شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ولی کی طرف سے بغیر دعوی نبوت کیے خلافِ عادت کام کے ظاہر ہونے کو ’’کرامت‘‘ کہتے ہیں ۔ کراماتِ اولیاء حق ہیں ، جس پر قرآن وسنت اور اسلاف کی کتب معتمدہ سے کثیر دلائل موجود ہیں ۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت میں سے ہے ۔ لہذا جو کراماتِ اولیاء کا انکار کرے ، وہ بدمذہب وگمراہ ہے ۔
اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قول کی حکایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ، قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ، وَ اِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ، قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ۔
ترجمہ : سلیمان ( علیہ السلام )نے فرمایا : اے درباریو ! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ؟ ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا، قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا ، امانتدار ہوں ۔ اس نے عرض کی ، جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا، ایک پل مارنے سے پہلے ۔ (پارہ 19، سورۃ النمل، آیت 38،39،40)
مفتی احمدیار خان نعیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ ولایت برحق ہے اور اولیاء اللہ کی کرامات بھی برحق ہیں ۔ (نورالعرفان صفحہ 816 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے : کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ، وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ، قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ، قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ۔
ترجمہ : جب زکریا اس (مریم) کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے ، اس کے پاس نیا رزق پاتے ، کہا : اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ بولیں : وہ اللہ کے پاس سے ہے ۔ (پارہ 3، سورۂ آل عمران، آیت37)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے : یہ آیت کراماتِ اولیاء کے ثبوت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر خوارق ( کرامات ) ظاہرفرماتا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ98 مطبوعہ ضیاء القرآن)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ باب الکرامات کے تحت فرماتے ہیں : کرامات جمع ہے کرامت کی بمعنی تعظیم واحترام ۔ اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب وغریب چیز ہے، جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو ۔ حق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے ، وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے ، سوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو ۔ جیسے وحی اور آیات قرآنیہ ۔ معتزلہ کرامات کا انکار کرتے ہیں ، اہل سنت کے نزدیک کرامت حق ہے ۔ آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے شام میں لے آنا ، حضرت مریم کا بغیر خاوند حاملہ ہونا اور غیبی رزق کھانا ، اصحابِ کہف کا بے کھانا ، پانی صدہا سال تک زندہ رہنا کراماتِ اولیاء ہیں ، جو قرآن مجید سے ثابت ہیں۔حضور غوث پاک کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں ۔ (مراۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 268 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)
امام ملا علی قاری رحمہ اللہ باب الکرامات کے تحت فرماتے ہیں : الکرامات جمع کرامۃ وھی اسم من الاکرام والتکریم وھی فعل خارق للعادۃ غیر مقرون بالتحدی وقد اعترف بھا اھل السنۃ وانکرھا المعتزلۃ واحتج اھل السنۃ بحدوث الحبل لمریم من غیر فحل وحصول الرزق عندھا من غیر سبب ظاھر وایضاً ففی قصۃ اصحاب الکھف فی الغار ثلٰثمائۃ سنۃ وازید فی النوم احیاء من غیر اٰفۃ دلیل ظاھر وکذا فی احضار اٰصف بن برخیا عرش بلقیس قبل ارتداد الطرف حجۃ واضحۃ ۔ مفہوم اوپر مذکور ہوا ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 11 صفحہ 88 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)
امام نسفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کرامات الاولیاء حق فتظھر الکرامۃ علیٰ طریق نقض العادۃ للولی من قطع مسافۃ البعیدۃ فی المدۃ القلیلۃ ۔
ترجمہ : اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں ، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مسافتِ بعیدہ کو مدتِ قلیلہ میں طے کر لے ۔
اس کی شرح میں علامہ تفتازانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : کأتیان صاحب سلیمان علیہ السلام وھو اٰصف بن برخیا علی الاشھر بعرش بلقیس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافۃ ۔
ترجمہ : مثلاً صاحبِ سلیمان علیہ السلام آصف بن برخیا کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے مسافت بعیدہ سے لے آنا ۔ (شرح العقائد النسفیہ مع متن العقائد، صفحہ 146 مطبوعہ ملتان)
شرح فقہ اکبر میں ہے : الکرامات للاولیاء حق ای ثابت بالکتاب والسنۃ ولا عبرۃ بمخالفۃ المعتزلۃ واھل البدعۃ فی انکار الکرامۃ ۔
ترجمہ : کراماتِ اولیاء حق ہیں ۔ یعنی قرآن و سنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کراماتِ اولیاء کا انکار کرنا معتبر نہیں ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 130 مطبوعہ ملتان،چشتی)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 14صفحہ 324 رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کرامتِ اولیا حق ہے ، اس کا منکر گمراہ ہے ۔ مردہ زندہ کرنا ، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا ، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا ، غرض تمام خوارقِ عادات (خلافِ عادات کام) اولیاء سے ممکن ہیں ، سوا اُس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کےلیے ممانعت ثابت ہو چکی ہے ۔ جیسے قرآن مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا یا دنیا میں بیداری میں اللہ عزوجل کے دیدار یا کلامِ حقیقی سے مشرف ہونا ، اس کا جو اپنے یا کسی ولی کےلیے دعویٰ کرے ، کافر ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 268 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،چشتی)
