فضائل و مناقبِ اہلبیت رضی اللہ عنہم حصّہ نہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا آپسی تعلق و محبت : حضرت امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد 1 صفحہ 256)
حضرت امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94)
خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی علیہم الرّحمہ تفسیرِ خزائنُ العرفان میں لکھتے ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (خزائنُ العرفان، پ25،الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، صفحہ 894،چشتی)
صَحابَۂ کرام جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین سے کیسی محبت رکھتے تھے اوراپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا کرتے تھے ! آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں : ⬇
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء،ج 1 ص 244،چشتی)(تاریخ ابنِ عساکر ج 26،ص372)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔(معجمِ کبیر،ج 10،ص285، حدیث:10675)
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب،ج 2،ص360)
ایک موقع پر حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا:اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے قَرابَت داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (بخاری،ج2،ص438،حدیث:3712،چشتی)
ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری،ج2 حدیث: 3713)
حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو ، حضرت علی کے نہیں ۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی،ج 5،ص48، حدیث:8161)
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک،ج 4،ص139، حدیث:4789،چشتی)
ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہم کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لئے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔(ریاض النضرۃ،ج1،ص341)
یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے برابر حصّہ مقرر کیا ، دونوں کےلیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ 59)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 42،ص415)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ج 10 ص 205)(مؤطا امام مالک،ج2،ص259)
ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی:اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب،ج 3،ص209،چشتی)
یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید،ج 5،ص344)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص461)
ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر،ج14،ص179)
حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4،ص309)(طبقات ابن سعد،ج 6 ص 409)(معجم الصحابہ،ج 4،ص370)(کشف المحجوب ص 77)(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص460)
حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد، ص92،چشتی)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء،ص135)
حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔(مسند امام احمد،ج 3،ص632،چشتی)
ابومہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء،ج 4 ص 407)
عیزار بن حریث رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا:اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179،چشتی)
محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار سے اپنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول رضی اللہ عنہم کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان باہمی رشتہ داریاں ، تعلق ، محبت ، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں ۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرام اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا ۔مضمون کے اس حصّے میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے ، تاکہ اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے ۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا
یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار ، پسندیدہ ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ عقیدت ، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا ، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا ۔
ابو الائمہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل
اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ابو الائمہ سیدنا مولا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اسی محبت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اولاد ، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے : ’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ ۔‘‘(الارشاد، ص:۱۸۶،چشتی)
یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں شہید کیے گئے ۔‘‘
مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے : وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔ (تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳)
یعنی ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی ، ان میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں ۔‘‘
شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے : ’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود ۔‘‘ (مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت)
یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲) میں اسی طرح لکھا ہے ۔
کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا ؟
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے ، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے ؟ کیا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں ؟
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کا طرزِ عمل
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک محدود نہیں تھا ، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا ۔
حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کا اسم گرامی
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بڑے صاحب زادے ، نواسۂ رسول حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں ، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے : ’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ ۔ (شیعہ کتب تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸،چشتی)(منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے ۔‘‘
اصفہانی نے مقاتل الطالبیین، ص:۸۷) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا ۔
حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی
حضرت امامِ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (شیعہ کتاب التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳،چشتی)
یعنی ’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے ۔‘‘
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کنیت
’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔‘‘ (شیعہ کتاب کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴)
حضرت امامِ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے صاحبزادے کا نام
حضرت اماِ حسن بن امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہم نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ، چنانچہ مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ : ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے ۔‘‘
حضرت امام موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہما جن کا لقب کاظم ہے ، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷)
اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ : حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ : ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا ۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ علی بن موسی الرضا ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی ۔ (مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲)
حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا نام
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر عائشہ رکھا تھا ، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفر کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ : ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں ۔‘‘ (شیعہ کتاب الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲،چشتی)
حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی کا نام
حضرت امام علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا ۔ (کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰)
حضرت امام علی بن محمد الہادی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے : ’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ ۔ ‘‘ (کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳)
یعنی ’’ابو الحسن رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے ، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی ۔‘‘
اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا ۔‘‘ (شیعہ کتاب مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳،چشتی)
آلِ بیت رضی اللہ عنہم کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام و مودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
قرونِ ثلاثہ کی تاریخ فرقہ باطلہ کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی ، لوگوں کو اصل سے گمراہ کرنے کےلیے بے شمار روایات گھڑی گئیں ، صحیح روایات میں تحریف کی گئی ۔ تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو ئے ۔ اصحاب و اہل بیت رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن و حدیث کی گواہی کے برعکس ایک غلط تاثر سامنے آیا ۔
قرآن و حدیث تو ان کی عدالت ، امانت ، دیانت ، آپس کی محبت پر شاہد ہیں ، اگر تاریخ پر بھی تحقیقی نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں تاریخ سے بھی کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور اُن کی صحیح روایات میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ رافضی و ان کے ہمنوا نیم تفضیلی بغضیے رافضی حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس ۔ تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بیاہ دی تھی ۔ {بحوالہ شیعہ کتاب : الکافی ، ج:5 ، ص:346}
حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے ۔
امیرالمومنین حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ناموں پر رکھے ۔ (معرفة الصحابة ، ج:1 ، صفحہ 309،چشتی)
حضرت امامِ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279)
حضرت امامِ جعفر صادق بن محمد رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ جنا ہے ۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کی دختر تھیں) ۔ (سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255،چشتی)
اس طرح تاریخ سے کئی ایسی روایات پیش کی جا سکتی ہیں جو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کے بارے میں قرآن کی آیت ‘رحماء بینھم ‘ کی مصداق ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت و خلافت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح فرمائی تھی ، ان کے خلاف بغاوت نہیں کی ، اپنے دور میں ان کے کسی قانون کو منسوخ نہیں کیا ، ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داریاں بڑھائیں ۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو شروع سے اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مخالفت اور دشمنی ایک گروہ کا خاصہ بنی ۔ اس کے ساتھ ایک اور گروہ بھی وجودمیں آیا جو اس کے الٹ تھا یہ آلِ بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا تھا اور ہے ۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں ۔ پہلا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کرام کے فضائل و مناقب انہیں نہیں دینا چاہتا ، یہ گروہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب کا منکر ہے ۔ ان دونوں انتہاؤں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے ۔ یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ : تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے ۔ اور اہل بیتِ اطہات رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ۔
اہل بیتِ اطہار خود بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی گروہ میں شامل ہیں اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے ۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا ۔ آخر میں اہلِ تشیع اور ان کے ہمنوا نیم رافضی حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے ؟ ۔ (مزید حصّہ دہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment