Monday, 15 August 2022

اسلام اور ہم جنس پرستی کی سزا و احکام

اسلام اور ہم جنس پرستی کی سزا و احکام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مذہبِ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور کامل دستورِ زندگی ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے کسی موڑ پر بے لگام نہیں چھوڑتا کہ جیسے بھی چاہیں اپنی زندگی گزاریں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو ۔ بلکہ وہ اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلام کے قانون کے خلاف زندگی گزارنے پر سراسر ذلت و نقصان ہے ۔ جو چیزیں انسان کی شخصیت یا سماجی زندگی کےلیے فائدہ مند ہوں انہیں لازم اور ضروری قرار دیتا ہے اور جن چیزوں سے انسان کو اپنی نجی زندگی یا معاشرتی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ، اسلام ان چیزوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ معاشرہ کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کےلیے اور اسے شروفساد ، بے حیائی ، بدکرداری سے محفوظ کرنے کےلیے مذہبِ اسلام نے جو فطری قانون عطا فرمائے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں ۔

انسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مرد اور عورت کے باہمی تعلق پر ہے ۔ جس معاشرے میں یہ تعلق جتنا مضبوط ہوگا وہ معاشرہ انتہائی پر امن اور خیرو برکت کا حامل ہوگا اور جس مذہب و معاشرے میں اس تعلق سے ضوابط نہیں ہوں گے اس معاشرے کی مثال اس جنگل کی سی ہوگی جہاں جانور بغیر قاعدہ کلیہ کے اختلاط (جنسی ملن) کے عمل سے گزرتے ہیں ۔ اسی لیے مذہبِ اسلام نے عورتوں اور مردوں کی مجرد ( بن بیاہا) زندگی کو عیب قرار دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے ۔ نکاح کو آسان سے آسان کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ حتیٰ کہ غلاموں اور باندیوں کے نکاح کی بھی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیاکہ نکاح معاشی اور اقتصادی پریشانیوں کا بھی خاتمہ کرتا ہے ارشاد باری ہے ۔ وَ اَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ ۔ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۔ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ (سورۃ النورآیت32)
ترجمہ : نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں (غلاموں ) اور کنیزوں کا ، اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ غنی کردے گا ۔

قطع نظر مذہب و ملت کے ، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں ۔ فطرتِ سلیمہ کبھی برائی ، بے حیائی ، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے ، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے ۔ دین اسلام نہایت عالی و پاکیزہ مذہب ہے ، جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی ، روحانی ، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے ۔ عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا ، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے ، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے ۔

مغربی ممالک ، آزادی انسانیت اور حریت کے علمبردار سمجھتے جاتے ہیں کہ انہوں نے آزادی اور حریت کے گرہوں کو اس قدر ڈھیلا کر دیا کہ انسان اپنی حقیقت و ماہیت سے تجاوز کر کے حیوانیت و بہیمیت کے زمرہ میں شامل ہو گیا ، بلکہ بعض امور میں حیوانیت کی حدود کو پار کر گیا اور ان سے بڑھ کر بے حس و بے حیاء ہو گیا ۔ اس کو اس برائی کا عیب نہیں نظر آرہا ہے اور وہ برائی و بے حیائی کو کھلے عام انجام دے رہا ہے ۔ انسان کے پاس عقل و ہوش اور قلب و دماغ ضرور ہے ، لیکن وہ برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے ۔ اس کے پاس آنکھ اور کان ضرور ہیں ، لیکن اسے برائی نہیں نظر آرہی ہے اور نہ ہی وہ اس کے خلاف کچھ سننے کےلیے تیار ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کر دینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے ، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں ۔ ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے ، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات ، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : بے شک ہم نے جہنم کےلیے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے افراد کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں مگر وہ سمجھ نہیں سکتے ، اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے ، اور وہ کان رکھتے ہیں مگر وہ ان سے سن نہیں سکتے ، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ، وہی لوگ غافل ہیں ۔ (سورۃ الاعراف۔۱۷۹)

اسلامی معاشرے کو ایسی گندی ، خبیث ، گھناؤنی عادات سے بچانے کےلیے اللہ عزوجل نے اس جرم کے مرتکب کےلیے سخت سزا تجویز فرمائی ہے ۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم میں سے جو بھی کوئی بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا پہنچاؤ ، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں تو انہیں سزا دینے سے گریز کرو ، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے ۔(سورہ النساء، 4 :16)

ابومسلم اصفہانی نے درج بالا آیت کو ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں اس آیت میں لواطت کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ (رازی، التفسير الکبير، 9/ 187،چشتی)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تصنیف سنن ترمذی میں اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل کرنے کے بعد اس پر آئمہ کرام اور علماء کی آراء بیان کی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پاٶ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ۔ اس باب میں حضرت جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں ۔ ہم اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی طریق سے پہچانتے ہیں ۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا اور فرمایا قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون ہے ، قتل کا ذکر نہیں کیا ۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ چوپائے سے بدفعلی کرنے والا بھی ملعون ہے ۔ بواسطہ عاصم بن عمر، سہیل بن ابی صالح اور ابوصالح ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاعل اور مفعول (دونوں) کو قتل کر دو ۔ اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے ، ہم نہیں جانتے کہ اسے عاصم کے سوا کسی اور نے سہیل بن ابی صالح سے روایت کیا ہو ۔ عاصم بن عمر حفظ کے اعتبار سے حدیث میں ضعف ہے ، لوطی کی سزا میں علماء کا اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک شادی شدہ ہو یا کنوارہ اس پر رجم ہے ، یہ امام مالک ، شافعی ، احمد اور اسحاق رحمہم ﷲ کا قول ہے ۔ بعض فقہاء و تابعین جن میں حضرت حسن بصری ، ابراہیم نخعی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ شامل ہیں ، فرماتے ہیں لواطت کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی ہے ۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔(ترمذي، السنن، 4: 57، رقم: 1456، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)

مذکورہ بالا احادیث کو امام حاکم ، ابنِ ماجہ ، امام نسائی ، امام بیہقی ، امام احمد بن حنبل ، امام طبرانی ، امام عبدالرزاق اور امام ابنِ حبان رحمہم اللہ علیہم اجمعین سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے ۔

صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو ، اسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ہو اسے چاہیے کہ شہوت کا زور کم کرنے کےلیے وقتاً فوقتاً روزہ رکھا کرے ۔

اللہ نے ہر جاندار کے نر و مادہ جوڑے پیدا فرمائے ہیں ۔ یہ نر و مادہ جوڑے نسل کی بقا کےلیے ہیں ۔ ان کا آپس میں جنسی ملاپ (Sexmatual) قدرت کے قانون کے عین مطابق ہے ۔ یاد رہے انسانی قانون کسی حال میں قانونِ الٰہی کا بدل نہیں ہو سکتا اور قوانینِ الٰہی کے فائدے ، حسنات و برکات کو کسی انسانی قانون کے ذریعہ حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ موجودہ دنیا میں برپا فساد کا جائزہ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی ۔

لواطت حرام و سخت گناہ ہے

ہم جنسی پرستی خواہ وہ مرد مرد سے ہو (Homo Sexual -Boy & Boy -Gay) یا پھر عورت عورت سے ہو (Homo Sexual -Girl & Girl -Lesbian)  دونوں ہی حرام و گناہ ہے جاور فعلِ قبیح (گندہ کام) ہے ۔ لوط علیہ السلام کی قوم ہم جنس پرستی میں مبتلا تھی ۔ اسی فعل قبیح کی وجہ کر ان پرعذاب آیا ۔ قرآن فرما رہا ہے ۔ ترجمہ : اور لوط کو بھیجا ، جب اس (حضرت لوط علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی۔ تم تو مردوں کے پاس جاتے ہو شہوت کے ساتھ عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزر گئے) ۔ اس قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہی کہنا ان کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ پاکیزگی چاہتے ہیں تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہہ (پانی) برسایا ۔ تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا ۔ (سورۃ الاعراف، آیت 79 تا 84)

حضرت لوط علیہ السلام اردن میں اترے ۔ اللہ نے اہلِ سدوم (ایک قوم و علاقہ) کی طرف آپ کو مبعوث فرمایا ۔ لوط علیہ السلام پانچ بستیوں کے نبی تھے ۔ آپ نے دینِ حق کی دعوت دی اور قوم کو فعلِ باطل، بد فعلی سے روکا ۔ عورت کو چھوڑ کر مرد کے ساتھ فعلِ بد کرتے ہو ۔ ایسے فعل بد کا ارتکاب کرکے حد سے گزر گئے ۔ یہ حرکت فطرت کے خلاف ہے ۔ یہ حرکت انتہائی خبیث اور گندی ہے ۔ اپنے قیمتی سرمایہ کو برباد کیا ۔ مرد کونہ حمل رہتا ہے نہ وہ بچہ جنتا ہے ۔ مرد کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے ۔ عورت کے رحم میں بچہ دانی کو رکھا ہے جس میں منی جذب کرنے کی طاقت ہے ، مرد میں نہیں ۔ مرد میں یہ غلط کام کرنے والے کرانے والے کو سخت بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ جریان ، سوزاک ، آتشک ، ایڈز (AIDS) وغیرہ وغیرہ ۔

 آج ایڈز نے نہ صرف دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے ۔ امریکہ ، یورپ بلکہ برِ صغیر میں بھی یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ خدا بیزار ذہنیت و تہذیب کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کیا ایڈز خدائی عذاب نہیں ؟ یقیناً یہ خدائی عذاب ہے ۔

سب سے سخت عذاب قومِ لوط پر آیا

قومِ لوط کی بستیاں نہایت ہی سرسبز شاداب تھیں ۔ وافر مقدار میں غلہ او رپھل کثرت سے پیدا ہوتے تھے ۔ زمین کا دوسرا خطہ اس کے مثل نہ تھا ۔ اسی لیے ہر طرف سے لوگ یہاں آتے تھے اور اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے ۔ ایسے میں ابلیس بوڑھے شخص کی صور ت میں نمودار ہوا اور لوگوں کو ورغلایا کہ اگر تم مہمانوں کی کثرت سے نجات چاہتے ہو تو جب لوگ آئیں تو یہ خبیث کام یعنی بدفعلی کرو ۔ اس طرح بدفعلی انھوں نے شیطان سے سیکھی اور ان میں رائج ہوئی ۔ قومِ لوط اپنے مہمانوں سے بد فعلی کرنے لگے تو مہمان آنا بند ہو گئے ۔ مہمانوں کے نہ آنے سے برکت ختم ہو گئی ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ 289،چشتی)

 آج بھی جو لوگ اس کو کرتے کراتے ہیں اور اس کی آزادی چاہتے ہیں وہ شیطان کے کام کو کر رہے ہیں ۔ قرآن میں دوسرے مقام پر عذابِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَ مْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ ط وَمَاھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ۔ (سورۃ ہود آیت 82 تا 83)
ترجمہ : حکم آ پہنچا ، ہم نے اس بستی کو زیر و زبر کر دیا ۔ اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریاں ، نوکیلے پتھر کی بارش کی جو تہہ بہ تہہ تھے۔ یعنی مسلسل تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ دور نہ تھے ۔ پتھروں کا مینہہ یعنی مسلسل نوکیلے پتھر برستے رہے ۔ ہر شخص کا نام پتھروں پر لکھا ہوا ہوتا ۔ وہ شخص جہاں ہوتا خواہ سفر میں ، بستی کے باہر بھی وہ نوکیلا پتھر اسی پر جا کر لگتا اور وہ لہو لہان ہو کر ہلاک ہو جاتا ۔ اللہ نے عجیب طرح کی بارش فرمائی کہ ایسے پتھر برسے جو گندھک (Sulpher) اور آگ سے مرکب تھے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بستی میں رہنے والے زمین میں دھنسا دیے گئے اور جو سفر میں تھے وہ پتھریلی بارش سے ہلاک ہوئے ۔ مجاہد نے کہا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ناز ل ہوئے اور انہوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کر اس خطہ کو اکھاڑ لیا اور چوتھے آسمان پر اٹھا لیا اور ایسا اٹھایا کہ برتنوں کا پانی تک نہ چھلکا ۔ سونے والے سوتے رہے جاگ نہ سکے اور آسمان کے قریب پہنچ کر تمام بستیوں کو اَوندھا کر کے گرا دیا ، جوزمین میں میلوں اندر دھنس گئے ۔ قومِ لوط کی پانچ بستیاں تھیں ۔ پانچوں پر عذاب آیا اور پتھروں کی سخت بارش ہوئی ۔ قومِ لوط پر جو عذاب آیا وہ کسی قوم پر نہ آیا ۔ اغلام بازی کی وجہ کر اتنا سخت عذاب آیا ۔ (تفسیرنور العرفان صفحہ 255،چشتی)

مسلمانوں کو انتباہ (Warning)

 اسلامی معاشرہ کو اس گندی ، خبیث ، گھناؤنی عادت سے بچانے کےلیے اللہ کے رسول نے اس جرم کے کرنے والے کے لیے سخت سزا تجویز فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا فرمان ِ عالیشان ہے : من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوالفاعل و المفعول ، یعنی جس کو قوم ِ لوط کا فعل کرتے دیکھو تو فاعل [کرنے والا] اور مفعول [کرانے والا] دونوں کو قتل کردو) ۔ (ابو داؤد شریف ، ابن ماجہ ، ترمذی شریف اور دار قطنی،چشتی)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں خط لکھا اور پوچھا ۔ ایسے مجرم (لوطی) کی کیا سزا ہے ؟ آپ نے تمام صحابہ کرام کو مشورہ کےلیے طلب کیا ۔ تمام صحابہ نے سخت سزائیں تجویز فرمائی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہم نے یہ تجویز دی کی ایسے دونوں شخص کو تلوار سے قتل کر دیا جائے ۔ دونوں لاشوں کو جلا دیا جائے ۔ تمام صحابہ کرام نے آپ کی رائے کی تائید و حمایت کی ۔ چنانچہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو یہی جواب لکھا گیا اور انہوں نے اسی کے مطابق عمل کیا ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ : حاکم وقت کو اختیار ہے کہ ایسے مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے تاکہ کسی اور کو اس کے ارتکاب کی جرأت نہ ہو ۔

ہم جنس پرستی قطعی حرام ہے اس کا منکر کافر ہے

فاحشہ وہ گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے ۔ کفر اگرچہ بد ترین گناہِ کبیرہ ہے مگر اسے رب نے فاحشہ نہ فرمایا ۔ کیونکہ نفسِ انسانی اس سے گھن نہیں کرتی ۔ مگر لواطت تو ایسی بری چیز ہے کہ جانور بھی اس سے متنفرہیں سوائے خنزیر (سور) کے ۔ سور بھی یہ فعل بد کرتا ہے ۔ لوطی شخص بیوی کے قابل نہیں رہ جاتا ۔ یہ بد کاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے ۔ مردمیں گھناؤنا کام کرنے کرانے والے کو سخت بیماریاں پید اہوتی ہیں ۔ ان ہی وجوہ سے مذہبِ اسلام میں اس کی سخت سزا ہے ۔ امامِ اعظم کے یہاں دونوں کو بہت اونچا مقام پہاڑ یا اونچی عمارت سے گرا کر اسے پتھر سے مار مار کر ہلاک کر دے ۔ زنا سے بھی سخت سزاہے ۔ کنوارے کےلیے 100 کوڑے زانی کےلیے ہیں ۔

یہ غلط کام شیطان نے ایجاد کرایا ۔ ایک روز حسین وجمیل لڑکا بن کر آیا اور باغ میں گھس گیا اور باغ والے کو دعوت دی کی ایسی حرکت کرو ۔ اس نے کیا ۔ پھر اس نے لوگوں کو بتایا اور اس وبا کو پھیلا دیا ۔ یہ بات کفر سے بھی گری ہوئی ہے ۔ کفر سے لوگ گھن نہیں کرتے مگر اس سے سب گھن کرتے ہیں ۔ اس فعل کے کرنے والے کو جوع البقر (ایک بیماری کانام) بھی کہتے ہیں ۔ زیادہ کھانے والی بیماری ہے ۔ جتنا کھانا بھی کھالے بھوک باقی رہتی ہے ۔ پورے کنواں کا پانی بھی پی لے گا تو پیاس نہیں بجھے گی ۔ یہی حال نفس کا ہے۔ (تفسیر نعیمی جلد 8 صفحہ 698،چشتی)(تفسیر ضیاء القرآن جلد 2 صفحہ 654)(تفسیر خزائن العرفان صفحہ289)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ظالم اور متکبر و بد فعلی کرنے والا اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم و بدفعلی کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتاہے اور ذلت و نامرادی کا منہ دیکھتا ہے ۔ چنانچہ ظالم و مظلوم اور بد فعلی کرنے والوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی کی داستانیں قرآن مجید میں موجود ہیں ۔

بے حیائی بہت بری چیز ہے

مذہبِ اسلام میں ناموس و عزت کی بہت اہمیت ہے ۔ اس لیے قرآن نے عزت و ناموس کے لٹیروں کےلیے سخت سزاؤں کا اعلان فرمایا : وَلَا تَقْرَبُواالزِّنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلًا ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت32)
ترجمہ : اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت بری راہ ہے) ۔

آج کی نو جوان نسل جو کھلے عام NDTV، BBC، دوردرشن میں مباحثہ (Debate) میں حصہ لیتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم بالغ ہیں ہمیں آزادی سے اپنی زندگی جینے کا حق ہے ۔ فقیر چشتی مسلم نوجوانوں کےلیے مذہبِ اسلام کا نقطہ نظر واضح کر رہا ہے ۔ اسلام کے ماننے والے ہیں ، اللہ کے واسطے اسلام کو سمجھیے ، مانیے ، عمل کیجیے ، اسی میں عافیت و فلاح اور بھلائی ہے ۔ اسلام بے حیائی کی روک تھام کے واضح احکام کا اعلان کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے : وہ لوگ جو مسلمانوں میں بے حیائی پھیلنے کو پسند کرتے ہیں ان کےلیے دردناک عذاب ہے ، دنیا اور آخرت میں ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (سورۃ النورآیت 19)

حیا و شرم تہذیب اسلامی کا اہم جز ہے ۔ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کھلے عام میڈیا میں قبیل فعل کی طرفداری آزادی کے نام پر کریں ۔ اللہ ایمان سلامت رکھے آمین ۔

لوطی شخص حکیم اور ڈاکٹر کی نظر میں

اطبا اسے بتلاتے ہیں سب امراض کی جڑ

قبر میں بھیج دے انسان کو اگر جائے بگڑ

 ہم جنس پرستی تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔ اس کا کرنے والا مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے جو لاعلاج ہوتی ہیں ۔ خدائی عذاب کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ایسا شخص عورت کے لائق نہیں رہ جاتا نہ ہی عورت کو خوش کر سکتا ہے ۔ اس کی طبیعت عورت کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کی قوتِ باہ (Sex) ہمیشہ کےلیے ختم ہو جاتی ہے۔ (حکیم جرہانی)آپ یعنی حکیم جرہانی نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے۔ اس فعل سے مفعول کا دل ضعیف ہوجاتا ہے اور اس کی منی غیر محرک ہوجاتی ہے۔ بہت سے حکماء کا قول ہے کہ اس عادت والے کی آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ جنسی ماہرین کاکہنا ہے دونوں کو کیڑے (جراثیم) پڑ جاتے ہیں۔ فاعل(کرنے والا) مفعول(کرانے والا) دونوں کو ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا خطرہ سو فیصد بڑھ جاتاہے۔ شیخ الرئیس بو علی سینا کا قول ہے کہ ہم جنس پرستی مرض نہیں بلکہ یہ علت(عادتِ بد) ہے جو وہمی و کسبی ہے اور ایسے لوگوں کا علاج کرنا فضول ہے۔ بلکہ ضرب سے کام لینا چاہیے۔ حکیم گیلانی جو ماہر جنسیات بھی تھے، نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کوبھری مجلس میں شرمندہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی اس عادت بد سے باز آجائیں۔ حکیم ذکریا صاحب، حکیم اعظم خان صاحب اور حکیم گیلانی نے اس فعل کی سخت مذمت کی ہے اور ایسے مریضوں کے علاج کومنع کیاہے۔ اکثر اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ ہم جنس پرستی خواہ وہ نر کے درمیان ہو یا مادہ کے درمیان دونوں صورتوں میں فاعل، مفعول انزال کے بعد انتہائی ندامت و شرم محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ عمل غیر فطری ہے۔ جبکہ نر ومادہ اور انسان کے نرو مادہ کے جائز ملاپ پر انزال کے بعد طرفین فرحت و خوشی محسوس کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ فطری عمل ہے ۔

موجودہ معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں

معاشرے میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے ، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے، اس بات کو دل و دماغ میں بٹھایا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طورپر زندگی گزاری جائے اور آخرت بھی سنواری جائے۔ غیر اسلامی کاموں اور گندے فعل سے پرہیز کیا جائے ورنہ اس کا انجام بھیانک اور خطر ناک ہے۔ عذابِ الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذہن نشیں کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی تسکین کے لیے جائز اور مناسب طریقہ ہے جو رب کریم نے بندوں کے لیے بنایا ہے۔ نکاح شریعت کی نگاہ میں ایک پاکیزہ، ٹھوس، پائیدار اور دیرپا رشتہ ہے، جو دیگر مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ نیز اس کے لیے الگ الگ قوانین اور ضابطے بھی ہیں۔ تمام مذاہب نے اسے صرف ایک رسمی تفریح اور دنیاوی ضرورت کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن مذہب اسلام میں نکاح کو دنیاوی ضرورت کے ساتھ ایک دینی ضرورت بھی بتایا اور قربِ الٰہی کا سبب بھی بتایا۔ رسول اللہ  صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اذ تزوج العبد و فقداستکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی النصف الباقی ۔ 
ترجمہ: جب بندے نے نکاح کر لیا تو اس نے آدھا دین مکمل کر لیا اور باقی آدھا کے لیے وہ اللہ سے ڈرتا رہے ۔ (مشکوٰۃ شریف صفحہ نمبر 286،چشتی)

 نکاح کرنے سے انسان اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ گناہوں سے بھی بچتا ہے اور سماج میں عزت کی زندگی گزارتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام باتیں لوگوں تک پہنچائی جائیں ۔ پمفلٹ بانٹے جائیں ، جلسے منعقد کیے جائیں ، نجی مجلسوں اور ہوٹلوں ، کلبوں میں بھی ان خیالات و نظریات کو عام کیا جائے۔ کمیٹیوں اور انجمنوں ، علمائے کرام ، دانشور حضرات اس پیغام کو گھر گھر پہنچائیں ۔ اللہ ہم سب کو اس کی طاقت و قوت عطا فرمائے آمین ۔

ہم جنس پرستی ایک مہلک متعدی مرض کی طرح ساری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اس کے حامیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تقریباً نصف دنیا نے اس کو قانونی جواز دے دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کناڈا، فرانس، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ، برازیل، بیلجیم، ارجنٹینا، ناروے، پرتگال، اسپین کے بشمول امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک نے باضابطہ اس کو قانونی جواز فراہم کردیا ہے۔ مشرق وسطی اور ایشیائی ممالک کی اکثریت اس کے خلاف ہے، لیکن دنیا کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ہم جنس پرستی کی تائید کر رہی ہے اور ہر سات میں سے ایک فرد اپنے مخالفانہ ذہن کو تائید و حمایت میں تبدیل کر رہا ہے۔ ستر فیصد بالغ افراد اس کی حمایت میں ہیں ۔

ہماری صفوں میں بھی بعض ایسے نام نہاد مسلمان ہیں، جو ہم جنس پرستی کو اسلام میں جائز و مباح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ از روئے شریعت یہ فعل قبیح ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ جو کوئی اس کو حلال سمجھے گا، نص قرآنی کے انکار کی بناء وہ اسلام سے خارج ہے اور جو اس کو حرام سمجھتے ہوئے مرتکب ہوگا، وہ شرعاً فاسق و فاجر، گناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوا اور از روئے شرع اپنی زندگی کے حق کو وہ کھودیتا ہے۔ ایسا شخص انسانی معاشرہ میں رہنے، بسنے اور جینے کے قابل نہیں ہے، اس کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں ۔ ان ہی امتوں میں سے ایک نہایت بدبخت و شرپسند قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی ۔

حضرت لوط علیہ السلام، ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہوتے ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رہے، بعد ازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام بحرین کے قریب مقیم ہوئے، جہاں متعدد بستیاں آباد تھیں۔ کئی سال تک حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالی کی طرف بلایا اور ان کو فسق و فجور، بے حیائی اور منکرات سے دور رہنے کی تلقین کی۔ وہ نہایت ہی بدبخت، بے حیاء اور ظرف سے عاری قوم تھی۔ وہ پہلی قوم ہے، جس نے ہم جنس پرستی کا آغاز کیا اور برسر عام اس جرم کا ارتکاب کرتے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے مختلف سورتوں میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’’اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوام عالم میں سے کسی (ایک قوم) نے (بھی) اس (برائی) میں تم سے پہل نہیں کیا۔ کیا تم (شہوت رانی کے لئے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرما ۔ (سورۃ العنکبوت۔۲۸ تا۳۰) ۔ اور سورۃ الشعراء میں ہے : ’’قوم نے کہا : اے لوط! اگر تم باز نہیں آؤگے تو ضرور بہ ضرور (اس گاؤں) سے نکال دیئے جاؤ گے ۔ (سورۃ الشعراء۔۶۷)

جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور اپنے عمل بد پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالی کا فیصلہ ان کے بارے میں ظاہر ہوا۔ اللہ تعالی نے اس قوم کو تباہ و تاراج کرنے کے لئے فرشتوں کو بھیجا، وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہما السلام کے پاس آئے اور ان کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی کہ وہ قوم لوط پر اللہ کا قہر برسانے کے لئے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے فکرمند ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام سے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اسی قوم میں موجود ہیں‘‘ تو آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کے اہل سوائے بیوی کے محفوظ رہیں گے۔ پھر وہ فرشتے انسانی لباس میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے انھیں نہیں پہچانا اور کبیدہ خاطر ہوئے کہ آپ کی قوم کہیں برا سلوک نہ کرے، اس لئے نہایت احتیاط سے اپنے گھر لائے۔ اس اثناء میں آپ کی بیوی نے قوم کو اطلاع دے دی کہ نہایت خوبرو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ آپ کی قوم نہایت شاداں و فرحاں آئی اور مہمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ ظاہر کی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے خدا کا واسطہ دیا اور ان کو قوم کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ حلال و پاکیزہ رشتہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ پھر بھی وہ اپنے تقاضہ پر بضد تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نہایت غمگین ہوئے اور آزردہ ہوکر کہنے لگے ’’کاش! میرے پاس طاقت و قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط پناہ میں ہوتا‘‘۔ فرشتوں نے کہا: ’’آپ آزردہ و پریشان نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں، وہ ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ فرشتوں نے ان کی آنکھوں کو بے نور کردیا، ان کو کچھ دکھائی نہ دینے لگا۔ فرشتوں نے خدا کا پیغام پہنچایا کہ ’’آپ صبح سے پہلے رات ہی میں یہاں سے اپنے اہل کے ساتھ نکل جائیں، کیونکہ صبح سویرے عتاب نازل ہونے والا ہے، آپ آوازیں سنیں تو پلٹ نہ دیکھیں ۔

حسبِ ہدایت حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل کو لے کر نکل گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیوی کو نہیں لیا یا وہ ساتھ تھی، لیکن پلٹ کر دیکھنے کی بنا پر ہلاک ہو گئی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان نافرمان بے حیاء گاؤں والوں کو زمین سمیت اٹھایا اور آسمانوں کی طرف بلندی پر لے گئے، پھر ان کو نیچے دے مارا، اوپر سے پتھر برسائے، اس طرح وہ تمام علاقے تباہ و تاراج ہو گئے۔ سورۃ الشعراء میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی ہم جنس پرستی کے سبب اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو اس طرح کے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا ۔

اس لیے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جو کوئی ہم جنسی عمل کرے تو اس کی سزا موت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر دو کو موت کی سزا دو اور ایک حدیث میں ایسے افراد کو نبی کریم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ملعون فرمایا ہے ۔ پس فقہاء کے نزدیک سزا سے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے، تمام موت کی سزا پر متفق ہیں، اختلاف نوعیت موت میں ہے۔ بعض نے کہا جلادیا جائے، بعض نے کہا پہاڑ پر سے پھینک دیا جائے اور بعض نے کہا کہ سنگسار کیا جائے اور جو خواتین ہم جنس پرستی کی شکار ہیں وہ تعزیری سزا کی مستحق ہیں۔ علماء نے ان سے متعلق سورۃ النساء کی آیت ۱۵ سے استدلال کیا کہ ’’جو عورتیں (باہم) بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان پر چار افراد کی گواہی طلب کرو اور وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو، تاآنکہ وہ انتقال کرجائیں ۔

ہم جنس کی سزا کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ عبدالرحمان الجزیری نے الفقه علیٰ المذاهب الاربعة میں فقہائے احناف کے مؤقف کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ : امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہم جنس پرست کی سزا حد نہیں، تعزیر ہے۔ جبکہ امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہما حد کے قائل ہیں ۔ (الجزيری عبدالرحمٰن، کتاب الفقه علیٰ المذاهب الاربعة، 5: 141، دارالفکر، بيروت، لبنان،چشتی)

ہم حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کی سزا تعزیراً مقرر کرنے کے قائل ہیں ۔ تعزیرات میں حاکمِ وقت (قانون ساز) یا عدالت کو اختیار ہوتا ہے کہ مجرم کو ایسی سزا دے کہ جس سے دوسروں کو عبرت ہو اور کوئی اس جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کرے۔ کیس کی نوعیت کے اعتبار سے قاضی، مجرم کو عمر قید، قید، جرمانہ، ملک بدری یا سزائے موت بھی دے سکتا ہے ۔

اسلام دینِ فطرت ہے ۔ اس نے جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے یقینا وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے، جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور جس کے برے نتائج آرہے ہیں اور آتے رہیں گے ۔ اس سے بچنا اللہ کا حکم ہے اور اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا فرض ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...