Saturday 20 August 2022

شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ ششم

0 comments
شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے ان کے وصال (Death) کے بعد بھی کرامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمہور اہلِ سنّت کا یہی مؤقّف ہے کہ اولیائے کرام سے ان کی حیات اور بَعْدَالْمَمَات (یعنی مرنے کے بعد) کرامات کا ظہور ہوتا ہے (فِقْہ کے) چاروں مَذاہِب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جو وِصال کے بعد اولیا کی کرامات کا انکار کرتا ہو بلکہ بعدِ وصال کرامات کا ظہور اَولیٰ ہے کیونکہ اس وقت نفس کَدُورَتَوں سے پاک ہوتا ہے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ نمبر 363)

مُنکرِ کرامات کا حکم

یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت میں سے ہے لہٰذا جو کراماتِ اولیا کا انکار کرے ، وہ بَدمذہب و گمراہ ہے چنانچہ امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 324)

شَرح فقہِ اَکبر میں ہے : کراماتِ اولیا قرآن و سنّت سے ثابت ہیں ، مُعْتَزِلَہ اور بِدْعَتِیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ نمبر 141)

کرامت کی قسمیں

امام یوسف بن اسماعیل نَبْہَانِی رحمۃ اللہ علیہ نے کراماتِ اولیا کے موضوع پر اپنی کتاب”جامع کراماتِ اولیاء“ کی ابتدا میں کرامت کی ستّر سے زیادہ اقسام (Types) کو بیان فرمایا ہے ۔

اولیائے کرام سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کی اَقسام اور ان کی تعداد کے متعلّق امام تاجُ الدّین سُبْکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی اقسام کی کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں ان کی تعداد 100 سے بھی زائد ہے ۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ جلد 2 صفحہ 78،چشتی)

کراماتِ اولیا کی چند مثالیں

مُردَہ زندہ کرنا ، مُردوں سے کلام کرنا، مادَر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا ، مَشرِق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا ، دریا کا پھاڑ دینا ، دریا کو خُشک کر دینا ، دریا پر چلنا ، نباتات سے گفتگو ، کم کھانے کا کثیر لوگوں کو کِفایَت کرنا وغیرہ ۔

حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ نمبر 363)

حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا : یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے ؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے : كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ ۔ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ ۔ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ ۔ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ ۔
ترجمہ : جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا ؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے ۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)

اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پیے سوئے رہنا بھی (کرامت کی دلیل) ہے ۔ (تحفۃ المرید صفحہ 363)

کُتُبِ اَحادیث میں کرامات پر بے شمار روایات موجود ہیں ، بعض عُلَما و مُحَدِّثِین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں ۔ایک روایت ملاحظہ فرمائیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھیے کہ اپنی مَوت ، نَوعِیَتِ مَوت ، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی ۔ چنانچہ حضرت جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا : میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کےلیے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 454 حدیث نمبر 1351،چشتی)

امیرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : اے فُلاں ! اللہ  پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ : وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ ترجمہ : اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کےلیے دو جَنّتیں ہیں ۔ (پ 27 ، الرحمٰن : 46) ، اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے ؟ اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارا اور بُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا : میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین صفحہ 612،چشتی)

حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے ۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا : اے شیر ! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں ، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے ۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہو گیا ۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا ، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا ۔ (مشکواۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 400 ، حدیث : 5949)

معتزلہ کے علاوہ تمام اُمت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ حیاتِ برزخیہ برحق ہے ۔ معتزلہ نے درحقیقت مُردوں کی حیات کی نفی کر کے عذابِ قبر کا انکار کیا تھا ۔

علامہ سعد الدین تفتازانی علیہ الرحمہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں : وأنکر عذاب القبر بعض المعتزلۃ والروافض لأن المیت جمادُ لا حیاۃ لہُ ولا إدراک فتعذیبہ محال ۔ (شرح عقائد نسفی: 72)
ترجمہ : بعض معتزلہ اور روافض نے عذابِ قبر کا انکار اس بنا پر کیا کہ ان کے نزدیک میت پتھروں کی طرح ہے جس میں نہ کوئی زندگی ہے نہ شعور اس لئے اسے عذاب دینا محال ہے ۔

عام اموات اور بالخصوص انبیاء علیہم السلام ، شہداء اور اولیاء کی حیاتِ برزخی پر پوری اُمت کا اجماع ہے ۔

علامہ ابنِ قیم نے لکھا ہے : و السلف مجمعون علی ہذا ، وقد تواترت الآثار عنهم بأن المیت یعرف زیارۃ الحیی له ویستبشر به ۔ (کتاب الروح صفحہ 5)
ترجمہ : سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے اور ان سے تواترِ آثار سے مروی ہے کہ بے شک عام میت (قبر میں) اپنے پاس آنے والے زندہ کی زیارت کو پہچانتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے ۔

لہٰذا استعانت کے باب میں حیات و ممات کا امتیاز درست نہیں کیونکہ استعانت جسم سے نہیں روح سے ہوتی ہے اور روح نہ وقتِ وفات مرتی ہے نہ قبر میں مُردہ ہوتی ہے ۔ وصال کے بعد اِستعانت کے بارے میں قرآن و حدیث میں متعدد دلائل موجود ہیں ۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : ⬇

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ نے آیت : اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ ۔ (سورہ الانعام، 6: 89) کے تحت ’’التفسیر الکبیر 13 : 67 ، 68‘‘ میں لکھا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو باذنِ الٰہی مخلوق کے ظاہر و باطن پر قدرت و تصرف کا اختیار حاصل ہے ۔ {فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا} کے تحت امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں وارِد ان پانچ کلمات - النازعات ، الناشطات ، السابحات ، السابقات اور المدبرات - کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ان سے مراد اَرواحِ انسانیہ ہیں : ثم إِنَّ ہذہ الأرواح الشریفۃ العالیۃ لا یبعد أن یکون فیها ما یکون لقوتها وشرفها یظهر منها الآثار فی أحوال هذا العالم فهی المدبرات امراً ألیس أن الإنسان قد یری أستاذه فی المنام ویسأله عن مشکلۃ فیرشده إلیھا؟ ألیس أن الابن قد یری أباه فی المنام فیھدیه إلی کنز مدفون؟ ألیس أنّ جالینوس قال: کنت مریضاً فعجزت عن علاج نفسی فرَأیت فی المنام واحدًا أرشدنی إلی کیفیۃ العلاج ۔ (تفسیر الکبیر، 31: 29،چشتی)
ترجمہ : پھر یه بلند مرتبت ارواحِ طیبہ ، بعید نہیں کہ ان میں ایسی اَرواح بھی ہوں جو اپنے شرف اور قوت کے لحاظ سے اس جہان کے احوال میں اثر انداز اور مدبرات امر کے مرتبہ پر فائز ہوں ۔ جیسے کبھی شاگرد یا مرید کو کوئی مشکل پیش ہو تو اُستاد اور شیخ خواب میں اس کی رہنمائی کردیتا ہے اور کبھی باپ فوت ہوجانے کے بعد بیٹے کو مدفون خزائن کی خبر دے دیتا ہے ۔ جالینوس نے کہا : جب میں اپنے مرض کے علاج میں ناکام ہوا تو میں نے خواب میں کسی کو دیکھا کہ اس نے مجھے طریقۂ علاج بتلایا (جس پر عمل پیرا ہو کر میں صحت یاب ہو گیا) ۔

امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : أن التضییق والانحصار لا یتصور فی الروح ۔ وإنما یکون فی الجسد والروح إذا کانت لطیفۃ یتبعها الجسد فی اللطافۃ فتصیر بجسدھا حیث شاءت و تتمتع بما شاء ت وتأوی الی ما شاء اللہ لها کما وقع لنبینا علیه الصلوۃ والسلام فی المعراج ۔ ولأتباعه من الأولیاء حیث طویت لهم الأرض وحصل لهم الأبدان المکتسبۃ المتعددۃ، وجدوھا فی أماکن مختلفۃ فی آن واحدٍ واللہ علی کل شیئٍ قدیر۔ وهذا فی العالم المبنی علی الأمر العادی غالباً فکیف وأمر الروح والآخرۃ کُلها مبنیۃ علی خوارق العادات ۔ (مرقاۃ المفاتیح، 4: 31)
ترجمہ : محل اور مقام میں تنگی و پابندی اور قید و حبس روح کے لحاظ سے تصور نہیں کی جا سکتی بلکہ صرف جسد عنصری میں ہوتی ہے ۔ روح جب لطیف اور پاکیزہ تر ہو جائے تو جسم بھی نورانیت اور لطافت میں اس کے تابع ہو جاتا ہے اور بدن کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے اور جہاں فائدہ اٹھاتا ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہے پہنچاتا ہے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج یہ بلند ترین مقام نصیب ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع اولیاء اللہ کےلیے بھی جب کہ ان کےلیے زمین سمیٹ دی جاتی ہے اور انہیں بہت سے مثالی بدن حاصل ہو جاتے ہیں جنہیں وہ آنِ واحد میں مختلف مکانوں میں موجود پاتے ہیں اور اللہ جل شانہ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے ۔ روح کےلیے یہ لطافت اور نورانیت اور قدرت و طاقت اس عالم میں ہے جو کہ غالباً اُمورِ عادیہ پر مبنی ہے اور جب یہاں ان اُمور میں استبعاد نہیں تو دارِ بقاء و آخرت میں کون سا اِستبعاد ہو سکتا ہے کیونکہ روح کے اور آخرت کے تمام معاملات خرقِ عادت پر مبنی ہیں ۔

امام عبدالوہاب شعرانی (م 973ھ) مشہور ولی اللہ شیخ موسیٰ ابو عمران علیہما الرحمہ کے حالاتِ زندگی میں تحریر کرتے ہیں : وکان إذا ناداہُ مریدہُ أجابہُ من مسیرۃ سنۃ أو أکثر ۔ (لواقع الأنوار في طبقات الأخیار، 2: 21)
ترجمہ : ابو عمران کا مرید جب اِن کو ایک سال یا اِس سے بھی زائد عرصہ سفر کی مسافت سے پکارتا تو وہ اِس کی پکار کا جواب دیتے تھے ۔

شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ نے بعد از وصال اَولیاء اللہ کی ارواحِ مقدّسہ کے تصرف کے بارے میں لکھا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : قرآن و احادیث سے قطعاً ثابت ہے کہ روح باقی رہتی ہے فنا نہیں ہوتی ۔ اِس کو زائرین اور اِن کے احوال کا علم و شعور بھی حاصل ہوتا ہے ۔ کاملین کی ارواح کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عظیم میں قرب اُسی طرح ہوتا ہے جیسے حیاتِ دنیوی میں تھا بلکہ اِس سے بھی زیادہ ۔ اولیاء اللہ کو کرامات اور دنیا میں تصرف حاصل ہے اور اِ س کا ثبوت صرف اُن کی ارواح کےلیے ہے اور ارواح باقی رہتی ہیں اور متصرف حقیقی بالذات و مستقل سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور تمام قدرت اُسی کی ہے اور وہ اولیاء اللہ اپنی حیاتِ ظاہری میں اور موت میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو چکے ہیں پس اگر کسی شخص کو اِن کے واسطہ سے کچھ عطا کیا جائے اُس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اِن کےلیے ثابت ہے تو یہ امر بعید نہیں ہے جیسا کہ زندگی میں اِن کو تصرف حاصل تھا ۔ فعل اور تصرف ہرحال میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور کوئی چیز نہیں جو زندگی اور موت میں فرق کرے اور نہ ہی اس فرق پر کوئی دلیل پائی گئی ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد 1 صفحہ 716)

مزید بعد از وصال مدد و اِستعانت کے موضوع پر شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ’’أشعۃ اللمعات (3: 401، 402)‘‘ پر سیر حاصل بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ اہلِ قبور سے بعد از وصال استعانت و استمداد جائز ہے اور یہ کہ اولیاء اللہ ارادۂ الٰہی میں فنا ہو جانے کے باعث غیر نہیں رہتے ۔ ان سے استعانت بھی حقیقت میں استعانت باللہ ہوتی ہے ۔ وہ محض درمیان میں وسیلہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انبیاء و اولیاء مظہرِ عونِ الٰہی ہیں ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ’’لمعات التنقیح (1: 140، 141)‘‘ میں لکھا ہے کہ مرید کے استمداد و استعانت پر شیخ اس کی مدد کرتا ہے خواہ شیخ قریب ہو یا بعید ، زندہ ہو یا وصال کر گیا ہو ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ علومِ ظاہری و باطنی کے مجمع البحرین علامہ سید عبدالاوّل جونپوری علیہ الرحمہ کے بارے میں محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : چہ نفس ولی و نبی قوتی می باید کہ در خارج بدن تصرف می کند ہمچنان کہ در بدن و چون روحِ مقدّس حضرت صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم جان ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ اجزایئ عالم متصرف باشد و ازینجاست کہ باشارت قمر را دو شق کرد گوئیا فضلۂ ناخن از ناخن جدا فرمود ۔ (اخبار الاخیار صفحہ 255)
ترجمہ : انبیاء و اولیاء کے نفوس و ارواح ایسی قدرت و قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ جسم سے باہر یعنی دوسری اشیاء میں اس طرح تدبیر و تصرّف کرتے ہیں جیسے کہ اپنے اجسام میں اور جب کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کا نفسِ مبارک اور روح مقدّسہ تمام جہان کی جان ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ تمام جہان میں متصرف ہو اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم نے اشارہ سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا گویا ناخن کے زائد حصہ کو ناخن سے جدا فرما دیا ۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ہمعات‘‘ میں حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مزار میں تصرف کرنے کے بارے میں لکھا ہے : ودر اولیائے امت و اصحابِ طرق اقوی کسیکہ بعد تمام راہِ جذب باکد وجوہ باصل این نسبت میل کردہ است و در آنجا بوجہ اتم قدم زدہ است حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اند ۔ و لہذا گفتہ اند کہ ایشاں در قبر خود مثل احیاء تصرف می کنند ۔ (ہمعات صفحہ 61)
ترجمہ : اولیائے امت اور اصحابِ طریقت میں سے قوی ترین حال کی حامل ہستی حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ہے جنہوں نے راہِ جذب کو پختہ ذرائع سے طریقت کی اصل سے جوڑا اور اس مقام پر کامل ترین قدم رکھا ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کر رہے ہیں ۔

انہوں نے اسی کتاب کے صفحات نمبر 14 ، 60 ، 62 ، 83 ، 84 اور 121 پر اولیاء اللہ سے استعانت و استمداد اور ان کے روحانی تصرفات اور توجہات کے بارے میں لکھا ہے ۔ یاد رہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ’’ہمعات‘‘ کوئی سطحی نظریات و تصورات کی حامل کتاب نہیں بلکہ یہ حکمتِ ولی اللّٰہی کے فہم کےلیے بنیادی اہمیت کی حامل کتاب ہے ۔ مولوی عبید اللہ سندھی دیوبندی ’’ہمعات‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں : حکمت ولی اللّٰہی میں یہ رسالے ابتدائی قاعدوں (primers) کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں ، اِس کے بعد امام ولی اللہ کی حکمت کی تعلیم شروع کی جاتی ہے ۔

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی اَولیاء اللہ کی امداد بعد از وصال کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : از اولیاء مدفونین و دیگر صلحا مؤمنین اِنتفاع و استفادہ جاری است و آنہا را افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ پائے سوختہ کہ این چیزہا اصلاً نسبت بآنہا در اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست ۔ (تفسیر عزیزی ، 30: 50)
ترجمہ : وفات یافتہ اَولیاء اللہ اور دیگر صالحین مؤمنین سے اِستفادہ اور استمداد و اِستعانت جاری و ساری ہے اور اِن اولیاء اللہ سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے ۔ برخلاف اُن لوگوں کے جن کو جلا دیا جاتاہے ۔ اِس لیے کہ اِن سے یہ اُمور اِن کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ’’تفسیرِ عزیزی (1: 7 اور 30: 113)‘‘ میں بھی اولیاء اللہ سے استعانت و استمداد کے جواز کو ثابت کیا ہے ۔

حکمتِ اِستعانت و توسُّل

جمہور اُمت کے نزدیک اِستعانت و توسل کی حکمت یہ ہے کہ اِس سے دعا أقرب اِلی الإجابت ہو جاتی ہے یا کم از کم امکانِ قبولیت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ بعض اولیاء و مقربین کی دعا سے قضاء مبرم بدل جاتی ہے ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ نے ’’تفسیر المظہری‘‘ میں سورۃ الرعد کی آیت نمبر 39 - یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ج وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ - کے تحت حضرت عمر اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی شقاوت کو سعادت سے اور بعض اوقات سعادت کو شقاوت سے بدل دیتا ہے : عن ابن مسعود في بعض الأثار أن الرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثون سنۃ فیقطع رحمہ فیرد إلی ثلاثۃ أیام والرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثۃ أیام فیصل رحمۃ فیمد إلی ثلاثین سنۃ ۔ ثم روی البغوي بسندہ إلی أبي الدرداء رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ینزل اللہ في أخر ثلاث ساعات یبقین من اللیل۔ فینظر في الساعۃ الأولی منھن في الکتاب الذي لا ینظر فیہ أحد غیرہ ۔ فیمحو ما یشاء و یثبت ۔  (تفسیر المظہری جلد 5 صفحہ 246،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی بعض آثار میں آیا ہے : کسی شخص کی عمر تیس سال باقی ہوتی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے قطع تعلقی کرتا ہے تو اس بناء پر اس کی عمر تین دن کر دی جاتی ہے اور ایک آدمی کی بسا اوقات تین دن عمر باقی رہ گئی ہوتی ہے سو وہ صلہ رحمی کرتا ہے پس اس کی عمر تیس برس کر دی جاتی ہے۔ امام بغویؒ اپنی سند سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کی ذات رات کی تین گھڑیوں میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو وہ پہلی گھڑی میں کتاب (تقدیر) کو دیکھتا ہے جو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا پس وہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے ۔

اس سے یہ امر مترشح ہوا کہ اولیاء اللہ اور مقربین کی دعاؤں سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے ۔ اسی مقام پر قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنے تفصیلاً لکھا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی کے صاحبزادگان حضرت محمد سعید اور حضرت محمد معصوم علیہم الرحمہ کے معلم حضرت ملا طاہر لاہوری کی پیشانی سے لفظِ شقی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کی بدولت لفظِ سعید سے بدل گیا ۔

رُوح کےلیے قرب و بعد کا معنی و مفہوم

یہ ایک بدیہی اَمر ہے کہ روح کےلیے قرب و بعد یکساں حقیقت کے حامل ہیں اوریہ کہ ارواحِ کاملین کو بعد از وفات بھی تدبیر و تصرف حاصل ہوتا ہے ۔ جس طرح دنیوی زندگی میں انسانوں کے مختلف مدارج ہیں ۔ ان کی ذہنی ، نفسیاتی ، بدنی اور روحانی قوتیں ایک جیسی نہیں ، بعینہٖ عالم برزخ میں اہلِ ایمان کے مختلف مدارج اور طبقات ہوتے ہیں۔ یہ طبقات اور مدارج یقینا ان کی دنیوی زندگی کے احوال پر منطبق ہونے والے انجام اور ثمرات کی بناء پر متشکل ہوں گے ۔

برزخی احوال سے متعلق جن علماء اسلام نے اپنے اپنے حسبِ حال تفصیلات بیان کی ہیں ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نام بطورِ خاص قابل ذکر ہے۔ شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں برزخ کے چار مدارج تفصیل سے بیان فرمائے ہیں ۔ مزید آپ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 41، 42 )‘‘ اور ’’ہمعات (صفحہ 57)‘‘ پر مقبولانِ بارگاہ الٰہی اور راندۂ درگاہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مقبولانِ بارگاہ ملاء اعلیٰ کی مخلوق ہیں اور راندۂ درگاہ ملاء سافل۔ ملاء اعلیٰ معزز اور مقرب فرشتوں پر مشتمل مجلسِ بالا ہے جس میں نیک اور مقرب انسانوں کی ارواح بھی شامل ہوتی ہیں۔ پھر انہوں نے ان کی تین اقسام پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور نتیجے کے طور پر ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 111)‘‘ پر لکھا ہے : وإذا تمکنت العدالۃ من الإنسان وقع اشتراک بینہُ بین حملۃ العرش ومغربی الحضرۃ من الملائکۃ الذین ہم وسائط نزول الجود والبرکات وکان ذالک باباً مفتوحاً بینہ وبینہم وممد النزول ألوانہم وصبغہم بمنزلۃ تکمیل النفس من ألہام الملائکۃ والانبعاث حسبھا ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ جلد 1 صفحہ 111)
ترجمہ : پس جب انسان میں صفتِ عدالت متمکن ہو جاتی ہے تو اس میں اور حاملینِ عرش اور مقربین فرشتوں میں جو جودِ الٰہی اور برکاتِ الٰہی کے لئے ذریعہ و واسطہ ہیں، اِشتراک پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس میں اور ان فرشتوں میں فیضان کا دروازہ کھل جاتا ہے اور یہ صفت اس پر ان کے رنگ اور اثر نازل کرنے میں مددگار بن جاتی ہے۔ اس طور پر کہ نفس میں ملائکہ کے الہام سے مستفیض ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ان کے علوم کےلیے آمادہ رہتا ہے ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں : ارواحِ نیکاں بعد از قبض درآں جامی رسند و مقرّبان یعنی انبیاء و اولیاء درآں مستقر میمانند۔ وعوام صلحا بعد از نویسانیندن و رسانیندن نا مہائے بر حسبِ مراتب در آسمانِ دنیا یا درمیان آسمان و زمین یا در چاہ زمزم قرار می دہند و تعلق بقبر نیز ایں ارواح را میباشد کہ بحضور زیارت کنندگان واقارب و دیگر دوستان بر قبر مطلع و مستانس میگردند زیرا کہ روح را قرب وبُعد مکانی مانع ایں دریافت نمی شود ۔ (تفسیر عزیزی جلد 1 صفحہ 100،چشتی)
ترجمہ : نیک لوگوں کی اَرواحِ قبض کیے جانے کے بعد علیین کے قیام میں پہنچ جاتی ہیں ۔ انبیاء و اولیاء اسی مقام پر قرار پکڑتے ہیں۔ عام صلحاء و اتقیاء کی ارواح کے نام اعلیٰ علیین میں لکھوانے اور وہاں پہنچانے کے بعد ان کے مرتبہ و درجات کے مطابق آسمانِ دنیا میں یا آسمان و زمین کے درمیان زمزم کے چشمہ میں ٹھکانا دیتے ہیں اور ان ارواح کو قبر کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے ، حتی کہ زیارت کرنے والوں کی حاضری اور اقارب اور دوست احباب کی قبر پر آمد سے مطلع ہو جاتے ہیں اور اُنس و راحت و محبت حاصل کرتے ہیں کیونکہ روح کےلیے مکان کے لحاظ سے قریب یا بعید ہونا اس علم و اداراک میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 54 - وَ لَا تَقُوْلُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہ اَمْوٰتٌ - کی تفسیر میں لکھتے ہیں : إن اللہ تعالی یعطی لأرواحھم قوۃ الجساد فیذھبون من الأرض والسماء والجنۃ حیث یشاؤون وینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم إن شاء اللہ تعالی ومن أجل ذٰلک الحیٰوۃ لا تأکل الأرض أجسادھم ولا أکفانھم. قال البغوی: قیل أن أرواحھم ترکع و تسجد کل لیلۃ تحت العرش إلی یوم القیامۃ ۔ (تفسیر المظہري جلد 1 صفحہ 152)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو جسموں جیسی قوت عطا کرتا ہے سو وہ زمین ، آسمان اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے اولیاء (دوستوں ، ساتھیوں) کی مدد کرتے ہیںاور اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسی زندگی کے سبب زمین ان کے جسموں اور کفنوں کو نہیں کھاتی ۔ امام بغوی نے فرمایا : یہ بھی قول ہے کہ ان کی ارواح قیامت تک ہر رات اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے رکوع و سجود کرتی رہیں گی ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی مزید لکھتے ہیں : ولذلک قالت الصوفیۃ العلیۃ : أرواحنا أجسادنا وأجسادنا أرواحنا وقد تواتر عن کثیر من الأولیاء أنھم ینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم ویہدون إلی اللہ تعالٰی من یشاء اللہ تعالٰی ۔ (تفسیر المظہري جلد 1 صفحہ 152)
ترجمہ : اسی لیے بلند پایہ صوفیاء کا قول ہے : ہماری ارواح ہمارے جسم اور ہمارے جسم ہماری ارواح ہیں اور بہت سے اولیاء سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف ہدایت دیتے ہیں ۔

علامہ ابنِ قیم جوزی اس حوالے سے لکھتے ہیں : فللروح المطلقۃ من أسر البدن وعلائقہ وعوائقہ من التصرف والقوۃ والنفاذ والھمۃ وسرعۃ الصعود إلی اللہ والتعلق باللہ، ما لیس للروح المھینۃ المحبوسۃ فی علائق البدن و عوائقہ۔ فإذا کان ھذا وھی محبوسۃ فی بدنھا فکیف إذا تجردت و فارقتہ واجتمعت فیھا قواھا وکانت فی أصل شانھا روحاً علیۃ زکیۃ کبیرۃ ذات ھمۃ عالیۃ فھذہ لھا بعد مفارقۃ البدن شان آخر و فعل آخر ۔ (کتاب الروح صفحہ 103،چشتی)
ترجمہ : جسم کی قید سے آزاد اور اس کے تعلقات اور عوارضات و موانعات سے مبرا روح کےلیے ایسا تصرّف ، قوت ، نفوذ ، ہمت اور اللہ رب العزت کی طرف فوری طور پر بلند ہونے اور اس سے تعلق قائم کرنے کی قوت و صلاحیت حاصل ہوتی ہے ، جو جسم کی قید میں مقید و محبوس اور بدنی تعلقات اور عوارضات و موانعات میں جکڑی ہوئی روح کو حاصل نہیں ہوتی ۔ روح کا جب جسم سے محبوس و مقید ہوتے ہوئے یہ حال ہے تو اس وقت اس کی حالت کیا ہو گی جب جسم سے مجرد اور جدا ہو جائے او راس میں اس کی تمام تر قوتیں جمع ہو جائیں اور اپنی حالت کے اعتبار سے بھی پاکیزہ فطرت ، بلند ہمت اور عالی قدر ہو تو جسم سے مفارقت و جدائی کے بعد اس کی شان نرالی ہو گی اور فعل و تاثیر بھی انوکھی و عمدہ ہو گی ۔

کعبۃ اللہ مسجود لہٗ نہیں مسجود اِلیہ ہے

حقیقت اور مجاز کے ضمن میں ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے ۔ جو لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر بوقتِ حاضری اِستمداد کرتے ہیں وہ اُنہیں مستعانِ حقیقی سمجھ کر استعانت و اِستغاثہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ کامل اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقبول اور محبوب بندوں کے مقامات اور اطاعت و اعمالِ صالحہ کے طفیل ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے گا ۔ یہ اس طرح ہے جیسے لوگ کعبۃ اللہ میں جا کر یا دور سے اسی رخ پر سجدہ کرتے ہیں ۔ بیت اللہ شریف بھی پتھروں سے تعمیر کیا ہوا ایک مکان ہے اور وہ بھی یقیناً اللہ تعالیٰ کا غیر ہے عین نہیں ۔ پھر جمادات یعنی پتھروں کے ساتھ اس قدر تعظیم کا سلوک کیوں کیا جاتا ہے ؟ اللہ رب العزت نے تو صرف اپنی ذات کو سجدہ جائز قرار دیا ہے اور اپنی ہی عبادت کو جائز کیا ہے ۔ پتھروں کی طرف رُخِ سجدہ کرنے کا آخر کیا مطلب ہے صاف ظاہر ہے وہ کعبۃ اللہ کی عبادت نہیں مگر اس میں اس کی تعظیم تو یقینا مضمر ہے۔ یہی معاملہ طواف اور دیگر بہت سے اُمور کا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کعبہ معظمہ کی سمت سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ بیت اللہ شریف میں حاضری کے وقت بظاہر دیوارِ کعبہ سے لپٹ کر ہم رو رہے ہوتے ہیں ۔ التجائیں کر رہے ہوتے ہیں ، مگر کبھی کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ بیت اللہ شریف کی دیواروں میں چنے ہوئے پتھروں کو ہم اپنا معبود گردانتے ہیں یا اُن سے مرادیں اور حاجات مانگتے ہیں تو پھر اُن لوگوں کے حق میں یہ بدگمانی کیوں کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے دُعا و التجا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے توسل اور برکت سے ہماری حاجات پوری فرما دے گا ۔ مسجود اِلیہ تو پتھروں ہی کا بنا ہوا گھر تھا مگر وہ مسجود لہ نہیں تھا ۔ اِس سے ثابت ہوا کہ ہم دن میں کئی مرتبہ غیر اللہ کی سمت سجدہ کرتے ہیں اور یہ سجدے کر کے بھی مسلمان ہی رہتے ہیں ۔

اِسی طرح ہم مقامِ ابراہیم کی سمت - جو کہ حضرت ابراہیم ں کے قدموں کے نشان والا پتھرہے - رُخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد بھی مسلمان ہی رہے۔ کیوں؟ صرف اِسی لئے کہ ہمارے نزدیک مسجود وہ پتھر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ سو اِسی دلیل کی بنیاد پر یہ عمل بھی استوار ہے کہ جب ہم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں تو وہاں بھی مرادیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں اور ان کو وسیلہ بناتے ہیں ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت کا مظہر کعبۃ اللہ کو قرار دیا ہے اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء و اولیاء بھی اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہیں ۔ بقول غالب : ⬇

پرے ہے حدِ اِدراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

اس ساری بحث سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی ارواح بعد از وصال مُدَبِّرَاتِ اَمر میں سے بن جاتی ہیں اور ملاۓ اعلیٰ کے ساتھ شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیت کے مطابق تدبیر و تصرّف کرتی ہیں اور اہلِ محبت کی بالخصوص مدد کرتی ہیں ، لہٰذا ان سے ان کی شان کے لائق استمداد و استعانت کرنا اسی طرح جائز ، مباح اور صحیح ہے جیسے کہ حیاتِ ظاہری میں مباح اور مستحسن ہے ۔

حیاتِ ظاہری اور حیاتِ برزخی میں فرق روا رکھنا باطل ہے کیونکہ بعض ائمہ کے نزدیک بعد از وصال امداد و اعانت قوی طریقہ پر متحقق ہو جاتی ہے لہٰذا معترضین اور منکرین کا انبیاء علیہم السلام و اولیاء علیہم الرحمہ کو بعد از وصال اس دنیا میں رہنے والے اعانت کے طلب گاروں سے بے خبر غافل اور لاتعلق بتلانا اور بتوں والی آیات ان پرمنطبق کرتے ہوئے ان کی امداد و اعانت سے عاجز و قاصر اور مجبور و معذور اور بے بس قرار دینا باطل ہے ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