حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ تشریف لائے اور فرمایا، میرا بیٹا مجھے دکھاٶ ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا : ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”حسن“ ہے۔ پھر جب اِمام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا ، مجھے میرا بیٹا دکھاٶ آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا : نہیں‘ اِس کا نام ”حسین“ رکھو ۔ جب تیسرے شہزادے پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاٶ ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ نبی کریم نے فرمایا : ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”محسن“ ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ” میں نے اِن کے نام (حضرت) ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں ۔ اُن کے نام شبر ، شبیر اور مبشر تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (الادب المفرد کنزالعمال تہذیب تاریخ دمشق لا بن عساکر)
اِسی لیے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو شبر و شبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ سُریانی زبان میں شبر و شبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ ” حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں ۔“ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 118،چشتی)
حضور نبی کریم نے واشگاف الفاظ میں خبر غیب سے اُمّت کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی جنت کے جوانوں کی سرداری کی نوید سے نوازا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا ”بے شک (حضرت) حسن اور (حضرت) حسین رضی اللہ عنہما دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ (بخاری، فتح الباری ، عمدة القاری ، مشکوٰة ، مسند احمد)
واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے ۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے لہٰذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبتِ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے ، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا ، کپڑے پھاڑنا ، بدن کو زخمی کرنا ، نوحہ و جزع فزع کرنا ، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل ﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔ ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں : خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ.(طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847،چشتی)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے ۔
جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی ۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی ؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے ۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے ۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں تشریف لے گئے ۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں ۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کسی اور کو نہیں دیا ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں ۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے ۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے ۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے ۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے : اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لینا ۔
امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں : یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان ، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی ۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے ۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے ۔ امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا ۔ صحیح ترمذی میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قلب اطہر مغموم ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے ۔ یعنی میدان کربلا میں جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی ۔
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا عبرتناک انجام
بد بخت قاتلانِ حسین کے حالات ان لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہوں گے جنہوں نے کتبِ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے قتل حسین میں شریک تھا یا اس پر راضی اور خوش تھا ۔عذاب اخروی جس کا وہ مستحق ٹھہرا،سے قطعِ نظر اس دنیائے ناپائیدار میں بھی اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا ۔
ہر وہ شخص جو معرکۂ کربلا میں حضرت سید الشہداء کے مقابلہ کی غرض سے آیا تھا اس دنیا سے عذاب دیکھے بغیر اور اپنے کیے کی سزا پائے بغیر نہیں گیا۔بعض قتل کر دیے گئے۔کچھ نابینا ہو گئے ، بعض کا چہرہ سیاہ ہو گیا ،کچھ شدت پیاس سے ہلاک ہوئے اوربعض کی دولت و حکومت قلیل مدت میں جاتی رہی۔بعض دیگر عقوبات میں مبتلا ہوئے ۔
حضرت علامہ ابن جوزی نے سدّی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی دعوت کی مجلس میں یہ ذکر چلاکہ حضرت حسینؓ کے قتل میں جوبھی شریک ہوااس کو دنیا ہی میں جلد سزا مل گئی اس شخص نے کہاکہ بالکل غلط ہے میں خود ان کے قتل میں شریک تھا میرا کچھ بھی نہیں ہوا،اتنا کہہ کریہ شخص مجلس سے اٹھ کر گھرگیا جاتے ہی چراغ کی بتی درست کرنے لگا اتنے میں اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اوروہیں جل بھن کررہ گیا ۔ سدّی کہتے ہیں کہ میں نے خود اس کو صبح دیکھا تو کوئلہ ہو چکا تھا ۔ (اسوۂ حسینی صفحہ ۱۰۱ ، ۱۰۲،چشتی)
قہرِ الہٰی کی بھڑکائی ہوئی آگ
روایت ہے کہ ایک جماعت آپس میں گفتگو کر رہی تھی کہ دشمنانِ حسین میں سے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو اس دنیا سے مصیبت و بلاء میں مبتلاء ہوئے بغیر چلا گیا ہو۔اس جماعت میں سے ایک بوڑھے نے کہا کہ میں بھی قتلِ حسین بن علی میں شریک تھا۔مجھ پر تو ابھی تک کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی۔ابھی یہ بات کر رہی رہا تھا کہ چراغ کے فتیلہ کو درست کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا ۔اچانک شعلۂ چراغ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس بری طرح سے جلا کہ اچھلتا کودتا واپس آیا اور چلانے لگا:میں جل گیا ۔میں جل گیا۔یہاں تک کہ اس کی یہ سوزش اس درجہ بڑھی کہ اس نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔مگریہ آگ تو قہرِ الہٰی نے بھڑکائی تھی دریا اسے کیا ٹھنڈا کرتا؟وہ تو اس کے لیے تیل کا کام کر گیا اور وہ اس انداز سے جلا کہ اس کا وجود جہنم کا ایندھن بن گیا ۔ )تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
ایک پری چہرہ سیاہ رو ہو گیا
مزید روایت ہے کہ ابن زیاد کے لشکریوں میں سے ایک شخص جس نے امام عالی مقام کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا خوبصورتی کے اعتبار سے بہت زیادہ شہرت یافتہ تھا۔بعد میں جب اسے دیکھا گیا تو اس کا چہرہ سیاہ ہو چکاتھا۔اس سے پوچھا گیا :تو تو بڑا خوب رو اور صاحبِ حسن و جمال تھا۔ کیا وجہ ہے کہ تیرے چہرے پرسیاہی اور کالک نے ڈیرہ جما لیا ہے۔کہنے لگا: جس روز میں نے حسین کے سر کو اپنے فتراک میں ڈالاتھا اسی دن سے روزانہ دو آدمی آتے ہیں مجھے دونوں بازؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگ کے پاس لے جاتے ہیں اور پھر مجھے اس آگ پر الٹا لٹکا دیتے ہیںبعد ازاں اتار لاتے ہیں۔اس دن سے میرا چہرہ سیاہ اور حال تباہ ہے۔یہ شخص اسی عذاب میں مبتلا رہایہاں تک کہ راہی جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی
واقدی سے منقول ہے:مقتلِ حسین کے حاضرین میں سے ایک بوڑھا آدمی نابینا ہو گیاتھا۔جب اس سے نابینا ہونے کا سبب پوچھا گیاتو کہنے لگا : میں نے خواب میں رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا : انہوں نے بازو تک آستین چڑھائی ہوئی تھی اور دستِ مبارک میں ننگی تلوار تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رو بروزمین پر فرش بچھایا گیا تھا یہ فرش دس قاتلانِ حسین کو ذبح کر کے ان کے سروں پر بچھایا گیا تھا۔جوں ہی آں جناب کی نظرمجھ پر پڑی ۔آپ نے مجھے نفرین کی اور میری آنکھوں میں خون آلود سلائی پھیردی گئی جس کے سببمیں اندھا ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ڈاڑھی خنزیر کی دم بن گئی
کہتے ہیں شام میں ایک شخص تھا جو قتلِ حسین میں شریک تھا اس کی داڑھی خنزیر کی دم بن کر لوگوں کےلیے نشانِ عبرت بن گئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
سینے میں آتش جہنم
روایت ہے کہ وہ شخص جس نے حضرت عبداللہ علی اصغرؑ کے تشنہ حلقوم پر تیر چلایا تھاایک ایسے مرض میں مبتلا ہوگیا جس سے اس کے سینہ میں حرارت اور گرمی جب کہ پشت میں ٹھنڈک پیدا ہو گئی۔ہر چند کہ اس کے سامنے پنکھا جھلتے تھے اور اس کی پشت کی جانب آگ روشن کرتے تھے وہ واویلا کرتا تھا۔نہ تو اس کی آتشِ سینہ سرد ہوتی اور نہ ہی پشت کی ٹھنڈک کو افاقہ ہوتا تھا۔پیاس کی شدت اس درجہ بڑھ گئی کہ مٹکوں کے مٹکے پانی پی لیتا تھا اور پھر بھی ۔ العطش ۔ العطش ۔ کی صدائیں بلند کرتا۔یہاں تک کہ اس کا پیٹ پانی پی پی کر پھول گیا اور بالآخر پھٹ گیا ۔ اسی عقوبت کی وجہ سے واصل جہنم ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
یہ تھی ان لوگوں کے حالات کی مختصر سی جھلک جو معرکۂ کربلا میں حاضر تھے۔اس کے بعدہم چند خواص جن میں ابن زیاد بد نہاد،ابن سعد ، شمرذی الجوشن وغیرہ شامل ہیں کا مختصراً ذکر کرتے ہیں ۔
ابن سعدکا انجام
جب مختار ثقفی (یہ وہی مختار ثقفی ہے جو بعد میں دعویٰ نبوت کر کےمرتد ہو گیا تھا ۔ تاریخ الخلفا) نے کوفہ پر اپنے تسلط کو مضبوط کر لیا تو اس نے فرمان جاری کیا کہ وہ تمام لوگ جو ابن سعد کے لشکر میں شامل تھے اور حسین رضی اللہ عنہ کے قتال میں شریک تھے ان کو ایک ایک کر کے میرے پاس لایا جائے چناں چہ چند سو لوگ لائے گئے جن تمام کی گردن مار کر انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔
مختار ثقفی نے اپنے خاص غلام کو حکم دیا کہ وہ ابن سعد کو حاضر کرے ۔ حفص بن سعد حاضر ہوا ۔ مختار نے پوچھا تمہارا باپ کہاں ہے ۔ بولا گھر میں بیٹھا ہے ۔ مختار نے کہا : ’’اب وہ ’’رے‘‘ کی حکومت اور اس کے اختیارات سے دست بردار ہو کر کس طرح اپنے گھر میں بیٹھا ہوا ہے ۔ اس نے قتلِ حسین کے دن خانہ نشینی کیوں اختیار نہ کی‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ ابن سعد کا سر کاٹ لیا جائے اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کر دیا جائے ۔
شمر ذی الجوشنکی گردن زدنی
پھر شمر کو طلب کیا اور اس کی گردن زدنی کا حکم جاری کیا ۔
اس کے بعد مختارثقفی نے ان ملعونوں کے سروں کو محمد بن حنفیہ کے پاس بھیج دیا اور حکم دیا کہ معرکہ ٔکربلا میں ابن سعد کے ساتھ شریک ہونے والے باقی ماندہ لوگوں میں سے جس کو بھی پائیں قتل کر دیں۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ مختارثقفی امام عالی مقام کا قصاص لے رہا ہے تو انہوں نے بصرہ بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا۔لیکن مختار ثقفی کے لشکریوں نے ان کا تعاقب کیا اور جو جو دستیاب ہوتے انہیں قتل کر کے لاشوں کو جلا دیا جاتا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
خولی بن یزید کا انجام
جب خولی بن یزید کو اسیر کر کے مختار ثقفی کے سامنے لایا گیاتو اس نے حکم جاری کیا:پہلے اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور پھر اسے سولی پر چڑھا دیا جائے۔اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا گیا۔اسی طرح دوسرے لشکریانِ ابن زیاد جو دستیاب ہوئے انہیں دردناک انداز میں قتل کر دیا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
قتل ابن زیادبدنہاد کی مزید تفصیلات
مختصر یہ کہ جب مختار ثقفی ابن سعد، شمراور خولی بن یزید علیہم اللعنۃ کے قتل سے فارغ ہو کر مطمئن ہوا تو ابن زیاد کے قتل کے درپے ہوا۔چناں چہ ابراہیم بن مالک اشتر کو سپاہیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابن زیاد کے مقابلہ کے لیے بھیجا ۔ جوں ہی ابراہیم موصل کی سرحد پر پہنچے ابن زیاد موصل سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر واقع ایک دریا کے کنارے اپنے لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔صبح کے وقت طرفین میں مقابلہ کا آغاز ہوا۔شام کے قریب ابراہیم بن مالک اشتر نے ابن زیاد کے لشکر کو شکست دی ۔ابن زیاد کی شکست خوردہ فوج نے راہِ فرار اختیار کی ۔ابراہیم اپنی فوج کے ساتھ ان کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور حکم جاری کیا کہ مخالف فوج میں سے کسی کو بھی پائیں تو زندہ نہ چھوڑیں۔چناں چہ ابن زیاد کے بہت سے ہم راہی جان سے گئے اور ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا۔اس کا سر کاٹ کر ابراہیم بن مالک اشتر کے سامنے پیش کیا گیا اور ابراہیم نے اسے مختار ثقفی کے پاس کوفہ بھیج دیا۔ ابن زیاد کا سرجب کوفہ پہنچا تو اسی وقت مختار ثقفی نے دارالامارۃ میں اہلیانِ کوفہ کو جمع کر کے ایک بزم آراستہ کی اور حکم جاری کیا کہ ابن زیاد کا سر پیش کیا جائے۔جب ابن زیاد کا سر پیش کیا گیا تو مختار ثقفی نے کہا : یہ ابن زیاد کا سر ہے۔اے کوفہ کے لوگو! دیکھ لو کہ خونِ حسین کے قصاص نے ابن زیاد کو زندہ نہ چھوڑا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
مختار ثقفی نے قصاص میں ستر ہزار افراد کو قتل کیا
مفتاح النجاء میں منقول ہے کہ مختار ثقفی کے واقعہ میں اہل شام کے ستر ہزار افراد قتل کیے گئے اور یہ واقعہ دس محرم ۶۷ ہجری (واقعۂ کربلا کے ۶ سال بعد) رونما ہوا ۔
ابن زیاد کے نتھنوں میں تین بار سانپ کا گھسنا
روایاتِ صحیحہ میں مروی ہے کہ جب ابن زیاد اور اس کے دوسرے سرداروں کے سر مختار ثقفی کے سامنے لائے گئے تو اچانک ایک سانپ ظاہر ہوا اور سروں کے درمیان سے گزرتا ہواابن زیاد کے سر کے قریب آیا اور اس کے ناک کے سوراخ میں داخل ہو گیا۔کچھ دیر سر کے اندر رہا اور پھر منہ کے راستے باہر نکل آیااور غائب ہوگیا۔کہتے ہیں کہ اسی طرح یہ سانپ تین مرتبہ ظاہر ہوا اور ناک کے سوراخ سے داخل ہو کر منہ کے راستے باہر نکلا ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
دیگر اعیانِ یزیدپلید کا عبرتناک انجام
بالجملہ ابن زیاد، ابن سعد، شمر ذی الجوشن، عمر بن الحجاج،قیس بن اشعث کندی، خولی بن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس، حکم بن طفیل اور یزید بن مالک کے علاوہ دیگر اعیان یزیدکو طرح طرح کے عذاب دے کر ہلاک کیا گیااور ان کے لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے۔یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں چور چور ہو گئیں ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار،چشتی)
قاتلان حسین مختار ثقفی کے ہاتھوں انجام کو پہنچے
مخفی نہ رہے کہ کتب تاریخ میں اختلاف ہے ۔بعض کتب میں ابن سعد اور شمر کا قتل ابن زیاد کی ہلاکت سے پہلے مذکور ہے اور بعض کتب میں ابن زیاد کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔ اور جیسا کہ منتقم حقیقی کا وعدہ تھا جس کا ذکر واقعہ کربلا سے متعلق روایات کے ضمن میں بہ روایت حاکم مذکور ہو چکا ہے پورا ہوا اور قاتلانِ حسین رضی اللہ عنہ مختار ثقفی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے ۔ گو کہ آخر کار مختار ثقفی کے اعتقادات میں بھی شقاوتِ ازلی کا ظہور ہوا یعنی اس نے ساتھ ساتھ دعویٰ نبوت بھی کر لیا ۔ جس کی تفصیل کتبِ تاریخ میں مسطور ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ، شھادت نواسہ سیّد الابرار)
ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت ﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز)(مسلم حدیث 935)(مشکوٰۃ حدیث 3471کتاب الجنائز،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ جلد 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے ۔
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون ساسنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یاد سے اس کا دل محزون اور آنکھ پرنم نہیں ، ہاں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اسے جھوٹا اظہارِغم ریاء ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری خلافِ رضاہے ۔ جسے اس کاغم نہ ہو اسے بیغم نہ رہنا چاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ۔ (فتاوى رضویہ، جلد 24، صفحہ 500، 501، رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں ۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ۔ (عرفان شریعت ، حصہ اول، صفحہ: 15)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا ، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا ۔ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ۔
کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کر دیے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے ۔ تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں ۔ (رسالہ تعزیہ داری)
تعزیہ بنانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)
تعزیہ پر منت ماننا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
محرم الحرام میں ناجائز رسومات
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24،رضا فاؤنڈیشن، لاہور،چشتی)
محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے ۔ (احکام شریعت)
عاشورہ کا میلہ
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مسلمانوں کو چاہیے کہ محرام الحرام میں خرافات سے بچیں ۔ سبیلوں اور دوکانوں پر نوحہ اور مرثیہ کی کیسٹیں ہرگز نہ بجائیں ۔ (مزیدحصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment