کرسی پر نماز پڑھنے کا حکم حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امدادالفتاح شرح نورالایضاح میں ہے’’ یفترض (القیام) فی کل صلاۃ مفروضۃ او واجبۃ ، لان الواجب بمنزلۃ الفرض فیہ للقادر علیہ وعلی الرکوع والسجود ‘‘ یعنی ’’ ہر فرض نماز میں قیام فرض ہے اور واجب نماز میں بھی کیونکہ واجب بھی فرض کے قائم مقام ہے ایسے شخص پر (قیام فرض ہے جوزمین پر) رکوع اور سجدہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ (امداد الفتاح شرح نورالایضاح ،ص:۲۴۲ مطبوعہ صدیقی پبلشرز کراچی،چشتی)
حلبی الکبیر میں ہے ’’ والثانیۃ من الفرائض القیام ولو صلی الفریضۃ قاعداً مع القدرۃ علی القیام لا یجوز صلوتہ بخلاف النافلۃ ۔ ‘‘ یعنی ’’ نماز کے فرائض میں دوسرا فرض قیام ہے اور اگر قیام پر قادر ہونے کے باوجود فرض نماز بیٹھ کر پڑھی تو اس کی نماز جائز نہیں جبکہ نوافل بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ۔ (غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی المعروف حلبی الکبیری صفحہ ۲۲۹ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ کوئٹہ)
جو شخص مکمل طور پر قیام نہیں کر سکتا لیکن کچھ وقت یہاں تک کہ تکبیر تحریمہ کےلیے کھڑا ہو سکتا ہے تو اس کےلیے اپنی قدرت کے مطابق اتنی دیر کےلیے کھڑا ہونا لازمی ہے ۔
تنویرالابصارمع الدرالمختار میں ہے : وان قدرعلی بعض القیام ولومتکئاعلی عصاأوحائط قام لزوماً بقدرمایقدرولوقدرآیۃ أوتکبیرۃ علی المذہب،لأن البعض معتبربالکل ‘‘ یعنی ’’ اگر کچھ دیر قیام پر قادر ہے اگرچہ لکڑی یا دیوار کے سہارے سے تو جتنی دیر کھڑا ہو سکتا ہے اتنی دیر اس پر قیام کرنا لازم ہے اگرچہ وہ قیام ایک آیت یا تکبیرِ تحریمہ کہنے کی مقدارکے برابر ہو (صحیح) مذہب پر ، اس لیے کہ بعض قیام کوکل کیساتھ تعبیر کیاجائے گا ۔ (تنویرالابصارمع الدرالمختار کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المریض جلد ۲ صفحہ ۵۶۷ مکتبہ امدادیہ ملتان)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں’’ آج کل عموماً یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ جہاں ذرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کردی ، حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر لیا کرتے ہیں ، ان کو چاہیے کہ ان مسائل سے متنبہ ہوں اور جتنی نمازیں باوجود قدرت قیام بیٹھ کر پڑھی ہوں ان کا اعادہ فرض ہے ۔یونہی اگر ویسے کھڑا نہ ہو سکتا تھا مگر عصا یا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن تھا تو وہ نمازیں بھی نہ ہوئیں ، ان کا پھیرنا فرض ۔ اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائے ۔ (بہارشریعت،ج:۱، ص:۵۱۱،مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی)
مزید لکھتے ہیں’’ کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں بلکہ قیام اس وقت ساقط ہو گا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجد ہ نہ کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا چوتھائی ستر کھولتا ہے یا قرات سے مجبور محض ہو جاتا ہے یونہی کھڑا تو ہو سکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی تو (قیام ساقط ہو گاورنہ نہیں) ۔ (بہارشریعت جلد ۱ صفحہ ۵۱۱ مطبوعہ مکتبہ المدینۃ کراچی،چشتی)
کنزالدقائق میں ہے’’ تعذر علیہ القیام او خاف زیادۃ المرض صلی قاعداً یرکع ویسجد ‘‘ یعنی ’’ اگر نمازی پر قیام کرنا متعذر ہو یا مرض زیادہ ہونے کا خوف ہو تو بیٹھ کر رکوع اور سجدہ سے نماز پڑھے ۔ (کنز الدقائق علی البحرالرائق جلد ۲ صفحہ ۱۹۷ مطبوعہ قدیمی کراچی،چشتی)
اور جوشخص قیام کر سکتا ہے لیکن کمر میں شدید درد یا تکلیف یا زخم یا آنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر نے کچھ عرصہ کےلیے سر جھکانے سے منع کیا جس کی وجہ سے رکوع نہیں کر سکتا یا گھٹنوں میں درد یا تکلیف کی وجہ سے یا بڑھاپے اور کمزوری اور ضعیفی کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا مشکل یا ناممکن یا کم از کم بیماری کے دیر سے صحتیاب ہونے کا گمان غالب ہے لیکن ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کر سکتا ہے یا کوئی ایسی چیز زمین پر رکھے (جس پر سجدہ اپنے تمام شرائط کے ساتھ درست ہو جائے کہ وہ سخت چیز ہو جس پر پیشانی جم جائے مزید دبانے سے نہ دبے اور وہ چیز پتھر وغیرہ) جوزمین سے نو انچ سے زیادہ اونچی نہ ہو تو اس پر فرض و لازم ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ رکوع اور سجدہ ہی کرے اس کےلیے بیٹھ کر سجدہ کا اشارہ کافی نہیں ۔ لہٰذا ایسا آدمی جس نے بلا عذر شرعی بیٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنالی ہے یا تھوڑی بہت تکلیف یا کمر میں ہلکی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس پر فرض ہے کہ اپنی عادت کو شریعت کے تابع کرے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھی گئی نمازوں کی قضاء کرے ۔
سجدہ نماز میں فرض ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے ’’ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ‘‘ ترجمہ : اے ایمان والو : رکوع اور سجدہ کر و اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کا م کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو ۔ (سورۃ الحج ،آیت:۷۷)
حدیث پاک میں اس کی ادئیگی کا طریقہ اس طرح بیان فرمایا کہ ’’ عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اُمرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم علی الجبھۃ والید ین والرکبتین واطراف القدمَین ولانَکْفِتَ الثیاب والشعر ۔ متفق علیہ ۔ یعنی ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔ پیشانی ، دو نوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے ، دونوں قدموں کے کنارے اور یہ کہ کپڑے او ربال جمع نہ کریں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الصلاۃ صفحہ ۸۴ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)
امد ادلفتاح شرح نور الایضاح میں ہے ’’ یفترض (السجود) لقولہ تعالی (واسجدوا) ولامر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بہ وللاجماع علی فرضیتہ ، والسجدۃ انما تتحقق بوضع الجبھۃ لا لأنف ، مع وضع احدی الیدین واحدی الرکبتین وشیء من اطراف اصابع احدی القدمین علی طاہر من الارض ،فان لم یوجد وضع ھذہ الاعضاء لا تتحقق السجدۃ ‘‘ یعنی ’’ نماز میں سجدہ فرض ہے اللہ تعالی کے اس قول کی وجہ سے ’’ اور سجدہ کرو‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی اس کا حکم دیا ۔ اور اس کی فرضیت پر اجماع بھی ہے ۔ اور سجدہ ‘ یہ ہے کہ صرف ناک نہیں بلکہ پیشانی زمین پر جم جائے اور دونوں ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ اور دونوں گھٹنوں میں سے ایک گھٹنا اور دونوں پاؤں میں سے ایک پاؤں کے کنارے پاک زمین پر رکھے جائیں ۔ پس اگر ان مذکورہ اعضاء کا زمین پر رکھنا نہ پایا گیا تو سجدہ متحقق نہیں ہو گا ۔ (امداد الفتاح شرح نورالایضاح صفحہ ۲۵۴ مطبوعہ صدیقی پبلشرز کراچی،چشتی)
اس بحث سے معلوم ہوا کہ نماز میں قیام فرض ہے اور سجدہ بھی فرض ہے ۔ لہٰذا اگرکوئی شخص قیام کیساتھ ساتھ رکوع و سجود پر بھی قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تواس کی نماز اصلاً ادا نہ ہوگی کیونکہ قیام فرض ہے اور فرض کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا زمین پر یا اوپر مذکور متبادل چیز پر سجدہ پر قادر ہوتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر سجد ہ کا اشارہ کیا تو نماز اصلاً ادا نہ ہوگی اس طرح پڑھی گئی سب نمازوں کا اعادہ کرنا فرض ہے ورنہ فرض سر پر رہے گا ۔ اور اگر کوئی شخص واقع میں ایسا ہے جو کھڑا تو ہو سکتا ہے لیکن گھٹنوں یا کمر میں کسی بھی بیماری کی وجہ سے رکوع اور زمین پر سجدہ کر ہی نہیں سکتا یا وہ قیام تو کر سکتا ہے اور رکوع بھی کر سکتا ہے لیکن پیشانی یا حلق وغیرہ میں زخم ہے جو سجدہ کرنے سے بہتا ہے جس کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ اشارے سے نماز پڑھے اور بہتر یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع اور سجدہ کےلیے اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ کرے ۔ اگر نمازی کسی بھی طرح زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور سجدہ بھی کر سکتا ہے تو زمین پر بیٹھ کر سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرے ورنہ نماز درست نہیں ہوگی ، اور اگر سجدہ بھی نہیں کر سکتا لیکن زمین پر کسی طرح بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے تو زمین ہی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے ، ایسے شخص کےلیے کرسی پر نماز پڑھنا سخت مکروہ ہے ، ہاں اگر زمین پر کسی طرح نہیں بیٹھ سکتا تو مجبوراً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ آج کل اس معاملہ میں بہت کوتاہی ہوتی ہے ، معمولی بہانے سے لوگ کرسی پربیٹھ کر نماز پڑھنے لگتے ہیں ، اس لیے ایسے ہر شخص کو اپنی حالت کا جائزہ لینا چاہیے ، ورنہ نماز درست نہیں ہوگی ۔
باقی رہا مسئلہ صف کے درمیان کرسی رکھنے کا تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جن افراد کو شرعاً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ان کو چاہیے کہ اپنی کرسی صف کے ایک طرف رکھیں او رصف کو برابر رکھنے کی کوشش کرے تاکہ خومخواہ لوگوں کو باتیں کرنے کا موقعہ نہ ملے اور اگر درمیان صف میں بھی مذکورہ شخص نے کرسی رکھ دی توبھی اس سے قطع صف لازم نہیں آتی کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے اور اگرکوئی یہ سمجھے کہ اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے صف خراب ہو گئی ہے لہٰذا صف میں سب نمازیوں کے قد برابر ہونا ضروری ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ ایسا ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں اس لیے کہ کوئی چھوٹے قد کا او رکوئی بڑے قد کا ہوتا ہے ۔ امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ صف میں کچھ مقتدی کھڑے ، کچھ بیٹھے ہوں تو اس سے امر اول یعنی تسویہ صف پر کچھ اثر نہیں پڑتا کہ قائم و قاعد بھی خط واحد مستقیم میں ہو سکتے ہیں تسویہ میں ارتقاع کی برابر ملحوظ نہیں نہ وہ ملحوظ ہونے کے قابل کہ ایک پیمائش کے قد کہاں سے آئیں گے ۔ (فتاوی رضویہ جدید،ج:۷،ص:۲۲۳،رضافاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
ہاں مذکورہ تفصیل کے مطابق جس کو شرعاً کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں یعنی جو زمین پر بیٹھ کر زمین پر سجدہ کر سکتا ہے اگر وہ کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز تو ہو گی ہی نہیں (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) لہٰذا ایسا شخص جب صف کے درمیان میں کرسی رکھے گا تو اس سے ضرور قطع صف لازم آئے گی اور یہ گناہ بھی ہے جو نمازی اس پر راضی ہوں وہ بھی گنہگار ہیں لہٰذا امام مسجد ، کمیٹی مسجد اور دیگر نمازیوں پر فرض ہے کہ اپنی قدرت اور طاقت کے مطابق ایسے شخص کو درمیان صف میں کرسی نہ رکھنے دیں ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ’’ ہاں جبکہ بیٹھنے والے محض کسل و کاہلی (سستی) کے سبب بے معذوری شرعی بیٹھیں گے تو فرائض و واجبات مثل عیدین و وتر میں امر دوم و سوم کا خلاف لازم آئے گا کہ جب بلاعذر بیٹھے تو ان کی نماز نہ ہوئی اور قطع صف لازم آیا کہ نمازیوں میں غیر نماز ی دخیل ہیں ، ان بیٹھنے والوں کو خود فسادِ نماز ہی کا گناہ کیا کم تھا مگر انہیں یہاں جگہ دینا اور اگر قدرت ہو تو صف سے نکال نہ دینا یہ باقی نمازیوں کا گناہ ہو گا کہ وہ خود اپنی صف کی قطع پر راضی ہوئے اور جو صف قطع کرے اللہ اُسے قطع (اپنی رحمت سے دور) کر دے ، ان پر لازم تھا کہ انہیں کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور اگر نہ مانیں تو صفوں سے نکال کر دور کریں ہاں نمازی اس پر قادر نہ ہوں تو معذور ہیں اور اس قطع صف کے وبال عظیم میںیہی بیٹھنے والے ماخوذ ہیں یہ حکم فرائض و واجبات کا تھا ۔ (فتاوی رضویہ جدید جلد ۷ صصفحہ ۲۲۳ رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اوپر بیان کی گٸی تفصیل کے مطابق ایسا شخص جو زمین پر بیٹھ کر بھی زمین یا نو انچ کی متبادل سخت چیزپر سجدہ نہیں کر سکتا اس کےلیے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے ایسے لوگ اگر صف کے درمیان میں کرسی رکھ دیں تو قطع صف لازم نہیں آئے گی اور اس کے علاوہ کسی کےلیے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں جو لوگ بلاعذر شرعی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ان پر فرض و لازم ہے کہ اپنی عادت بدلیں اور اپنے آپ کو شریعت مطہرہ کے تابع کریں ایسا شخص اگر صف کے درمیان میں کرسی رکھ کر جماعت میں شامل ہو تو قطع صف لازم ہے گی لہٰذا مسجد انتظامیہ اور امام مسجد پر لازم ہے کہ چند ایک کرسیاں مسجد میں رکھیں تاکہ واقعی معذور افراد اس پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکیں باقی سب اٹھوا دیں ۔ اور گر کوئی کہے میں شریعت کو نہیں مانتا ‘‘ اس کا ایسا کہنا کفر ہے اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ تجدید ایمان اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے ۔ کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احکامات شریعت ہیں اس کو نہ ماننا شریعت کی توہین اور شریعت کی توہین کفر ہے ۔
شرح الفقہ الاکبر میں ہے : من أھان الشریعۃ أوالمسائل التی لابد منہاکفر ‘‘ یعنی ’’ جس نے شریعت کی یا ان مسائل کی توہین کی جوکہ ضروری ہیں تویہ کفر ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر،ص:۱۷۴،مکتبہ حقانیۃملتان،چشتی)
فتاوی عالمگیری جلد ۲ صفحہ ۲۹۲ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ ، پھر تاتارخانیۃ میں ہے ’’ رجل عرض علیہ خصمہ فتوی علیہ جواب الأئمۃ فردہ وقال : چہ بازنامہ فتوی آوردہ ؟ فقدکفر لأنہ ردحکم الشرع ، وکذالولم یقل ہذاولکن ألقی الفتوی علی الأرض وقال:این چہ شرع است ؟ فہذا کفر ‘‘یعنی’’ کسی شخص پراس کے مدِ مقابل نے فتوی پیش کیا کہ اس پر آئمہ کا جواب بھی تھا اوراس شخص نے واپس کر دیا ، اور (تکبرانہ اندازمیں ) کہا کہ : میرے لیے تو فتویٰ لایا ہے ؟ تو اس نے کفر کیا اس لیے کہ یہ شریعت کے حکم کو رد کرنا ہے ، اوراسی طرح اگر یہ جملہ نہیں کہا ، لیکن فتویٰ کو زمین پر پھینک دیا اور کہا کہ : یہ کیا شریعت ہے ؟ تو یہ بھی کفر ہے ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ کتاب أحکام المرتدین فصل فی العلم والعلماء ۔ الخ جلد ۵ صفحہ ۳۴۶ قدیمی کتب خانہ کراچی)
خلاصہ کلام : جو شخص قیام پر قادر نہیں لیکن رکوع و سجدہ کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے تو زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے ، کرسی پر بیٹھ کر رکوع و سجدے کے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز نہیں ، نماز نہیں ہوگی ، اور اگر قیام پر قادر ہے لیکن گھٹنے کمر میں شدید تکلیف کی وجہ سے سجدہ نہیں کر سکتا جب بھی کرسی پر بیٹھ کر نماز نہیں ہوگی کہ صف کے برار کرسی لگا کر نماز پڑھیں گے تو قیام کی صورت میں صف سے آگے ہونگے اور اگر قیام صف کے برابر کھڑے ہو کر کریں تو کرسی پر بیٹھنے کی صورت میں صف سے پیچھے ہو جائیں گے جو کراہت سے خالی نہیں ۔ اس لیے بہتر ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں اور رکوع سجود جس طرح بیٹھ سکتے ہیں بیٹھ کر یا اشارہ سے نماز پڑھیں ۔ ہاں اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے اور رکوع سجود بھی نہیں کر سکتے اور گھر کا کوئی فرد کرسی پر بٹا دے تو اشارہ سے نماز پڑھ سکتے ہیں تو بوجہ مجبوری نماز ہوجائے گی ۔ لیکن دورِ حاضر میں جو رواج ہے کہ لوگ چل کر مسجد کو آتے ہیں پھر کرسی پر نماز پڑھ تے ہیں ایسی صورت میں نماز نہ ہوگی ۔ اللہ عزوجل ہمیں شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment