Thursday, 18 August 2022

شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ دوم

شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اولیاء کرام اللہ تعالی کے محبوب بندے و مقربان بارگاہ ہوتے ہیں ، اللہ تعالی یہ گوارا نہیں کرتا کہ کوئی شخص انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے یا ان کی شان میں نامناسب الفاظ کہے ، اللہ تعالی اولیاء کرام کو تکلیف دینے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث قدسی ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ، كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : جس شخص نے میرے ولی سے عداوت رکھی میں اس سے اعلان جنگ کردیتا ہوں، جس چیز سے بھی بندہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ عبادت ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوفل سے میرا تقرب کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ، میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور بنا دیتا ہوں اور میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں ۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں ۔ (صحیح البخاری کتاب الرقاق رقم الحدیث : ٦٥٠٢)(حلیتہ الاولیاء ج ١ ص ١٥، طبع جدید)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٤٧،چشتی)(السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٣٤٦، ج ١٠ ص ٢١٩، کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٤٩١)(صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٥)(مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٢٦٦)(کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٣٢٧)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٥٢ ھ اور حافظ محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٥٥ ھ نے لکھا ہے کہ عبدالواحد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں اس کا دل ہو جاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے اور میں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے ۔ (فتح الباری جلد ١١ صفحہ ٣٤٤، مطبوعہ لاہور)(عمدۃ القاری جز ٢٢ صفحہ نمبر ٩٠، مطبوعہ مصر،چشتی)

اللہ اپنے محبوب بندے کے کان اور آنکھیں ہو جاتا ہے اس کی توجیہ اللہ تعالیٰ بندہ کے کان اور آنکھیں ہو جاتا ہے اس کی کیا توجیہ ہے ؟ عام طور پر شارحین اور علماء نے یہ کہا ہے کہ بندہ اپنے کانوں سے وہی سنتا ہے جس کے سننے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پانی آنکھوں سے وہی دیکھتا ہے جس کے دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو بندہ کا سننا ، اللہ کا سننا اور بندہ کا دیکھنا ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا : میں اس کے کان ہو جاتا ہوں اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں بنے گا جب تک کہ اس کا سننا ، اس کا دیکھنا ، اس کا تصرف کرنا اور اس کا چلنا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہ ہو اور جب اللہ اس کو اپنا محبوب بنا لے گا تو پھر اس کے کان ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہے کا معنی یہ نہیں ہو سکتا ۔

اس حدیث کی بہترین توجیہ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے وہ فرماتے ہیں : بندہ جب عبادت پر دوام کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں اور اس کے کان ہوجاتا ہوں پس جب اللہ کا نور جلال اس کے کان ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور دور سے سن لیتا ہے اور جب اس کا نور جلال اس کی آنکھ ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور بعید کو دیکھ لیتا ہے اور جب اس کا نور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے تو وہ مشکل اور آسان چیزوں پر اور قریب اور بعید کی چیزوں کے تصرف پر قادر ہو جاتا ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد ٧ صفحہ ٤٣٦، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ولی فراٸض پر دوام اور نوافل پر پابندی کرنے سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے لیکن بندہ ، بندہ ہی رہتا ہے خدا نہیں ہو جاتا جیسے آئینہ میں کسی چیز کا عکس ہو تو آئینہ و چیز نہیں بن جاتا اس کی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے بلاتشبیہ تمثیل جب بندہ کامل کی اپنی صفات فنا ہوجاتی ہیں تو وہ اللہ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے ۔

شیخ الحدیث دیوبند جناب انور شاہ کشمیری متوفی ١٣٥٢ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فلما اتھانودی من شاطئی الوادالایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان تموسی انی انا اللہ رب العلمین ۔ (القصص : ٣٠) ، پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو انہیں میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں ایک درخت سے ندا کی گئی کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پروردگار ۔ دکھائی یہ دے رہا تھا کہ درخت کلام کر رہا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی اپنی طرف نسبت فرمائی کیونکہ اللہ جل مجدہ نے اس درخت میں تجلی فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کےلیے وہ درخت واسطہ بن گیا تھا تو جس میں تجلی کی گئی تھی اس نے تجلی کرنے والے کا حکم لے لیا اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ تجلی میں صرف صورت نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ضرورت کی وجہ سے آگ میں (یا درخت میں) تجلی فرمائی تھی اور جب تم نے تجلی کا معنی سمجھ لیا تو سنو جب درخت کیلیے یہ جائز ہے کہ اس میں یہ ندا کی جائے کہ بیشک میں اللہ ہوں تو جو نوافل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے وہ اللہ کی سمع اور بصر کیوں نہیں ہوسکتا وہ ابن آدم جو صورت رحمن پر پیدا کیا گیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درخت سے کم تو نہیں ہے (یعنی جب شجر موسیٰ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا مظہر ہوسکتا ہے تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ولی جو اللہ کا محبوب ہوجائے وہ اللہ کی صفت سمع اور بصر کا مظہر کیوں نہیں ہوسکتا) ۔ (فیض الباری جلد 4 صفحہ 429 مطبوعہ مجلس علمی ہند 1357 ھ،چشتی)

اللہ تعالیٰ کے تردد کرنے کی توجیہ اس حدیث کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں ۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کے رنجیدہ ہونے کو ناپسند کرتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرتا جب تک کہ وہ اپنی موت پر راضی نہ ہو جائے ۔ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی صفت میں تردد جائز نہیں ہے اور نہ ہی بداء جائز ہے ۔ (ابداء کا معنی یہ اللہ کوئی کام کرے پھر اس کو اس کام میں کسی خرابی کا علم ہو تو وہ اس کام کو تبدیل کر دے اس لیے ہم نے یہاں تردد کا معنی تاخیر کیا ہے) لہٰذا اس کی دو تاویلیں ہیں : ⬇

انسان اپنی زندگی میں کسی بیماری یا کسی آفت کی وجہ سے کئی مرتبہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی اور اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کو اس بیماری سے شفا عطا فرماتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور اس کا یہ فعل اس طرح ہوتا ہے جیسے ایک آدمی کو تردد ہوتا ہے وہ پہلے ایک کام کرتا ہے پھر اسے اس کام میں کوئی خرابی نظر آتی ہے اس پر لازماً موت آتی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے : دعا مصیبت کو ٹال دیتی ہے اس کا بھی یہی معنی ہے ۔ حصرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تقدیر کو صرف دعا بدل دیتی ہے اور عمر صرف نیکی سے دعا ہوتی ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٩، چشتی)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦١٢٨)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر صرف خیر سے زیادہ ہوتی ہے ۔ (مسند احمد جلد ٣ صفحہ ٣١٦)

اس کی دوسری تاویل یہ ہے کہ میں جس کام کو کرنے والا ہوں میں اس کام کے متعلق اپنے رسولوں (فرشتوں) کو کسی صورت میں واپس نہیں کرتا جیسا کہ میں بندہ مومن کی روح قبض کرنے کے معاملہ میں اپنے رسولوں (فرشتوں) کو واپس کرلیتا ہوں جیسا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت علیہما السلام کے واقعہ میں ہے اور حضرت موسیٰ نے تھپڑ مار کر ملک الموت کی آنکھ نکال دی تھی اور ملک الموت ایک بار واپس لوٹنے کے بعد دوبارہ ان کے پاس گیا تھا اور ان دونوں تاویلوں میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ پر لطف و کرم اور اس پر اس کی شفقت کا اظہار ہے ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت کے واقعہ کی تفصیل اس حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ علیہما السلام کی طرف بھیجا گیا جب ان کے پاس ملک الموت آیا تو حضرت موسیٰ نے ان کے تھپڑ مارا ۔ (مسلم کی روایت میں ہے : ان کی آنکھ نکال دی) ملک الموت اپنے رب کے پاس لوٹ گئے اور کہا تو نے مجھے ایسے بندہ کی طرف بھیجا ہے جو مرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا : دوبارہ جاٶ اور ان سے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھ دیں ، آپ کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے بدلہ میں آپ کی عمر میں ایک سال بڑھا دیا جائے گا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا : اے رب ! پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا : پھر موت ہے ۔ حضرت موسیٰ نے کہا : پھر اب ہی موت آجائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کو ارض مقدسہ کے اتنے قریب کر دے جتنے قریب ایک پتھر پیھنکنے کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا ، رسول اللہ نے فرمایا : اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو حضرت موسیٰ کی قبر دکھاتا جو کثیب احمر (سرخ ریت کے ٹیلہ) کے پاس راستہ کے ایک جانب ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٩)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٢)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٨٩)(مسند احمد جلد نمبر ٣ صفحہ نمبر ٣١٥،چشتی)(کتاب الاسماء و الصفات ص ٤٩٣، ٤٩٢ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کو اذیت پہنچانے والے کے خلاف اعلان جنگ کر دیتا ہے بعض مرتبہ اللہ تعالی اپنے دوستوں کا امتحان ان کے مخالفین اور دشمنوں کے ذریعہ فرماتا ہے ، مگر پھر بہت جلد مخالفین پر غضب نازل ہونے لگتا ہے ، یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بزرگوں کی مخالفت کی لیکن ہمارا کچھ نہ بگڑا ، اولیاء اللہ کو ستانا کبھی خالی نہیں جاتا ۔ اللہ تعالی کا حلم تیرے ساتھ لطف و نرمی کا معاملہ کرتا ہے لیکن جب تو حد سے بڑھ جاتا ہے تو پھر تجھے وہ رسوا کر دیتا ہے ۔ اولیاء اللہ کے ساتھ بے ادبی کرنے سے بھی خاتمہ خراب ہوتا ہے ۔ یاد رکھو آج کل یہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ اولیاء اللہ کے ساتھ بڑی بے ادبی ہو رہی ہے معلوم نہیں ان کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے ۔ افسوس اولیاء اللہ کی یہ قدر ہے آپ کے پاس اللہ کے دوستوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے ، یہ حال ہے تو تب کیا حال ہو گا آپ کا ، خیال کرلو اس کو یاد رکھو ہر گز ایسا راستہ اختیار نہ کرنا ۔

محبت و شانِ اولیائے کرام علیہم الرّحمہ

محترم قارئینِ کرام : اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے انسان کوطرح طرح کی نعمتیں عطا کی ہیں جن کا انسان شمار بھی نہیں کر سکتا انسانوں اور جنوں کو محض اللہ پاک کی عبادت کےلیے پیدا کیا گیا ہے تاریخ اسلام پراگر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کےلیے انبیاء کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا انبیاءِ کرام علیہم السّلام نے اپنے اپنے ادوار میں مخلوق کی ہدایت کا فریضہ بخوبی انجام دیتے رہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبین ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعدنبوت کاسلسلہ ختم ہو گیا ۔ ان صفات کے حامل جو اللہ کے ولی یعنی دوست ہیں ، ان کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب فرمایا : اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ۔ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ۔
ترجمہ : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔ (سورۃ یونس آیت 62)

لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاء سے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے ۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ، جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے ، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے ۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے ، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے ۔

اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کو کہتے ہیں ۔ جن کو نہ دنیا میں اورنہ آخرت میں کسی قسم کاخوف اورغم ہے ۔ مالک الملک کی محبت اطاعت اور خشیت نے انہیں ہرقسم کے خوف اورغم سے آزاد کر دیا ہوتا ہے اوروہ مرتبہ ولایت پر فائز ہو گئے یعنی اولیاء اللہ بن گئے ۔ اولیاء کرام کی محبت درحقیقت دارین کی سعادت اور رضائے الٰہی کاسبب ہے ۔ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مخلوق کی حاجتیں پوری کرتاہے ان کی دعاﺅں سے خلق فائدہ اٹھاتی ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : اللہ کے ولیوں سے محبت کیجیے ، ضرور کیجیے لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ سورہ توبہ میں ولیوں کی دی ہوئی پہچان کو سامنے رکھ کر کسی کو ولی خیال کیجیے اور پھر اس سے محبت کیجیے ۔۔۔۔ اور اس محبت میں بھی یہ خیال ضرور رکھیے کہ محبت بھی کئی طرح کی ہوتی ہے ۔ یہ محبت بھی بڑی پاکیزہ ہوتی ہے لیکن یاد رکھیے ! بیوی والی محبت ماں سے نہیں کی جا سکتی کہ ماں سے یہ محبت تو سراسر حرام اور ناپاک ہے ۔

بات سمجھیے : جو اللہ سے محبت ہے وہ بحیثیت معبود اور مسجود کے ہے ۔ اللہ کی محبت میں ڈوب کر بندہ اس کے حضور قیام کرتا ہے ، رکوع میں جاتا ہے ، سجدے میں گرتا ہے ، اسے پکارتا ہے ، ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتا ہے ، رات کے اندھیرے میں بن دیکھے اس کے ساتھ سرگوشیاں کرتا ہے ۔ یہ عقیدہ رکھ کر کہ وہ میرا اللہ میری ہر حرکت اور میرے ہر بول سے آگاہ ہے ، وہ میرے ساتھ ہے ، میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی اپنے علم کے زور سے ہر بات سے آگاہ ہے ۔ اب اگر ایسی محبت کا انداز آپ نے کسی اور کے ساتھ اختیا ر کر لیا ، کسی مومن ولی کے ساتھ اختیار کر لیا تو آپ نے ظلم عظیم کر لیا ، محبت میں شرک کا ارتکاب ہو گیا ، دوسرے لفظوں میں اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کامل اطاعت ہے ۔

اسی طرح ولی کے ساتھ محبت کا مطلب ہے کہ اگر وہ کتاب و سنت کا پیروکار ہے تو اس کی نصیحت کو سنا جائے ، وہ کتاب و سنت کا مبلغ ہے تو اس کا ساتھ دیا جائے ، اس سے تعاون کیا جائے ، دین کی سربلندی کے لیے اس کا ساتھی بن کر اپنا مال خرچ کیا جائے ، پسینہ بہایا جائے اور خون بھی پیش کرنا پڑے تو وہ بھی پیش کر دیا جائے ۔ وہ بیمار ہو تو عیادت کی جائے ، تحفہ تحائف پیش کیے جائیں کہ اس سے محبت بڑھتی ہے ۔ ایسے زندہ ولی سے رب کے حضور دعا کرائی جائے ۔یہ ہے ولی سے محبت اور اسے ماننا۔بس ماننے ماننے میں فرق ہے،محبت محبت میں فرق ہے۔ہم کہتے ہیں :

رب کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو ۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مانو اور اس کی اطاعت کرو ۔

نیک بندوں کو بندے ہی رہنے دو اور دین کی سربلندی کے لیے ان کا ساتھ دو اور اگر وہ فوت ہو چکے ہیں تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرو اور ان کے وہ اچھے کام جو کتاب و سنت کے مطابق تھے،انہیں اختیار کرو ۔

وَلِیُّ اللہ کی علامات

علماء نے ’’ ولی اللہ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو ۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔
ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ’’ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔
بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے۔
بعض بزرگانِ دین نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا دلیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ (تفسیر خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۲/۳۲۲-۳۲۳ ، چشتی)
یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۰۵)

لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ : اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3معنی درج ذیل ہیں :
(1) مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔
(2) مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ (تفسیر البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ : ۳۸، ۱/۳۲۳، چشتی)
(3) قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہتعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ (تفسیر جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲، ۳/۸۸۰) ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں ۔

اولیاءِ کرام کی اَقسام

اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ احمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق، وَرع و تقویٰ کی سچائی، نیت کی اچھائی، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی، اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کے لیے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں۔ پس وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے نائب ہیں۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 رحمن عَزَّوَجَلَّ کے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے یقین کی مثل ہیں۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ،اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ،(پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی)’’ اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ‘‘(سورہ المجادلۃ:۲۲)
ترجمہ : یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (نوادرُ الاصول، الاصل الحادی والخمسون، ۱/۲۰۹، الحدیث: ۳۰۱، چشتی)

حضرت شریح بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱/۲۳۸، الحدیث: ۸۹۶، چشتی)
اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قطب، اَبدال وغیرھما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں :
(1) اَقطاب۔ یہ قُطب کی جمع ہے۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو۔
(2) اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔
(3) اَوتاد۔ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے۔
(4) اَبدال۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ا بدال کہتے ہیں۔
(5) رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ (جامع کرامات اولیاء، القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱/۶۹، ۷۴، چشتی)
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا:وہ جو ایمان لائے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :
(1) ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو۔
(2) ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا ۔ (صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۳، ۳/۸۸۰) اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرنے والا ہو۔

شان اولیاء احادیث مبارکہ کی روشنی میں

اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کی شان و پہچان میں ایک جامع ترین حدیث

حدیثِ قدسی ہے میں ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن الله قال: من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، وإن سألني لأعطينه، ولئن استعاذني لأعيذنه ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے گا تو اس کے ساتھ میرا اعلانِ جنگ ہے ،
اور بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ محبوب ترین چیز(جس سے اللہ کا قرب ملتا ہے وہ چیز) وہ ہے جو میں نے اس پر لازم کی ہیں(یعنی فرائض و واجبات سے اللہ کا قرب ملتا ہے) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے(یعنی اللہ کا ولی وہی سنتا ہے جو اللہ کو پسند ہو) اور میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے(یعنی اللہ کا ولی وہی کچھ دیکھتا ہے جو اللہ کو پسند ہو اس لیے آنکھوں کے گناہ سے دور رہتا ہے) اور میں اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے (یعنی اللہ کے ولی کے ہاتھ اللہ کی نافرمانی ظلم و گناہ میں مبتلا نہیں ہوتے) اور میں اس کے قدم ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (یعنی اللہ کے ولی کے قدم کبھی برائی کی طرف نہیں اٹھتے) اگر وہ (باعمل نیک عبادت گذار پرہیزگار ولی اللہ) مجھ سے کچھ سوال کرتا ہے تو میں ضرور اسے دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو ضرور پناہ دیتا ہوں ۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021،چشتی)

حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے: محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔

انبیاء کرام علیہم السّلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اولیاء اسلاف علیہم الرّحمہ کے گستاخ لوگ ولی اللہ نہیں بلکہ اللہ کے دشمن ہیں ۔

حدیث قدسی مین اللہ فرماتا ہے کہ : من أهان لي وليا فقد بارزني بالمحاربة ۔
ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی توہین و گستاخی کی بے شک وہ مجھ سے جنگ کے مقابلے میں نکل آیا ۔ (مجمع الزوائد حدیث نمبر17951)

اولیاء کرام ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر اللہ کی یاد آئے

حدیث : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أولياء الله؟ قال: «الذين إذا رءوا ذكر الله ۔
ترجمہ : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ کے اولیاء کون ہوتے ہیں ...؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اللہ کے ایسے فرمانبردار باعمل نیک پرہیزگار، فناء فی اللہ کہ)جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے ۔ (السنن الکبری للنسائی حدیث11171،چشتی)

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی(علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضورۖ کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں۔

لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے۔

حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے۔

بزرگان دین فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے: 1. سود۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت۔''

حضرت علامہ علی قاری مکی حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)

حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلینۖ کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے۔

حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پائوں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ اب اس کا سننا، دیکھنا، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

''تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے )اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے؟ '' تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 40 میں ہے :

ترجمہ: ''اس شخص نے جسکے پاس کتاب کا علم تھا کہا: میں آپکے پاس وہ تحت آپکی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں۔''

یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمدمصطفیۖ کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے۔

اس حدیث میں اولیاء کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے۔

روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة و السلام کا ارشاد ہے، جوکہ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : ترجمہ: ''بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔

حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لائوڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے۔

چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہمعات نمبر 11میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ''حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی قبر انور میں زندہ اولیاء کی طرح تصرف فرمارہے ہیں ۔

علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے۔

حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے۔ حضور نبی اکرمۖ نے صحابہ کرام کو حضرت اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے:
ترجمہ : ''تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں۔

اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا:
ترجمہ: ''یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے۔''

چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6صفحہ 356طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب میں فرمایا : عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔

حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہو جائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتا ہے ۔ (مزیدحصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...