کرامت کے صدور کا اختیار ولی کے پاس : ⬇
کسی غیر نبی سے خارقِ عادت ، مافوق الفطرت اور خلافِ عقل فعل کا صدور کرامت کہلاتا ہے ۔ کرامت کا صدور اگرچہ بندے سے ہوتا ہے مگر اس کا فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی شخص کچھ چاہ بھی نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۔
ترجمہ : اور تم خود کچھ نہیں چاہ سکتے سوائے اس کے جو اللہ چاہے ، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ (سورہ الدَّهْر ، 76 : 30)
اور سورہ تکویر میں فرمایا ہے : وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ۔
ترجمہ : اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ (سورہ التَّکْوِيْر 81 : 29)
اس لیے جب عین فطرت اور عادت کے مطابق ہونے والے افعال کا صدور بھی بغیر حکمِ الٰہی کے ممکن نہیں تو خارقِ عادت واقعہ بغیر اذنِ الٰہی کے کیسے وقوع پذیر ہو سکتا ہے ؟ اس لیے کرامت کا اذن بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ جس کو جتنا چاہے اس میں اختیار عطا فرما دے ۔ ارشادِ ربانی ہے : قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔
ترجمہ : (اے حبیب! یوں) عرض کیجیے : اے ﷲ ، سلطنت کے مالک ! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے ، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے ۔ (سورہ آل عِمْرَان، 3: 26)
حدیثِ قدسی میں بیان کیا گیا ہے کہ نیک و صالح ہستیوں کو ان کی عبادت و ریاضت اور صالحیت کے سبب اس قدر قربِ خداوندی عطا ہوتا ہے کہ ان کا دیکھنا ، سننا پکڑنا اور چلنا عین اطاعتِ خداوندی میں آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اُس پر فرض کی ہیں ۔ مزید فرمایا : وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ ۔
ترجمہ : اور میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔ اور جب میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا قدم بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے ۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ پکڑے تو ضرور میں اسے پناہ دیتا ہوں اور کسی کام میں مجھے تردد نہیں ہوتا جس کو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو برا سمجھنے میں ، کیونکہ میں اس کے اس برا سمجھنے کو برا سمجھتا ہوں ۔ (بخاري، الصحيح، كتاب الرقاق، باب التواضع ، 5 : 2384 ، رقم : 6137 ، بيروت دار ابن كثير اليمامة،چشتی)
درج بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے جس قدر چاہے اختیار عطا فرماتا ہے ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ۔ ہم اس اختیار کا ناپ تول نہیں کر سکتے ۔
اولیاء اللہ کے اس اختیار کی مثالیں قرآن و حدیث میں بےشمار مواقع پر بیان کی گئی ہیں ۔ اختصار کی خاطر ان میں دو مثالیں درج ذیل ہیں : ⬇
حضرت سلمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کا تخت لانے کا فرمایا تو وہاں موجود ایک جن نے اس کےلیے اپنے مقام سے اٹھنے تک کی مہلت مانگی لیکن آپ علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لاکر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ قرآنِ مجید میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے : قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ۔
ترجمہ : (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) ، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا : یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری ، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کےلیے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز ، کرم فرمانے والا ہے ۔ (سورہ النَّمْل، 27: 40)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ، پھر اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ کے دوران پکارنے لگے : يَا سَارِيَةُ الْجَبَل ، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل ، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ عُمَرُ، فَقَال : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هُزِمْنَا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا صَوْتًا يُنَادِي: يَا سَارِيَةُ إِلَى الْجَبَل ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَل فَهَزَمَهُمُ اللهُ تَعَالَى، وَكَانَتِ الْمَسَافَةُ بَيْنَ الْمَدِينَةِ حَيْثُ كَانَ يَخْطُبُ عُمَرُ وَبَيْنَ مَكَانِ الْجَيْشِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ ۔
ترجمہ : اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو ! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو ! اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو ! پھر لشکر کا قاصد آیا تو حضرت عمر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا ۔ وہ عرض گذار ہوا : اے امیر المومنین ہم شکست خوردہ ہو گئے ، ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے ایک آواز سنی ، کوئی پکار رہا تھا : اے ساریہ پہاڑ کی طرف دیکھو ، یہ بات اس نے تین بار کہی ، تو ہم نے اپنی پشت کو پہاڑ کی طرف کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دیدی اور جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے ، اس وقت مدینہ منورہ اور لشکر کی جگہ کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی ۔ (صهيب عبد الجبار، الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، 15: 333، الكتاب غير مطبوع)
معلوم ہوا کہ کرامت اللہ تعالیٰ کا اپنے اولیاء اور نیک بندوں کو عزت و توقیر دینے کا نام ہے ۔ جس کو جس قدر چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment