حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نواسے ہیں اس عظیم ہستی کے جن کے امتی ہونے کےلیے انبیاء کرام علیہم السلام دعائیں کرتے رہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کے واسطہ سے ہمیں ایمان و نعمت اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں فرمان الہی سنایا اور اسلام کے احکامات بتلانے کےلیے طائف کی ستم ظریفیا ں اور شعب ابی طالب کی مصیبتیں و سختیاں برداشت کیں ۔ ہر درد دینے والے کو دعادی پر کوئی عوض نہ چاہا سوائے اس کے کہ جسے اللہ تعالی نے یوں ارشاد فرمایا : لَا أَسْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ۔
ترجمہ : میں (محمدرسول اللہ) تم سے اس (تبلیغ اسلام)پر کوئی اجر نہیں چاہتا ہوں بجز قرابت داروں کی محبت کے ۔
جب یہ آیۃ نازل ہوئی تو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وَمَنْ قَرَابَتُکَ ہَؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُہُمْ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَابْنَاہُمَا ۔ اے اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن سے آپ نے محبت کرنیکا فرمایا ہے ان سے کون سی وہ اعلی شخصیات مرادہیں جن سے محبت کرنے پر خود رب کائنات نے بھی ارشاد فرما دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادے رضی اللہ عنہم ۔ (معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر: 2575)
ایک اور مقام پر ان سے محبت کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےہدایت کی اساس قرار دیتےہوئے فرمایا حضرت زید بن ارقم اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فرمایا : اِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقْلَيْن اِنْ اَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوْا کِتَابَ اللّٰه وَعِتْرَتِيْ اَهْلَ بَيْتِيْ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِيْ فِيْهِمَا ۔
ترجمہ : لوگو میں تم میں دو بھاری (نہایت اہمیت والی) چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، اگر تم نے اِن دونوں کو تھامے رکھا (ہر عمل ان کی ہدایات کے مطابق کیا) تو ہر گزگمراہ نہ ہوں گے : کتاب اللہ اور میری اہل بیت ۔ دیکھنا ! میرے بعد تم اِن دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔ (جامع ترمذی، ج5، ص662، حديث نمبر 3786 /3788،چشتی)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اتنے پیارے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب منا قب الحسن والحسین علیہما السلام ج2 ص 218 حدیث نمبر 4144)
آپ کی ولادت کی خبر پیدائش سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے دی گئی تھی جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چچی ام فضل بنت حارثہ کی روایت سے ثابت ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک خواب دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آج رات میں نے ایک ڈرا دینے والا خواب دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ اے چچی جان ! آپ نے ایسا کیا دیکھا ہے خواب میں ؟ عرض کرنے لگی بہت ہی فکر کاباعث ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ ہے کیا ؟ عرض کرنے لگی کہ میں نے دیکھا ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیاہے اور میری گو د میں رکھ دیا گیا ہے ۔ سننے کے بعد مسکراتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمانے لگے کہ تم نے تو کتنا شاندار خواب دیکھا ہے ۔ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا کو صاحبزادے تولد ہونگے اور وہ تمہاری گود میں پرورش پائیں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیان فرمائی ہوئی بشارت کے عین مطابق ہی بی بی فاطمۃالزھرا رضی اللہ عنا کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تولد ہوئے اور وہ میری گود میں آئے ۔ (مشکوۃ المصابیح،ج۱،ص572،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ جہاں نواسہ ختم الرسل ہیں وہاں ان خوش نصیبوں میں سے بھی ہیں جن کے نام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود تجویز فرمائے ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے : عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالی عَنْہُ , أَنَّہُ سَمَّی ابْنَہُ الأَکْبَرَ حَمْزَۃَ ، وَسَمَّی حُسَیْنًا جَعْفَرًا بِاسْمِ عَمِّہِ ، فَسَمَّاہُمَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت حسن کا نام مبارک حمزہ اور چھوٹے بیٹے کا نام مبارک آپ کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کانام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر2713،چشتی)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ایک موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دونوں نام رکھنے کی وجہ بھی بیان فرما دی ۔ حسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء ہیں اور اسلام سے پہلے عرب میں یہ دونوں نام نہیں رکھے گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔ (صواعق محرقہ صفحہ 118)
اس لیے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں ۔ علامہ ابن حجر مکی ہیتمی نے الصواعق المحرقہ میں صفحہ 115 پر یہ روایت درج فرمائی ہے ۔
امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے اور القاب مبارکہ ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، سید شباب اھل الجنۃ ، الرشید ، الطیب ، الزکی ، السید اور المبارک ہیں ۔
جب آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی تو آپ کے کانوں میں آذان کہی گئی اور وہ آذان کی متبرک آواز حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تھی ۔ جیسا کہ روایت میں آتا ہے
عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حِینَ وُلِدَا ۔
ترجمہ : حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے کانوں میں آذان کہی ۔(معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر 2515)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماکی ولادت پر عقیقہ کیا اور اس کے لئے ایک ایک دنبہ کو ذبح فرمایا جیسا کہ ابو داود شریف کی روایت ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا ۔ (سنن ابوداؤد، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ صفحہ 392 حدیث نمبر 2843،چشتی)سنن نسائی کتاب العقیقۃ حدیث نمبر 4230)(سنن بیہقی حدیث نمبر1900)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا : یَمْتَصُّ لُعَابَالْحُسَیْن کَمَا یَمْتَصُ الرَّجُلُ التَّمَرَۃَ ۔ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لعابِ دہن مبارک (رال ، تھوک) کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے ۔ (نور الابصار صفحہ 114)
کیا محبت کا عالم ہو گا ۔ اتنی محبت جہاں میں کسی نے بھی اپنے نواسوں سے نہیں کی ہو گی پر نواسوں نے بھی محبت کا حق ادا کیا ،خاندان لوٹا دیے ،گردنیں کٹوا دیں پر نانا کے دین پر حرف نہ آنے دیا ۔ ایک مرتبہ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی گود میں بٹھایا اور آپ کے لبوں کو بوسہ دے کر ان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح فرمایا اور ساتھ ساتھ جوان سے محبت کرے ان کو بھی دعا دی فرمایا : اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا ۔
ترجمہ : اے اللہ !میں ان (حسن و حسین) سے محبت رکھتا ہو ں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام جلد 2 صفحہ 218،چشتی)
ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن و حسین کی شان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : فَقَالَ ہَذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا ۔
ترجمہ : یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اسکو اپنا محبوب بنالے ۔ (جامع ترمذی باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام حدیث نمبر 4138)
کیا کمال شخصیت ہیں خود تو اللہ کو محبو ب ہیں جو ان سے محبت کرے وہ بھی اللہ کے محبوبوں میں شامل ہو جاتا ہے ۔کیونکہ ایسے انسان کےلیے جو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتاہے خود رسول خدا دعا فرما رہے ہیں : أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام جلد 2 صفحہ 218 حدیث نمبر 4144،چشتی)
ایک لحاظ سے تو اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو جو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ان سے محبت کرے کو ایک نسخہ بتا دیا کہ ہر وقت امامین حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے قصیدے پڑھیں ، ان کی شان کو بیان کریں کیونکہ ان کی شان کو بیان کرنا سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور سنت بھی ایسی کہ جو نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کے عالم کا اندازہ تو کریں کہ نہ صرف اس کےلیے دعا فرمائی جو ان سے محبت کرتاہے بلکہ جو ان سے بغض رکھتا ہے اس کےلیے وعید بھی بیا ن فرما دی اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس نے کفار کے ظلم پر بھی بارگاہِ خداوندی میں یہ کہا کہ اے اللہ ان کو ہدایت عطا فرما یہ نہیں پہچانتے مجھ کو کہ جو حسنین کریمین سے بغض رکھتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض رکھتا ہے جیسا کہ فرمان ہے : عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِی ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا ۔ (سنن ابن ماجہ شریف باب فضل الحسن والحسین ابنی علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہم حدیث نمبر148)
یہ شہزادے تو وہ ہیں جن کا رونا بھی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نا گوار گزرتا ہے
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَبِیْ زِیَادَۃَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ فَمَرَّعَلَی بَیْتِ فَاطِمَۃَ فَسَمِعَ حُسَیْنًا یَبْکِیْ فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُؤْذِیْنِیْ ۔
ترجمہ : سیدنازید بن ابی زیادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارکہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دولت خانہ سے گزر ہوا ، امام حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا : بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں ان کارونا مجھے تکلیف دیتا ہے ۔ (نورالابصارفی مناقب ال بیت النبی المختار ص139،چشتی)
کیوں نہ ایسی حالت ہوتی جن کے بارے میں میرے پیارے مصطفی کا یہ فرمان ہو : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ۔ اِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنُ ھُمٰا رُ یُحَانِیْ مِنَ الدُنْیَا حسن اور حسین ضی اللہ عنہما دنیا کے میرے دو پھول ہیں ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)
ایک بار تو ایسا ہو ا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی خاطر منبر سے خطبہ فرماتے وقت خطبہ کو موقوف کر دیا ، منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان کو اپنی گود میں لے لیا جیسا کہ جامع ترمذی شریف سنن ابوداؤد شریف ، سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی : بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کیے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن و امام حسین رضی ا للہ عنہما کو گود میں اٹھا لیا پھر (منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ، تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑا رہے تھے مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے ہی فرما دیا تھا : إِنَّ اِبْنِیْ ہَذَا یَعْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِأَرْضٍ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ یُقَالُ لَہَا کَرْبَلَاء ، فَمَنْ شَہِدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَلْیَنْصُرْہُ - (البغوی وابن السکن والباوردی وابن مندہ وابن عساکر عن أنس بن الحارث بن منبہ ۔
ترجمہ : یقینا میرا یہ بیٹا یعنی حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ایک علاقہ میں شہیدکیا جائے گا ، جسے کربلا کہا جائے گا ، توافراد امت میں سے جو اس وقت موجود ہو اسے چاہیے کہ ان کی نصرت و حمایت میں کھڑا ہو جائے ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 34314،چشتی)
جبکہ شہید کرنے اور مخالفت کرنے والوں نے اس ارشاد کو بھولا دیا : الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ۔
ترجمہ : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب الحسن و الحسین علیہما السلام حدیث نمبر 4136)
اور سردار اپنی شاہی میں اپنے فرمانبرداروں کو ہی ساتھ رکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں اور منبروں پر سمجھاتے ہیں کہ وہ سیاست کےلیے وہاں گئے تھے وہ خود اندازہ کر لیں کہ کس منہ سے وہاں حاضر ہوں گے ۔
اس کو بھی و ہ بھول گئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ا ن کو اپنے جاہ و جلال ، سرداری اور جرات و سخاوت کا وارث بنایا تھا : عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی ۔
ترجمہ : خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہما کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ آپ کے شہزادے ہیں ، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن’ میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین’ میری جرات و سخاوت کا ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر 18474)(جامع الاحادیث للسیوطی مسانید النساء مسند فاطمۃ رضی اللہ تعالی عنہا حدیث نمبر 43493،چشتی)(کنز العمال باب فضل الحسنین رضی اللہ عنہما حدیث نمبر 37712)
آپ کی شہادت عظمی روز عاشورہ دس (10) محرم الحرام سنہ اکسٹھ(61) ہجری میں ہوئی ، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں نقل فرمایا ہے : قال الزبیر بن بکار : قتل الحسین یوم عاشوراء سنۃ إحدی وستین وکذا قال الجمہور ۔
سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی شہرت بھی عام ہو گئی تھی ۔ حضرت علی ، حضرت فاطمۃالزہرا اور دیگر صحابہ کبار و اہلِ بیت کے جان نثار رضی اللہ عنہم سبھی لوگ آپ کے زما نۂ شیر خوارگی ہی میں جان گئے کہ یہ فرزند ارجمند ظلم و ستم کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا اور ان کا خون نہایت بے دردی کے ساتھ زمین کربلا میں بہایا جائے گا ۔ جیسا کہ ان احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے بارے میں وارد ہیں ۔جیسا کہ روایت میں مذکور ہے : حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی حضرت اُم الفضل کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! (امام حسین اس وقت گودِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیا اس فرزند کو شہید کرے گی ! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے ۔ (مشکوٰۃ صفحہ 572،چشتی)
اور ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ اِبْنِیْ اَلْحُسَیْنُ یُقْتَلْ بَعْدِ بِاَرْضِ الطَّفِ میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا ۔ اور جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خوابگاہ (متقل) کی مٹی ہے ۔ (الصواعق المحرقہ، صفحہ 118)
طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضری دینے کےلیے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے ۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلْہ’ آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی ۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں ۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے ام سلمہ ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن خون ہو جائے گی ۔ (الصواعق المحرقہ، صفحہ 118) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment