امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصّہ ششم ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عقیدہ کی اہمیت اور مسلک اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ : عقیدہ ہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر تمام مذہبی اعمال اور روحانی احوال کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے ۔ صاحب منجد لکھتے ہیں : العقیدہ جس پر پختہ یقین کیا جائے جس کو انسان دین بنائے اور اس پر اعتقاد رکھے ۔ (المنجد مطبوعہ دارلاشاعت کراچی صفحہ 668)
اور جس عمارت کی اساس ہی باطل ، فاسد اور کمزور ہو تو اس پر تعمیر ہونے والی عمارت کا کیا اعتبار ہوگا ۔ تمام مذہبی اعمال اور روحانی احوال کےلیے عقیدے کا درست ہونا نہایت ضرور ی ہے ۔ عقیدہ مذہب کےلیے بمزلہ روح اور جان کے ہے اور باقی تمام افعال و اعمال انسانی جسم او ر اعضاء کی مانند ہیں ۔ عقیدہ جڑ اور تنے کی مانند ہے اور اعمال و افعال شاخوں کی ما نند ۔ تو جس درخت کی جڑ ہی خشک ہو اسی کی شاخیں کیسے سر سبز رہ سکتی ہیں ۔ اور اس پر پھل کیسے لگ سکتا ہے ۔ بظاہر انسان جتنا نماز ی ، حاجی ، سخی یا پر ہیزگار ہو جب تک اس کا عقید ہ درست نہ ہوگا مذکورہ اعمال اس کو کو ئی فائد ہ نہ دیں گے کیونکہ جب جڑہی خشک ہے تو شاخیں کیسے ہری بھری ہو سکتی ہیں ۔ حضرت غوث اعظم رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ⬇
در خانہ بے روزن یعنی لحد تاریک
ہر جان تو خواہد تافت شمس و ترے دیگر
ترجمہ : اے بندے اگر تو حق کی خدمت کرنے والا ہے حق کا طلبگا ر او رحق شناس ہے تو تاریک قبر کے اندھیر ے میں بھی تیرے لئے نور حق کا چاند اور نیا سورج چمکے گا ۔
عجیب دور ہے کہ نماز ، روزہ اور دیگر اعمال صالح کی تبلیغ تو بہت کی جاتی ہے لیکن عقیدے کی بات کرنے والے کو فرقہ پرست کہا جاتا ہے حالانکہ قرآن مجید میں 81 مرتبہ ۔ ان الذین امنو وعملو الصلحت الخ ۔ فرما کر عقیدہ کو پہلے اعمال کوبعد میں ذکر کیا گیا ہے ۔ پنجگانہ نماز بمعہ تہجد ،اشراق ، چاشت اور اوابین پڑھیں اور سو سال تک پڑھتے رہیں ۔ لیکن اس وقت تک عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتے جب تک کہ ایمان و عقیدہ درست نہیں کرلیں گے ۔ کیا اس طرح کے اعمال منافقین کے پاس کم تھے ؟ مگر اس کے باوجود قرآن حکیم فرماتا ہے ۔ منافقین جہنم کی نچلی تہہ میں ہوں گے ۔ مکان اگر انتہائی خوبصورت سنگ مرمر اور دیگر لوازمات سے مزین ہو لیکن اس کی بنیاد ہی مضبوط نہ ہوتو کسی وقت بھی زمین پر آگرے گا ۔ بنیاد اگر چہ نظر نہیں آتی لیکن مکان کی مضبوطی کا مدار اس بنیاد پر ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگرچہ عقیدہ نظر نہیں آتا مگر اعمال صالحہ کے محل کا انحصار عقیدے پر ہی ہے ۔
امام ربانی مجد د الف ثانی شیخ احمد سر ہندی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : شریعت کے دو جز ہیں ۔ (۱) عقیدہ (۲) عمل ۔ عقیدہ دین کی جڑ ہے اور عمل اس کی شاخ ہے جس شخص کا عقیدہ صحیح نہ ہو وہ اہل نجات میں سے نہیں ہے اور عذاب آخرت سے نہیں بچ سکتا ۔لیکن اس کے اعمال کمزور ہوں تو اس کی نجات کی امید ہے ۔
عقیدہ اہلسنت
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقیدہ کون سا سچا ہے ؟ تو قرآن حکیم اس سوال کا جواب دیتا ہے ”واذاقیل لھم امنو کما امن الناس (البقر ہ ۳۱) عقیدہ وہ سچا ہے جو صحابہ کرام علیھم الرضوان کا عقیدہ ہے ۔
علامہ احمد صاوی علیہ الرحمة فرماتے ہیں وہذ التفرق من بعد الصحابة فالنا جی من کانا علی قد می النبی و اصحابہ ۔ (تفسیر صاوی مطبوعہ مکتبہ غوثیہ جلد اول صفحہ 258،چشتی)
حضرت مجد الف ثانی شیخ احمدسر ہند ی علیہ الرحمہ حدیث پاک درج کرتے ہیں الذین ہم علی ما انا علیہ واصحابی جنتی وہ لوگ ہیں جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہیں ۔ (مکتوبات مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور جلد اول مکتوب 80)
شیخ ابو محمد حسن بن علی بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : وہ بنیاد یں جس پر جماعت کو قائم وکھڑا کیا جائے وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے صحابہ کرام علیھمالرضوان ہیں وہی اہلسنت و جماعت ہیں جو ان سے رہنمائی نہیں لے گا وہ گمراہ ہوجائے گا ۔ (منہج سلف صالحین مطبوعہ انصار السنتہ پبلی کیشنر لاہور صفحہ 45)
شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : مذہب صحیح جسے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور تابعین نے وضاحت سے بیا ن فرمایا ہے اور اہلسنت سنت و جماعت نے اسی کو اختیار کیا ۔ (تفسیرعزیزی مطبوعہ لاہور جلد دوم صفحہ 29،چشتی)
شیخ حسین بن مسعود بغوی شافعی علیہ الرحمہ : اھد نا الصرط مستقیم کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سید ھا راستہ اہلسنت و جماعت کا راستہ ہے ۔ (معالم التنزیل مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ قیامت کے دن اہل سنت وجماعت کے چہرے روشن و چمکدار ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہوں گے (تفسیر قرطبی مطبوعہ بیروت ،معالم التنزیل مطبوعہ بیروت ۔الخازن مطبوعہ مکتبہ فاروقیہ پشاور ۔البحر المحیط مطبوعہ بیروت ۔درمنثور مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور ۔مظہری مطبوعہ ضیا ءالقرآن لاہور ،ابن کثیر مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور،الوسیط مطبوعہ بیروت ،حسینی مطبوعہ تاج پبلشنگ لاہور ۔التذکرہ مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور جلد اول صفحہ 480،تاریخ بغداد مطبوعہ بیروت جلد 7صفحہ 391،فتح البیان مطبوعہ بیروت از بھوپالی ،فتح القدیر مطبوعہ بیروت از شوکانی ،تفسیر محمد ی مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور از حافظ لکھوی،مواہب الرحمن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور، تفسیر و حیدی مطبوعہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور ۔معارف القرآن مطبوعہ ادارة المعارف کراچی از مفتی شفیع ،معارف القرآن از ادریس کاندھلوی مطبوعہ مکتبہ الحسن لاہور ،تیسیر الرحمن از لقمان سلفی مطبوعہ الریاض ،توضیح القرآن از عبدالرشید غیر مقلد مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ،الکشف و البیان مطبوعہ بیروت ،عقید ہ واسطیہ مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث فیصل آباد صفحہ 9،مجموعہ رسائل از مولوی امین صفدر مطبوعہ گوجرانوالہ جلد 3صفحہ 70،اور حاشیہ صلاح الدین یوسف مطبوعہ سعودیہ زیر آیت یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ،چشتی)
علامہ خفاجی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں اہل بدعت وہ ہیں جو اہل سنت کے عقائد کے خلاف ہیں نیز لکھتے ہیں کہ جو اہلسنت سے نکل گیا وہ اسلام سے نکل گیا ۔ (نسیم الریاض مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان جلد 4 صفحہ 475)
شمس الدین محمد بن ابی العباس شہاب الدین الرملی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بدعتی وہ ہے کہ جس کا عقیدہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہوکہ اہلسنت کے عقائد وہ ہیں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم آپ کے اصحاب اور ان کے مابعد والے تھے (نہایة لمحہتاج مطبوعہ مکتبہ توفیقیہ مصر جلد 8 صفحہ 463)
اما م ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں بدعت سے مراد و ہ اعتقاد ہے جو اہلسنت و جماعت کے خلا ف ہو ۔ (فتح الباری مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی جلد 2 صفحہ 240)
ابن بطہ عکبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : حضرت عمر بن قیس ملائی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تو ایسے نوجوان کو دیکھے جو اہل سنت و جماعت کے ساتھ پروان چڑھاہے ۔ تو اس سے امید رکھ اور جو اہل بدعت کے ساتھ پروان چڑھا ہے ۔ تو اس سے نا امید ہوجا ۔ اس لئے کہ نوجوان کی جن عقائد پر پرورش ہوتی ہے وہ انہیں پر ہوتا ہے ۔ (الابانة الکبریٰ مطبوعہ الفاروق الحدیثیہ مصر جلد 1 صفحہ 128،چشتی)
شیخ الاسلام احمد بن محمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعتی وہ لوگ ہیں جو اہلسنت و جماعت کے مخالف ہیں (فتاویٰ حدیثیہ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی صفحہ 370)
قل لا اسعلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے تحت مفسرین ،سیرت نگاروں اور اہل تشیع نے حدیث پاک نقل کی ہے حضور جان کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے ار شاد فرمایا : ومن مات علی حب آل محمد مات علی السنتہ و الجماعة ۔
ترجمہ جو آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت میں مرگیا اسے قیامت میں اللہ تعالیٰ اہلسنت و جماعت میں اٹھائے گا ۔ (قرطبی مطبوعہ بیروت ،تفسیر کبیر مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور ،تفسیر ابن عربی مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت ،تفسیر کشاف مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضا انڈیا ،روح البیا ن مطبوعہ بہاولپور ،نورالابصار مطبوعہ فیصل آباد جلد اول صفحہ 27،اشرف الموبد لال محمد مطبوعہ ضیاءالقرآن لاہور صفحہ 224 اور اہل تشیع کی کتاب کشف الغمہ مطبوعہ ایران جلد 1 صفحہ 107)
اسی لیے تو امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : لوگوں کو اہلسنت کی فضلیت معلوم نہیں ۔ (انیس لجلیس مطبوعہ اویسی بک ڈپو گوجرانوالہ صفحہ 290)
عظیم مفسر قرآن علامہ سید محمو دآلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ : اہلسنت و جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عترت و آل رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دونوں سے محبت رکھتے ہیں ہم اس وقت تکلیف اور مشقت کے سمندر میں ہیں اور شبہات وشہوات کی موجوں کا سامنا ہے جس سے نجات کے لئے کشتی کی ضرورت ہے وہی کشتی سلامتی سے ہم کنار ہوتی ہے جو عیوب سے محفوظ ہو اور رہنمائی کے لئے ستاروں پر نظر رکھی جائے ۔ہم اہلسنت و جماعت کشتی اہلبیت میں سوار ہوکر نجوم صحابہ سے رہنمائی حاصل کررہے ہیں اللہ تعالیٰ کے کرم سے امید ہے کہ ہم سلامتی اور سعادت دارین سے نواز ے جائیں گے (روح المعانی مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ، تفسیر کبیر مطبوعہ مکتبہ علوم اسلامیہ لاہور،چشتی)
اس آیہ کریمہ اور حدیث نبویہ سے مودت فی القربی کے ساتھ ساتھ عقیدہ اہلسنت کی حقانیت بھی آشکار ہو گئی ۔
اہلسنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اورناﺅ ہے عترت رسول اللہ کی
امام المحدثین ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری رحمۃ اللہ علیہ مسلم شریف کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ : جس حدیث کی سند میں اہلسنت ہوتے ہیں اسی کو قبول کیا جاتا ہے ۔ (مسلم مطبوعہ بیروت)
حضرت محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا صحابہ کرام علیھم الرضوان سے استاد کے بارے مین نہیں پوچھا جاتا تھا چنانچہ جب فتنہ برپا ہوا (یعنی فتنہ اہل بدعت خوارج وغیرہ ) تومحدثین کہنے لگے کہ اپنے رجال کا ہمارے سامنے نام لو تاکہ ہم اہلسنت کی حدیثوں کو ہاتھوں ہاتھ لیں اور اہل بدعت کی حدیثوں کو رد کردیں ۔ (حلیتہ الاولیاء مطبوعہ دارلاشاعت کراچی جلد دوم صفحہ 565)(فتاویٰ اہلحدیث مطبوعہ ادارہ احیاءالسنہ سرگودھا جلد اول صفحہ 72)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں اہلسنت و جماعت ایک پرانا مذہب ہے یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب تھا جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے سیکھا تھا جو ان کے مخالفت کرے وہ اہلسنت وجماعت کے نزدیک بدعتی ہے ۔ (منہاج السنہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت جلد اول صفحہ 367،چشتی)
امام حاکم نیشا پوری رحمة اللہ علیہ المستدرک مطبوعہ لاہور جلد اول کتاب الایمان حدیث 111کے تحت لکھتے ہیں اور اس حدیث میں اہلسنت کے اثبات اور بدعتیوں کے رد کے سلسلے میں بہت شاندار دلائل موجود ہیں ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں : فاذا رایتم اختلافافعلیکم باالسو ادلا عظم یعنی جب تم اختلافات دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کے ساتھ رہو ۔ (سنن ابن ماجہ مطبوعہ بیروت باب السواد لاعظم)
لہٰذا اس پرفتن دور میں سواد اعظم اہلسنت و جماعت کا حق پر ہونا اس حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ شاہ عبدالغنی دہلوی رحمة اللہ علیہ اس حدیث پاک پر ارقام فرماتے ہیں : فہٰذ الحدیث معیار عظیم لاہلسنة و الجماعة یعنی یہ حدیث پاک اہلسنت و جماعت کے لئے معیار عظیم ہے بے شک و ہی سواد اعظم (بڑی جماعت) ہے یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں کہ تمام اہل ہوا باوجود کے بہتر فرقے ہیں ان کو اگر تم دیکھو تو وہ اہلسنت کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ (انجاح الحاجہ مطبوعہ المیزان لاہور صفحہ 283)
حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بڑے اور بزرگ لوگ اہلسنت ہیں اور ذلیل لوگ اہل بدعت ہیں اور حضرت سیدنا سفیان ثوری علیہ رحمةکا قول ہے کہ سواد اعظم سے مراد اہل سنت و جماعت ہی ہیں چاہے ایک فرد ہی کیوں نہ ہو اور اس کو خوب سمجھ لو ۔ (المیزان الکبریٰ مطبوعہ لاہور جلد اول صفحہ 113،چشتی)
اس حدیث پا ک کی شرح کرتے ہوئے اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : جو امام وقت کے مطیع ہوں اور شریعت پر قائم ہوں اور فتنہ اور فساد سے مجتنب ہوں یہ بڑی دلیل ہے اہلسنت اور جماعت کی کیونکہ ہر زمانہ میں ان کی جماعت زیادہ رہی ہے سیوطی نے کہا ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ہمارے امام شافعی اور مالک اور ابو حنیفہ اور احمد اور باقی تمام ائمہ اہلسنت علیہم الرّحمہ ہدایت پر تھے اور امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ امام تھے اہلسنت کے عقائد میں اور حضرت امام ابو القاسم بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سردار تھے صوفیہ کے او ران کا طریق خالی ہے بد عا ت سے ۔ سواد اعظم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی مراد یہ ہے کہ جو فرقہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور اگلے آئمہ راشدین کی طریق پر ہواس کی پیروی کرو اگرچہ اس زمانہ میں تعداد اس فرقہ کی قلیل ہوجاوے تو یہ ضرر نہیں کرتا اس لئے کہ امت محمدی میں قیامت کے دن بھی فرقہ سواد اعظم ہوگا حاصل کلام یہ ہے کہ جو لوگ متبع ہیں قرآن اور حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمیشہ وہی حق پر ہیں اور انہیں کی پیروی لازم ہے اور وہی سواد اعظم ہیں اس امت کے اگرچہ کسی زمانہ میں یاکسی ملک میں ان کی تعدا د گھٹ جاوے اور مشرکین اور مبتدین کی تعداد بڑھ جاو ے جب بھی وہی لوگ سواد اعظم ہوں گے ۔ (حاشیہ سنن ابن ماجہ مطبوعہ مہتاب کمپنی لاہور جلد سوم صفحہ 403-402)
اس دور میں آخر مسلک حق مسلک اہلسنّت و جماعت حنفی بریلوی ہی کا انتخاب کیوں احباب ٹھنڈے دل سے ضرور پڑھیں : ⬇
سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ بریلوی یا مسلک اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ سے مراد کوئی نیا مسلک نہیں ، بلکہ صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، صالحین اور علماء امت جس مسلک پر تھے مسلک اعلٰی حضرت ، بریلوی کا اطلاق اُسی پر ہوتا ہے دراصل اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ تقریبا دو صدی قبل برصغیر کی سرزمین پر کئی نئے فرقوں ۔ نے جنم لیا اور ان فرقوں ۔ کے علمبرداروں نے اہلسنت و جماعت کے عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دینے کی شرمناک روش اختیار کی ، خصوصا مولوی اسماعیل دہلوی نے وہابی مسلک کی اشاعت کےلیے جو کتاب تقویۃ الایمان کے نام سے مرتب کی اس میں علم غیب مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حاضرو ناظر ، شفاعت ، استعانت ، نداء یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اختیارات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وغیرہ تمام عقائد کو معاذاللہ کفر و شرک قرار دے دیا ، جب کہ یہ سارے عقائد روز اول سے قران و سنت سے ثابت شدہ ہیں ، اسی طرح میلاد و قیام ، صلوٰۃ و سلام ، ایصال ثواب ، عرس یہ سب معمولات جو صدیوں سے اہلسنت و جماعت میں رائج ہیں اور علمائے امت نے انہیں باعث ثواب قرار دیا ہے ، لیکن نئے فرقوں کے علمبرداروں نے ان عقائد و معمولات کو شرک و بدعت قرار دیتے ہوئے اپنی ساری توانائی انہیں مٹانے پر صرف کی ، اسی زمانے میں علمائے اہلسنت نے اپنے قلم سے ان عقائد و معمولات کا تحفظ فرمایا اور تحریر و تقریر اور مناظروں کے ذریعے ہر اعتراض کا دندان شکن جواب دیا ۔
عقائد کی اسی معرکہ آرائی کے دور میں بریلی کی سرزمین پر امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ پیدا ہوئے ، آپ زبردست عالم دین تھے اللہ تعالٰی نے آپ کو بے پناہ علمی صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا اور آپ تقریبا 100 سے زائد علوم میں مہارت رکھتے تھے خصوصا علم فقہ میں آپ کے دور میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا ، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مجدد و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو آپ کے مخالف ہیں ، بہرحال آپ نے اپنے دور کے علمائے اہلسنت کو دیکھا کہ وہ باطل فرقوں کے اعتراضات کے جوابات دے کر عقائد اہلسنت کا دفاع کررہے ہیں ۔ تو آپ نے بھی اس عظیم خدمت کے لئے قدم اٹھایا اور اہلسنت کے عقائد کے ثبوت میں دلائل و براہین کا انبار لگادیا ، ایک ایک عقیدے کے ثبوت میں کئی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں ، ساتھ ہی ساتھ جو معمولات آپ کے زمانے میں رائج تھے ان میں سے جو قرآن و سنت کے مطابق تھے آپ نے ان کی تائید فرمائی اور جو قرآن اور سنت کے خلاف تھے آپ نے ان کی تردید فرمائی ، اس طرح بے شمار موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابوں کا عظیم ذخیرہ مسلمانوں کو عطا فرمایا ، بہرحال آپ نے باطل فرقوں کے رد میں اور عقائدو معمولات اہلسنت کی تائید میں جو عظیم خدمات انجام دین اس بنیاد پر آپ علمائے اہلسنت کی صف میں نمایاں ہوگئے ، اور عقائد اہلسنت کی زبردست وکالت کرنے کے سبب سے یہ عقائد امام احمد رضا کی ذات کی طرف منسوب ہونے لگے ، اور اب حال یہ ہے کہ آپ کی ذات اہلسنت کا ایک عظیم نشان کی حیثیت سے تسلیم کرلی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی حجازی یا شامی و یمنی یا عراقی و مصری بھی مدینہ منورہ میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتا ہے تو نجدی اسے بریلوی کہتے ہیں ۔ حالانکہ اس کا کوئی تعلق بریلی شہر سے نہیں ہوتا ، اسی طرح اگر کوئی اسئلک الشفاعۃ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب کرے تو چاہے وہ جزیرہ العرب ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو وہابی اسے بریلوی ہی کہتا ہے جبکہ بریلوی اسے کہنا چاہیے جو شہر بریلوی کا رہنے والا ہو لیکن اس کی وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اسلاف کے وہ عقائد ہیں جن کی امام احمد رضا قدس سرہ نے دلائل کے ذریعے شد و مد سے تائید فرمائی ہے اور ان عقائد کے ثبوت میں سب نمایاں خدمات انجام دی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ عقائد امام احمد رضا علیہ الرحمہ سے اس قدر منسوب ہوگئے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی مسلمان اگر ان عقائد کا قائل ہو تو اسے آپ ہی کی طرف منسوب کرتے ہوئے بریلوی کہا جاتا ہے ۔
اب چونکہ برصغیر میں فرقوں کی ایک بھیڑ موجود ہے اس لیے اہلسنت وجماعت کی شناخت قائم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے اس لیے کہ دیوبندی فرقہ بھی اپنے آپ کو اہلسنت ہی ظاہر کرتا ہے جبکہ کے دیوبندیوں کے عقائد بھی وہی ہیں جو وہابیوں کے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہابی اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں اور آئمہ اربعہ علیہم الرحمہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے اور دیوبندی تقلید تو کرتے ہیں لیکن وہابیوں کے عقائد کو حق مانتے ہیں اس لیے فرقوں سے ممتاز کرنے کےلیے مسلکِ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا استعمال مناسب سمجھا ، اس کا سب سے بڑا فائدہ کہ اب جو مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا سمجھا جائے گا اس کے بارے میں خود بخود یہ تصدیق ہوجائے گی کہ یہ علم غیب ، حاضر و ناظر ، استعانت ، شفاعت وغیرہ کا قائل ہے اور معمولاتِ اہلسنت عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، قیام ، صلوۃ وسلام کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہے اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں فقط اپنے آپ کو سنی کہنا کافی ہے تو میں یہ کہوں گا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو سنی کہے آپ اسے کیا سمجھیں گے یہ کونسا سنی ہے ؟ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرتے ہوئے وہابی عقائد کو حق ماننے والا یا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہنے والا ۔ ظاہر ہے صرف سنی کہنے سے کوئی شخص پہچانا نہ جائے گا مگر کوئی اپنے آپ کو بریلوی سنی کہے تو فورا سمجھ میں آجائے گا کہ یہ حنفی بھی ہے اور سچا سنی ہے ، یا پھر اپنے آپ کو کوئی مسلک اعلٰی حضرت کا ماننے والا کہے تو بھی اس مسلمان کے عقائد و نظریات کی پوری نشاندہی ہوجاتی ہے ، اہل ایمان کو ہر دور میں شناخت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے دیکھیے مکہ کی وادیوں میں جب اسلام کی دعوت عام ہوئی تو اس وقت ہر صاحب ایمان کو مسلمان کہا جاتا تھا اور جب بھی کوئی کہتا میں مسلمان ہوں تو اس شخص کے بارے میں فوراً یہ سمجھ آجاتا کہ یہ اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے یعنی خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے لیکن ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اہلِ ایمان کو اپنی شناخت کےلیے ایک لفظ کے استعمال کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ لفظ سنی ہے وجہ یہ تھی کہ ایک فرقہ پیدا ہوا جس سے معاذاللہ حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرنا شروع کردیا اور اس میں حد سے تجاوز کر گیا ، لیکن وہ لوگ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اس لیے اس دور میں اہل سنت نے اپنے آپ کو سنی مسلمان کہا ، صرف مسلمان اگر کوئی اپنے آپ کو کہتا تو اس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا کہ یہ کون سا مسلمان ہے ؟ حضرت سیدنا صدیق اکبر ، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو ماننے والا مسلمان ہے یا ان پر لعن طعن کرنے والا ، لیکن اگر کوئی اپنے آپ کو سنی مسلمان کہتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھ آجاتا کہ یہ خلفاء کو ماننے والا مسلمان ہے ، اس طرح خلفاء رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرنے والے رافضیوں کے مقابلہ میں اہل سنت کی ایک الگ شناخت ہوگئی سنی مسلمان ۔ اس سلسلے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی یہ چار مسلک تو پہلے سے موجود ہیں پھر یہ پانچواں مسلک مسلک اعلٰی حضرت کیوں کہا جاتا ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلک اعلٰی حضرت یہ کوئی پانچواں مسلک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ چاروں مسلک حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی حق ہیں اور کسی ایک کی تقلید واجب ہے اور یہی امر اعلٰی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتب سے ثابت ہے اس لیے اگر کوئی شافعی یا حنبلی بھی اپنے آپ کو مسلک اعلٰی حضرت سے منسوب کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ فروعیات میں اپنے امام کی تقلید کے ساتھ ساتھ عقائد و معمولات اہل سنت کا بھی قائل ہے ۔ رہا یہ سوال کہ مخا لفین اس سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ پانچواں مسلک ہے تو ہم سارے معتضین کو چیلنچ کرتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے کسی عقیدہ کی تائید قرآن و سنت کی دلیل کے بغیر کی ہے ، کسی بھی موضوع آپ ان کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر عقیدہ کے ثبوت میں انہوں نے قرآنی آیات ، احادیث مبارکہ اور پھر اپنے مئوقف کی تائید میں علماء امت کے اقوال پیش کیے ہیں ، حق کو سمجھنے کےلیے شرط یہ ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکر امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ، مطالعہ کے دوران آپ واضح محسوس کریں گے کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ وہی کہہ رہے ہیں جو چودہ سو سالہ دور میں علماء و فقہاء علیہم الرحمہ کہتے رہے ہیں ۔ اب بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہوا ہو اور وہ مسلک کے لفظ کو اعلٰی حضرت کی طرف منسوب کرنے پر معترض ہو اور یہی سمجھتا ہو کہ یہ ایک نیا مسلک ہے تو وہابی ، دیوبندی سنبھل جائیں اور فقیر کے ایک سوال کا جواب دیں کہ مولوی محمد اکرم جو کہ دیوبندیوں کے معتمد مٶرخ ہیں ، انہوں نے موجِ کوثر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے عقائد و نظریات کا تذکرہ کرتے ہوئے بار بار مسلک ولی اللہ کا لفظ استعمال کیا تو کیا چاروں مسلک سے علیحدہ یہ مسلک ولی اللہ کوئی پانچواں اور نیا مسلک ہے ؟ جو آپ کا جواب ہوگا وہی ہمارا بھی ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment