حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حسینی قافلے کے شرکا نے میدانِ کربلا میں بے مثال قربانیاں پیش کرکے امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رُفَقَا نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم کیا ، حسینی قافلے کے شُرَکاء میں بنوہاشم کے سولہ ، سترہ یا انیس افراد تھے ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 416 تا 426)(الاستیعاب جلد 1 صفحہ 445)
سوانح کربلا صفحہ نمبر 128 پر ہے : امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہلِ بیت و دیگر کل 82 نُفُوس تھے جبکہ ایک قول کے مطابق یہ کاروانِ عشق 91 افراد پر مشتمل تھا جس میں 19 اہلِ بیت اور 72 دیگر جاں نثار تھے ۔(تاریخ کربلا صفحہ 269)
حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ الرَحمَۃُ فرماتے ہیں : کربلا میں حسینی قافلہ بہتّر (72) آدمیوں پرمشتمل تھا ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 387)
حسینی قافلے کے شُرَکا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت کرتے اور اپنا تَن مَن دَھن آپ پر لٹانے کا بے مثال جذبہ رکھتے تھے اور بڑے بہادر و شجاع تھے ۔ امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ عنہ نے دورانِ سفر عرض کی : بابا جان ! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں ۔ (تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 216،چشتی)
اسی طرح ایک جانثار نے عرض کی : اگر دنیا ہمارے لئے باقی رہے اور ہم اِس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں اور پھر آپ کی مددو نصرت کے سبب ہمیں دنیا چھوڑنی پڑے تو ہم آپ ہی کا ساتھ دیں گے ۔(تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 213،چشتی)
حسینی قافلے کے بعض شُرَکا تو بہت مشہور ہیں مثلاً علی اکبر ، علی اصغر ، عباس ، حُر ، قاسم ، عَون ، محمد رضی اللہ عنہم مگر بعض زیادہ شہرت نہیں رکھتے ، جیسےحضرت سیدنا عثمان بن علی المرتضیٰ ، ابوبکر بن امام حسن ، عُمَر بن امام حسن ۔ حضرتِ عثمان بن علی نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہم کے آگے آگے رہ کر خود کو اُن کی ڈھال بنائے رکھا ، یزید اَصْبَحِی نے آپ کو تیر مار کر زخمی کیا پھر آپ کا مبارک سَر تَن سے جدا کیا اور اپنے لیڈر سے ذلیل دنیا کا انعام لینے پہنچ گیا ۔ (الاخبار الطوال صفحہ نمبر 379،چشتی)
شِمْر بن ذی الجَوْشَن نے کربلا میں حسینی لشکر کے بعض جان نثاروں کو اَمان دینے کی بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اَمان کو ٹھکرا دیا کہ تجھ پر اور تیری اَمان پر اللّٰہ تعالٰی کی لعنت ہو کہ تو ہمیں اَمان دیتا ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیٹے (امام حسین) کےلیے کوئی اَمان نہیں ۔ (تاریخ الطبری جلد 9 صفحہ 224)
حضرت ابوبکر بن حسن رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید ہوئے جو عبداللہ بن عقبہ غَنَوِی کے تیر کا نشانہ بنے ۔ (الاخبار الطوال صفحہ نمبر 379)
قیدی بنائے جانے والے بچوں میں ایک چار سال کے شہزادے حضرت عُمَر بن حسن رضی اللہ عنہما تھے ۔ (الاخبار الطوال صفحہ 380)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے عُمَر نامی دو شہزادے تھے ایک نے کربلا میں شہادت پائی اور دوسرے قید ہوئے ۔ (سوانح کربلا صفحہ 126تا127)
خاندانِ علی میں عام طور پر ابوبکر ، عُمَر ، عثمان اور عائشہ نام رکھے جاتے تھے ۔ جن پانچ بیٹوں سے مولا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد چلی اُن میں سے ایک کا نام عمر رضی اللہ عنہ تھا ، جن کا 85 برس کی عمر میں مقامِ یَنْبُع میں وصال ہوا جبکہ ایک بیٹے حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے کربلا میں شہادت پائی ۔ (الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 262تا263،چشتی)
اہلِ بیتِ اَطْہار کی صحابۂ کرام سے مَحبَّت کا دَرْس بھی ملتا ہے ۔ یہ خلفائے راشدین سے محبت ہی تھی کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر رکھے ، اسی طرح حضرت سیّدنا امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ عنہ کے دوبیٹوں کے نام عُمَر اور عثمان تھے ، امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی ایک شہزادی عائشہ نام کی تھیں ، امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے تین بچوں کے اسمائے گرامی عُمَر ، ابوبکر اور عائشہ تھے اور یوں ہی امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عائشہ تھا ۔ (طبقات الکبریٰ جلد 5 صفحہ 163،چشتی)(سیراعلام النبلاء جلد 8 صفحہ 251)(تہذیب الکمال جلد 7 صفحہ 403)
کربلا میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
محترم قارئینِ کرام : اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے نام نہاد محبت کے دعوے دار واقعہ کربلا کے سے متعلق من گھڑت واقعات تو بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بکواسات و تبرا کرتے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کربلا میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیوں ساتھ نہیں گۓ جبکہ حقاٸق اس کے بر عکس ہیں جہاں میدانِ کربلا میں اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے افراد شہید ہوۓ وہاں ان سے زیادہ تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بزرگی کی حالت میں شہید ہوۓ کتنا بڑا جھوٹ و ظلم ہےکہ حقاٸق کو بالاۓ طاق رکھ کر من گھڑت قصے کہانیاں بڑے زور و شور سے بیان کی جاتی ہیں آیٸے کچھ حقاٸق شعیہ اور اہلسنت کتب کی وشنی میں پڑھتے ہیں : ⬇
(1) حضرت اسلم بن کثیر الازدی (مسلم بن کثیر) رضی اللہ عنہ : زیارت ناحیہ میں ان کا نام ’’اسلم‘‘ ذکر ہوا ہے جبکہ کتب رجال میں بجائے’’اسلم‘‘ کے ’’مسلم بن کثیر الازدی الاعرج‘‘بیان ہوا ہے زیارت ناحیہ کے جملات یوں ہیں : السلام علیٰ اسلم بن کثیر الازدی الاعرج ۔ (اقبال الاعمال جلد ۳ صفحہ ۷۹)
شیعہ علامہ زنجانی نے لکھا ہے کہ یہ صحابی رسول (ص) تھے ۔ (وسیلۃ الدارین صفحہ ۱۰۶)
شیعہ شیخ طوسی اور مامقانی نے اپنی کتب رجال میں نقل کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں تیر لگنے سے پاؤں زخمی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے’’اعرج‘‘ (ایک پاؤں سے اپاہج) ہو گئے انہوں نے صحبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو درک کیا تھا ۔
علام عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مسلم بن کثیر بن قلیب الصدفی الازدی الاعرج ۔۔۔ الکوفی لہ ادراک للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘‘ مزید اضافہ کرتے ہیں فتح مصر میں بھی یہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر تھے ۔
علامہ طبری اور شیعہ محقق ابن شھر آشوب نے ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کربلا میں جملۂ اولیٰ میں شہید ہوئے ۔ (فرسان الھیجاء ذبیح اللہ محلاتی صفحہ نمبر ۳۶،چشتی)
حضرت مسلم بن کثیر ’’ازد‘‘ قبیلہ کے فرد تھے جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت کی تو ان دنوں یہ صحابی رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوفہ میں قیام پذیر تھے یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے کی دعوت دینے والوں میں یہ شامل ہیں پھر حضرت مسلم بن عقیل جب کوفہ میں سفیرِ حسین بن کر پہنچے تو انھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کی لیکن حضرت مسلم کی شہادت کے بعد کوفہ کو ترک کیا اور کربلا کے نزدیک حضرت امام حسین سے جا ملے اور پہلے حملہ میں جام شہادت نوش کی ۔ (شہدائے کربلا گروہ مصنفین صفحہ ۳۵۸)
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس صحابی کے متعلق جو ایک جنگ میں ’’اعرج‘‘ ہونے کے باوجود شریک ہوئے اور اپنی جان کی قربانی پیش کی فرمایا : والذی نفسی بیدہ لقد رأیت عمروبن الجموح یطأُ فی الجنہ بعرجتہ ‘‘ یعنی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے دیکھ رہا ہوں عمرو بن الجموح کو کہ لنگڑا ہوکر بھی جنت میں ٹہل رہا ہے ۔ اس بنا پرحضرت مسلم بن کثیر کا بھی وہی مقام ہے کہ اگرچہ قرآن فرماتا ہے : لیس علی الاعمی خرج ولا علی الاعرج حرج ۔ (سورۂ فتح، آیت ۱۷)
یعنی جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اندھے پر کوئی حرج نہیں اورنہ ہی لنگڑے پر کوئی مؤاخذہ ہے لیکن اس فداکار اسلام نے نواسہ رسول کی حمایت میں اپنی اس اپاہج حالت کے باوجود جان قربان کر کے ثابت کیا کہ اسلام کے تحفظ کےلیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے یہی وجہ ہے’’صاحب تنقیح المقال‘‘ کے یہ جملے ہیں : ’’شہیدالطف غنی عن التوثیق‘‘ فرماتے ہیں چونکہ کربلا کے شھداء میں شامل لہذا وثاقت کی بحث سے بے نیاز ہیں ۔
(2) حضرت انس بن حارث رضی اللہ عنہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی تھے جنگ بدر و حنین میں شرکت بھی کی ۔(تنقیح المقال مامقانی جلد ۱ صفحہ ۱۵۴،چشتی)
شیعہ مجتہد مامقانی لکھتا ہے :(انس) بن حارث صحابی نال بالطف الشھادۃ ‘‘ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور کربلا میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ۔ (مقتل الحسین مقرم جلد ۲ صفحہ ۲۵۳)
امام ابن عبدالبر اپنی کتاب الاستیعاب میں یوں رقمطراز ہیں ’’ انس بن حارث رویٰ عنہ والد اشعث بن سلیم عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قتل الحسین وقتل مع الحسین رضی اللہ عنھما ’’ انس بن حارث کے واسطہ سے اشعث بن سلیم کے والد نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امام حسین (ع) کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ یہ (انس بن حارث) حضرت حسین (ع) کے ہمراہ شہیدہوئے ۔ (الاستعیاب ابن عبداللہ جلد ۱ صفحہ ۱۱۲)
الاستیعاب نے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ یوں ہے کہ حضرت انس بن حارث نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرابیٹا (حسین) کربلا کی سر زمین پرقتل کیا جائے گا جو شخص اس وقت زندہ ہو اس کےلیے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مدد و نصرت کوپہنچے ۔
روای کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اور امام حسین کے قدموں پر اپنی جان نچھاور کردی ۔ (یہ مطلب ان کتب میں بھی موجود ہے : (اسد الغابہ ابن اثیر جلد ۱ صفحہ ۱۲۲)(تاریخ الکبیر بخاری جلد ۲ صفحہ ۳۰)(الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر العسقلانی جلد ۱ صفحہ ۲۷۰)
اس حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کردیا جائے:’’سعد(سعید)بن عبدالملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول:سمعت رسول اللہ(ص) یقول:ان ابنی ھذا(یعنی الحسین)یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شھد منکم فلینصرہ۔‘‘
قال(العسقلانی):’’فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔‘‘
صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :’’وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبی(ص) وسمع حدیثہ وذکرہ عبدالرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفہ۔۔۔۔۔۔‘‘(فرسان الھیجاء، محلاتی، ص۳۷۔)
امام ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن الحرث ان عظیم اصحاب رسول(ص) میں سے تھے جنھیں حضرت پیغمبر(ص) کی زیارت نصیب ہوئی انھوں نے آپ(ص) سے حدیث بھی سنی تھی عبدالرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے۔۔۔‘‘
بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پرامام حسین(ع) اورعبیداللہ بن حرجعفی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسین(ع) کی خدمت حاضرہوئے اور قسم کھانے کے بعد عرض کی ’’کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کا ساتھ نہ دونگا (نہ امام کا نہ دشمن کا) یعنی جنگ سے اجتناب کرونگا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپ کی مدد ونصرت کرنے کومیرے دل میں ڈال دیا اور مجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپ کا ساتھ دوں۔حضرت امام حسین نے انھیں ہدایت اور سلامتی ایمان کی نوید سنائی اور انھیں اپنے ساتھ لے لیا۔(انساب الاشراف بلاذری جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۱۷۵ (دارالتعارف،چشتی)
یہ صحابی رسول نواسۂ رسول امام حسین کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود ہیں حضرت امام حسین نے اپنے اس وفادار ساتھی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ عمربن سعد کوحضرت کاپیغام پہنچائے اور اس ملعون کو نصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آجائے اورقتل حسین سے باز رہے جب حضرت انس ، عمربن سعد کے پاس پہنچے تواس کوسلام نہ کیا عمربن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیاتومجھے کافر اور منکر خدا سمجھتا ہے؟
حضرت انس نے فرمایا:’’توکیسے منکر خدا و رسول(ص) نہ ہو جبکہ توفرزندرسول کے خون بہانے کا عزم کرچکا ہے!‘‘
یہ جملہ سن کرعمربن سعد سرنیچے کرلیتا ہے اورپھر کہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ(گروہ حسین) کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔ (فرسان الھیجاء،ص۳۷)
ابتدائے ملاقات سے حضرت انس تکلیف دہ حالات اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین کی طرح حضرت امام سے اجازت طلب کرکے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھا گو ایمان جوان تھا نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ سن پیری(بڑھاپے) کی وجہ سے خمیدہ (جھکی ہوئی)کمر کوشال(رومال) سے باندھ کرسیدھا کرتے ہیں ، سفید ابرو ، آنکھوں پر پڑ رہے تھے ، رومال پیشانی پرباندھ کراپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں ۔حضرت امام حسین نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کو دیکھا تو حضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اورفرمایا:’’خدا تجھ سے یہ قربانی قبول کرے اے پیرمرد۔‘‘ (حیاۃ الامام الحسین(ع) ،ج۳، ص۲۳۴)
ہر مجاہد جنگ کرتے وقت رجز(مجاہدانہ اشعار)پڑھا کرتا تھا جو رجز حضرت انس نے پڑھا ہے نہایت پرمعنی تھا پہلے اپنا تعارف کرایا پھر کہا:’’واستقلبوا لقوم بغرٍالآن آل علی شیعۃ الرحمٰن،وآل حرب شیعۃ الشیطان‘‘(۲۰)کاہل ودان نسب جانتے ہیں کہ میراقبیلہ دشمن کو نابود کرنے والا ہے اے میری قوم شیرغراں کی طرح دشمن کے مقابلے میں جنگ کرو کیونکہ آل علی رحمان کے پیروکار جبکہ آل حرب (بنوسفیان) شیطان کے پیروکار ہیں ۔(الفتوح، ج۵، ص۱۹۶)
حضرت حضرت انس نے بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی ۱۲ یا۱۸ دشمنوں کوقتل کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا زیارت ناحیہ کے جملات یہ ہیں:’’السلام علی ٰ انس بن الکاھل الاسدی‘‘ (الاقبال، ج۳، ص۳۴۴)
(3) حضرت بکر بن حی رضی اللہ عنہ:علامہ سماوی نے اپنی کتاب ابصارالعین میں حدایق الوردیہ سے نقل کیا ہے کہ ’’بکربن حی‘‘ کوفہ سے عمربن سعد کے لشکر میں شامل ہوکر کربلا پہچا لیکن جب جنگ شروع ہونے لگی تو حضرت امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوکر عمربن سعد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پہلے حملے میں شہیدہوگئے منھی الآمال میں ان کاذکر ان شہداء میں موجود ہے جو حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے۔(منتھی الآمال،ج۱،ص)
تنقیح المقال نے ’’حضرت بکربن حی‘‘ کو شہدائے کربلا میں شمار کیاہے عبارت یوں ہے:’’بکربن حی من شھدالطف بحکم الوثاقۃ‘‘
ابن حجر عسقلانی نے’’ حضرت بکربن حی‘‘ کے ترجمہ میں لکھا ہے:’’بکربن حی بن علی تمیم بن ثعلبہ بن شھاب بن لام الطائی۔۔۔۔۔۔لہ ادراک ولولدہ مسعود ذکربالکوفہ فی زمان الحجاج وکان فارساً شجاعاً۔۔۔۔۔۔‘‘ حضرت بکربن حی نے حضرت پیغمبر(ص) کے محضر مبارک کودرک کیا اور ان کے بیٹے مسعود کے بارے میں ملتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں کوفہ میں مقیم تھا۔(الاصابہ، ج۱،ص۳۴۹،چشتی)
’’الاصابہ‘‘میں’’ حضرت بکربن حی‘‘ کے صحابی رسول(ص) ہونے کی گواہی ملتی ہے گو بیان نہیں کیا کہ یہ صحابی کربلا میں شہید ہوئے یانہیں لیکن دیگر منابع رجال ومقاتل میں انھیں شہدائے کربلا میں شمار کیا گیاہے۔
(4) حضرت جابر بن عروہ غفاری رضی اللہ عنہ : کتاب’’شہدائے کربلا‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ متاخرین کے نزدیک یہ صحابی رسول خد(ص) تھے جوکربلا میں شہید ہوئے۔
جنگ بدر اوردیگر غزوات میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے ابروؤں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا:اے پیرمرد!خداتجھے اجردے ۔‘‘(الاصابہ، ج۱، ص ۳۴۹)
ذبیح اللہ محلاتی نے مقتل خوارزمی سے درج ذیل عبارت نقل کی ہے:’’ثم یرز جابر بن عروۃ الغفاری وکان شیخاً کبیراً وقد شھد مع رسول اللہ بدراً او حنیناً وجعل یشد وسطہ بعمامعتہ ثم شدحاجبیہ بعصابتہ حتی رفعھما عن عینیہ والحسین (ع) ینظر الیہ وھویقول شکراللہ سعیک یاشیخ فحمل فلم یزل یقاتل حتی قتل ستین رجلاً ثم استثھد رضی اللہ عنہ‘‘۔(فرسان الھیجاء، ص۵۴)
بعض کتب جیسے تنقیح المقال، مقتل ابی مخنف اور وسیلۃ الدارین میں صحابی رسول(ص) اورشہیدکربلا کے عنوان سے بیان ہوا ہے البتہ دیگر معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود نہیں اس وجہ سے بعض محققین ان کے بارے میں مردد ہیں۔
’’تنقیح ‘‘کے جملات یہ ہیں ’’جابر بن عمیر الانصاری ،صحانی مجہول ‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۱۹۸)
وسیلۃ الدارین کی عبارت کے مطابق یہ صحابی رسول تھے اور جنگ بدر کے علاوہ دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے۔’’انّ جابر بن عروہ کان اصحاب رسول اللہ(ص) یوم بدر وغیرھا ۔ (وسیلۃ الدارین، زنجانی، ص۱۱۲)
جب دشمن کے مقابلہ میں آئے تویہ رجز پڑھا:
قد علمت حقاً بنوغفار وخندف ثم بنو نزار
ینصرنا لاحمدمختار یاقوم حاموا عن بنی الاطہار
الطیبین السادۃ الاخیار صلی علھم خالق الابرار
’’یہ بنوغفار وخندف نزا ر قبائل جانتے ہیں کہ ہم یاور محمدمصطفیٰ (ص) ہیں اے لوگو آل اطہار جوسیدوسردار ہیں ان کی حمایت کرو کیونکہ خالق ابرار نے بھی ان پردرودوسلام بھیجا ہے۔‘‘ان الفاظ کے ساتھ دشمن پرآخری حجت تمام کرتے ہوئے چندافراد کوواصل جہنم کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا۔(مقتل الحسین(ع) ، ابی مخنف، ص۱۱۵،۱۱۶)
(5) حضرت جنادۃ بن کعب الانصاری رضی اللہ عنہ:حضرت جنادہ بن کعب وہ صحابی رسول(ص) ہیں جوحضرت امام حسین کی نصرت کے لئے کربلا میں اپنی زوجہ اورکم سن فرزند کے ساتھ شریک ہوئے خود کو اپنے بیٹے سمیت نواسۂ رسول کے قدموں پرقربان کردیا۔
علامہ رسولی محلاتی نقل کرتے ہیں جنادہ صحابی رسول خدا اور حضرت علی کے مخلص شیعہ تھے۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ شریک ہوئے۔ (زندگانی امام حسین(ع) ، رسول محلاتی، ص۲۵۲)
حضرت جنادۃ بن کعب الانصاری کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کے لئے بیعت لینے والوں میں شامل تھے حالات خراب ہونے کی وجہ سے کوفہ کو ترک کیا اور امام حسین سے جا ملے۔
تنقیح المقال نے جنادہ کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے:’’جنادۃ بن (کعب)بن الحرث السلمانی الازدی الانصاری الخزرجی من شھداء الطف۔۔۔وقدذکراھل السیرانہ کان من اصحاب رسول اللہ(ص) ۔ (تنقیح المقال مامقانی ج۱،ص۲۳۴)
صاحب کتاب فرسان نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے:ابن مسعود روایت کرتے ہیں’’ حضرت پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت جنادۃ بن الحارث کو ایک مکتوب میں بیان فرمایا کہ یہ مکتوب محمدرسول اللہ(ص) کی جانب سے جنادہ اوراس کی قوم نیز ہر اس شخص کے لئے ہے جو اس کی پیروی کرے گا کہ نماز قائم کریں اور زکوۃٰ ادا کریں اورخدا و رسول (ص) کی اطاعت کریں جواس حکم پر عمل کرے گا خدا و رسول(ص) کی حفظ وامان میں رہے گا۔‘‘(فرسان الھیجاء، ص۷۶)
اس فداکار صحابی رسول(ص) نے اپنے راہبر کے حکم پر عمل کرکے نہ فقط مال کی زکوۃٰ ادا کی بلکہ اپنی جان اور اولاد کی زکوۃٰ بھی دیتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی۔ حضرت جنادہ کی زوجہ ’’مسعود خزرجی‘‘کی بیٹی اور بڑی شجاع و فداکار خاتون تھی جب جنادہ شہید ہوچکے تو اس مجاہدہ عورت نے اپنے خورد سال بیٹے عمرو بن جنادہ کو(جوگیارہ یا نوسال کی عمر میں تھا)کوحکم دیا کہ جاؤ جہاد کرو۔ (تنقیح المقال، ج۲، ص۳۲۷)
یہ با ادب بچہ ماں کی اجازت کے باوجود اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین کی خدمت میں آیا اوربڑے احترام سے عرض کی مجھے جہاد کی اجازت عطا فرمائیں۔
حضرت امام حسین نے اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ شاید تیری ماں راضی نہ ہو (کیونکہ تیرا سن چھوٹا ہے اورتیری ماں بوڑھی ہے) یہ جملات سننے تھے کہ اس ننھے مجاہد نے عرض کی کہ ’’انّ امّی قدامرتنی‘‘(میری ماں تومجھے اجازت دے چکی ہیں)
میری ماں نے نہ فقط اجازت دی ہے بلکہ مجھے لباس جنگ اس نے خود پہنایا ہے اور حکم دیا ہے آپ پر جان قربان کردوں ۔امام حسین نے جب اس کا جذبۂ جہاد دیکھا تو اجازت دی میدان جنگ میں آکر صحابی رسول کے اس کمسن فرزند نے اپنا تعارف بڑے نرالے انداز میں کرایا۔ خلاف معمول اپنا نام یا والد اور قبیلہ کا ذکر نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ اس کمسن بچے کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ یہ کس کا فرزند ہے بعض کتب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ ’’خرج شباب قتل ابوہ فی المعرکہ‘‘ (حماسہ حسینی ،استاد شہید مطہری (رہ) ج۲،ص۳۲۷)
دشمن کو للکار کر کہتا ہے : ⬇
امیری حسینٌ ونعم الامیر سرور فواد البشیرالنذیر
علیٌ وفاطمہ والداہ فھل تعلمون لہ من نظیر
لہ طلعۃ مثل شمس الضحیٰ لہ غُرّہ مثل بدرالمنیر۔
’’میرے آقا وسردار اور بہترین سردار حسین ہیں بشیرالنذیر (پیغمبراکرم(ص))کے دل کا چین ہیں ۔ علی و فاطمہ جس کے والدین ہوں کیا اس کی مثال(دنیا میں) کہیں مل سکتی ہے؟چمکتے سورج کی مانند نورافشانی کرنے والا ۔ اور چودھویں کے چاند کی مانند (تاریکیوں میں) روشنی دینے والا راہنما امام ہیں۔‘‘(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۲۸۲)
میدان جنگ میں شہید ہوجانے کے بعد دشمن نے سرجدا کرکے ماں کی طرف پھینکا ماں نے سراٹھا کرکہا:’’مرحبا‘اے نورعین‘‘اور پھر دشمن کو دے مارا اور عمود خیمہ اٹھا کر دشمن کی فوج پرحملہ کرناچاہا لیکن حضرت امام حسین نے واپس بلالیا اور اس باوفا خاتون کے حق میں دعا فرمائی۔
حضرت جنادہ کا نام بعض منابع میں ’’جابر‘‘ (تاریخ طبری ،ج ۵،ص۲۲۶)
یا’’جبار‘‘یا’’جیاد‘‘ درج ہوا ہے ان کے والد کے نام کو بھی بعض نے ’’حارث‘‘(تاریخ طبری ،ج ۵،ص۲۲۶،چشتی)
اور بعض نے ’’حرث‘‘ (انساب الاشراف ، البلاذری ، ج۳،ص۱۹۸) ذکر کیا جبکہ قاموس (قاموس الرجال ،ج۲،ص۷۲۴) میں ’’جنادہ‘‘ کے نام سے موجود ہے ان کے قبیلہ کا نام ’’سلمانی‘‘ (الکامل فی التاریخ ،ابن اثیر ،ج۴،۷۴)
یا’’سلمانی ازدی‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۲۳۴) بیان ہوا ہے۔
یہ صحابی رسول(ص) ’’عذیت الھجانات‘‘کے مقام پر امام حسین کے حضور شرفیاب ہوئے اسی دوران’’حر‘‘امام حسین کاراستہ روک کر انھیں گرفتار کرنا چاہتا تھا جبکہ امام حسین کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس کام سے باز رہا امام ان تازہ شامل ہونے والے افراد (جیسے جنادہ بن حارث)کے ذریعے کوفہ کے حالات سے مطلع ہوئے اس وقت سے لے کر روز عاشور تک ساتھ رہے صبح عاشور حضرت جنادہ بعض دیگر افراد کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لے کردشمن کے لشکر پرحملہ آور ہوئے دشمن کے نرغہ میں جانے کی وجہ سے تمام افراد ایک مقام پردرجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ زیارت رجبیہ وناحیہ میں ان پر’’سلام ‘ ‘ ذکرہوا ہے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۱۵)
(5) حضرت جندب بن حجیر الخولانی الکوفی رضی اللہ عنہ : حضرت جندب بن حجیر کندی خولانی‘‘یا’’جندب بن حجر‘‘پیغمبر اکرم (ص) کے عظیم صحابی اور اہل کوفہ میں سے تھے۔(اقبال الاعمال ،ج۳،ص۷۸)
حضرت جندب ان افراد میں سے ہیں جنھیں حضرت عثمان نے کوفہ سے شام بھیجا تھا جنگ صفین میں بھی شرکت کی اورحضرت علی کی طرف سے قبیلہ’’ کندہ اورازد‘‘ کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے اور واقعہ کربلا میں امام حسین کے ہمرکاب جنگ کرتے ہوئے شہیدہوئے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۳۶)
صاحب وسیلۃ الدارین لکھتے ہیں:’’قال ابن عساکر فی تاریخہ ھوجندب بن حجیر بن جندب بن زھیر بن الحارث بن کثیر بن جثم بن حجیر الکندی الخولانی الکوفی یقال لہ صحبۃ مع رسول اللہ وھو من اھل الکوفہ وشھد مع النبی(ص)۔۔۔۔۔۔وقال علماء السیر ومنھم الطبری:انہ قاتل جندب بن حجیربین یدیہ الحسین(ع) حتی قتل فی اول القتال۔۔۔۔۔۔‘‘
مندرجہ بالا ترجمہ کے مطابق یہ صحابی رسول(ص) اور شہدائے کربلا میں سے تھے۔
(وسیلۃ الدارین ،ص ۱۱۴)
حضرت جندب بن حجیر رضی اللہ عنہ کے صحابی رسول ہونے میں اتفاق ہے لیکن مقام شہادت میں اختلاف ہے ۔
ابن عساکر انھیں جنگ صفین کے شہداء میں ذکر کرتے ہیں۔(تاریخ اسلام ،ابن عساکر ، ج۱۱،ص۳۰۳)
بعض دیگر معتبر منابع انھیں شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں۔ تنقیح المقال میں ان کا ذکر اس طرح ہے:شھد الطف۔۔۔وعدہ الشیخ من رجالہ من اصحاب الحسین واقول ھوجندب بن حجیرالکندی الخولانی الکوفی وذکراھل السیر انّ لہ صحبۃ و۔۔۔‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۲۳۶)
رجال طوسی ’’اقبال‘‘اور’’اعیان الشیعہ‘‘میں بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیاگیا ہے۔(رجال ،شیخ طوسی (رہ) ،ص۷۲، اقبال ، ج ۳،ص۳۴۶،چشتی)
حضرت جندب کوفہ کے نامدار اور معروف افراد سے تعلق رکھتے تھے کوفہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل پڑے عراق میں حر کا لشکر پہنچنے سے قبل حضرت امام حسین سے مقام ’’حاجر‘‘میں ملاقات کی اور امام کے ہمراہ وارد کربلا ہوئے جب روز عاشور (عمرسعد کی طرف سے) جنگ شروع ہوئی یہ دشمن کامقابلہ کرتے ہوئے پہلے حملہ میں مقام شہادت پرفائز ہوئے۔(شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص۱۳۶)
(7) حضرت حبیب بن مظاہر الاسدی رضی اللہ عنہ:خاندان بنی اسد کے معروف فرد حضرت رسول اکرم(ص)کے صحابی اور حضرت علی ، امام حسن و امام حسین کے وفادار ساتھی تھے۔(رجال ،شیخ طوسی (رہ) صفحہ ۳۸،۶۸)
عسقلانی ان کا ذکر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمرحتی قتل مع الحسین(ع) یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور‘‘ ۔ (الاصابہ ،حرف ’’حا‘‘ حبیب بن مظاہر) ۔ معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اور کربلا میں جہاد کا ذکر مفصل ملتا ہے ۔
حضرت حبیب بن مظاہر حضرت علی کے شاگرد خاص اور وفادار صحابی تھے۔ آپ نے مولاعلی کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی بہت سے علوم پر دسترس تھی زہدوتقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔(سفینۃ البحار،ج۲، ص۲۶)
صاحب رجال کشی (اختیار معرفۃ الرجال) فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اور میثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کو نقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی کے یہ تربیت شدہ شاگرد’’علم باطن‘‘اور’’علم بلایا ومنایا‘‘(آئندہ آنے والی مشکلات ومصائب) پر کس قدر تسلط رکھتے تھے ۔ (تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو رجال کشی صفحہ ۷۸)
حضرت حبیب بن مظاہر کا شمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے۔ روایت میں ہے کہ حضرت حبیب ایک مرتبہ امام حسین سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدم کس صورت میں تھے؟
حضرت امام حسین نے فرمایا:’’ہم نور کی مانند تھے اور عرش الٰہی کے گرد طواف کررہے تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تمحید و تھلیل سکھاتے تھے ۔ (بحارالانوار مجلسی،ج۴۰، ص۳۱۱)
تسبیح یعنی سبحان اللہ‘تمحید یعنی الحمداللہ، اورتھلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا۔
حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔(تاریخ الطبری،ج۵،ص۳۵۲۔)
جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے توسب سے پہلاشخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے، اس کے بعد حضرت حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: ’’خدا تم پر رحم کرے کہ تو نے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کا حال بیان کردیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں جیسے عابس نے بیان کیا ہے۔(تاریخ الطبری،ج۵،ص۳۵۲،چشتی)
حضرت حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اور مسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کر حضرت مسلم بن عقیل کے لئے لوگوں سے بیعت لیتے تھے ۔ (ابصارالعین، سماوی، ص۷۸)
جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں(حبیب اورمسلم بن عوسجہ)کو مخفی کردیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کو امام حسین کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو رات کے وقت سے فائدہ اٹھا کرحضرت سے جا ملے حالت یہ تھی کہ دن کو مخفی ہوجاتے اور رات کو سفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کو پالیا۔(اعیان الشیعہ، ج۲، ص۵۵۴)
بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسین کوجب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے حبیب بن مظاہر کوخط لکھ کر بلایا۔(اسرا الشھادہ، ص۳۹۶)
لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی رو سے ثابت نہیں۔(شہدائے کربلا صفحہ ۱۳۴)
کربلا پہنچنے کے بعد جب عمروسعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا تو امام حسین سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ ’’بنی اسد‘‘ کے پاس گئے اور مفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسین کی مدد و نصرت کے لئے درخواست کی جس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے:’’۔۔۔میں تمہارے لئے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسول کی مدد کے لئے تیار ہوجاؤ۔۔۔نواسۂ رسول آج عمرسعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پر توجہ کریں تاکہ دنیا وآخرت کی سعادت تمہیں نصیب ہوسکے خدا کی قسم تم میں سے جو بھی فرزند رسول خدا کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خدا کے ساتھ محشور ہوگا۔(الفتوح، ج۵، ص۱۵۹)
حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پر لبیک کہا اور حضرت امام حسین کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ و تیار ہوگئے لیکن ’’ارزق بن حرب صیدادی‘‘ ملعون نے چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پرحملہ کرکے انھیں منتشر کردیا۔ حضرت حبیب نے یہ اطلاع حضرت امام کو پہنچائی جب حضرت امام حسین اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے کے لئے عصر تا سوعا(نہم محرم)کو دشمن سے مہلت طلب کی تو اس دوران ’’حبیب ‘‘ نے لشکر عمرسعد کو موعظہ و نصیحت کرتے ہوئے کہا:’’خدا کی قسم!کتنی بری قوم ہوگی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبر کے حضور حاضر ہوں گے توایسے حال میں کہ اسی رسول کے نواسہ اور ان کے یار و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔‘‘
شہادت کی موت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ ’’یزید بن حصین ‘‘سے مزاح کرتے ہیں تو یزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کاجبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اورہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں توحبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کونسا خوشی کا وقت ہوگا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوکر بہشت میں پہنچنے والے ہیں۔(اخیارالرجال، الکشی، ص۷۹)
ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کو بتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسین کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کرجائیں تو آپ تمام اصحاب کوجمع کرکے درخیمہ پر لائے اور حضرت زینب کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیا اور اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کا دوبارہ عہد کیا تاکہ حضرت زینب کی یہ پریشانی ختم ہوسکے۔(الدّمعۃ الساکبہ، ج۴، ص۲۷۴)
صبح روز عاشور حضرت امام حسین نے اپنے لشکر کو منظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیربن قین اور بائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہوکر مبارزہ طلب کرتے ہیں تو حبیب مقابلہ کے لئے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام نے روک لیا اس طرح ظہرعاشور جب امام نے لشکر عمرسعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لئے کہا تو ایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی(نعوذباللہ)اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اور فوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے ۔
’’اے حمار(گدھے)!تیرے خیال باطل میں آل پیغمبر کی نماز قبول نہیں؟! اور تمہاری نماز قبول ہے؟!!‘‘
اس طرح دونوں کا مقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کو زمین پر گرادیا پھر باقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کو واصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کا وار کیا جس کی تاب نہ لاکر آپ شہید ہوگئے اس نے آپ کے سر کو جدا کرلیا اسی سر کو بعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کرکوفہ میں پھرایا گیا گویا کوفہ کا نامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہا تھا دیکھو یہ سرآل رسول کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا ۔ (شہدای کربلا ، ص۱۳۵) ۔ السلام علیک یاحبیب بن مظاھرالاسدی۔
(8) حضرت زاھر بن عمروالاسلمی رضی اللہ عنہ : ’’زاھر‘‘شجاع اور بہادر شخص تھے صحابی رسول(ص) اوراصحاب شجرہ میں سے تھے اور محبین اہل بیت علیھم السلام میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت رسول خدا (ص) کے ہمراہ غزوہ حدیبیہ اور جنگ خیبر میں شریک ہوئے۔
ذبیح اللہ محلاتی وسیلۃ الدارین کی عبار نقل کرتے ہیں: ’’قال العسقلانی فی الاصابہ ھوزاھر بن عمرو بن الاسود بن حجاج بن قیس الاسدی الکندی من اصحاب الشجرۃ وسکن الکوفہ وروی عن النبی(ص) وشھدالحدیبیہ وخیبر ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’۔۔۔۔۔۔ زاھر درحقیقت زاھر بن عمرو الکندی ہیں جواصحاب شجرہ میں سے تھے کوفہ میں مقیم تھے اورحضرت رسول خدا (ص) سے روایت بھی نقل کی ہے حدیبیہ اور خیبر میں شریک تھے۔‘‘فرسان الھیجاء ص۱۳۸ از وسیلۃ الدارین ،ص۱۳۷)
حضرت زاھر کے بیٹے ’’مجزأۃ‘‘نے اپنے باپ کے واسطہ سے پیغمبر اکرم(ص) سے روایت بیان کی ہے فوق الذکر مطلب مختصر فرق کے ساتھ دیگر منابع میں بھی موجو د ہے۔(اسد الغابہ، ابن اثیرعلی بن محمد، ج۲، ص۱۹۲، الاصابہ،ج۱، ص۵۴۲،چشتی)
بعض محققین کے خیال میں زاھر اور زاھر اسلمی دو الگ الگ افراد ہیں۔(قاموس الرجال، شوشتری، ج۲، ص۴۰۲،۴۰۶)
تنقیح المقال کی عبارت میں انھیں اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں شمار کیاگیا ہے۔
’’ زاھر اسلمی والدمجزأۃ من اصحاب الشجرہ‘‘ ۔
نیز فرماتے ہیں:’’زاھر صاحب عمرو بن الحمق شھید الطف فوق الوثاقہ وعدہ الشیخ فی رجالہ من اصحاب ابی عبداللہ واقول ھوزاھر بن عمروالاسلمی الکندی من اصحاب الشجرہ روی عن النبی(ص) وشھد الحدیبیہ وخیبر وکان من اصحاب عمربن الحمق الخزاعی کمانص علی ذالک اھل السیرو۔۔۔‘‘(تنقیح المقال، ج۱، ص۴۳۸)
مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’زاھر‘‘نام کے دواشخاص ہیں لیکن مرحوم مامقانی کی نظرمیں زاھر بن عمرو اسلمی کاشمار اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں ہونا ثابت ہے۔
نیز بیان کرتے ہیں کہ یہ محب اہل بیت تھے بہت بڑا تجربہ کار پہلوان اور بہادر شخص تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد ’’عمربن حمق‘‘کے ساتھ مل کر معاویہ کی ظالمانہ حکومت اور ابن زیاد کے خلاف برسرپیکار رہا جب معاویہ نے ان کی گرفتاری اورقتل کاحکم صادر کیا تو یہ دونوں شہر سے فرار کرگئے پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے لگے یہاں تک کہ ’’عمروبن حمق‘‘حکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد شہید کردیا گیا لیکن زاھر زندہ رہا آخرکار ۶۰ ھ میں حج کے موقعہ پر امام حسین کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے ساتھ مل کر کربلا کی جنگ میں شرکت کی عاشورا کے دن پہلے حملے میں جام شہادت نوش کیا۔(شہدای کربلا، ص۱۶۴، ازتنقیح ، ج۱، ص۴۳۷ تاریخ مدینہ دمشق، ج۲۵، ص۵۰۲)
زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں سلام ان الفاظ میں ذکرہوا السلام علی زاھر مولیٰ عمروبن حمق(اقبال، ص۷۹)
(9) حضرت زیاد بن عریب ابوعمرو رضی اللہ عنہ : قدیم محققین نے ان سے متعلق کوئی خاص تفصیل بیان نہیں کی، لیکن بعض معاصر نے ان کا ذکر اس طرح درج کیا ہے:’’زیاد بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبداللہ بن کعب الصائدبن ھمدان‘‘۔(جمھرۃ انساب العرب، ص۳۹۵)
حضرت ابوعمرو زیاد بن عریب نے حضرت پیغمبر (ص) کے محضر مبارک کودرک کیا ان کے والد بزرگوار بھی صحابی رسول تھے ابوعمرو شجاع، عابد و زاھد اور شب زندہ دار شخص تھے زیادہ نمازگزار تھے زہدوتقویٰ کی وجہ سے دین کی عزت نے آرام سے نہ بیٹھنے دیا لہذا واقعہ کربلا میں اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے حضرت امام حسین کی خدمت میں پہنچے اور دشمن کے خلاف جہاد و مبارزہ کرنے کے بعد درجۂ شہادت پرفائز ہوئے۔(ابصارالعین، سماوی، ص۱۳۴)
(10) حضرت سعد بن الحارث مولی امیرالمؤمنین (ع) : حضرت سعدبن حرث خزاعی کے نام سے معروف ہیں۔ قدیم منابع میں ان کا نام شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر نہیں لیکن بعض متاخرین نے شہیدکربلا کے عنوان سے ان کے حالات زندگی قلمبند کیے ہیں۔
حضرت سعد بن حرث خزاعی نے محضر پیغمبراکرم(ص) کودرک کیا اس لحاظ سے صحابی رسول(ص) ہیں ۔پھر امیرالمؤمنین سیدنا علی کے ہمراہ رہے حضرت نے انھیں کچھ عرصہ کے لئے سپاہ کوفہ کی ریاست سونپی تھی نیز کچھ مدت کے لئے انھیں آذربائیجان کا گورنر بھی منصوب کیا۔ صاحب فرسان نے’’ حدایق الوردیہ‘‘ ،’’ ابصارالعین‘‘،’’ تنقیح المقال‘‘ اور’’الاصابہ‘‘ جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔(فرسان الھیجاء ،ص۱۵۴)
صاحب فراسان نے الاصابہ کے حوالے سے حضرت سعد کا ذکر یوں کیا ہے (لیکن الاصابہ میں مراجع کرنے سے یہ ذکر نہیں ملا)
’’سعید بدل سعد بن الحارث بن شاربہ بن مرۃ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی مولیٰ علی بن ابی طالب(ع) لہ ادارک وکان علی شرطۃٍ علی (ع) فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان ۔۔۔۔۔۔‘‘(فرسان الھیجاء ،ص۱۵۴)
وسیلۃ الدارین نے بھی ص۱۲۸ پر صحابی اور شہیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے۔ تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے:’’سعد بن الحارث الخزاعی مولیٰ امیرالمؤمنین صحابی امامی شہید الطف ثقہ‘‘ مذید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک الصحبۃ النبی(ص) وکان علی شرطۃ امیرالمؤمنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۱۲،چشتی)
مزید تفصیلات ان کتب میں موجود نہیں البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ’’ حضرت سعد‘‘ امیرالمؤمنین سیدنا علی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن و امام حسین کا ہر میدان میں یار و مددگار رہا جب حضرت امام حسین نے قیام کیا تو ابتداء میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جا ملے پھر مکہ سے کربلا آئے اورروز عاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ’’ محقق شوشتری‘‘ نے اپنی کتاب میں ان کے صحابی ہونے پر تنقید کی ہے، اس دلیل کی بنا پر کہ اگر صحابی ہوتے تو قدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا۔(قاموس الرجال، شوشتری، ج۵، ص۲۷،۲۸)
لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کا ذکر صحابی رسول(ص) ہونے کے عنوان سے آجانا ہمارے مطلب کے اثبات کے لئے کافی ہے۔
(11) حضرت شبیب بن عبداللہ (مولیٰ الحرث) رضی اللہ عنہ : حضرت شبیب بن عبداللہ بن شکل بن حی بن جدیہ حضرت رسول اکرم(ص) کے صحابی اور کوفہ کی معروف و مشہور شخصیت اور بڑے بافضیلت انسان تھے ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۵۵ ، نقل از الاصابہ، ج۳، ص۳۰۵)
جہاں بھی ظلم وستم دیکھا اس کے خاتمہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل وصفین ونہروان میں بھی شرکت کی اور حضرت علی کے وفادار یار و مددگار رہے ۔ (فرسان الھیجاء، ص۱۶۷)
مختلف معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے جیسے’’ رجال طوسی‘‘،’’ استرآبادی‘‘،’’ تنقیح المقال ‘‘، ’’ مقتل ابی مخنف‘‘، ’’ تاریخ طبری‘‘ وغیرہ۔
’’تنقیح‘‘ میں ان کا ذکر اس طرح درج ہے: ’’شبیب بن عبداللہ مولی الحرث صحابی شہیدالطف ،فوق الوثاقہ ‘‘شبیب سیف بن حارث اور مالک بن عبداللہ کے ہمراہ کربلا پہنچے اور اپنے مولا امام حسین کی اطاعت میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
کتاب روضۃ الشھداء ص۲۹۵ میں ان پرسلام نقل ہوا ہے ۔ السلام علی شبیب بن عبداللہ مولیٰ بن سریع ۔
(12) حضرت شوذب بن عبداللہ الھمدانی الشاکری رضی اللہ عنہ : حضرت شوذب صحابی رسول اورحضرت علی کے باوفا ساتھی تھے ۔ علامہ’’ زنجانی‘‘ نے علامہ’’ مامقانی‘‘ سے ان کا ذکر نقل کیا ہے :’’ذکرالعلامہ مامقانی فی رجالہ شوذب بن عبداللہ الھمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل لہ ترجمہ تخیل انّہ شوذب مولی عابس والحال ان مقامہ اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیرالمؤمنین(ع) ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۵۴)
حضرت شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلندپایہ شخصیت تھے۔ کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لئے حضرت امیرالمومنین کی احادیث نقل کرتے تھے امام علی کے ساتھ تینوں جنگوں میں شریک رہے۔
جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے توان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسین تک اہل کوفہ کے مزید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔ نہایت مخلص اور عابد و زاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا ۔کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسین کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں۔ جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہوگئے تو عابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیا خیال ہے ؟
کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خدا کی نصرت کے لئے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کا مقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام کے پاس جا کر اجازت طلب کرو۔ حضرت امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوکر اجازت جہاد حاصل کی اور وارد جنگ ہوئے چند دشمنوں کو واصل جہنم کیا آخر میں شہید ہوگئے۔(شہدائے کربلا، ص۱۹۸)
ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اور زیارت ناحیہ میں ان پرسلام بھیجا گیا ہے۔ السلام علی شوذب مولی شاکر ۔ (اقبال، ص۳۴۶،چشتی)
قابل توجہ امریہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ’’ شوذب ‘‘،’’عابس شاکر ‘‘کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ’’ ہم پیمان‘‘ کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب مقام علمی ومعنوی کے اعتبار سے عابس پر برتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے بلکہ عابس اور اس کے قبیلہ کے ہم پیمان وہم عہد تھے۔(عنصرشجاعت، ج۱، ص۱۳۰) ۔ یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔
(13)حضرت عبدالرحمٰن الارحبی رضی اللہ عنہ : حضرت رسول اکرم (ص) کے بزرگ صحابی تھے۔ تمام معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے۔
جیسے ’’رجال شیخ طوسی‘‘،’’ رجال استرآبادی‘‘، ’’ مامقانی‘‘ ، نیز ’’الاستیعاب‘‘،’’ الاصابہ‘‘ اور’’وسیلۃ الدارین‘‘ نے بھی نقل کیا ہے۔
تاریخ طبری اورالفتوح میں ان کے بعض واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔
’’الاستیعاب‘‘ کی عبارت اس طرح ہے : ھو عبدالرحمن بن عبداللہ بن الکدن الارحبی۔۔۔۔۔۔‘‘انہ کان من اصحاب النبی(ص) لہ ھجرۃ۔
حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان کی وفات کی خبر جب کوفہ پہنچی تو کچھ لوگ’’ سلمان بن صرد خزاعی‘‘ کے گھر جمع ہوئے تاکہ اجتماعی طور پر حضرت امام حسین کو خط لکھ کر دعوت دیں اور خلافت کو ان کے سپرد کریں نیز کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو کوفہ سے باہر نکال دیں ان خطوط کو’’قیس مسہرصیداوی‘‘ ، عبدالرحمٰن ارحبی اورعمارۃ بن عبداللہ السلولی لے کر حضرت امام حسین کی خدمت میں ہوئے اس طرح یہ گروہ دوم تھا جوحضرت کودعوت دینے کے لئے آیا۔پہلا گروہ عبداللہ بن سمیع کی قیادت میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا تھا۔
حضرت عبدالرحمٰن ارحبی شجاع تجربہ کار فاصل اور فصیح و بلیغ صحابی تھے۔(یاران پائیدار، ص۹۷)۔(تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۵۲)
۵۰ یا ۵۳ ددعوت نامے لے کر ۱۲ رمضان المبارک ۶۰ ھ کومکہ کی طرف روانہ ہوئے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن ارحبی ۱۵۰ افراد پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ حضرت امام حسین کی خدمت اقدس میں پہنچے۔(الفتوح، ج۵، ص۴۸)
مکہ میں حضرت امام کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر حضرت کے نمائندہ خاص جناب امیر مسلم کے لئے کوفہ میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ کوفہ میں حالات خراب ہونے کے بعد کربلا میں دشمنان دین کے خلاف جنگ میں شرکت کی جب عمربن سعد نے امام حسین کے قتل کا پختہ ارادہ کرلیا تواس صحابی رسول نے اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اپنے مولا و آقا کی حمایت کا اعلان کیا اپنی شجاعت کے کارنامے دکھانے کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے بھی حسین ابن علی کی حقانیت اوربنوامیہ کے بطلان کو اپنے اشعار میں واضح کیا تاریخ میں اس وفادار صحابی کے جو رجز بیان ہوئے ہیں اس زمانہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کیونکہ بنوامیہ نے اسلام کے نام پر اسلام کی نابودی کا تہیہ کر رکھا تھا اس لئے وہ اصحاب کرام جو اب پیغمبر اکرم(ص) کے قول وفعل کے ذریعے حقیقی اسلام کے راہبر کی شناخت کرچکے تھے آج دشمنان دین کو اسلام کے حقیقی راہبر کی اطاعت وفرمانبرداری کی طرف دعوت دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ حضرت عبدالرحمٰن کے رجز کا ایک مصرعہ یوں ہے:انی لمن ینکرنی ابن الکدن انی علی دین حسین وحسن۔(انساب الاشراف،ج ۳، ص۱۹۶،چشتی)
اس طرح امام حسین کو’’دین حق‘‘ کا علمبردار سمجھتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس شہید باوفا پر زیارت ناحیہ میں ان الفاظ میں سلام پیش کیاگیا ہے:
السلام علی عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کدرالارحبی۔(الاقبال، ج۳، ص۷۹)
(14) حضرت عبدالرحمٰن بن عبدربہ الخزرجی رضی اللہ عنہ : مختلف منابع نے ان کے لئے صحابی رسول (ص) ہونے کی گواہی دی ہے انھیں بعض نے انصاری بھی لکھا ہے اصل میں مدینہ میں مقیم تھے جب پیغمبر اسلام (ص) نے مدینہ میں ہجرت فرمائی تو اوس و خزرج قبائل نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت سے ان سب کو انصاری کہاجاتا تھا۔
صاحب قاموس الرجال نقل کرتے ہیں کہ:
عبدالرحمٰن بن عبدربہ الانصاری الخزرجی کان صحابیاً لہ ترجمۃ ورویۃ وکان من مخلص اصحاب امیرالمؤمنین علیہ السلام‘‘۔
صحابی رسول (ص) تھے جن سے روایت بھی نقل ہوئی ہے اورحضرت امیر علیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے۔
جس روایت ک اتذکرہ کیا گیا ہے یہ درحقیقت ’’غدیرخم‘‘ کے مقام پر پیغمبر اسلام (ص) کی جانب سے ولایت علی کا واضح اعلان کرنا ہے پھرجب وفات پیغمبر (ص) کے بعد اکثر افراد جن میں بعض نے دنیاوی مقاصد اور بعض نے خوف کی وجہ سے علی علیہ السلام خلیفہ تسلیم نہ کیا تو ایک مرتبہ رحبہ کے مقام حضرت علی نے لوگوں کو قسم دے کر پوچھا کہ جس نے پیغمبر(ص) سے میرے بارے میں کوئی حدیث فضیلت سنی ہو تو بلند ہو کر بیان کرے اسی اثنا میں حضرت عبدالرحمٰن خاموش نہ بیٹھ سکے اور اٹھ کر کہا کہ میں نے غدیر خم کے مقام پر رسول خدا (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ فرمایا:’’من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ‘‘جس جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے۔
مناسب ہوگا کہ الاصابہ فی تمیز الصحابہ کی عبارت نقل کی جائے العسقلانی یوں رقمطراز ہیں:عبدالرحمٰن بن عبدرب الانصاری ذکرہ ابن عقدہ فی کتاب المولاۃفی من روی حدیث:من کنت مولاہ فعلیٌّّ مولاہ وساق من طریق الاصبغ بن نباتہ قال لما نشدعلیٌّ الناس فی الرحبہ من سمع النبی (ص) یقول یوم غدیر خم ماقال الاقام ، ولایقوم الامن سمع ، فقام بضعۃ عشررجلاً منھم :’’ابوایوب‘‘،’’ ابوزینب‘‘ و’’عبدالرحمٰن بن عبدرب‘‘ فقالوا نشھد انا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ’’ان اللہ ولی وانا ولی المومنین ؛فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ ۔ (الاصابہ، ج۲، ص۳۲۸)
اس عظیم محقق کی عبارت کے مطابق دس سے زیادہ افراد کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ ہم نے سنا تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:بے شک اللہ ولی ہے میں بھی مومنین کاولی ہوں پس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
ابصارالعین نے بھی بیان کیا ہے کہ:کان ھذا صحابیاً وعلمہ امیرالمؤمنین القرآن ورباہ وھواحدرواۃ حدیث من کنت مولاہ۔۔۔حین طلب علیہ السلام ۔
یعنی یہ صحابی پیغمبر (ص) تھے حضرت علی نے ان کی تربیت کی اور انھیں قرآن مجید کی تعلیم دی اور من کنت مولاہ کی حدیث کو اس صحابی نے اس وقت بیان کیا جب حضرت علی نے گواہی طلب کی تھی۔(ابصارالعین فی انصارالحسین(ع) ، ص۹۲)
پیغمبر (ﷺ) کے وصال کے بعد کوفہ میں سکونت اختیار کرلی اور کوفہ کی معروف شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں امام حسین کے لئے لوگوں سے بیعت طلب کرتے تھے لیکن جب کوفہ میں امام حسین کے لئے راہ ہموار کرنے میں ناکام ہوئے تو کربلا میں امام سے ملحق ہو کر دشمن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پہلے حملہ میں یا بعداز ظہر شہید ہوگئے۔
(ذخیرالدارین، ص۲۷۰،چشتی)
(15) حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ : الاصابہ‘‘ میں ہے:ابوالھیاج عبداللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بن ھاشم الھاشمی۔(الاصابہ ، ج۷، ص۱۵۱)
حضرت عبداللہ بن حارث کا باپ حضرت رسول اکرم (ص) کا عم زاد اور برادر رضاعی تھا۔ یہ صحابی رسول(ص) ،عظیم شاعر بھی تھے اور انھوں نے پیغمبر (ص) سے روایت بھی نقل کی ہے۔ اپنے بعض اشعار میں حضرت علی کی مدح وثنا بھی بیان کی ہے۔
حضرت رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد امام علی کے ساتھ رہے انھیں کے ہمرکاب مختلف جنگوں میں شرکت کی۔ ایک مرتبہ جب حضرت عبداللہ کو علم ہوا کہ عمرو عاص نے بنی ھاشم پر طعن و تشنیع اور عیب جوئی کی ہے تو عمرو عاص پر سخت غصہ ہوئے اور اسے مورد عتاب قرار دیا۔ آخر تک اہل بیت کے ہمراہ رہے کربلا میں جب حضرت امام حسین کا معلوم ہوا تو ان کی خدمت میں پہنچ کر اپنی وفاداری کا عملی ثبوت دیا۔
اس طرح عاشور کے دن رسول خدا (ص) کے نواسہ کی حمایت کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔(شہدائے کربلا، ص۲۲۹)
(16) حضرت عمرو بن ضبیعۃ رضی اللہ عنہ :
مختلف منابع رجال و مقاتل میں ذکر ہوا ہے کہ یہ صحابی پیغمبر(ص) تھے اور کربلا میں حضرت امام حسین کے ہمرکاب شہادت پائی۔کتاب فرسان میں الاصابہ سے نقل کیاگیا ہے کہ
’’ھوعمروبن ضیبعۃ بن قیس بن ثعلبہ الضبعی التمیمی لہ ذکرفی المغازی۔۔۔‘‘
نیز ’’رجال استرآبادی‘‘ سے بھی نقل کرتے ہوئے یوں بیان ہوا ہے:’’قال المحقق استرآبادی فی رجالہ ھوعمروبن ضبیعہ۔۔۔وکان فارساً شجاعاً لہ ادراک۔(فرسان الھیجاء، ج۲، ص۷)
مامقانی نے بھی انہیں صحابی ادراکی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تجربہ کار اور ماہر جنگجو شخص تھا کئی ایک جنگوں میں شرکت کی نیز شجاعت میں شہرت رکھتا تھا۔
( تنقیح المقال، ج۲، ص۳۳۲)
حضرت عمرو بن ضبیعتہ ابتدا میں عمرسعد کے لشکر کے ساتھ وارد کربلا ہوئے لیکن جب دیکھا کہ عمرسعد نواسہ رسول(ص) کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً حضرت امام حسین کے ساتھ ملحق ہوگئے۔ حملہ اولیٰ میں شہادت پائی۔ زیارت ناحیہ میں عمر کے نام سے ذکرہوا ہے:
السلام علی عمربن ضبیعہ الضجی۔(الاقبال، ج۳، ص۷۸)
(17) حضرت عون بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ:کنیت ابوالقاسم ہے۔ حضرت جعفر بن ابی طالبکے بیٹے ہیں۔ اگرچہ سن ولادت واضح بیان نہیں ہوا لیکن چونکہ واقعہ کربلا میں ۵۴ یا۵۷ سال کے تھے لہذا امکان ہے کہ ۴ ھ یا ۵ ھ کو حبشہ میں ولادت ہوئی ہوگی۔
یعقوبی کے مطابق حضرت رسول اکرم (ص) نے جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد سال ہشتم ہجری میں عون اور ان کے بھائی عبداللہ ومحمد کو اپنی گود میں بٹھایا اورپیارکرتے رہے۔(تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۵)
ایک روایت کے مطابق رسول اکرم(ص) نے حضرت جعفر طیار کے بیٹوں کو بلایا اور سلمانی کو بلاکر کہا کہ ان بچوں کے سر کی اصلاح کرے اور پھر فرمایا:عون خلقت اوراخلاق میں میری شبیہ ہے الاصابہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔(الاصابہ، ج۴، ص۷۴ نمبرشمار۶۱۱۱،چشتی)
حضرت عون کا شمار حضرت علی کے یار و انصار میں ہوتا ہے۔ حضرت علی کے ہمراہ جنگوں میں بھی شریک رہے حضرت ام کلثوم (حضرت زینب صغری) کا عقد حضرت علی نے عون سے کردیا تھا۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۳۵۵)
حضرت علی کی شہادت کے بعد ہمیشہ امام حسن وحسین علیھاالسلام کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب حضرت امام حسین یزیدبن معاویہ کے مظالم کی وجہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے، حضرت عون بھی اپنی زوجہ محترمہ کے ہمراہ اپنے مولا کے اس جہاد میں شریک رہے اور روز عاشور حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد حضرت امام کی اجازت سے وارد میدان ہوئے ۳۰ سوار اور۱۸ پیادہ سپاہ یزید کو واصل جہنم کیا لیکن زید رقاد جہنمی نے آپ کے گھوڑے کو زخمی کردیا جس کی وجہ سے آپ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے پھر اس ملعون نے تلوار کا وار کرکے شہیدکردیا۔
ان کے رجز کو تاریخ نے یوں نقل کیا ہے:
ان تنکرونی فانا بن جعفر شھید صدق فی الجنان ازھر
یطیر فیھا بجناح اخضر کفی بھذٰا شرفاً فی المحشر۔(مقتل الحسین(ع) ، خوارزمی، ج۲، ص۳۱)
(18) حضرت کنانہ بن عتیق رضی اللہ عنہ :
حضرت کنانہ کوفہ کے شجاع اور متقی و پرہیزگار افراد میں سے تھے اور ان کا شمار قاریان کوفہ میں ہوتا ہے۔(ابصارالعین، ص۱۹۹)
حضرت کنانہ اوران کا باپ عتیق حضرت رسول اکرم (ص) کے ہمرکاب جنگ احدمیں شریک ہوئے۔(تنقیح المقال، ج۲، ص۴۲،چشتی)
وسیلۃ الدارین نے حضرت کنانہ کے ترجمہ کو رجال ابوعلی سے یوں نقل کیا ہے : قال ابوعلی فی رجالہ کنانۃ بن عتیق الثعلبی من اصحاب الحسین(ع) قتل معہ بکربلا وقال العسقلانی فی الاصابہ ھوکنانۃ بن عتیق بن معاویہ بن الصامت بن قیس الثعلبی الکوفی شھداء احداً ھووابوہ عتیق فارس رسول اللہ(ص) وقدذکرہ ابن منذہ فی تاریخہ ۔ (وسیلۃ الدارین، ص۱۸۴)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’حضرت کنانہ‘‘ بھی ان اصحاب رسول خدا (ص) میں سے ہیں جوحضرت امام حسین کی مدد و نصرت کے لئے کربلا تشریف لائے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسول کے قدموں میں نچھاور کیا۔زیارت رجبیہ اور ناحیہ میں ان پر سلام پیش کیا گیا ہے:السلام علی کنانۃ بن عتیق۔(الاقبال، ص۷۸)
(19) حضرت مجمّع بن زیاد جھنّی رضی اللہ عنہ : حضرت رسول اکرم (ص) کے اصحاب میں سے تھے۔ جنگ بدر و احد میں شریک رہے۔ مختلف منابع نے ان کوصحابی رسول (ص) اور شھیدکربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے۔ جیسے ذخیرۃ الدارین، حدایق ،ابصارالعین ،تنقیح المقال، اور وسیلۃ الدارین وغیرہ۔
کتاب’’ الدوافع الذایتہ‘‘ نے ’’الاستعیاب ‘‘سے عبارت نقل کی ہے کہ’’ ھومجمّع بن زیاد بن عمروبن عدی بن عمروبن رفاعہ بن کلب بن مودعۃ الجھنی شھدا بدراً واحد ۔
اس کے عبارت کے نقل کرنے کے بعد خود تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اَی انّہ صحابیٌ جلیل بناءً علی ذالک ۔
تنقیح المقال نے بھی الاصابہ اور الاستعیاب سے اس طرح کی عبارت نقل کی ہے کہ یہ صحابی رسول(ص) تھے بدر و احد میں شریک بھی رہے لیکن ہمارے ہاں موجود الاصابہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔
بہرحال جناب مجمع نے کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کی سب لوگ حضرت مسلم کوچھوڑ گئے لیکن حضرت مجمع بن زیاد ان افراد میں سے تھے جو ڈٹے رہے اور کوفہ میں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے کربلا میں حضرت امام حسین سے ملحق ہوکر یزیدی ارادوں کو خاک میں ملانے کی خاطر حضرت امام حسین کاساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی۔ دشمن کربلا میں اس مجاہد کو آسانی سے شکست نہ دے سکا تو ان کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہیدہوجاتے ہیں۔(ابصارالعین، ص۲۰۱)
(20) حضرت مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ :
شیعہ وسنی کے تمام معتبر ترین منابع جیسے الاستعیاب، الاصابہ، طبقات بن سعد، تنقیح المقال ، تاریخ طبری وغیرہ میں ان کا ذکر موجود ہے کہ یہ صحابی رسول خدا (ص) تھے اور صدر اسلام کے بزرگ اعراب میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدائے اسلام کی بہت سی جنگوں میں شریک رہے۔ غزوہ آذربائیجان اور جنگ جمل و صفین و نہروان میں بھی شرکت کی۔ حضرت علی کے باوفا یار و مددگار تھے۔(فرسان الھیجاء، ج۲، ص۱۱۶)
حضرت مسلم بن عوسجہ مختلف صفات کے مالک بھی تھے شجاع و بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ قاری قرآن ،عالم علوم اور متقی و پرہیزگار ،باوفا اور شریف انسان تھے۔(تنقیح المقال، ج۳، ص۲۱۴،چشتی)
حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ وارد ہوتے ہی ان کی مدد و نصرت میں پیش پیش تھے اور ان کی حمایت میں لوگوں سے بیعت لیتے تھے نیز مجاہدین کے لئے اسلحہ کی فراہمی اور دیگر امدادی کاروائیوں میں مصروف رہے۔(الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۳)
حضرت مسلم و جناب ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد مخفی طور پر رات کے وقت اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر حضرت امام حسین کی خدمت میں پہنچے۔ سات یا آٹھ محرم کو مسلم کوفہ سے کربلا پہنچ گئے اور سپاہ یزید کے خلاف ہر مقام پر پیش پیش رہے۔جب امام نے حکم دیا کہ خیمہ کے اطراف میں آگ روشن کی جائے تو شمرملعون نے آکر توہین آمیز جملات کہے جس پر حضرت مسلم بن عوسجہ نے حضرت امام حسین سے عرض کی کہ اگر اجازت دیں تواسے ایک تیر سے ڈھیر کردوں لیکن حضرت نے فرمایا نہیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہماری طرف سے جنگ کا آغاز ہو۔(تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۲۴،چشتی)
شب عاشور جس وقت امام حسین نے اپنے اصحاب کو چلے جانے کی اجازت دی تو جہاں بعض دیگر اصحاب امام نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا وہاں حضرت مسلم بن عوسجہ نے جو تاثرات بیان کئے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں عرض کی:خدا کی قسم!ہرگز نہیں چھوڑ کے جاؤں گا یہاں تک کہ اپنے نیزہ کو دشمن کے سینہ میں توڑ نہ دوں‘خداکی قسم اگرستر بار مجھے قتل کردیا جائے پھر جلا کر راکھ کر دیا جائے اور ذرہ ذرہ ہوجاؤں پھر اگر زندہ کیا جاؤں تو بھی آپ سے جدا نہیں ہونگا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ ہر بار آپ پر اپنی جان قربان کرونگا اس لئے کہ جان تو ایک ہی جائے گی لیکن عزت ابدی مل جائے گی۔‘‘(تاریخ الطبری،ج۵، ص۴۱۹)
حضرت مسلم بن عوسجہ عظیم صحابی رسول و امام ہیں کہ جن کو حضرت امام حسین نے ایک آیت قرآنی کا مصداق قراردیا جب مسلم بن عوسجہ پچاس دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوگئے تو حضرت امام حسین نے فوراً ان کی لاش پر پہنچے اور فرمایا:’’خدا تم پر رحمت کرے اے مسلم‘‘پھر سورۂ احزاب کی آیت ۲۳ کی تلاوت کی :”مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ۙ۔مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا۔
اس طرح امام حسین نے اپنے نانا رسول اللہ (ص) کے صحابی کو الوداع کہا۔:السلام علی مسلم بن عوسجہ الاسدی۔۔۔وکنت اول من اشتری نفسہ واول شھید شھداللہ۔
(21) حضرت نعیم بن عجلان رضی اللہ عنہ :
ایک روایت کے مطابق حضرت نعیم اور ان کے دو بھائیوں نظر و نعمان نے حضرت رسول اکرم(ص) کو درک کیا اس طرح یہ صحابی ادرکی ہیں۔ خزرح قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد سیدنا علی کے ساتھ جنگ صفین میں حضرت کا ساتھ دیا۔ حضرت علی نے ان کے بھائی نعمان کو بحرین کے علاقے کا والی بنایا۔(تنقیح المقال، ج۳، ص۲۷۴)
حضرت نعیم کے دونوں بھائی حضرت امام حسن کے زمانہ میں انتقال کرگئے جبکہ حضرت نعیم کوفہ میں زندگی بسر کررہے تھے کہ مطلع ہوئے کہ حضرت امام حسین عراق میں وارد ہوچکے ہیں کوفہ کو ترک کرتے ہیں اور حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوکر غیرت دینی کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں اور نواسۂ رسول کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے سپاہ یزید کے خلاف جنگ میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی قربان کردیتے ہیں۔(تنقیح المقال، ج۳، ص۲۷۴)
کتاب مناقب کے مطابق روز عاشور اولین حملہ میں جام شہادت نوش کیا ۔(مناقب آل ابی طالب ج۴، ص۱۲۲)۔زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں ان پر سلام ذکر ہوا ہے:السلام علی نعیم بن العجلان الانصاری۔(الاقبال، ج۳، ص۷۷) ۔ (مزید حصّہ دوازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment