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو وسیلہ بناتا ہے یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجئے اور خدا سے دعا کیجئے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہئے کہ اولیاء اللہ کو ا ن کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب و مستحسن اور دین معروف و مشہور ہے ۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کے لیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو خدا ہمیں عافیت میں رکھے اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔ (اشعۃ اللمعات باب حکم الاسراء جلد نمبر ۳ فصل نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۰۱ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر،چشتی)
جزا کم ﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم ﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء ، جئنا یا صاحبی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہمیں بھی، بیشک وہ ہر مہر والے سے زیادہ مہر والا ہے ۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے، اے نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے دونوں یارو! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں ۔ (الاختیار والتعلیل مراقی الفلاح فتاوی عالمگیری)
اپنے مشائخ حدیث وطریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا کہ : میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہوکہ جواہرخمسہ میں کیا لکھا ہے : نادعلی ہفت بار یا سہ بار یا یکب ار بخواند وآں اینست ناد علیا مظھرالعجائب تجدہ عونالک فی النوائب کل ھم وغم سینجلی بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی ۔نادعلی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھو اور وہ یہ ہے : پکار علی کو جو عجائب کے مظہر ہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مدد گار پائے گا ، ہر پریشانی اور غم ختم ہوگا آپ کی مدد سے یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (فتوح الغیب ضمیمہ جواہر خمسہ مترجم اردو نادعلی کا بیان مطبعہ دارالاشاعت کراچی ص۴۵۳،چشتی)
علامہ رشید احمد گنگوہی سے کسی نے سوا ل کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟
یا رسول ﷲ انظر حالنا یا حبیب ﷲ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا
یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم
تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳ صفحہ ۵)
علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اس کو نہ دیئے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور ﷲ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہوجائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے ) حی ہو (زندہ ہو) یا میت (مردہ ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴صفحہ ۹۹)
منکرین استمداد اولیاء سے میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا حضرات جو استمداد اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ بھی مشرک ہیں یا معاذاللہ ان کو چھوٹ حاصل ہے ؟ ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment