Saturday, 27 August 2022

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ پنجم

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ پنجم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تعلیماتِ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ : دنیائے اسلام کے علمی و ادبی اور روحانی اُفق پر بے شمار مہ و نجوم طلوع ہوئے ۔ جن کے تعلیمات ، علمی فتوحات اور روحانی کمالات کی کرنوں سے عالم اسلام مستفیض و مستفید اور مستنیر ہو رہا ہے ۔ ان پاک باز ، تقوی شعار اور باکمال رجالِ اسلام میں ایک نام اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خاں محدث و محقق بریلوی علیہ الرحمۃ کا بھی ہے ۔ جن کی علمی و فکری شہرت و عظمت کا آفتاب ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی منور و تاب ناک ہے ۔ اور ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے ۔

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی عالمِ اسلام بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کےلیے تحریکوں اور تنظیموں کا دور تھا ۔ ایک طرف سلطنتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہورہا تھا ؛ تو دوسری طرف مغلیہ سلطنت بھی زوال پذیر تھی ۔ یہود و نصاری کی پشت پناہی میں خلاف اسلام عقائد و نظریات کی تبلیغ کی جارہی تھی ۔ اولین جہاد آزادی 1857 کے بعد ایک طرف مسلمان قائدین و مجاہدین کی املاک ضبط کی جارہی تھیں۔ اسلامی دانش گاہیں ، خانقاہیں جہاں سے جہادِ آزادی کا عَلَم بلند ہوا تھا ؛ انہیں اصطبل میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ اسلامی لائبریریز اور علمی اثاثے انگریزی حکومت کی تحویل میں لیے جارہے تھے ، علما کو انڈومان کی زہریلی فضا میں کالا پانی کی سزا دی گئی، کئی علما ، قائدین اور مجاہدین کو تختہء دار پر لٹکایا گیا ؛ اسی ماحول میں انگریز کے سایہ تلے “اسلامی درس گاہ” اور دارالعلوم کی بنیاد بھی رکھی جارہی تھی ۔ بنام مسلم لیڈروں کو شمس العلماء اور دیگر اعزاز و القاب سے بھی سرکاری طور پر نوازا جارہا تھا. مرزائے قادیان کی ولایت و علمیت کا اعتراف کیا جارہا تھا. اسلام میں نئے نئے فتنے اور افکار و نظریات گھڑ کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے پر شب خون مارا جارہا تھا. ایک طرف عیسائی مشنریز ارتداد کی تحریک چلارہے تھے تو دوسری طرف صاحبانِ جبہ و دستار اپنی کتابوں میں سرور دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی شان میں توہین و تنقیص کو توحید کا نام دے رہے تھے. قدرتِ باری تعالٰی کا نام لے کر اللہ سبحانہ و تعالٰی کو معاذ اللہ جھوٹا اور مکار لکھا گیا؛اور یہ سب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کیا گیا. امام احمد رضا نے ان سب کا رد کیا. “سبحان السبوح “، ” الدولۃ المکیۃ”، “المبین ختم النبیین “،” جزاء ﷲ عدو بآباہ ختم النبوۃ “،” الامن و العلی”، “حسام الحرمین” ، “فتاوی الحرمین” ، “المعتمد المستند”،”السوء والعقاب علی المسیح الکذاب”، ” قہرالدیان علی مرتد القادیان”، “الجراز الدیان علی المرتد القادیان” جیسی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف فرماکر قلمی جہاد کیا اور فتنوں کی سرکوبی فرمائی ۔

انگریزوں کے مظالم سے ہزاروں چراغِ ہدایت بجھ گئے تھےب ۔ اسلامی دانش گاہیں اُجڑ چکی تھیں. ایسے ماحول میں امام احمد رضا محدث بریلوی 14- سال سے کچھ کم عمر میں مسند افتا و ارشاد پر متمکن ہوئے. اور اسلامی عقائد و نظریات اور افکار کے تحفظ و تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی. والد ماجد علامہ نقی علی خان برکاتی بریلوی کی علمی و فقہی حیثیت مسلم تھی تو جد امجد علامہ رضا علی خان نقشبندی بریلوی کا انگریزوں کے خلاف سرگرم کردارِ شجاعت بھی تاریخ کا روشن باب ہے ۔

امام احمد رضا نے ہر محاذ پر اسلام کی حفاظت و صیانت کی ۔ درجنوں علوم عقلیہ و نقلیہ میں ایک ہزار کے قریب کتب و حواشی ، تصنیف و تالیف فرمائیں ۔ عالَم یہ تھا کہ جب عقائد اسلام پر جدید سائنس کے نام پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی تو عقلی و نقلی ہر دو دلائل سے مزین کتابیں ترتیب دے کر عقائد اسلام کا تحفظ کیا. اس ضمن میں آپ کی کتابیں “فوز مبین در رد حرکت زمین”،” الکشف الشافیہ فی حکم فونوجرافیہ “،” الصمصام علی مشکک فی آیۃ علوم الارحام” اور ” معین مبین” کافی مشہور اور لاجواب ہے. کرنسی نوٹ کی حیثیت اور اسلامی احکام بیان کرنے کے لیے “کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم” تحریر کر کے اس وقت کے لاینحل مسئلہ کو واضح کیا؛ اور یہ امام احمد رضا ہی کا فیضان ہے کہ پورا عالم اسلام بشمول عرب و عجم کرنسی نوٹ استعمال کر رہا ہے؛نیز اسی کتاب میں امام احمد رضا ہی نے سب سے پہلے ’’غیر سودی اسلامی بینک کاری‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا۔مسلمانوں کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے مختصر ترین مگر فوائد جلیلہ سے مزین رسالہ “تدبیر فلاح و نجات و اصلاح” تحریر کرکے مسلمانوں کے معاشی استحکام کے لیے درج ذیل چار نکات پیش کیے :

’’اولاً: باستثناان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ کروروں روپے جو اسٹامپ و وکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہو گئے اور ہوئے جاتے ہیں محفوظ رہتے۔

ثانیاً: اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا۔ اپنی حرفت و تجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے یہ نہ ہوتا کہ یورپ و امریکا والے چھٹانک بھر تانبا کچھ صناعی کی گڑھت کر کے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر آپ کو دے جائیں اور اس کے بدلے پاؤ بھر چاندی آپ سے لے جائیں۔

ثالثاً: بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدر آباد وغیرہ کے تونگر مسلمان اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے بنک کھولتے سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ کتاب کفل الفقیہ الفاہم میں چھپ چکا ہے ان جائز طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت بر آتی اور آئے دن جو مسلمانوں کی جائدادیں بنیوں کی نذر ہوئی چلی جاتی ہیں ان سے بھی محفوظ رہتے اگر مدیون (مقروض) کی جائداد ہی لی جاتی مسلمان ہی کے پاس رہتی، یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنیے چنگے۔

رابعاً: سب سے زیادہ اہم سب کی جان سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسّی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا چاردانگ عالم میں ان کی ہیبت کا سکہ بٹھایا نان شبینہ کے محتاجوں کو بلند تاجوں کا مالک بنایا اور اسی کے چھوڑنے نے پچھلوں کو یوں چاہِ ذلت میں گرایا فانّا للّٰہ وانّاالیہ راجعون، ولا حول ولا قوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔(تدبیر فلاح و نجات و اصلاح صفحہ نمبر 13-14)

ماہرین معاشیات کے نزدیک امام احمد رضا کے یہ چار نکات بالخصوص اسلامیانِ ہند کے لیے بہت کار آمد اور نتیجہ خیز ہیں۔ ان پر عمل آوری سے مسلمان معاشی اور سیاسی طور پر اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کر سکتے ہیں۔اسی طرح سیاسی طور پر آپ نے ’’کھوکھلے بائیکاٹ‘‘ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ’’مستحکم بائیکاٹ‘‘ کا نظریہ پیش کیا اور فرمایا کہ خلافت کی حمایت میں اگرچہ مسلمانانِ ہند انگریز ی اور بدیسی اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں لیکن اس کے متبادل کےطور پر مشرکینِ ہند کی اشیا کے استعمال سے مشرکین ہند معاشی طور پر مضبوط ہوں گے ؛ جو یقیناً ہمارے دشمن ہی ہیں۔ تواس طرح کے کھوکھلے بائیکاٹ سے ہم اپنی ہی قبر اپنےہاتھوں کھود رہے ہوتے ہیں کہ اپنے سے میلوں دور کافر کی معیشت کو تو کم زور کر رہے ہوتے ہیں مگر اپنے ارد گرد بلکہ اپنے سر پر منڈلانے والے مشرکین کو طاقت فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ اس لیے بائیکاٹ اس وقت پائیدار ہوگا جب ہم غیروں کی اشیا کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ اس کے متبادل کے طور پر اپنا پروڈکٹ رکھتے ہوں۔اس سلسلہ میں آپ کی کتب ’’المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ‘‘ اور’’رسالہ گاؤ کُشی‘‘ اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں متعدد مقامات پر سیر حاصل گفتگو اور رہنمائی کی ہے۔ اربابِ فکر و نظر اس جانب توجہ دیں اور امام الہند کی سیاسی و قائدانہ بصیرت سے رہنمائی حاصل کریں ۔

بدگمانی حرام ہے

القرآن: یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم

ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔ (سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)

(برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔

(صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث 6066‘ جلد 3 صفحہ 117)

بعض گمان گناہ ہیں

ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگا) تھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق ۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولئے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے ۔ (عیون الحکایات حکایت نمبر 131صفحہ 150/149،چشتی)

شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ : محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟

مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات

ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر ﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء ﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔

لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر ﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کےلیے بیت المقدس آتے تھے (معاذ ﷲ)

اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔

اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔

مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا

امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔

مزارات پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)

عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟

آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)

عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے

سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے

سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟

جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وجد کا شرعی حکم

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟

آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)

حرمتِ مزامیر

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)

نشہ و بھنگ و چرس

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کےلیے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہیے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم) ۔ (مزید حصّہ ششم می ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...